کوسوو کانام ہم سب کے لیے جانا پہچاناہے
۔گذشتہ سے پےوستہ سال یعنی 17 فروری2008 ءکو جب یہاں کے وزیرِ اعظم
ہاشم تاچی نے منتخب پارلیمنٹ کے سامنے سربیا سے آزادی اور خودمختاری کا
اعلان کیا تو پہلی بار یہ غیر معروف نام عالمی میڈےا پر بار بار سنا
گیا اور اعلانِ آزادی کی یہ خوش کن خبر سن کر عالمِ اسلام میں خوشی اور
مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی ۔ مگر اس اعلان کے کچھ ہی عرصہ بعد یہ نام
دوبارہ پردہ ¿ خفا میں چلا گیا۔
کوسوو یورپ کا تیسرا اور دنیا کا 58 واں اسلامی ملک ہے ۔ یورپ میں
مسلمانوں کی سب سے یادہ تعداد اسی خطہ میں یکجاہے ۔ یہاں کی 90 فی صد
آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔ معلوم تاریخ کے مطابق مسلمانوں کی یہاں
آمد اور سکونت کا سلسلہ 1389 ءمیں اس وقت شروع ہوا جب سلطنتِ عثمانیہ
کے ہاتھوں سربوں نے شکست کھائی ۔ سربوں کی اس شکست اور مسلمانوں کی
آبادکاری کے بعد یہ خطہ سربیا اور مسلمانوں کے مابین جنگ وجدال کا ایک
کل وقتی میدان بنارہا ۔ خانہ جنگی اور بدامنی اس علاقہ کا جزوِ عنصری
اور نشانِ امتیاز بن گئے ۔خصوصاً 1980ءکی دہائی کے اواخر میں اس وقت
یہاں کے حالات امن وامان کے حوالہ سے انتہائی بدترین سطح پر پہنچ گئے
جب سرب لیڈرسلوبودان ملازوچ نے یہاں کے مسلمانوں کا بے دریغ قتلِ عام
کیا اور ان کی املاک کو شدید نقصان پہنچایا ۔ کوسوو اس وقت تک ایک نیم
آزاد اور خود مختار صوبہ کی حیثیت رکھتاتھا، لیکن اس الم ناک سانحہ کے
بعد اس کی یہ حیثیت بھی جاتی رہی اور یہ مکمل طور پر اپنی آزادی کھو
بیٹھا۔
سابقہ سوویت یونین کی طرح مشرقی یورپ میں متحدہ یوگوسلاویہ کے وہ مسلم
اکثریتی علاقے ( جن میں کوسوو بھی شامل تھا ) جو کمیونزم کے جبر
واستبداد کا شکار ہوئے ، ان کے اندر مسلمانوں پر ایسے ایسے قیامت خیز
مظالم ڈھائے گئے کہ ان کی داستانیںپڑھ کررونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ ظلم
وسربریت کی ایسی انسانیت سوز مثالیں کہ جن کے بارہ میں سن کر ہی روح
وجسم کا رواں رواںکانپ اٹھے ۔ بیشترمساجد کومنہدم کردیاگیا ، بعض کو
سینما گھروں میں تبدیل کردیا گیا اور پھر بھی اگر کچھ بچ رہیں تو ان کو
تالے لگادیے گئے ۔ اسلامی ارکان وفرائض کی بجاآوری جرم قرار پائی، دینی
تعلیم کا تو کوئی تصور ہی نہ تھا۔مذہبی پیشواو ¿ں کے روپ میںمسلمانوں
کے پاس اپنے ایجنٹ بھیجے جنہوں نے ان کو جاکر کہاکہ اب تک ہم تمہیں دین
کے بارہ میں جو کچھ بتاتے رہے ہیں ، وہ سب جھوٹ ہے ۔ اسلام میں شراب
اور خنزیر نام کی کوئی چیز حرام نہیں ہے ۔ آج کے بعد جو تمہارے جی میں
آئے ،وہ تم کرسکتے ہو ،کوئی روک ٹوک نہیں ہے ۔جب کسی کے بارہ میں یہ
معلوم ہواکہ یہ روزہ سے ہے تو جبراً شراب یا خنزیر کھلاکر اس کا روزہ
تڑوایاجاتا۔ رمضان المبارک کی راتوں میں مسلمان اس ڈر سے گھر میں روشنی
نہ کرتے کہ کہیں سحری کرنے کا الزام نہ عائد ہوجائے ۔
جبراور تشدد کی اس لاٹھی کے ساتھ مسلمانوں کو دین سے اتنا دور کر دیا
گیا کہ طویل عرصہ تک کمیونزم کے زیرِ عتاب رہنے و الی نوآزاد مسلم
ریاستوں سے آنے والی تازہ اطلاعات کے مطابق وہاں کی نئی نسل کی اکثریت
کو اب کلمہ ¿ طیبہ تک نہیں آتا۔بعض ریاستوں میںدکانوں پرشراب اور خنزیر
کا گوشت سرِ عام دستیاب ہوتاہے ۔ فحاشی اور عریانی اپنی انتہائی حدوں
کو چھو رہی ہے ۔ عیسائی مشنریز کا جال بچھاہوا ہے ۔ مولانامفتی محمد
تقی عثمانی جو ان حالات کے عینی شاہد ہیں ، اپنے بعض سفر ناموں میں
لکھتے ہیں کہ وہاں کے حالات دیکھ کر تو یہی بہت غنیمت محسوس ہوتاہے کہ
وہ لوگ ابھی تک اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں۔ یوںایسی خبروں
