اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

   اردو پاور کے لیے اپنی تحریر     اس ای میل ایڈریس پر روانہ کریں    

Email:-ceditor@inbox.com

Email:-Jawwab@gmail.com

 

 

 

 

ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبری
 
 
حضرت خدیجتہ الکبری نام
556 تاریخ پیداءش
620 تاریخ وفات
حضرت خدیجتہ الکبری مقدس خاتون کانام ہے جہنوں نے تما م مردوں اور عورتوں سے پیشتر اسلا م کی روشن شاہراہ قدم رکھا

حضرت خدیجتہ الکبری مقدس خاتون کانام ہے جہنوں نے تما م مردوں اور عورتوں سے پیشتر اسلا م کی روشن شاہراہ قدم رکھا �اور سب سے پہلے اس سچے مذہب کی حقیقت کو سمجھا۔ ارباب سیر اور محدثین بالاتفاق تسلیم کرتے ہیں کہ سب سے اول جو رسول اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا یا وہ یہی مقدس خاتون ہیں ۔

ان کے نسب کا سلسلہ اس طرح ہے ۔ خدیجتہ بنت خوایلد � ابن اسد بن عبدالعری بن قصی قریشی ۔ ان کی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بھی قریشی تھیں۔ان کے والد خویلد قریش میں ایک معزز سردار تھے ۔ اور سب سے زیادہ دولت ان کے پاس تھی ۔ ان کے مرنے کے بعد تمام دولت حضرت خدیجہ کو ملی ۔ قریش میں ان کی بہت زیادہ دولت عزت تھی نہ صرف مال کی وجہ سے بلکہ نیکی � حسن اخلاق میں بھی یہ ایک ممتاز درجہ رکھتں تھیں ۔ اسی وجہ سے ان کا لقب عہد جاہلیت میں طاہرہ تھا۔ ان کا نکاح پہلے عتیق بن عابد مخزومی کے ساتھ ہوا تھا۔ ان سے ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام ہند تھا ۔ انہیں کے بیٹے محمد مخزومی ہیں ۔ اس کے بعد دوسرا نکاح ابوہالہ سے ہوا۔ جو تمیم میں سے تھے ۔ ان سے ایک لڑکا پیدا ہوا ان کا نام بھی ہند رکھا گیا۔ وہ حضرت علی کے ہمراہ جنگ جمل میں شریک ہو کر کام آئے ۔

ابو ہالہ کے مرنے بعد حضرت خدیجہ نے پھر نکاح کا ارادہ نہیں کیا ۔ دنیا سے ان کی طبیعت اچاٹ تھی ۔ اکثر خانہ کعبہ میں جاتیں اور وہیں اپنی عبادت کیا کرتیں ۔ طبیعت کا میلان بالکل نیکی کی طرف تھا اس لئے کاہنہ عورتیں � جو اس زمانہ میں بہت بزرگ خیال کی جاتی تھیں � ان کے پاس آتیں تھیں ۔ یہ ان کی باتیں نیایت خوش اعتقادی سے سنتیں اور ان کی خاطر و مدارات کرتیں ۔

بہت سے قریش کے سردار اس خواہش میں تھے کہ ان سے شادی کریں ۔ کیونکہ مالداراور دولمند ہونے کے علاوہ حسن میں بھی تمام قبیلہ میں بے نظیر تھیں ۔ علاوہ بریں اعلی درجہ کی منتظم ار نہایت عقیل تھیں ۔ گھر اور باہر کا سب انتظام بہت اچھی طرح رکھتی تھیں ۔ لیکن انہوں نے پسند نی کیا۔ ایک سال بہت ہی سخت قحط تھا اور عرب کے لوگ نہایت پریشان تھے ۔ ابوطالب نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے کہا کہ � تمہارا نام عرب میں امین امانت دار مشہور ہو گیا ہے ۔ تمہاری سچائی اور دیانت داری پر اعتماد رکھتے ہیں ۔ اس وقت شام کے ملک میں قافلہ جانے کو تیار ہے خدیجہ اپنے اونٹوں کے ہمراہ ایک شخص کو اجیر ملازم کر کے بھیجتی ہیں ۔ اگر تم ان سے کہو تو کیا عجیب ہے کہ تمہیں کو اس کام کے لئے وہ پسند کریں ۔ کیو نکہ بہت قحط ہے ہم لوگ تباہ ہورہے ہیں کوئی صورت آمدنی کی کرنی چاہیے � آپ نے جواب میں فرمایا کہ � بہت ممکن ہے کہ وہ بلادرخواست یہ کام میرے سپرد کریں ۔ کیونکہ آپ سمجھے تھے کہ میری امانت داری کی شہرت ہے � اور وہ امین آدمی تلاش کریں گی اس لئے کوئی تعجب نہیں ہے کہ پہلے ان کی نظر مجھی پر پڑے گی ۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب حضرت خدیجہ نے اپنے ایک آدمی سے حضرت ابوطالب اوررسول اللہ صلی علیہ وسلم کی گفتگو کا حال سناتو آپ نے کہلا بھیجا کہ میں اپنے تجارتی سامان کے اونٹ آپ ہی کے سپرد کرتی ہوں ۔ اور پہلے لوگوں کو میں جس قدر اجرت دیا کرتی تھی اس کا دوگنا آپ کو دوں گی ۔ یہ سن کر حضرت ابو طالب بہت خوش ہوئے ۔ تمام راستہ میں آپ کا بر تائوہر ایک کے ساتھ خوش معاملگی کا تھا ۔ میسر ہ جان و دل سے آپ کا مطیع تھا ۔ اور جس وقت قافلہ واپس آیا تو حضرت خدیجہ کے پاس پہنچ کر اس نے تمام حالت رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے سفر کی اور نسطورا کا قصہ بیان کیا۔ اور حد سے زیادہ ان کی تعریف کی ۔ اس کے بعد سب مال و منافع پیش کیا۔ حضرت خد یجہ اس غیر معمولی نفع کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں ۔ اور رسول اللہ کو ان کی مقررہ اجرت سے بھی دگنا دیا۔ پھر حضرت ضدیجہ نے یمن کے بازار جاشہ میں آپ کو بھیجا ۔

