اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

   اردو پاور کے لیے اپنی تحریر     اس ای میل ایڈریس پر روانہ کریں    

Email:-ceditor@inbox.com

Email:-Jawwab@gmail.com

 

 

 

 

مدر ٹریسیا
 
مدر ٹریسیا نام
1910 تاریخ پیداءش
1997 تاریخ وفات
 
جب بھی انسانی خدمت کا ذکر ہوتا ہے تو مدر ٹریسیا کا نام لیا جاتا ہے۔
ایک ایسی ہی بہادر اور باہمت خاتونجس کا دل انسانی ہمدری سے لبریز اور اس کی تمام زندگی اس کی دکھوں کا مداوا کرنے میں گزری ۔
کچھ لوگ اتنی منفرد زندگی گزارتے ہیں کہ دوسروں کے لیے مثال بن جاتے ہیں۔ ایک ایسی ہی بہادر اور باہمت خاتون جس کا دل انسانی ہمدری سے لبریز اور اس کی تمام زندگی اس کی دکھوں کا مداوا کرنے میں گزری ۔ جب بھی انسانی خدمت کا ذکر ہو ہوتا ہے تو مدر ٹریسیا کا نام لیا جاتا ہے۔
مدر ٹریسیا کا اصل نام Agnes Gonxha Bojaxhiu اگنس گونکنشا بوجیکسیو تھا۔ وہ یوگوسلاویہ کے ایک شہر سکوپچے جو کہ اب مقدونیہ کہلاتا ہے میں پیدا ہوئیں۔ مدر کے مذہبہ رجحانات کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہو جاتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے بپتسمہ دیے جانے کے دن کو اپنے یوم پیدائش کے طور پر تحریر کیا ہے۔ اس دن کو انہوں نے پیدائش کے دن سے برتر اور قابل ذکر سمجھا۔

بین الاقوامی سطح پر انسانی خدمت کا علم بلند کرنے والی اس بہادر خاتون کو اس کے کام کو سراہتے ہوئے جب 1979 ء نوبل انعام برائے امن سے نوازا گیا تو اس نے ان موقع پر خطاب کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار جن الفاظ میں کیا وہ کچھ یوں ہیں۔
ََ� میں نے غریبوں کی غربت کو چنا۔ آج میں یہ انعام ان بھوکے ننگے، بے گھر، اندھوں جذامیوں کے نام سے قبول کر رہی ہوں۔ جن کو کسی نے کبھی نہیں چاہا، جنہیں محبت سے محروم رکحاگیا۔ اور کبھی کسی نے انکا خیال نہ کیا۔ انہیں ہر کسی نے دھتکارا اور انہیں معاشرے پر بوجھ تصور کیا گیا�
یہ عظیم خاتون 1928ءمیں چرچ سے منسلک ہوئی اور ٹریسیا کا خطاب پایا۔ چرچ نے ان کے لیے ہندوستان کی سر زمین کو منتخب کرتے ہوئے ہندوستان روانہ کر دیا۔ ہندوستا ن آ کرآپ نے شعبہ تدریس اختیار کیا اور کلکتہ کے شہر میں ایک کانونٹ سکول میں پڑھانا شروع کر دیا۔ 1949 ءمیں چرچ نے آپ کو اس ذمہ داری سے ہٹا کرکلکتہ کے عام انسانوں کی خدمت کا کام سونپا۔ اور یوں یہ خاتون کلکتہ کے غرباءکی خدمت پر مامور ہوئی۔ اسی سال مدر نے ہندوستانی شہریت اختیار کرلی۔
1950

