|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
 |
Telephone:- |
Email:-najeemshah@yahoo.com |
کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر
جانے کے لیے کلک
کریں |
|
تاریخ اشاعت:۔25-10-2010 |
حکمرانوں
کی شاہ خرچیوں پر انجلینا جولی کا شکوہ |
تحریر: نجیم شاہ |
آسکر ایوارڈ یافتہ ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا
جولی حالیہ دنوں سیلاب زدگان کی مدد کیلئے
پاکستان آئیں۔اپنی آمد سے قبل وہ اقوام متحدہ
کی خیرسگالی سفیر کے طور پر ہر پلیٹ فارم سے
پاکستان کیلئے امداد کی درخواست کرتی رہیں
لیکن آمد کے بعد وہ اقوام متحدہ میں اپنی
رپورٹ پیش کرتی ہیں کہ پاکستان کو امداد دینے
سے قبل اس کی حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنے
پر مجبور کیا جائے۔ اپنی پاکستان آمد کے موقع
پر انجلینا جھولی سیلاب متاثرین کی مدد کرتی
رہیں لیکن اس دوران اعلیٰ حکومتی عہدیدار
سیلاب متاثرین کو امداد پہنچانے کے بجائے
اداکارہ سے ملاقات کرنے، ان کی ایک جھلک
دیکھنے اور خوشامد کیلئے بے تاب رہے۔ اداکارہ
کو اس وقت شدید حیرت اور صدمے کا سامنا کرنا
پڑا جب وزیراعظم اور اُن کے خاندان نے ملاقات
کی خواہش ظاہر کی جبکہ دوسری طرف وزیر مملکت
برائے خارجہ امور نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے
نہ صرف انجلینا جولی سے مصافحہ کیا بلکہ اپنی
وزارت کا تعارفی کارڈ بھی اُسے تھما دیا۔ یہ
الگ بات ہے کہ انجلینا جھولی وہ کارڈ ساتھ لے
جانے کے بجائے وزیراعظم ہاﺅس کے صوفے پر ہی
چھوڑ گئیں جسے بعد میں عملہ صفائی نے اُٹھا کر
پروٹوکول افسر ان کے حوالے کر دیا تھا۔۔۔
انجلینا جولی سے ملاقات کیلئے وزیراعظم کا
خاندان طیارے کے ذریعے ملتان سے اسلام آباد
پہنچا اور ڈائننگ ٹیبل انواع و اقسام کے
کھانوں سے بھر دی گئی۔ اِن کھانوں سے نہ صرف
سینکڑوں بھوکے سیلاب زدگان کا پیٹ بھرا جا
سکتا تھا بلکہ وزیراعظم کا خاندان صرف ملاقات
کی غرض سے طیارے کے ذریعے اسلام آباد پہنچا
اُس رقم سے سینکڑوں متاثرین کو دو وقت کی روٹی
میسر آ سکتی تھی۔ روٹی ، کپڑا اور مکان کا
نعرہ پیپلز پارٹی کا ہی ہے جبکہ اسی پارٹی کے
حکمرا ن شاہ خرچیوں میں مصروف عمل ہیں۔۔۔
اداکارہ انجلینا جولی نے وزیراعظم ہاﺅس کے
پرتعیش ماحول، چارٹرز طیاروں کو دیکھ کر بھی
افسوس کا اظہار کیا اور اقوام متحدہ کو دی گئی
اپنی رپورٹ میں سفارش کی کہ پاکستان کو امداد
دینے سے قبل اس کی حکومت کو اپنے اخراجات کم
کرنے پر مجبور کیا جائے ۔ اقوام متحدہ کو دی
گئی اپنی رپورٹ میں انجلینا جولی حیرت کا
اظہار کر تی ہیں کہ ایک طرف ملک میں بھوک و
افلاس ہے جبکہ دوسری طرف وزیراعظم ہاﺅس اور
کئی دیگر سرکاری عمارتوں کی شان و شوکت اور
حکمرانوں کی شاہ خرچیاں ہیں۔ پاکستان ایک
مسلمان ملک ہے اور اسلام ہمیں سادگی اختیار
کرنے کا درس دیتا ہے۔ لیکن کتنے افسوس کا مقام
ہے کہ مسلمان ملک کے حکمرانوں کو ایک غیر مسلم
خاتون سادگی اختیار کرنے اور اخراجات کم کرنے
کا مشورہ دیتی ہیں۔ حاکموں کے لئے مجھے گاندھی
جی کا ایک قول یاد آ گیا ۔ 1937ءمیں جب
ہندوستان میں کانگریس کی حکومت بنی تو گاندھی
نے اپنے وزیروں کو سادگی کی زندگی گزارنے کا
مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ”میں رام چندر اور
کرشن کا حوالہ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ تاریخی
ہستیاں نہیں تھیں۔ میں مجبور ہوں کہ سادگی کی
مثال کیلئے ابوبکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ کے
نام پیش کرتا ہوں۔ یہ دونوں ہستیاں بہت بڑی
سلطنت کی حاکم تھیں لیکن پھر بھی انہوں نے
فقیروں والی زندگی گزاری۔“ مسٹر گاندھی کی
مثال اس لئے دی جاتی ہے کہ ہمارے مسلمان
حکمران جنہیں اپنے مذہب کی وجہ سے زیادہ سادگی
اختیار کرنی چاہئے تھی وہ اُلٹا فضول خرچ ثابت