وہاں بھی اچھا نفع حاصل ہوا۔ آپ وہاں سے کپڑے خریدلائے جس کی تجارت سے مکہ میں بہت فائدہ ہوا۔ یہی سفر بھی آپ کا بہت کامیاب ہوا۔حضرت خدیجہ آپ کے حسن معاملت اور دیانت دار ی سے بیحد خوش ہوئیں ۔ اس کے علاوہ چونکہ نسطورارا ہب وغیر ہ کا قصہ سن چکی تھیں اس لئے ان یقین ہو گیا تھا کہ آنحضرت کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں اور یہی وجہ جس نے ان کو رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے نکاح کی ترغیب دلائی ۔ نفیہ جو حضرت خدیجہ کی کونڈیوں میں تھیں � کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی ہمیشہ سے بہت قدر تھی � اور ان کے اخلاق اور راستی پر وہ فدا تھیں ۔ جب آنحضرت دوسری بار یمن کے بازار سے واپس آئے تو خدیجہ نے مجھ کو بطور پیغامبر کے آپ کے پاس بھیجا ۔ میں نے جا کر عرض کیا کہ آپ نکاح کرنا چاہے ہیں ؟ فرمایا کہ میرے پاس وقت نہ کچھ مال ہے نہ سامان ۔ نکاح کیونکر کروں ۔ میں نے کہا کہ اس کی ذمہ دار میں ہوں اور ایسی جگہ نکاح کرائوں گی جہان مال � جمال � شرافت اور اطاعت سب کچھ ہو۔ آپ نے پوچھا کہ وہ کون ہے ۔ میں نے کہا خدیجہ ۔ فرمایا کہ کیونکر اس کا سر انجام ہو گا ۔ میں نے کہا سب کچھ میں کر لوں گی ۔ یہ کیفیت میں نے آکر خدیجہ سے بیان کی ۔ انہوںنے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو بلوایا ۔ اور کہ مجھے آپ کی طرف صرف اس لئے رغبت ہے کہ آپ کی کوئی بات کبھی میں نے جھوٹی نہیں پائی اور آپ کے خلاق بہت اچھے ہیں۔

آپ اپنے چچا ابو طالب کے پاس گئے ان سے یہ حا ل بیان کیا تو وہ بہت خو ش ہو ئے ۔حضرت خد یجہ نے بھی ا پنے چچا عمر و بن ا سد اور تما م قبیلے جمع کو جمع کیا۔ا بو طا لب نے نکا ح کا خطبہ پڑ ھا ۔ حضرت حمزہ نے بیس او نٹ مہر میں د یئے اور نکا ح ہو گیا۔اس و قت ر سول کی عمر پچیس سا ل کی تھی اور خد یجہ کی چا لیس
سا ل۔

