|
 |
|
|
|
|
|
|
Telephone:- |
Email:-mabdullah_87@hotmail.com |
|
تاریخ اشاعت:۔26-03-2010
|
آزادی پہ تبرے
مت بھیجیں |
کالم۔۔۔-------------محمد
عبداللہ شارق |
گذشتہ دنوں میں ہمارے ہاں قتلِ عمد کے دو واقعات ایسے ہوئے ہیںجنہوں نے
پورے قومی منظر نامہ پر ہلچل مچادی ۔ نہ صرف قتل کی اِن دونوں وارداتوں
میں عوام نے خصوصی دلچسپی لی ،بلکہ کئی دن تک یہ دونوں خبریں بین
الاقوامی اخبارات میں بھی موضوع ِ بحث بنی رہیں۔ اِ ن دونوں واقعات کی
ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ان میں قتل کے مرتکب موقع پرہی گرفتار کرلیے
گئے ۔ ان میں سے ایک واقعہ گورنر تاثیر کے قتل کا ہے جس میں ممتاز
قادری کو آلہ ¿ قتل سمیت موقع ِواردات پر ہی گرفتار کرلیا گیا ۔ اس
واقعہ کے بعد عوامی خواہش یہ تھی کہ ممتاز قاری کو رہا کردیا جائے اور
”جوہوا،سوہوا“ کے مصداق اِ س واقعہ کو نظرانداز کردیا جائے کیونکہ اِ س
واقعہ کے پسِ منظر میں خود گورنر کے اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات کا بھی
عمل دخل تھا ۔ مگر عوامی خواہش کے برعکس حکومت کی طرف سے اس پورے کیس
کو ہی انڈرگراو ¿نڈ کردیا گیا۔ دوسرا واقعہ لاہور میں پیش آیا جس کا
مرکزی کردار مردود ریمنڈ ڈیوس تھا ۔ اسے بھی جائے قتل پر ہی گرفتار
کرلیا گیا ۔ اس کے بارہ میں عوامی جذبات یہ تھے کہ اسے پاکستان کے سب
سے مصروف ترین چوراہے پر برسرِ عام پھانسی دی جائے ،مگر عوامی غیظ وغضب
کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جس شایانِ شان پروٹوکول کے ساتھ اسے ”محبوس “
رکھ کر بالآخر رہا کردیا گیا ، وہ بھی ہمارے سامنے ہے ۔ عوام کے ووٹوں
سے منتخب ہوکر اقتدار میں آنے والے ”جمہوری ڈائنا ساروں“ نے اگر عوامی
جذبات کو یوں ہی کھلواڑ بنائے رکھا تو ان کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔
قاتل امریکی کو بچانے کے لیے دیت کے مقدس شرعی تصور کا سہارا لیا گیا ۔
حقیقت یہ ہے کہ دیت کے حکیمانہ اسلامی تصور سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
کسی بھی مقتول کے ورثاءکو یہ حق شریعت ِ مطہرہ نے دیا ہے کہ وہ قصاص کی
جگہ دیت اور خون بہا لے کر قاتل کو معاف کردیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں
تو شرعی نکتہ ¿ نظر سے ان کو بے غیرتی اور بے حمیتی کا طعنہ دینا بالکل
درست نہیں ، بلکہ یہ ان کو حاصل شرعی اختیار پر اعتراض اور نکتہ چینی
کے مترادف ہے جو اخروی اعتبار سے بہت خطرناک ہے ۔ ریمنڈ اور ا س کے
ساتھیوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے بے گناہ شہریوں کے ورثاءاگرواقعتا
اپنی رضا اور خوشی کے ساتھ ہی خون بہا لے کر قصاص کے مطالبہ سے دست
بردار ہوئے ہیں تو ان کے اِس طرزِ عمل کو تنقید اور جرح کا نشانہ نہیں
بنانا چاہئے ۔ اس تمہید کی ضرورت اِ س لیے پیش آئی کہ ہمارے ہاں بعض
لوگ اِن ورثاءکو ہی دشنام دے رہے ہیں اور ریمنڈ کی رہائی کی تمام تر
ذمہ داری انہی پر عائد کررہے ہیں ۔ حالانکہ اگر انہوں نے اپنی رضاو ¿
رغبت کے ساتھ ایسا کیابھی ہے تو اپنے شرعی دائرہ ¿ اختیار سے باہر کوئی
قدم نہیں اٹھایا....ورنہ قرائن وشواہد تو سرے سے اِس امر کی تائید ہی
