اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
 
Email:-

tariq@albahar.ae

 
 
 
 
 
 
 
 
 
تاریخ اشاعت:۔30-06-2010

پیا ر کی فصل

کالم۔۔۔ طا رق حسین بٹ


لو گو ں کے بدلتے مزا جو ں کی نسبت سے قدرت نے مو سمو ں کو تخلیق کر رکھا ہے ۔چارممکنہ مو سمو ں سے انسا نی نفسیات کو سمجھنے میںبڑی مدد ملتی ہے۔مو سمِ بہار میں درخت سبز رنگ کا لباس زیب تن کر لیتے ہیں۔ رنگ بر نگے پھول دھرتی کے حسن کو چار چا ند لگا دیتے ہیں ۔ ہر سو ترو ہ تا زگی ا ور خو شیو ں کا رنگ ہر شہ کوا پنی لپیٹ میں لے لیتا ہے جس سے انسانی زندگی میں روما نوی رنگ بڑ ا نما یا ں ہو جا تا ہے۔ جذبو ں کی ترنگ زند گی میں امیدو ں کی دنیا آباد کر دیتی ہے ایسے لگتا ہے جیسے کا ئنات محوِ رقص ہو۔ مو سمِ خزاں ما یو سی کی علا مت اور استعا رہ بن کر سا منے آتا ہے۔مو سمِ سرما قر بتو ں اور وصل کے جذ بو ں کو جلا بخشتا ہے۔مو سمِ گرما مزا ج میں تندی اور اکتاہت کا احساس اجا گر کر تا ہے۔موسمو ں کے بدلنے میںقدرت نے جو لطف رکھا ہے وہ بیان سے با ہر ہے ۔ مو سمو ں کے تغیرات سے انسا نی ذات پر مرتب ہو نے وا لے اثرات ایک حقیقت ہیں لیکن میں انسا نی ذات پر ہجر کی جس ابدی اور ہمہ گیر کیفیت کا ذکر کر نے لگا ہو ں وہ موسمو ں کے اثرات سے ما ورا اور بلند ہے تبھی تو علا مہ اقبال نے یہ نغمہ گل و لا لہ کا نہیں پا بند کا راگ الاپا تھا۔
جدا ئی کی تڑپ اور کسک مو سمو ں کی خو بصورتی سے کم ہو نے کی بجا ئے شدید تر ہو جا تی ہے۔خو بصو رت نظارے انسان کی روح میں ایک بھو نچا ل پیدا کر دیتے ہیں جو اسے ان لمحو ں کی جانب کشا ں کشاں لئے جا تے ہیں جب آتش جوا ں ہوا کرتا ہے ۔ سچ تو یہ ہے جدا ئی کے درد کو خو شنما منا ظر ،رنگین نظا رو ں اور رنگ بر نگے پھو لو ں سے کم نہیں کیا جا سکتا ۔ انسا ن دا خلی احسا سات کی جن کیفیتو ں کا اسیر ہو جا تا ہے دھرتی کا سا را حسن بھی اسکو ان احسا سات سے نجا ت نہیں دلا سکتا اور اگر میں یہ کہو ں کہ حسین نظا رے کبھی کبھی درد کو سوا کر نے اور مز ید گہرا کر نے کا با عث بنتے ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ ۔۔
میری ساری تمہیدی گفتگو کا مقصد اس کیفیت کوبیا ن کرنا ہے جو پاکستان ا یمبیسی کے ہر دل عزیز کو نسلر سید فیصل نیاز تر مذی کی ابو ظبی سے ر وا نگی کی وجہ سے پا کستانی کمیو نٹی محسوس کر رہی ہے مجھے فیصل صاحب کے سا تھ تقریبا دو سال کام کر نے کا مو قع ملااور میں نے ان دو سا لو ں میں فیصل صا حب کو انتہا ئی با ا صول محنتی، ذمہ دار اور کام سے محبت کر نے وا لی شخصیت پا یا ۔ فیصل صا حب سے میرے مرا سم بہت ا چھے تھے کو ئی ایسی تجو یز جس سے سکو ل کے ما حو ل، ایجو کیشن اور انتظا میہ پر اسکے مثبت اثرا ت مر تب ہو تے ہوں فیصل صا حب اسے فو راّ تسلیم کر لیتے تھے مجھے یا د نہیں پڑتا کہ میں نے کو ئی ایسی تجو یز دی ہو جسے فیصل صا حب نے در خو رِ اعتنا نہ سمجھا ہووہ میری ہر تجو یز کو پذ یرا ئی بھی بخشتے تھے،میری حو صلہ افزا ئی بھی فرما تے تھے اور اسپر عمل در آمد کو یقینی بھی بنا تے تھے۔ وہ میرے مشورے کو انتہا ئی قیمتی تصور کرتے تھے اور اسے بڑی اہمیت دیتے تھے ۔بو رڈ کی تشکیل کے ابتدا ئی دنو ں میںسکول انتظا میہ میں بڑے پیما نے پر جو ردو بدل ہو ا اسمیں میری را ئے کو بڑ ی اہمیت دی گئی۔ فیصل صاحب نے سفیر پاکستان خو ر شید احمد جو نیجو کی را ہنما ئی میں شیخ خلیفہ بن زا ئد عرب پاکستانی سکول کی حا لتِ زار کو بہتر بنا نے میں کلیدی کرادر ادا کیا۔ سکول پچھلے کئی سا لو ں سے خسا ر ے میں جا رہا تھا لیکن سفیرِ پاکستان خو ر شید احمد جو نیجو کی را ہنما ئی، ریاض حسین بخار ی کی دور اندیشی، سکول پر نسپل کی انتظا می صلاحیت، بورڈ ممبران کی عرق ریزی اور سید فیصل نیاز تر مذی کی انتھک محنت نے پاکستانی سکول کو منا فع بخش ادارے میں تبدیل کر دیاہے جس پر سب دادو تحسین کے مستحق ہیں ۔۔
محبتیں با نٹنا، دوسروں کا احترام کرنا،کمیو ننٹی کے مسا ئل بر ق رفتا ری اور دیانتداری سے حل کرنا یہی ہیں وہ خصا ئص ہیں جنکی بنا پر کمیو نٹی فیصل صا حب کو عزت سے نوا زتی تھی او رانھیں انتہا ئی قدر کی نگا ہ سے د یکھتی تھی ۔ فیصل نیاز تر مذی نے اپنی انتھک محنت اور لگن سے پاکستانی کمیو نٹی میں جو مقا م حا صل کیا ہے اور کام کا جو ایک اعلی اور بلند معیار قا ئم کیا ہے کیا آنے وا لا کو نسلر اس معیار کو حا صل کر سکے گا کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے لیکن ایک با ت بہر حا ل طے ہے کہ سید فیصل نیاز تر مذی کی محبت اور انکی خد مات پر کمیو نٹی کے ہر فرد کا دل ان کےلئے سدا دھڑکتا رہےگا اور انکی اعلی خد ما ت کے صلے میں انھیں خرا جِ تحسین پیش کرتا رہےگا۔۔
سید فیصل نیاز تر مذی سے میر ے قرب کا سبب تر مذی خا ندان کی علمی وجا ہت ہے۔ ہوا یو ں کہ اسی سال ۳۲ مارچ کو پاکستان ایمبیسی میں یو مِ پاکستان کی تقریب منعقد ہو ئی جسکی میں نے ر پو رٹ تیار کر کے پر یس کو جا ری کر دی۔خوش قسمتی سے یہ ر پو رٹ ڈ ا کٹر مقصود جعفر ی کی نظر سے گزری جو مو جو دہ دور کے عظیم ادیب شا عر اور فلا سفر ہی نہیں بلکہ اردو فا رسی اور انگلش میں ۵۲ کتا بو ں کے مصنف بھی ہیں۔ انھو ں نے ر پو رٹ میںسید فیصل نیاز تر مذی کا نا م پڑھ کر مجھ سے استفسار کیا کہ کیا سید فیصل نیاز تر مذی کا تعلق سید نیاز احمد ترمذی سے ہے جو اپنے وقت کے بہت بڑے عا لم تھے اور میرے استاد ِ محترم تھے۔ میں نے فیصل صا حب سے اس با ت کا ذکر کیا تو پتہ چلا کہ سید نیاز احمد ترمذی فیصل صا حب کے دادا تھے اور اپنے وقت کی بہت بڑی علمی اور ادبی شخصیت تھے۔وہ بہت سی کتا بو ں کے مصنف بھی تھے۔ ایک نامور استاد اور مھقق تھے اور علمی و ادبی حلقو ں میں ان کا بڑا مقام تھا۔ سید نیاز ا حمد ترمذی جنگِ ِ آزا دی کے بہت بڑے سپا ہی بھی تھے انھیں قا ئدِ اعظم محمد علی جناح کو قریب سے دیکھنے اور انکی قیا دت میں آزا دی کی جنگ لڑنے کا اعزاز بھی حا صل تھا۔ ۳۲ مارچ ۰۴۹۱ کو منٹو پار ک لاہور کے تاریخی اجلاس میں اپنے بیٹے سید مستنیر احمد ترمذی کے سا تھ جلسہ گاہ میں مو جود تھے۔ آزا دی کی وہی تڑپ وہی للکار جو سید نیاز احمد تر مذی کی ذات کا جزوِ لا ینفک تھی سید فیصل نیاز تر مذی کی ذا ت میں پو ری تو ا نا ئیو ں کے ساتھ دیکھی اور محسو س کی جا سکتی ہے۔وطن کی حرمت اور اسکی سا لمیت پر قربان ہو جانا سید فیصل نیاز تر مذی کو اپنے عظیم دادا سے ورثے میں ملا ہے اور وطن کی حر مت پر کٹ مرنے کی اسکی اسی ادا نے مجھے سید فیصل نیاز تر مذی کا اسیر کر رکھا ہے اگر میں یہ کہو ں کہ سید فیصل نیاز تر مذی اپنے دادا کے نظر یا ت و خیا لات کی صدا ئے با ز گشت ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔
سنگلاخ زمینو ں کے اندر پیا ر کی اس نے فصل اگا ئی۔۔دعرتی ما ں کی حر مت پر مر مٹنے کی را ہ دکھا ئی
فخر ہے وہ ناز ہے وہ اور ہم سب کی پہچان ہے وہ۔۔ راہِ وفا میںخونِ جگر سے انمٹ اک تصویر بنا ئی (طارق حسین بٹ شان)
حسنِ سلوک انسان کی فطرت میں دد یعت کر دیا گیا ہے انسا ن دوسرے انسا نو ں کو پیار کی دو لت سے نوا زنا چا ہتا ہے تا کہ تخلیقِ انسا ن کے اعلی و ارفع مقا صد کی تکمیل کی جا سکے کیا ایسا کرتے وقت ہما رے اذہان میں کہیںیہ ہو تا کہ ہما رے رویے آنے وا لے زما نو ں میں لو گو ں میں ہما رے با رے میں ایک را ئے اور تا ثر قا ئم کر نے میں کلیدی کردار ادا کرینگے اور بہت سے لو گو ں کو ایک دوسرے کے قریب تر لا نے میں ممدو معا ون بنیں گے۔کہا ں ۸۵۹۱ کے ایا م اور کہا ں ۰۱۰۲ کا سال لیکن وہ حسنِ سلو ک، محبت، اور شفتقت جو سید نیاز احمد تر مذی نے اپنے طلبا کے ساتھ روا رکھی تھی اسکی رو شنی آج بھی بہت سے دلوں کو جو ڑنے میں ایک ان دیکھی قو ت کا کردار ادا کر رہی ہے۔ محبت اور عقیدت انسا نو ں میں نسل در نسل منتقل ہو تی رہتی ہے اگر ایسا نہ ہو تاتو نوا سہِ رسول حضرت امام حسین کی محبت میں لوگ اپنی گر دنیں نہ کٹو اتے اور اپنے لہو سے سید ا لشہدا کی محبت کو غیر فا نی نہ بنا تے یہ تو سر کا رِ دو عا لم حضرت محمد مصطفے ﷺ کی محبت ہے جو امامِ عا لی مقام کی محبت میں بو ل رہی ہے لہذا جسکو سید ا لا نبیا ﷺ سے محبت ہو گی اسے حضرت امام حسین سے بھی محبت ہو گی کہ محبت کی یہی ایک رسم ہے جسے سدا زندہ رہنا ہے ۔ذ و لفقار علی بھٹو کی محبت محترمہ بے نظیر بھٹو میں منتقل ہو جا تی ہے تو وہ محبت بی بی کو پاکستان کی محبو ب ترین را ہنما اور چا رو ں صو بو ں کی زنجیر بنا دیتی ہے۔وگرنہ اس مسند سے سرفراز ہو نا جو ئے شیر لا نے کے مترا دف تھا۔ محبت نا ممکن کار نا مے پلک جھپکنے میں سر انجام دے د یتی ہے اور یوں جذبہِ محبت کی عظمت ، گہرا ئی اور آفا قیت پر مہرِ تصدیق ثبت کر دیتی ہے۔

 

 
 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team