اس نکا ح کے بعد چو نکہ آ پ کو دولت مل گئی اس و جہ سے آ پ کی عز ت اور و قعت بہت بڑ ھ گئی ۔اور د نیو ی ا سبا ب کے لحا ظ سے رسالت کی کا میا بی کی شا ہر ا ہ اسی و قت سے کھل گئی۔اس کے بعد آ پ کو د فا ع ا لبا لی اور ا طمینا ن کے سا تھ ا پنے اس کا م کے لئے کو شش کر نے کا مو قع مل گیا جس کے لئے مشیت ا یز دی نے دنیا میں آ پ کو بھیجا تھا ۔ آ پ ا کثر غا ر حرا میں چلے جا تے اور و ہیں عبا دت کیا کر تے ۔حضرت خد یجہ ہر ایک کا م میں آ پ کی مر ضی کے مطا بق مدد کر نے کے لئے تیا ر ر ہتیں۔ غا ر حرا میں آ پ ز بر دست نشا نی (رو ح ا لا مین )کو دیکھ کر ڈ ر گئے۔کا نپتے ہو ئے گھر مین آ ئے ۔اور کہا کہ ز ملو نی (مجھ کو چا در اڈ ھا ئو)۔پھر جب آ پ کی طبیعت کو کچھ سکو ن ہوا تو حضرت خد یجہ سے تما م کیفیت بیا ن فر مائی۔حضرت خد یجہ نے ہرطر ح پر تسکین د لائی ۔اور کہا کہ تم صد قہ د یتے ہو،قرا بت مند و ں کے سا تھ سلو ک کر تے ہو ،تمہا را شیوہ ا حصا ن ہے تم ا للہ سے ڈ ر تے ہو۔ کیا تم کو ا للہ ضا ئع کر ے گا؟ نہیں ہر گز نہیں ۔وہ پھر آ پ کو اپنے چچا اد بھا ئی ورقہ بن نو فل کے پاس لے گئیں جو کہ گز شتہ آ سما نی کتابوں کے بہت بڑ ے عا لم تھے۔ان سے سا را حا ل بیان کیا۔

ا نہو ں نے کہا یہ علا مت نبو ت کی ہے ۔تمہیں اللہ تعا لی سر فراز کر ے گا اور تمہا ری قوم تم کو یہا ں سے نکا ل دے گی۔ور قہ بن نو فل کا یہ کلا م سن کر اور اورخد یجہ کی با تو ں سے آ پ کو تسکین ہو گئی ۔جب کبھی کسی قم کی گھبرا ہٹ آپ کی طبیعت کو ہو تی تو حضرت خد یجہ ہی تسکین د لا تیں اور ہمت بندھا تیں۔

آ پ فر ما یا کر تے تھے کہ �میں جب کفا ر سے کو ئی با ت سنتا تھا اور وہ مجھ کو نا گو ار معلو م ہو ےی ےھی تو خد یجہ سے کہتا تھا۔وہ اس طر ح سمجھا تی تھیں کہ اس سے میر ے دل کو تسکین ہو جا تی تھی اور کو ئی رنج مجھ کو نہیں ہو تا تھا�اس حد یث سے معلو م ہو تا ہے کہ وہ کس قد ر ثا بت ا لقلب اور مستقل مز اج تھیں کہ ر سو ل اللہ جیسے او لو ا لعز م اور با حوصلہ ر سو ل کی ہمت بند ھا تاکر تی تھیں۔اس طر ح آ نخصرت کی نہ صر ف ز ند گی کی شر یک تھیں بلکہ رسا لت کی کا میا بی میں بھی ا یک قو ی اور ز بر دست با زو تھیں۔

ر سو ل ان کی و فا ت کے بعد ا کثر ان کی تعر یف کیا کر تے تھے۔حضرت عا ئشہ فرما تی ہیںکہ ا کثر جب آپ گھر میں تشر یف لا تے تو خد یجہ کا ذ کر کر تے اور بیحد ان کی تعر یف فر ما تے ۔ا یک د فعہ فر ما یا کہ خد یجہ سے ا چھی کو ئی بیو ی مجھ کو نہیں ملی ۔وہ ایما ن لا ئی اور سب لو گ کا فر تھے ۔اس نے میر ی تصد یق کی ،اور سب لو گ مجھ کو جھٹلا تے تھے۔اس نے اپنے ما ل سے میر ی مدد کی اور سب لو گو ں نے مجھ کو محروم ر کھا۔ اس سے اللہ نے مجھے ا و لا د یں عطا کیں اور کسی بیو ی سے اولا د نہ ہو ئی۔

حضرت خد یجہ نے 65بر س کی عمر میں 620ءمیں و فا ت پا ئی اور مکہ کے مشہو ر قبر ستا ن حجو ن میں دفن کی گئیں۔اس وقت جنا زہ کی نما ز بھی نہیں پڑ ھی جا تی تھی۔


رسو ل کی تما م او لا دیں ،سو ائے حضرت ا برا ہیم کے انہیں سے تھیں۔سب سے پہلے قا سم پیدا ہو ئے جو چا ر بر س کی عمر میں ا نتقا ل کر گئے۔انہیں کے نا م سے آ پ کی کنیت ا بو قا سم ہو ئی۔پھر ز ینب۔اس کے بعد عبد اللہ ،پھر ر قیہ ،پھر ام کلثوم ،پھر فا طمہ ز ہرا۔عبدا للہ نے بھی جن کا لقب طیب و طا ہر تھا دو برس کی عمر میں ا نتقال کیا۔
بہت ز یا دہ دو لت،عو رتو ں میں سب سے پہلے اسلا م قبو ل کر نے وا لی اور ر سو ل کی بہت پیا ری
 

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team