اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

   اردو پاور کے لیے اپنی تحریر     اس ای میل ایڈریس پر روانہ کریں    

Email:-ceditor@inbox.com

Email:-Jawwab@gmail.com

 

 

 

 

جابر بن حیا ن
 
 
جابر بن حیا ن نام
731 تاریخ پیداءش
815 تاریخ وفات
 

جابر بن حیا ن کو دنیا کا پہلا مستند کیمیا دان خیال کیا جا تا ہے ۔

اس کی اندازاََتاریخ پیدائش 731 عیسوی �اور مقام پیدائش طوس یا خراسان تھا ۔ دوا سازی اور دوا فروشی اس کا ذریعہ روزگار تھا ۔ حکومت سے بغاوت کی پاداش میں اسے قید اور پھر قتل کر دیاگیا ۔ شیرخواری میں ہی باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تو ماں نے اپنے معصوم بچے کی پرورش اور تعلیم و تر بیت کی فکر کی ۔ جابر بن حیان نے کچھ ہوش سنبھالی تو ماں اسے کوفہ کے مضافات میں بدوئوں کے ساتھ پرورش پانے کے لئے بھیج دیا ۔ لہذا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا ۔ جوان ہونے کے بعد وہ کوفے میںاقامت پذےر رہا ۔ اس زمانے میں کوفہ میں علم و تدریس کا بڑاچرچا تھا ۔ جابر نے باقاعدہ پڑھنا شروع کےا ۔ اس وقت کی مروج یو نانی تعلیمات نے اس پر گہرے اثرات مرتب کئے ۔ علم حاصل کرنے کے بعد اس نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو سونا بنانے کے جنون میں مبتلا دیکھاتو خود بھی یہ روش اپنا لی ۔ کافی تجربات کے بعد بھی وہ سونا تیار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ لیکن کیمیا میں حقیقی دلچسپی کی وجہ سے اس نے تجربات کا سلسلہ ختم نہ کیا۔

جابر بن حیان کے دینی خیالات کے متعلق مختلف آراءملتی ہیں ۔ کچھ مورخین کے مطابق وہ معتزلہ�قرامطہ �فاطمی �اسراعیلی�فرقہ نصیریہ اور صابیوں کے عقائد سے بہت متاثر تھا ۔ اس کی زندگی �نظریات �تصانیف�عقائد �نام �استاد کے بارے میں کوئی حتمی بات موجود نہیں ۔ کچھ محققین کے خیال میں ایک یونانی شخص GEBER ہی جابر تھا ۔ لیکن دونوں کی تصانیف ان کی علیحدہ علیحدہ شخصیا ت کی آئینہ دار ہیں ۔ جابر کی تصانیف کی تعداد کم از کم 22اور زیادہ سے زیادہ 27بتائی جاتی ہے ۔ اس کے بیشتر مجموعوں کے عنوانات کسی عدد پر مبنی ہیں ۔ جیسے �کتب الخمسمائتہ �(500)��المائتہ والا عشر �(112)وغیرہ ۔ 28کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔ حروف تہجی اور چاند کی منازل دونوں کی تعداد 28ہے ۔ یہ دو دیگر اعداد 4اور 7کا حاصل ضرب ہے ۔ علم ریاضی کے سلسلہ اعداد 28�21�15�10� 6�3�1کا ساتواں عدد ہونے کے علاوہ یہ اپنے اجزائے ضربی 14�7�4�2�1 کا حاصل جمع ہے اور اس لئے اسے ایک کامل عدد خیال کےا جاتا ہے ۔جابر کے ہا8�5�3�1کے سلسلے کا بھی بہ کثرت استعمال ہے جس کاحاصل جمع 17 ہے ۔ اسماعیلی عدد 17کو بڑا مقدس اور مذہبی طور پر اہم سمجھتے ہیں ۔ جابر کا نظریہ میزان عدد 17کی بنیاد پر ہی ہے۔

