اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 خواتین اردو پاور کے لیے اپنی تحریر     اس ای میل ایڈریس پر روانہ کریں

Email:-ceditor@inbox.com.......... Email:-Jawwab@gmail.com

 

اردو کا نوحہ

 
زبانِ اردو جو کبھی سارے ہندوستان کی ملکہ تھی اور چہار دانگ عالم میں جس کی سطوت کا ڈنکا بجتا تھا آج بے توقیری کے کنجِ عزلت میں پڑی اپنی کسمپر سی پہ آٹھ آٹھ آنسو روتی ہے پر کوئی اس کی اشک شوئی کرنے والا نہیں۔وہ جنہوں نے اِس کو سرآنکھوں پے بٹھانا تھا اور اس کی عظمت کو سارے عالم سے منوانا تھا خود ہی اس سے مو نہہ موڑ بیٹھے اور ترقی کے جنون میں زبانِ غیر سے رشتہ جوڑ بیٹھے۔اب اردو اپنوں کو غیر زبانوں کی غلامی کرتے ہوئے دیکھتی ہے اوران کی کم سمجھی کا ماتم کرتی ہے۔چاہتی ہے کہ اپنی اُس حلاوت سے ،جس نے ایک زمانے کو اس کا اسیر کیے رکھا تھا ،اب پھر اِن قدر ناشناسوں کو روشناس کرے پر مادیت کی مسموم فضاؤں میں جب ہر طرف ترقی ترقی کا اِک بے ھنگم شور مچاہے اِس کی آواز بھلا کون سنے گا۔پس دم سادھے اچھے دنوں کی امید میں برے بھلے دن کاٹتی ہے اور اپنوں کی بے وفائی کا تماشا دیکھ دیکھ کڑُتی ہے۔
آج کی یہ خستہ حال اردو وہ حسیں شہزادی تھی جس نے سلطنتِ مغلیہ کے پرشکوہ محلوں میں آنکھ کھولی، دلی کے گلی کوچوں میں پروان چڑھی اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے ہندوستان کی رانی بن بیٹھی۔یہاں تک کے ہر کوئی اِسے سر آنکھوں پے بٹھانے لگااور اس کے تاج کوفخریہ اپنے سر پہ سجانے لگا۔ہر سمت سے اِس کو اپنانے کے دعویدار اٹھے۔کسی نے دلی، کسی نے دکن، کسی نے پنجاب، کسی نے سندھ کو اس کا مولد و مسکن قرار دیا۔ہر ایک کی خواہش تھی کہ اردو سے نسبت کا فخر اسے حاصل ہو ۔ہرایک اس کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر تھا ۔یہ وہ دور تھا جب اردو کسی شوخ ہرنی کی مانند ترقی کی قلانچیں بھرتی تھی اور اپنی حریفوں ہندی و فارسی کو ہزیمت زدہ دیکھ دیکھ ہنستی تھی۔یہ خیال بھی اس کے دل میں نہ گزرتا تھا کہ کبھی اُس پر برا وقت بھی آ سکتا ہے ۔
الغرض یہ زریں دوراردو کے فخرکو چار چاند لگاتا تھا اور دور و نزدیک اس کی کامرانی کا ڈنکا بجاتا تھا۔ ہرکوچے سے دیوانوں کی جماعتیں اس کی مشاطگی کو دن رات حا ضر رہتی تھیں اور اس کی دلفریبی اور نزاکت پے خواص وعوام ہر دو نثار ہو ہو جاتے تھے ۔ کوئی اِس کی غزل پہ فدا تھا تو کسی کو اس کی مثنوی نے اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا ۔ کوئی اس کے مرثیوں پر سر دھنتا توکسی کو اس کے قصیدوں میں ایک جہانِ نو نظر آتا ۔ ہر کوئی اس کی کسی نہ کسی ادا کی دلفریبی کا شیدا تھا۔