اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

   اردو پاور کے لیے اپنی تحریر     اس ای میل ایڈریس پر روانہ کریں    

Email:-ceditor@inbox.com

Email:-Jawwab@gmail.com

 

 

 

 

مولانا جلال الدین رومی
 
جلال الدین رومی نام
30ستم&# تاریخ پیداءش

 

سلسلہ تصوف میں ایک منفرد مقام اور مثنوی گو شاعر۔ خاندانی طورپر معروف تھے

کیونکہ اس خاندان میں بہت سی نامور شخصیات نے جنم لیا ۔ قونیہ میں مدفون ہیں۔ ان کے مزار پر محفل سماع ایک منفرد رنگ میں منعقد ہوتی ہے۔ جلال الدےن رومی 30ستمبر 1207ءکوپیداہوے
 ۔ وہ مولانا روم کے نام سے بھی مشہور ہے شاید اس خطے کی نسبت سے جہاں وہ مقام رہا ۔ رومی اپنے بچپن میں بھی کوئی غیر معروف شحض نہےں تھا کےونکہ وہ ایک بڑے با پ کا بےٹا تھا ۔ اس کا تعلق ایک اےسے خاندان سے تھا۔ جو کئی نسلو ں سے صو بہ خراسان کے شہربلخ میں مقام تھا ۔ اس خاندان نے بڑی تعداد میں فقہاءاور فضلا ءپےدا کئے ۔ رومی کے والدامام غزالی سے بہت متاثر تھے اور بر سرعام فلسفےو ں اور عقلےت پسندوں کے خلاف جو شیلی تقرےر ےں کےا کرتے تھے اور اسلام کے احکام کا نئے سرے سے مطالعہ کر نے پرزور دےتے ۔ رومی کو پانچ سال کی عمر میں اپنا گھر چھوڑنا پڑا اور ایک بچے کی حےثےت میں ہی سمر قند کے غرےب عوام کے ہو لناک قتلِ عام کا تماشا بھی دےکھا جو خوارزم کے بادشاہ کے حکم پر کےا گےا ۔ پھر بچپن میں ہی گھر واپس لوٹالےکن تےرہ چو دہ بر س کی عمر میں دوبارہ گھر چھوڑ نا پڑا ۔ اس مرتبہ اپنے ضعیف والدکے ساتھ طو ےل اور ناگو ار سفر وں کا معاملہ درپےش تھا۔ نےشا پور میں رومی کی ملاقات فارسی شاعر عطارسے ہوئی ۔ جو اس پر بہت مہر بان ہوا اور اپنی تصنیف کی ایک جلد بطورہدےہ دی ۔ اٹھارہ برس کی عمر میں رومی کی شادی خواجہ لالائی سمر قند ی کی بےٹی گوہر خاتون سے کردی گئی جس سے ایک پےٹاپےدا ہوا ۔ چو بےس سال کی عمر تک مولانارومی نے حساب منطق طبےعےات سےاسےات اور فلسفہ اخلاق کے علاوہ قرآن وحدےث کا بغور مطا لعہ کےا حلب اور دےگر شہر وں کی درسگاہوں میں اکتساب علم کے بعد وہ چو نتےس برس میں اہل فکر کا مسلمہ رہنمابن گےا ۔ رومی کا عرصہ حےات تقر ےباً ساری تےر ھوےں صدی پر محےط تھا ۔ اس دور میں اسلام ایک خستہ وشکےہ تعمےر کی صورت اختےا ر کر چکا تھا منگو لوں کے حملے سے اےشےاءاور یورپ کو شدےد دھچکا لگا ۔ ےہی عہد اسلام اور مسےحےت میں تصوف کا عظیم عہد ثابت ہو ا تےرھوےں صدی کی ابتداءمیں اسلام بری طرح محصور ہو چکا تھا مشرق میں منگولوں کے گھڑ سوارتےراندازاور مغرب میں زرہ بکتر سے آراستہ صلےبی جاں باز، اس گھےر ائو سے معلو م ہوتا تھا اب اسلام ہمےشہ کے لئے ختم ہو جائے گا حکمران عےسائےت سے آنکھ مچولی کھےلتے رہے لےکن ساتوےں حکمران نے اسلام کو سرکاری مذہب کے طور قبول کر لےا ۔ رومی کا آبائی شہر قونےہ ہی وہ نقطہ ما سکہ ہے جہاں رومی کی زندگی کے اہم واقعات ظہورپذ ےر ہوئے اس شہرنے اسے تب اپنے دامن میں پناہ دی جب ایک افراتفری کے شکارملک میں پناہ حاصل کرنا آسان نہ تھا۔ وہاں رومی کو اپنے والد کے لائق وارث کی حیثےت سے باقاعدہ رسم کے مطابق سند نشےن کےاگےا ۔ اس نے وعظ کا سلسلہ شروع کےا اور اسلام کے مرےدوں کے حلقے میں آبےٹھاحتی کہ رومی پر وجد ان کا مرحلہ آن پہنچا اور اس نے رسمی تہذےب ومتانت کا لبادہ اتار پھےنکا ۔ وہ شہر کی گلےو ں میں گاتا ، نا چتا ، پھر تا، ظاہری آداب کی مطلق پر وانہ کی ۔اسے اسلام کا بہت بڑاتر جما ن سمجھنے وا لوںکو بےحد تعجب اور ماےوسی ہو ئی ۔ےہےں رومی کی ملاقات شمس تبر ےز سے ہوئی اور ےہےں مفارقت بھی ۔
قونہ مشرقی سلطنت کا دار الخلافہ تھا ۔ اور اقونےم کے نام سے مشہور تھا اس شہر کا ہر باشندہ آج تک ےہی خےال کرتا ہے، کہ وہ فر شتو ں کے شہر میں رہتا ہے۔ جس کی و جہ ایک قدیم رواےت ہے ۔ شمس تبرےز کے ساتھ رومی کی ملاقات نے اس کی زندگی میں انقلاب بر پا کر دےا ۔ شمس تبرےز، حسن بن صبا ح کے فرقہ باطنےہ سے تعلق رکھتا تھا ۔ اس کا دادانور الدےن محمد حسن بن صباح کا ایک رفےق تھا ۔ دولت شاہ کی رواےت ہے کہ شمس تبرےز کسی اےسے شحض کی تلاش میں جو اس کی روحانی رازداری کا شرےک بن سکے ،اور اس جذباتی تجربے کے اخذ و قبول کی صلاحےت رکھتا ہو،
قونیہ آیا ۔ اس نے ایک مرتبہ رومی کو شاگردوں کی قےادت کرتے ہوئے سر ا ئے کے پاس سے گزرتے دےکھا ۔ شمس نے اسے روکا اور پوچھا ! علم کا مقصد کےا ہے ؟ رومی نے بڑے اعتما د سے جواب دےا کہ رسول اللہکی اتباع کرنا اور ان تک رسائی پانا ۔ شمس تبرےز بولا کہ ےہ تو ہر کوئی جانتا ہے ۔ رومی نے پو چھا ، کہ پھر علم کا کےا مقصد ہو سکتا ہے؟ � � علم وہ شے ہے ، جو تمہےں اس کے سر چشمے تک لے جائے ۔ شمس نے جواب دےا ۔کہا جاتا ہے ۔ رومی اس قد ر متاثر ہوا کہ فو راًشمس کے ہاتھ پر بےعت کر لی ۔اس ملاقات نے رومی میں ایک انوکھا سکون اور اضطراب پےد اکر دےا ۔ ےہ اس کے لئے جہا نِ تازہ کی نمود تھی ۔ شعو ر کے اس ا نو کھے تجربے نے مضمر توانا ئی کو مزےدتابد ار کےا ۔ ان ملاقاتوں کا نتےجہ اس قدر اہم تھا کہ مخفی نہ رہا ۔ دےنےات کا فاضل اور راسخ العقےد ہ استاد درس وتدرےس کا سلسلہ ترک کرکے شمس تبرےز کا والہا نہ شےد ائی بن گےا ۔ رومی کے طلباءاور عقےدت مند اس سے ماےوس ہو نے لگے۔ کہ اب تک مو سےقی کو نا پسند ےد ہ قرار د ےنے والا شخص اس کا گر وےد ہ ہو چکا تھا ۔ رومی گھنٹو ں مو سےقی سنتا اور وجد وسرور کی کےفےت میں رقصاں ہو جاتا ۔ رومی کے عقےد ت مندوں کے لئے شمس قطعا ًپسند ےدہ شخص نہ تھا ۔ لےکن رومی اسے اپنے گھر کی روشی خےال کرتا ۔ شمس تبرےز قتل کر دےا گےا ،اور قتل کی ساز باز کرنے والوں میں رومی کا اپنا بےٹا بھی شامل تھا ۔ لٰٰہٰذارومی نے بےٹے کی نماز جنازہ تک میں شرکت نہ کی ۔ شمس کے داغ مفارفت کے بعد رومی کا اضطراب نا قابل براشت ہو چلا تھا ۔ اس نے خو د کو سماع ور قص میں ہی محو کرلےا ۔ معاصر علما ءاس کا بڑا احترام اور اس کی اےسی بے خودی پرا ظہا رِ افسو س کرتے ۔ لےکن سما ع ور قص سے دل بستگی رومی کے روحانی دکھوں کا مد اوا نہےں تھا ۔ پھر آہستہ آہستہ اس بگو لے کی تندی مد ھم پڑنے لگی ۔ ذ ہنی آوےز ش رفتہ رفتہ مثنو ی کے شعر ی حسن وجمال میں ڈھلنے لگی ۔ انہی دنوں رومی کی ملا قات ایک چاندی کے کو ٹنے والے شحض سے ہو ئی۔ با زار میں سے گذ رتے ہو ئے ،رومی کو مو سےقی کے سر تال سنا ئی دئے ۔ تو وہ آواز کی طرف کھنچتا چلاگےا۔ لےکن ےہ مو سےقی کی بجا ئے چاند ی کو ٹنے والے کی ہتھو ڑی کی ضر بےں تھےں۔ رومی مستا نہ واررقص کرنے لگا ۔ ہتھو ڑی کی ان ضر بو ں نے وجود کو بھی لطےف بنا دےا ۔ ےہی وہ مرحلہ تھا، جب وہ خاک گلی بنا اور اسے سمت راہ نو کی کا مر انیا ں نصےب ہوئےں ۔ دمشق میں شمس تبر ےز کی تلاش کرتے ہوئے رومی کو اپنی ہی لا فا نی ذات سے وصال نصےب ہوا ۔ رومی کی غز لو ں کا اصل �جذ بہ عشق� کیا ہے ؟۔ عشق غیر فانی ذات کی درےا فت کی ارفع اور نا قا بل تعرّ ض لگن ہے ۔ رومی مذہب عشق کے سوا کسی اور مذہب سے واقف نہےں۔ عشق ملک ،مسلک اور رنگ کی حدبندےوں سے فائق ہوتا ہے۔ رومی محض اےران ےا روم کا شاعر نہےں بلکہ اےسا مغنی ہے جو ساری کا ئنات کے لئے نغمہ سراہے ۔ اپنی غزلوں میں رومی زندگی کا نغمہ خواں ہے ۔ وہ سادہ تجربات کو بھی جوش اورو لولے کا لہجہ بخشتا اور انہےں شوخ وواضح نقوش کے ذرےعہ سے پےش کرتا ہے ۔ جومذہب اور فلسفے کے پےچےد ہ اصول معقلولی دائر ے سے نکل کر عام لوگوں کی زندگی کا جزوبن گئے ۔
ےہی تکنےک بعد ازاں اسے مثنو ی تخلےق میں استعمال کرنا تھی ۔ مثنو ی کو پہلے پہل مخفی وملکوتی حقائق کا ایک بے مثال اظہارسمجھا جاتا تھا ۔ حتی کہ جامی نے اسے � � � � � � � � � � � � �� زبان پہلوی میں الہامی کتاب �کہا اور شاعر کے بارے میں لکھا :� وہ پیغمبر تو نہےں لےکن صاحب کتاب ہے �۔ رومی نے اپنی غزلےات کے مجموعے کو � دےوان شمس � کا نام دےا اور مثنو ی کو� حسامی نا مہ �کہا ۔ شمس دےوان کا ہےر وتھا اور حسام الدےن، مثنوی کا محرک ۔