جابر کی فکر میں نظریہ میزان کی حیثیت کلیدی ہے ۔قرآن کریم میں لفظ میزان متعدد جگہ پر آیا ۔اس سے کائنات توازن کے علاوہ دونوں جہاں میں اللہ کا عدل اور روز قیامت کی جزاوسزا بھی مراد ہے ۔اسلامی تصوف میں تصور میزان اہم کڑی ہے ۔کائنات کا ذرہ ذرہ میزان کی منہ بولتی تصویر ہے ۔

آفتاب � ماہتاب�جمادات � حیوانات �نبادات �تمام جاندار و غیر جاندار اشیاءکی حرکت اور سکون کا دارومدار میزان پر ہے ۔میزان کا ئناتی اصولوں کا مرکز و محور ہے ۔جابر کے نزدیک 17کا عدد اسی توازن کا مظہر ہے جس کی بنیاد پر دنیا وجود میں آئی اور قائم ہے ۔ یوں انیسویں صدی کے انگریز مفکروں کی طرح جابر بن حیان نے بھی سائنسی نظام کا رشتہ اپنے دینی عقائد کے ساتھ نتھی کر لےا تھا ۔
یہ امرقابل ذکر ہے کہ پوری دنیا میں علمی �سائنسی �اور فکری حوالے سے دوسری صدی عیسویں کے بعد کوئی اہم شخصیت پیدا نہ ہوئی تھی ۔ بقراط �ارسطو �اقلیدیں �ار شمیدیں �بطلیموس اور جا لینوس کے بعد صرف سکندریہ کی آخری محقق ہائپاتےا چوتھی صدی عیسویں میں گزری تھی ۔ لہذا علمی میدان میں چھائی ہوئی تاریکی میں روشن ہونے والی پہلی شمع جابر بن حیان تھا ۔ اس کے بعد گیارھویں تک مسلمان سائنسدانوں اور مفکروں کا غلبہ رہا ۔

جابر بن حیان کی تمام تصانیف کا ترجمہ لاطینی کے علاوہ دیگر یورپی زبانوں میں ہو چکا ہے ۔ تقریباََآٹھ نو سو سال تک کیمیا کے میدان میں وہ تنہا چراغ راہ تھا ۔ اٹھارھویں صدی میں جدید کیمیا کے احیا ءسے قبل جابر کے نظریات کو ہی حرف آخر خیال کیاگیا ۔ بطور کیمیادان اس کا ایمان تھا کہ علم کیمیا میں تجربہ سب سے اہم چیز ہے ۔ اس نے عملی طور پر دنیا کو دکھا یا کہ کچھ جاننے اور سیکھنے کے لئے صرف مطالعے اور علم کے علاوہ خلوص اور تندہی کے ساتھ تجربات کی بھی ضرورت ہے ۔ وہ ہمہ وقت کسی نہ کسی سوچ اور تجربے میں منہمک رہتا ۔ گھر میں ہی تجربہ گاہ کی صورت اختیار کر لی ۔ سونا بنانے کی لگن میں اس نے بے شمار حقائق دریافت کئے اور متعدد ایجادات کیں ۔ حتی کہ عباسیوں کے پایہ تخت بغداد میں بھی اس کا چرچا ہونے لگا جو اس وقت علم کا بہت بڑا مرکز بن چکا تھا ۔ وہ زمانہ خلیفہ ہارعن الرشید کی خلافت کا تھا ۔ ان کا وزیرجعفر برمکی علم کا دلدادہ تھا ۔ اسی نے جابر کو دعوت دی کہ بغداد آئے جہاں اس کی بہت عزت افزائی ہوئی اور انعامات ملے ۔

جابر بن حیان نے اپنے علم کیمیاکی بنیاد اس نظرئیے پر رکھی کہ تمام دھاتوں کے اجزائے ترکیبی گندھک اور پارہ ہیں ۔ مختلف حالتوں میں اور مختلف تناسب میں ان دھاتوں کے اجزائے ترکیبی ملنے سے دیگر دھاتیںبنیں ۔ اس کے خیال میں دھاتوں میں فرق کی بنیاد اجزائے ترکیبی نہیں بلکہ ان کی حالت اور تناسب تھا ۔ لہذا معمولی اور سستی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنا ممکن تھا ۔ جابر نے کئی مرتبہ گندھک اور پارے کو ملایا لیکن ہمےشہ شنگرف (Cinnabar)ہی بنتا تھا ۔بعد کی آٹھ صدیوں میں لوگوں نے اسی خصو صی گندھک کی تلاش بہت سر مار ا لیکن نا کام رہے ۔