نہیں کرتے کہ ورثاءاس کی رہائی کے لیے آمادہ تھے یا انہوں نے بغیر کسی
جبر واکراہ کے دیت کی صورت کو قبول کیا ہے ۔ بلکہ ان کی طرف سے تو کافی
پہلے بیان آچکے تھے کہ ہمیںصلح صفائی اور معافی تلافی کے لیے مجبور اور
ہراساں کیا جارہا ہے ۔نیز ریمنڈ کی رہائی کا ناگہانی فیصلہ آنے کے بعد
مقتولین کے ورثاءکے وکیل اسد منظو ربٹ نے بھی میڈیا کے سامنے یہی بیان
دیا کہ میرے مو ¿کلین کو مجبور کرکے دیت کے کاغذات پر دستخط کرائے گئے
،مگر یہ عجیب کیس ہے کہ جس میں ایک فریق کے وکیل کے اتنے اہم اور مضبوط
الزام کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی گئی اور ای سی ایل کی حساس لسٹ میں
شامل ملزم کو فوراَ سے پہلے ملکی سرحدوں سے نکال باہر کردیاگیا۔ہماری
اپنی عدالتی تاریخ میںمتعدد ایسی مثالیں ملتی ہیں جب عدالت کو شک ہوا
کہ مقتول کے ورثاءسے دیت کے کاغذات پر جبراً دستخط لیے گئے توعدالت نے
ان کاغذات کی بنیا پر کارروائی کو آگے بڑھانے سے روک دیا۔ فیڈرل شریعت
کورٹ کے سابق چیف حسٹس حاذق الخیری کے بقول 1980ءمیں شریعت کورٹ فل
بینچ نے یہ فیصلہ بھی دیا تھا کہ شرعی قانون کے مطابق مقتول کے ورثاءکو
ڈرا دھمکاکر یا لالچ دے کر دیت لینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، فیصلہ
کے مطابق عدالت ایسی دیت کو مسترد کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
نیز اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ مقتول کے ورثاءنے اس کیس میں بغیر کسی
جبرواکراہ کے محض دیت کی ترغیب دیے جانے پر اسے قبول یا ہے تو بھی اس
کو رہاکرنے کا کوئی جواز نہیںتھا کیونکہ وہ محض ایک قاتل یا لاہور
واقعہ کے متاثرین کا مجرم ہی نہیں تھا،اس کی ایک حیثیت قومی مجرم کی
بھی تھی کیونکہ وہ ناجائز اسلحہ لے کر کھلے عام دہشت گردی کرتا پھر رہا
تھانیز اس کے پاس بہت سے اہم ملکی رازبھی تھے جو وہ اپنے ساتھ لے گیا
ہے ۔ معاملہ کی اِس ساری پیچیدگی کو نظر انداز کرتے ہوئے ” دیت،دیت“کی
رٹ لگائے جانا اور طوفانی انداز میں اس کو اپنی حدودِ ریاست سے باہر
پہنچادینا ہمارے حکم رانوں کاہی کارنامہ ہے ۔
اب ہمارے دانش وروں کی طرف سے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری پر تبرے
بھیجے جارہے ہی۔ عوامی حلقوں میں بھی انتہائی مبالغہ آمیز باتیں
زوروشور سے جاری ہیں کہ پاکستان مکمل طور پر فروخت ہوچکا ہے ، اب اس کی
آزادی اور خودمختاری کے افسانے فرسودہ اور بے معنی ہوچکے ہیں، ہم
امریکا کی ایک طفیلی ریاست کے سواکچھ نہیں، یہاں کا سارا نظام امریکا
کے اشارہ ¿ ابرو پر چل رہا ہے وغیرہ وغیرہ....مبالغہ پر مبنی ان تبصروں
سے اتفاق کرلینا کسی حقیقت پسند انسان کے لیے ممکن نہیں۔ یہ درست ہے کہ
ریمنڈ کی رہائی کے لیے ہمارے حکم رانوں کا کردار انتہائی شرم ناک اور
افسوس ناک رہا ہے ۔یہ بھی صحیح ہے کہ پاکستان کی رولنگ کلاس شروع سے ہی
امریکا کی کاسہ لیس اور اجرتی غلام رہی ہے ۔ یہ بھی تسلیم ہے کہ ایٹمی
قوت ہونے کے باوجود پاکستان کے ریاستی اداروں نے پالیسیاں تشکیل دیتے
ہوئے انتہا ءدرجہ کی غلامانہ ذہنیت کا اظہار کیا ہے ۔ حالات کی خرابی ،
بلکہ تباہ حالی سے انکار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ انکار مقصود ہے ۔عرض