اردو جو بوجوہ اپنی کم عمری کے اب تک فارسی کے سامنے نکو بن کر رہی تھی اب اپنے آگے کسی کو درخورِ اعتنا نہ سمجھتی تھی اور ایک فاتحانہ غرور سے سارے ہندوستان پر راج کرتی تھی۔جیسا کہ قاعدہ ہے جس کے سر تاج ہو ہر کوئی اس کی قربت حاصل کرنا اپنا فخر جانتا ہے پس اس دورِ بیمثال میں اردو کے گرد بھی پرستاروں اور ممدوحوں کا ایک مجمع تھا کہ ہر روز بڑھتا جاتا تھا اور دیکھنے والوں کوششدر کرتا تھا کہ کیونکر ایک نوخیز زبان نے وہ دلربائی حاصل کر لی کہ آج ہر کوئی اس کا پروانہ ہے ۔ وہ پرانے مشاق شاعربھی جو اب تک مےءِ فارس سے لذتِ کام و دہن کرتے آئے تھے عمر بھر کی ریاضتیں چھوڑ چھاڑ اب اِس بادہِ نو کے اسیر ہوئے جاتے تھے اور اپنی ترنگ میں اس کی محفل کو صد رنگ کیے جاتے تھے۔کسی گلی سے کوئی میر اٹھتا اور دامنِ اردو کو تغزل اور ترنم کی شیرینی سے بھر دیتا۔کسی کوچے سے کوئی درد آواز لگاتا اور اس کے قلب کو سوز و گدازکی روشنی سے بقہءِ نور کر دیتا۔ کسی شکستہ مکان سے کوئی غالب نکلتا اوراس عروسِ نو کومعنی آفرینی اور جدت کے لازوال زیورسے آراستہ کر دیتا۔ سرزمینِ ہندنے باوجود اس کے کہ قحط الرجال کے لیے مشہورہے ، اس دور میں اردو کو اس فراوانی سے قدر دان مہیا کیے کہ اس کی کم مایگی جاتی رہی اور اردو سخن دانوں اور سخن سنجوں کے جھرمٹ میں شاداں و فرحاں دنیا کی دوسری بڑی زبانوں کی ہمسری کا دعوٰی کرنے لگی۔اردو کے عروج کا یہ دور چند سالوںیا چند دہائیوں پر محیط نہ تھا بلکہ کامل دو صدیوں تک اردو نے اہل ہند کو اپنی جادو گوئی سے مسحور کیے رکھا۔مغلوں کے زوال اور انگریز سامراج کی حکومت نے ہندوستان والوں میں وطنیت کے احساس کو شدید کر دیا تھاپس وہ اپنی زبان کو سینے سے لگاتے تھے اور دن رات اس کی ترقی کے منصوبے باند ھتے تھے اور چاہتے تھے کہ اُن کی زبان ترقی کے بامِ عروج تک پہنچ جائے اور دنیا کی کسی زبان سے کسی طرح ہیٹی نہ رہے۔ حریف اردو کی اِس آن بان سے جل جل جاتے تھے اور طرح طرح سے اِسے زک پہچانے کے درپے رہتے تھے ۔کبھی ہندی جیسی کم رو کو اس کے سامنے لا کھڑا کرتے کبھی مقامی زبانوں کو اردو کا حریف بنا لاتے پر اردو کے دیوانوں کے سامنے اُن کی ایک نہ چلتی تھی اور اردو دن دگنی رات چگنی ترقی کی منزلیں طے کرتی جاتی تھی۔ اردو نے اس دورِ خوش بخت میں فکرو فلسفے، جذب وشوق ، سیا ست و مذہب غرض ہر میدان میں کامرانی کے جھنڈے اسُ سرعت سے گاڑھے کہ دوست و دشمن سب حیران رہ گئے۔