میں مدر ٹریسیا نے اپنا الگ چرچ اور فلاحی ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے نے زندگی کے تمام شعبوں میںضرورت مندوں کے لیے کا شروع کیا۔ کلکتہ میں بھوک انتہا کو تھی، بھوکوں کو کھانا کھلانے کا انتظام کیا گیا، سکول، ہسپتال ، یتیم خانے، نوجوانوں کے لیے ہاسٹل اورجذام مراکز قائم کیا گئے۔ اس ادارے نے خدمت کی بہترین مثالیں قائم کیں۔ اس کے کام کو بہت پذیرائی ملی اور ہندوستان میں اس کی 50 شاخوں کے علاوہ دیگر ممالک 30 شاخیں قائم ہوئیں۔
مدر ٹریسیا کی خدمات کو سلسلے میں ان کو بہت سے انعامات سے نوازا گیا۔ نوبل انعام کے علاوہ انکی غریبوں اور محتاجوں کی خدمت کے اعتراف میں پوپ جان پال ششم نے انکو تئیسواں امن انعام اور ہندوستان کی حکومت نے انہیں عالمی بھائی چارے کے فروغ کے لیے ان کی خدمات کے مد نظر جوہر لال نہر و ایوارڈ سے نوازا۔
انسان نے بالآخر اس دار فانی سے کوچ کرنا ہے۔ یہ بہادر خاتون بھی 5ستمبر1997ءبہت سے دلوں کو سوگوار کر گئی۔ مد ر ٹریسیا کی کمی مدتوں محسوس کی جائے گی۔
مقام پیدائش
سکوپچے یوگوسلاویہ موجودہ مقدونیہ
مقام رہائش
کلکتہ ہندوستان
1928ہندوستان آکر کلکتہ میں تدریس سے وابستہ ہو گئیں۔
1938چرچ کی طرف سے بلند ترین مقام حاصل کیا
1948کانونٹ چھوڑ کرعام غریبوں کی مدد کا بیڑا اٹھایا۔
1950ذاتی مشنری اور رفاحی ادارے کی بنیاد رکھی
1952مردہ خانے قائم کیے۔
1957متاثرہ علاقوں میں وسیع پیمانے پر جذام سنٹر کھولے گئے۔
1971پوپ جان پال کی طرف سے امن کا تیئسواں انعام حاصل ہوا۔
1979عالمی امن ایوارڈ حاصل کیا۔
مدر ٹریسیا اصل نام Agnes Gonxha Bojaxhiu 27اگست 1910کو سکوپچے یوگوسلاویہ موجودہ مقدونیہ کے مقام پر پیدا ہوئیں۔ آپ کا خاندان البانیہ سے ہجرت کرکے آیا تھا۔ ابھی عمر بارہ برس ہی تھی کہ آپ کا رجحان مذہب کی طرف ہو گیا۔ مدر کو ہوں محسوس ہونے لگا جیسے اللہ آپ کو کوئی خاص پیغام دے رہا ہے۔ اور یہ کام وہ چرچ کی توسط سے مشنری بن کر کر سکتی ہیں۔
یہ کشمکش جاری تھی کہ 18برس کی عمر میں آپ نے گھربار اور والدین کو چھوڑکر نن (راہبہ) بننے کا فیصلہ کر لیا اور آئرش راہبائوں کے چرچ سے وابستہ ہو گئیں۔ اس تنظیم کے تحت ہندوستان میں بہت سے ادارے کام کر رہے تھے۔ ڈبلن میں چند ماہ کی تربیت کو بعد مدر کو ہندوستان بھیج دیا گیا۔ 1938میں آپکو نن کا خطاب ملا۔ 1948تک کلکتہ کے سینٹ میری ہائی سکول میں تدریس کی۔
کلکتہ اس دور میں ایک کثیرالآبادی اور صنعتی شہر ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل کا شکار تھا۔ شہر میں ہر طرف غربت کے سائے تھے۔ مدر چرچ کی دیواروں سے باہر پھیلی اس افلاس پر کڑھتی رہتی تھی۔ آپ کے جذبے کو دیکھتے ہوئے چرچ کے حکام بالا نے آپکو کلکتہ کے افلاس زدہ شہر میں کام کرنے کی اجازت دے دی۔

غربت و افلاس کے خاتمے لے لیے آپکے پاس کوئی باقاعدہ فنڈز نہ تھے بلکہ تمام تر کام کا انحصار خیرات سے حاصل ہونے والی آمدنی پر تھا۔ آپ کے خلوص اور کام کو دیکھ کر بہت سے رضاکار آپ کے ساتھ شامل ہوگئے۔ مالی تعاون کرنے والے افراد میں بھی اضافہ ہو گیا۔ آپ کے کام کو عوام میں پذیرائی ملی۔ آپ کا پہلا پراجیکٹ ایک بغیر چھت کے سکول تھا۔
7اکتوبر1950ءکو مدر ٹریسیا کو اپنا الگ چرچ اورفلاحی ادارہ قائم کرنے کی اجازت مل گئی۔ اس ادارے کی شہرت دور دراز تک جا پہنچی۔ اس کا بنیادی مقصد بے سہارا اور بے نوا لوگوں کے مسائل کا حل تھا۔ 1965ءمیں پوپ جان پال نے اس ادارے کے عالمی حیثیت سے نوازا۔ یوں اس ادارے کی شاخیںدنیا بھر میں پھیل گئیں۔ اس میں مشرقی یورپ اورسابقہ روس کی ریاستیں بھی شامل تھیں۔
خدمت کی اس تنطیم کا دائرہ کار ایشیا ، افریکا، اور لاطینی امریکا تک پھیلا ہوا ہے۔ جہاں کوئی ناگہانی یا قدرتی آفات کا سامنا ہو یہ ادرہ اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔ سیلاب ، وبائی امراض اور مہاجرین ہر طرح کے حالات میںضرورتمندوں کے شانہ بشانہ کام کرتا ہے۔ لاطینی امریکہ میں اس ادارہ کے پاس بہت سے تیار شدہ گھر ہیں جہاںبے گھر، لاوارث اور ایڈز سے متاثرہ افراد کو رہائش مہیا کی جاتی ہے۔
عالمی درجہ حاصل کرنے کے بعد اس ادارہ کے کام میں وسعت آئی اور 1990 کے ایک جائزے کے مطابق دنیا کے چالیس ممالک میںاس کے رضاکاروں کی تعداددس لاکھ سے زائد ہے۔ ان باقاعدہ کارکنوں کے علاوہ بہت سی دیگر تنظیمیںجو مدر ٹریسیا کے کام اور محنت سے متاثر ہیں بہت خلوص سے ان کے ساتھ مل کر کا م کرتی ہیں۔
مدر ٹریسیا کے خلوص اور لگن کو بہت پذیرائی ملی۔ جس جذبہ ایثار سے آپ نے انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنا چاہا اسے ہر سطح پر سراہا گیا۔ بہت سارے ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ان میں نمایاں ترین نوبل انعام، نہرو ایوارڈ، پوپ جان پال ایوارڈ شامل ہیں۔ چرچ کی جانب سے بھی آپکو بہت سے اعزازت سے نوازا گیا۔
 

 

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team