صرف یہ کیا جارہا ہے کہ بیمار ی جس درجہ اور لیول کی ہے ،اسے اسی سطح
پر ہی رہنے دیجئے ۔بڑھا چڑھاکر مت پیش کیجئے ۔ بسترِ علالت پر پڑے
انسان کو مردہ سمجھ کر نوحہ وماتم شروع کردینا کوئی عقل مندی کی بات
نہیں۔ پاکستا ن اس وقت مسائل اور مصائب کے یک مہیب گرداب میں پھنسا ہوا
ہے ، لیکن خدارا ، اس کو صرف گرداب کا شکارہی رہنے دیجئے ، پیش بینی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے قبل از وقت فاتحہ خوانی سے باز رہئے ۔ یقینا یہ تبصرے
سوزِ دل اور فکر مندی کے جذبات کے ساتھ کیے جاتے ہوں گے مگر جان لیجئے
کہ ان باتوں کا ایک سائیڈ ایفیکٹ بھی ہے جو استعماری قوتوں کے فیوچر
پلین کی رہ ہم وار کررہا ہے ۔ ریمنڈ کی رہائی، امریکا کی کامیابی اور
ہمار ی شکست ضرور ہے ،مگر اس کا یہ مطلب تراش لینا بھی درست نہیں کہ
پاکستان کے اپنے ادارے بالکل بے اختیار اور مفلوج ہوچکے ہیں۔ ہم کیا
سمجھتے ہیں کہ ہمار ے اِن افراط زدہ اور آگ بگولہ تبصروں سے حکم ران
گھبرا جائیں گے اور ڈر کے مارے ملک کے مفاد میں کوئی بڑا اٹھاڈالیں گے
؟ اگر یہی بات ہے تو اپنے حکم رانوں کے بارہ میں اس غلط فہمی میں مبتلا
ہونے پر ہمیں کسی سائیکالوجسٹ سے رابطہ کرنا چاہئے ۔اگر پاکستان عراق
وافغانستان طرز کی کوئی ریاست ہوتاجیساکہ ہمارے نیک دل دوست سوچ رہے
ہیں تو ریمنڈ کے خلاف سرے سے یہاں مقدمہ ہی درج نہ ہوتا ، اس کو اتنے
عرصہ تک محصور نہ رکھا جاسکتا اور نہ ہی اسے ایک پاکستانی عدالت کی
اتنی پیشیاں بھگتانا پڑتیں۔ طفیلی ریاستوںمیںوہ کچھ نہیں ہوتا حو
پاکستان میں ریمنڈ کے ساتھ ہوا ہے۔اپنی ان باتوں کے ساتھ شاید ہم پیشگی
ہی اپنے آپ کو پاکستان کے کھنڈر بننے اور خدانخواستہ عراق وافغانستان
جیسی صورتِ حال سے دوچار ہونے کے لیے ذہنی طور پر تیار کررہے ہیںاور
گویا دنیا کو بتلارہے ہیںکہ پاکستان فروخت ہوچکا، مگر ہم صرف زبانی
احتجاج تک محدود ہیں ۔اس کی آزادی اور خومختاری کے سودے ہوچکے ،مگر ہم
دو انچ کی زبان چلانے سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ پارہے۔ اِن باتوں کو
معمول بناکرکرنا اور سننا بالواسطہ طور پر ہمیںخود غرض اور اجتماعی
مفادات کے لیے سردھڑ کی بازی لگانے کے جذبہ سے عاری کررہا ہے کیونکہ ہم
اپنے ہی بقول سب کچھ لٹاکر بھی اپنے اپنے مشاغل میں مست ہیں۔ خاکم بدہن
، اگر مستقبل میں دنیا بھر کا طاغوت متحد ہوکر واقعتا ہمارا سب کچھ
لوٹنے کے لیے آجاتا ہے تو کیا ہم اپنے گھر، خاندان،یارانے اور مال
ودولت کو اعلی مقاصد کے لیے قربان کرنے کی ہمت کرسکیں گے ؟معمول سے کی
جانے والی اِن باتوں کو معمولی سمجھ کر ان کے مضرنفسیاتی اثرات سے غافل
رہنا بہت بڑی غلطی ہوکا ۔ پاک وطن کل بھی آزاد تھا اور آج بھی آزاد ہے
۔ اک ذراسی دیر ہے روشن صبح کے طلوع ہونے میںجب بے غیرت اور ضمیر فروش
حکم رانوں کے چنگل سے یہ بھی آزاد ہوجائے گا(ان شاءاللہ)۔قوم کے فکر ی
قائدین پر فرض ہے کہ امید کی شمع جلائے رکھیں ۔ اپنی قوم کوحقیقت پسند
بنائیں اور اسلام کی سربلندی کے لیے سب کچھ قربان کرنے جذبہ کو ان میں
مہمیز دیں۔ یہی کامیابی کا راستہ ہے ۔ |
 |
 |
 |
 |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
 |
E-mail:
Jawwab@gmail.com |
|
|
|