اس کی مدت میں 25.700اشعار حسا م الدےن کو املاءکرائے ۔ دےبا چے میں وہ بلا تکلف اقر ار کرتا ہے :�ےہ عطےات میں سب سے اعلی اور انعامات میں سب سے بےش قیمت ہے ےہ ہمارے احباب کے لئے ایک نور ہے اور اخلاف کے لئے ایک خزانہ ۔ �مثنو ی کا آغاز تمثےلی انداز میں ایک نغمے سے ہوتا ہے ۔ جس میں استعار ہ بتاےاگےا ہے کہ نَے نےساں سے جداہو کر جدائی کی شکوہ سنج ہے ۔ رومی کہتا ہے کہ تمام مو جودات کا خا لق اور خودحےات کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ ہے اور ہم سب کو اسی کی طرف لوٹناہے ۔
ساری ہستی روحانی اقلےم میں موجودہے ۔ روح جسم سے مستو ر نہےں ہوتی �دونوں کا باہمی رابطہ بڑا گہراہے اور لافانی ذات میں سے ظہو رپذےر ہونے والی شخصےت کو اس کی شنا خت میں کوئی دقت نہےں ہوتی ۔ شعو ر روح میں منطق نہےں بلکہ عشق جان ڈالتا ہے ۔ کائنات کی تخلےق اللہ تعالیٰ کا ایک عمل ہے ۔ خد او ند تعالیٰ نے تخلےق کائنات کے وقت اپنے آپ کو مکان ابعا د میں شامل نہےں کےا ۔ انسان وہ کا ئنات اصغر ہے جس نے اپنی ترکےب میں عالم اکبر (کا ئنا ت ) کو مسحورکر کھاہے ۔ رومی �ذات �کو وہ صفر عظیم سمجھتاہے جس کے بغیر کوئی مساوات مکمل نہےں ہوسکتی ۔ عقل وادراک کی قوت روحانےت کی بلند منز لوں تک رہمنائی نہےں کر سکتی ۔ اس کے لئے پےر �راہنما اور رفےق کی مصاحبت ضروری ہے ۔ رومی کے خےال میں رسول اللہ کا مل تر ےن راہنماہےں ۔ وہ اس نظر ئے کاعلمبر دار ہے کہ ارضی وملکو تی زندگی میں کو ئی تضادوتصا دم نہےں ۔ دونوں ایک ہی وحدت کے اجزاءاور لازم وملزوم ہےں ۔ ہم اس دنےا سے منہ موڑ کر محض سکو ت واستغر اق میں دوسری زندگی کا انتظار نہےں کرسکتے ۔ زندگی انسان کا مہلک تر ےن تحفہ ہے ۔ اس کے مہلک پن سے ڈرکر بھا گنا اس کی ذمہ دار ےو ں سے سبکدوش نہےں کر سکتا ۔ آزما ئش ومصائب کا صحر اپار کرنے کے بعد ہی کہےں خودی کے مقام بلند تک رسائی ممکن ہے ۔ ایک منز ل اےسی بھی آتی ہے جب خودی کے عزم اور کا ئناتی خودی کے عزم کی ہم آہنگی اےسی مکمل ہو جاتی ہے کہ جبر و اختیار کی ساری بحث لا ےعنی ٹھہر تی ہے ۔ اپنی ذات کے اعلی او صاف کو بر وئے کا رلانے کے لئے ان تمام قو توں سے نبر د آزمائی ضروری ہے جو ہماری نشو ونمامیں رکا وٹ بنتی ہےں ۔مثلا لا لچ �حر ص � طمع �اور نفرت حےا ت لطےف ہی مثنو ی کا بنےادی موضو ع ہے جس کی کوئی ا تھا ہ نہےں ۔ مولا نا رومی نے 17ءدسمبر 1273ءکو وفات ہو ئی۔
 

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team