کے تناظر میں وہاں پر اسلام کے مستقبل کے حوالہ سے جو تصور بندھتاہے ،
وہ انتہائی مایوس کن اور حوصلہ شکن ہے ، لیکن پچھلے دنوں یہاں سے ایک
ایسی خبر بھی آئی ہے جو اگر چہ حکومتی اقدام اور کردار کے حوالہ سے
اپنے اندر تلخی کا ذائقہ رکھتی ہے ، مگر عوامی طرز ِ عمل کے اعتبار سے
فی الجملہ بہت ہی حوصلہ بخش اور امید افزاءہے ۔ خبر پڑھ کر یوں محسوس
ہوتاہے کہ جیسے کمیونزم کے خاتمہ کے بعدخطہ کے مسلمانوں کی حالتِ زار
کو سدھارنے کے لیے دنیا بھر سے آئی اسلامی تبلیغی تنظیموں اور جماعتوں
نے یہاں پر جو خدمات انجام دیں، اللہ نے انہیں قبول فرمالیا ہے اوراب
ان کی کوششیں رنگ لارہی ہیں۔ خبر کچھ یوں ہے کہ کوسوو کی وزارتِ تعلیم
نے سرکاری تعلیمی اداروںمیں لڑکیوں کے سر پہ دوپٹہ اوڑھنے پر پابندی
عائد کی ہے ۔ خلافِ توقع وزارتِ تعلیم کے اس فیصلہ کے خلاف وہاں کے
عوام اٹھ کھڑے ہوئے اور احتجاج کے لیے ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں
وفاقی دارالحکومت ” پریسٹینا“میں جمع ہوئے اور ”تکبیر.... اللہ اکبر “
اور ” لاالہ الااللہ“ کے پرجوش نعرے لگاتے ہوئے انہوں نے وزارتِ تعلیم
کے دفتر تک پیدل مارچ کیا۔ یوٹیوب پر رکھی ایک ویڈیو میں،میںاس ایمان
افروز مارچ کے مختلف مناظر دیکھ رہاتھا ، اکثر مردوں کے وضع قطع اور
حلیہ میں مغربی رنگ میں رنگے ہونے کے باوجود اس جلوس میں ایک بھی عورت
دکھائی نہیں دی۔ یورپ ( یورپی یونین نہ سہی)کی سڑکوں پر فرزندانِ اسلام
کا اسلام کی بقاءاور تحفظ کے لیے ایسا تاریخی اجتماع اور مارچ کوئی
ایسامعمولی واقعہ نہیں کہ جسے نظر انداز کردیا جاتا۔ خطہ میں اسلام اور
مسلمانوں کو دبانے اور مٹانے کے لیے ہزار جتن کرنے کے باوجود موقع پاتے
ہی وہاں کے دینی اعتبار سے انتہائی خستہ حال مسلمانوں کا اپنے دین سے
وابستگی کے اظہار کے لیے سڑکوںپر نکل آنا صیہونیت کے پلوں کے لیے یقینا
لمحہ ¿ فکریہ رہا ہوگا۔تاہم عالمی میڈیا نے سہمے سہمے سے انداز میں اس
” حادثہ “ کو بہرحال کوریج دی ہے ۔
مظاہرین نے بینرزا ور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھاتھاکہ
”کمیونزم ختم ہوچکاہے ، ہماری ریاست کو ہمارے ہی خلاف استعمال نہ کرو“
ان کا کہناتھا کہ ہمارا احتجاج اس وقت تک وقتا فوقتا ہوتارہے گاجب تک
کہ یہ پابندی ہٹا نہیں لی جاتی۔یہاں ہم عالمِ اسلام کے کٹھ پتلی حکم
رانوںسے کوئی گلہ شکوہ نہیں کرنا چاہتے کہ انہیں کوسوو کی حکومت کے اس
غیر اسلامی اقدام پر اس پہ دباو ¿ ڈالنا چاہیے تھا اور کوسوو کے عوام
کی کوئی اخلاقی مدد کرنی چاہیے تھی ۔نہیں، کیونکہ وہ بے چارے ٹھہرے جو
مجبورِ محض اور کٹھ پتلی ! اسی طرح ہم عالمِ اسلام کے ”میڈیائی بازی
گروں“ سے بھی کچھ عرض نہیں کرنا چاہتے کہ انہیں اس واقعہ کو کوئی خصوصی
حیثیت دینی چاہئے تھی اور اپنے اپنے دائرہ میں رائے عامہ کو کوسوو
حکومت کے غیر اسلامی اقدام کے خلاف ہم وار کرکے کوسوو حکم رانوں پر
اپنے تئیں دباو ¿ ڈلوانا اور وہاں کے عوام کو اپنی ”اخوت اسلامی“ کا
احساس دلانا چاہئے تھا ۔ نہیں،کیونکہ ان کے اخبارات کی پیشانی پرلکھے
ہوئے آیات کے ترجموں اور الیکٹرونک میڈیا پر صبح صبح پروگرامز کے آغاز
میںلگائی جانے والی تلاوت ِ قرآن پاک سے ہم کسی غلط فہمی کا شکار نہیں
ہیں ۔ ویسے بھی ہم اپنے ان ”برادرانِ ملت “کی مجبوریوں کو سمجھتے ہیںکہ
ان کا ایک مخصوص ایجنڈا ہے جس پر وہ پوری تن دہی کے ساتھ عمل پیرا ہیں۔
انہیں دائیں بائیں کے مسائل میںالجھانامناسب نہیں۔البتہ عامة المسلمین
سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اور کچھ نہیں تو اپنی دعاو ¿ں میں ہی اپنے ان
بھائیوں کو یادرکھیں اورہاں! اس یقین کے ساتھ یاد رکھیں کہ اخلاص سے کی
گئی دعائیں کبھی بھی رائگاں نہیں جاتیں۔
|