کیادور تھا اور کیسے لوگ تھے وہ جنہوں نے اپنی ساری ساری زندگیاں اردو کی آبیاری کرتے ہوئے گزار دیں۔ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا کی بس اسی دھن میں اپنے شب و روز بتا دیے کہ کسی طرح اردو کا بول بال ہو۔ہمارے آج کے اردو دانوں کی طرح ہوتے تو کانفرنسیں کرتے، ادبی انجمنوں کی سر پرستی فرماتے اور اخباروں میں بیان چھپوا کر اپنے تیءں سمجھتے کہ اردو پہ بڑا احسان دھر دیا ہے اور اس کی محبت کا حق ادا کر دیا ہے۔پر وہ دوسرے لوگ تھے جو نام ونمود کی دنیوی آلائشوں سے یکسر پاک تھے اور اُن کی رگوں میں اردو کی محبت مانندِ خون دوڑ رہی تھی۔ہمارے اِس مادیت زدو دورمیں ایسے دیوانے اب کہاں سے آئیں گے۔وہ دیوانے تو اٹھ گئے اب توہم ایسے فر زانوں کا دور ہے۔
قاعدہ ہے کہ جب زوال کی سیاہ گھٹائیں کسی قوم پر سایہ کرتی ہیں تو اسے اپنی ہر چیز بری لگنے لگتی ہے اور بد بختی و نکبہت غیروں کی ہر چیز کو اچھا بنا کراس کے سامنے پیش کرتی ہے پس وہ غیروں کی نقالی کو کمالِ فن سمجھ کر اپنے تئیں اتراتی ہے اور اپنی چیزوں کو کم تر جان کر بہ نگاہِ حقارت دیکھتی ہے۔ہم کہ خوئے غلامی میں پختہ ہو چکے تھے ہم نے زبانِ فرنگ کو مغر ب کی ترقی کا ذریعہ جانا اور اپنی پیاری اردو کو پسِ پشت ڈال کے انگریزی کی معیت میں بہ یک کورس ترقی ترقی کا راگ الاپنے لگے اور یہ کلیہ فراموش کر بیٹھے کہ جس قوم کی اپنی کوئی زبان ہی نہ و ہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ وہ دن اور آج کا دن ہے فرنگیوں کی نقالی میں مونہہ ٹیڑھے کر کر کے ہمارے جبڑے تشنج زدہ ہو گئے ہماری آنکھیں پتھرا گئیں اور ہمارے اعصاب جواب دے گئے پر ترقی کا محمل ہے کہ کہیں دور دور تک نظر نہیں آتا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ زوال کے سائے گہرے ہوہو کر ہماری عقلوں کا مو نہہ چڑا رہے ہیں۔
آج اردو مضمحل ہے اور اس کے تنِ نازک پر جابجا زخموں کے نشان ہیں۔اردو شکستہ دل ہے کہ ہم پاکستانیوں نے اسے عزت وتکریم کی اس کرسی پر بٹھایا کہ اپنی قومی زبان قرار دیا پر اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جو کوئی اپنی کسی قومی شے سے نہیں کر سکتا۔ہم نے اردو سے عہدو پیماں کیے کہ اسے اپنے دیس میں رائج کریں گے پر رائج کرنا تو دور کی بات ہم تو اسے دیس نکالا دینے کے درپے ہو بیٹھے۔زبانِ افرنگ کہ ہمارے مزاج سے کچھ لگا نہ کھاتی تھی ہمارے اعصاب پریوں سوار ہوئی کہ ہمیں عقل و خرد سے بیگانہ کر دیااور ہم اس بد نسب کی محبت میں اپنی پھولوں ایسی شہزادی سے مونہہ موڑ بیٹھے۔
ہماری انہی بے اعتنائیوں سے گلستانِ اردو جو کبھی ایک مہکتا ہو ا باغ تھا آج کسی اجڑے پجڑے ویرانے کا منظر پیش کر رہا ہے۔جن پیڑوں پر کبھی کوئلیں کوکتی تھیں اور بلبلیں نغمہ سرائی کرتی تھیںآج الو بولتے ہیں اور چیلیں چیختی ہیں ۔ جن گلوں کی مہک سارے ہندوستاں کے مشامِ جاں کو معطر کیے رکھتی تھی آج وہ ریزہ ریزہ کلیاں لیے اپنی بربادی پر نوحہ کناں ہیں۔وہ گل