ہوئے ہیں۔ گاندھی جی کا یہ ایک ایسا قول ہے کہ
جو ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے
حکمرانوں کیلئے آئینہ ہے۔ اس چھوٹے سے پیرے کے
ذریعے گاندھی نے ہندوﺅں کا قبلہ درست کرکے
دکھا دیا ہے۔ گاندھی ایک متعصب ہندو تھے مگر
سادگی کی تعلیم دینے کیلئے ان کو رام چندر اور
کرشن کو نظرانداز کرکے عمرؓ اور ابوبکرؓ کی
سادگی کا حوالہ دینا پڑا اور انہیں تاریخی
ہستیاں ماننا پڑا۔حضرت عمر فاروقؓ کا یہ قول
کہ ”اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی
بھوکا مر جائے تو میں ذمہ دار ہوں“ کیا آج کا
حکمران ایسا دعویٰ کر سکتا ہے؟ یہ سادگی کی
عظیم مثال ہی ہے کہ حضرت عمرؓ نے خلیفہ بننے
سے پہلے کبھی پیوند لگے کپڑے نہیں پہنے تھے
مگر جب وہ حکمران بنے تو اُن کے لباس میں
پیوند نمایاں نظر آتے تھے۔ یہی حال ابوبکر
صدیقؓ ، عثمان غنیؓ اور علی المرتضیٰؓ کا بھی
تھا۔ صدر آصف زرداری اور وزیراعظم گیلانی بھی
تو مسلمانوں کے حکمران ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ اور
حضرت عمرؓ کے جانشین ہیں۔ وہ سادگی کیوں نہیں
اپناتے؟ حکمرانوں کے شاہانہ اخراجات سے معیشت
متاثر ہو رہی ہے۔ اس وقت ملک میں 45کے قریب
وزراءہیں جبکہ مشیر اور وزیر مملکت ملا کر یہ
80سے تجاوز کر گئے ہیں ۔جن کا بوجھ عوام
برداشت کر رہے ہیں اور معیشت پر منفی اثرات پڑ
رہے ہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں دنیا کے کئی
دیگر ممالک ٹینشن فری ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز
نہیں کہ وہاں دودھ کی نہریں بہتی ہیں بلکہ
حکمران مسائل پر قابو پانے کیلئے دن رات کام
کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں مسائل ختم ہونے کے
بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔اس وقت ملک میں
1400سرکاری محکمے 5لاکھ 20ہزار دفاتر موجود
ہیں جن میں ایک کروڑ دس لاکھ سرکاری ملازمین
ہیں لیکن اُن سے کام لینے والا کوئی نہیں ہے۔
عوام نے اپنے ووٹوں کے ذریعے نمائندوں کو قومی
اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں بھیجا جبکہ ایک
ایم این اے کا سالانہ خرچہ تقریباً 35لاکھ
روپے ہے۔ ایوان صدر کا روزانہ کا خرچہ 10لاکھ
71ہزار اور وزیراعظم ہاﺅس کا 11لاکھ 73ہزار ہے۔
100سے زائد وزراءاور معاونین کے اخراجات اس کے
علاوہ ہیں جو ایک ارب کے لگ بھگ ماہانہ ہیں۔
صوبائی وزراءکی فوج، چار وزیراعلیٰ، چار گورنر
اور سینٹ کے 100ممبران الگ ہیں۔ ان سب کے
اخراجات عوام اس لئے برداشت کرتے ہیں کہ ان کے
مسائل حل ہوںلیکن اسمبلیوں میں بیٹھے یہ
نمائندے مسائل حل کرنے کی بجائے عوام کو ہی
بیوقوف بنا رہے ہیں۔ صدر اور وزیراعظم کے غیر
ملکی دوروں پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ ہو رہے
ہیں۔ صرف پچھلے سال وزیراعظم کے غیر ملکی
دوروں پر ایک ارب 21کروڑ 33لاکھ 76ہزار روپے
خرچ ہوئے تھے۔ عوام کے منتخب نمائندے مسائل پر
قابو پانے کی بجائے اپنی صفائیاں پیش کرنے میں
ہی تین سال گزار گئے ہیں ۔ اگر کہا جائے کہ آپ
روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر آپ ووٹ
مانگنے آئے تھے چلیں اب خوشی کے اس موقع پر
روٹی، کپڑا اور مکان ہی فراہم کر دیں تو کہتے
ہیں کہ” زرمبادلہ صرف دو ہفتے کا رہ گیا ہے۔
قومی خزانے سے صرف حکومت کا خرچہ پورا نہیں ہو
رہااور اوپر سے عوام نے ہمیں ووٹ دیکر حکومت
ہمارے سر ڈال کر ہمیں پھنسا دیا ہے۔ہم تو خود
عوامی حکمرانوں کا خرچہ پورا کرنے کے لئے آئی
ایم ایف سے بھیک مانگ رہے ہیں۔“ آج عوام چینی،
آٹا، گھی کیلئے لائن میں کھڑی نظر آتی ہے ۔
شکر ہے آئی ایم ایف نے ہمیں اتنی عزت تو دی ہے
کہ قطار میں سب سے آگے کھڑا کر دیا۔
|
|
|
|
|
|
|
 |
 |
|
 |
|
 |
|
|
© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved |
Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved
|