اس میں مشاہدہ ذہانت لگن اور انتھک محنت کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھیں ۔دوسرے وہ یہ سمجھتا تھا کہ منزل مقصود کبھی نہیں آتی جسے پا لیاوہ منزل نہیں ۔اس شعورنے ا سے کائنات کی تحقیق میں آگے ہی آگے بڑھتے جانے کی دھن اور حوصلہ دیاجابر قرع دانبیق نامی ایک آلہ کا موجد تھا جس کے دو حصہ تھے ۔ایک حصہ مےں کمیاوی مادوں کو پکایا جاتا اور مرکب سے اٹھنے والی بخارات کو نالی کے ذریعہ آلہ کے دوسرے حصہ میں پہنچا کر ٹھنڈا کر لیاجاتا تھا ۔یوں وہ بخارات دوبارہ مائع حالت اختیار کر لےتے ۔کشیدگی کا یہ عمل کرنے کے لئے آج بھی اس قسم کا آلہ استعمال کیاجاتا ہے ۔اس کا موجود ہ نام ریٹاٹ ہے ۔ایک دفعہ اس میں بھورے رنگ کے بخارات اٹھے اور آلہ کے دوسرے حصہ مےں جمع ہو گئے جو تانبے کا بنا ہو تھا ۔حاصل شدہ مادہ اس قدر تیزتھا کہ دھات گل گئی ۔جابر نے مادہ کو چاندی کے کٹورے مےں ڈالا تو اس میں بھی سوراخ ہو گئے ۔چمڑے کی تھیلی میں ڈالنے پر بھی یہی نتیجہ نکلا ۔

جابر نے مائع کو انگلی سے چھوا تو وہ جل گئی ۔اس کاٹ دار اور جلانے کی خصوصیت رکھنے والے مائع کو اس نے تیز اب یعنی ریزاب کا نام دےا ۔پھر اس تیزاب کو دیگر متعددھاتوں پر آزمایالیکن سونے اور شیشے کے علاوہ سب دھاتیں گل گئیں ۔جابر مزید تجربات میں جٹ گیا۔ آخر کار اس نے بہت سے کیمیائی مادے مثلاًگندھک کا تیزاب اور ایکوار یجیا بنائے۔ حتیٰ کہ اس نے ایک اییسا تیزاب بنایا جس سے سونے کو بھی پگھلانا ممکن تھا اس نے دھات کا کشتہ بنانے کے عمل میں اصلاحات کیں اور بتایا کہ دھات کا کشتہ بنانے سے اس کا وزن بڑھ جاتا ہے ۔ عمل کشید اور فلٹر کا طریقہ بھی اس کا ایجاد کردہ ہے۔ اس نے قلمائو یعنی کر سٹلائزیشن کاطریقہ اور تین قسم کے نمکیات دریافت کیے۔ اس کے علاوہ لوہے کو زنگ سے بچا نے لو ہے پر وارنش کرنے، موم جامہ بنانے،چمڑے کو رنگنے اور خضاب بنانے کا طریقہ دریافت کیا۔

دنیا اپنی ڈگر پر چلتی رہی اور جابر اپنے تجربات و مشاہدات کی کائنات میں محو رہا۔ کیمیاوی مرکبات کو پکانے سے پیدا ہونے والے دھوئیں نے اس کی بینائی کو متاثر کیا۔ تیزابوں سے اس کی انگلیاں جھلستی رہیں۔ کہا جاتا ہے کہو815 طوس کے مقام پر اس دنیا سے چلا گیا لیکن کیمیا کے میدان میں نوع انسانی کو ایک ایسا ابدی جذبہ اور لگن عطا کر گیا جو آج مریخ اور چاند پر زندگی کے آثار دریافت کرنے والے محققین میں بھی موجزن ہے۔

 

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team