بوٹے جن کی آبیاری ہمارے بزرگوں نے اپنے خون سی کی تھی ہمار ی بے اعتنائی کی سرد ہواؤں نے انہیں گہناکر رکھ دیا اور اب وہ چراغِ سحری کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ و ہی باغِ اردو جو کل تک دل خوش کن نغموں اور مترنم گیتوں سے چہچہا رہا تھا آج اس پر یوں شہرِ خموشاں سا سکوت طاری ہے کہ دل کٹ کٹ جاتا ہے ۔یقین نہیں آتا کہ یہی وہ چمن ہے جس میں کبھی میرو غالب اور حالی و اقبال سے خوش الحاں نغمہ سنجی کیا کرتے تھے اور عبدالحق سے باغباں اس کی چمن بندی میں دن رات ایک کیا کرتے تھے۔اردو کا وہ عروج اور یہ زوال دیکھ کر کس کا دل ہو گا جو خون کے آنسو نہ روئے گا۔اردو کی اس ویراں بستی کو دیکھنے کیلئے بھی پتھر کا دل چاہیے ۔
پر ابھی امید کے چراغ مکمل گُل نہیں ہو ئے ۔ چند دیوانے ہیں جو با وصف اپنی خستہ حالی کے امید کی شمع اپنے خون سے روشن کر کے با غِ اردو کے تنِ مضمحل میں جان ڈالے جا رہے ہیں۔مادہ پرستوں کے ترقی کے راگ سنتے ہیں اور ان کی استہزا آمیز نظروں کے تیر برداشت کرتے ہیں پر ان کے حوصلے پست نہیں ہوتے اور ہوں بھی کیسے اُن کی نگاہوں میں اردو کا درخشاں ماضی اپنی کل تابانیوں کے ساتھ جلوہ آمیز ہے اور یہ عزم کہ اردو کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلوانا ہے ان کے ڈھئے ہوئے حوصلوں کے لیے مہمیز کا کام کرتا ہے پس زمانے کی تضحیک ان کے جنوں کو جلا بخشتی ہے اور وہ ایک کیفیتِ جذب میں اردو کی چمن بندی کیے جاتے ہیں۔
پر افسوس صد افسوس کہ ایسے دیوانے روز بہ روز گھٹتے جاتے ہیں اور گلستانِ اردو جو کبھی ایسے سعیدوں سے بھرا پڑا تھا اب خال خال ہی اس کے گوشے کسی ایسے مجنوں سے جلوہ افروز نظر آتے ہیں ۔زمانے کی چمک سینکڑوں کو لبھا لے گئی اورکتنے ہی تھے جنہوں نے غیروں کے سحر میں اپنی اردو سے بے وفائی کی ۔ اردو نے غیروں کی مخالفتیں اور مخاصمتیں توہنس ہنس کے برداشت کیں پر اپنوں کے ستم سہنے کے لیے جس پتھر کا جگر چاہیے وہ یہ سیم تن کہاں سے لائے۔
اب اردو شکستہ تن ، شکستہ پا صحرائے امید میں کسی مسیحا کی منتظر ہے جو اس کے مضمحل وجود میں نئی زندگی کی لہردوڑا دے ۔جو مخالفتوں کی تمام آندھیوں کے رخ موڑ کر اسے اس کے کھوئے ہوئے تختِ طاؤس پر دوبارہ متمکن کر سکے۔ تو آؤ اے اردو کے دیوانو اپنی اس بے حال شہزادی کی تلاش میں اس کے دست وبازو بنیں اور اسے کوئی مولوی عبد الحق ڈھونڈ کر لادیں جو اس کی محبت کے ترانے گا گا کر ہمارے حوصلے اور اس کے مقام کو بلند کرے۔
 
 

 

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team