اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

تاریخ اشاعت:۔03-08-2011

مانو‘ محنت اور انعام
(محمد یحییٰ‘ لاہور)

ایک تھی مانو بلی‘ جو کسی کی چہیتی یا لاڈلی نہ تھی۔ اس نے شہر کے ایک کباڑخانے میں آنکھ کھولی اور پھر اپنی ماں اور دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ مختلف جگہوں کی تبدیلی کے بعد ایک قصاب کی دکان کے پاس گندے نالے پر رہنے لگی۔
وہ ذرا بڑی ہوئی تو ایک دن اس کی بہن رانو بلی کو ایک بہت پیاری سی بچی ایک بڑی سی گاڑی میں بٹھا کر لے گئی اور اس کا بھائی شانی بلا ایک خوں خوار کتے کے ہاتھوں دنیا سے رخصت ہوگیا۔
وہ ذرا بڑی ہوئی تو اس کی ماں اسے چھوڑ کر چلی گئی۔
مانو بلی کئی بار اپنی ماں کے پاس گئی کہ شاید اسے پہچان لے لیکن وہ اسے ہمیشہ اجنبی بن کر ملتی اور مار پیٹ کر بھگا دیتی۔
مانو بلی نے بھی آہستہ آہستہ اپنی ماں کو بھلا دیا اور یوں ہی گلیوں میں آوارہ پھرنے لگی۔
ایک دن اچانک اس نے اپنی بہن رانو بلی کو دیکھا جو ایک بہت بڑے سے لان میں گھاس پر بیٹھی دودھ پی رہی تھی۔ مانو بلی فوراً آگے بڑھی اور اسے پکارا لیکن اس نے بھی بہن کو پہچاننے سے انکار کردیا اور اسے اپنے گھر سے نکال دیا۔
مانو بلی کا دل ٹوٹ گیا۔ وہ باہر نکلی تو ایک نہایت گندے بچے نے نشانہ لے کر ایک پتھر اسے دے مارا۔ پتھر اس کی ٹانگ پر لگا اور وہ لنگڑا کرگر پڑی۔ بچے کے ساتھی اس کے اس سنہری کارنامے پر قہقہے لگانے لگے۔ مانو بلی بڑی مشکل سے اٹھی اور اپنی زخمی ٹانگ کے ساتھ بھاگ کھڑی ہوئی کہ کہیں باقی بچے بھی پتھر لے کر اس پر اپنا نشانہ نہ آزمانے لگیں۔
اسے انسانوں پر غصہ آنے لگا کہ وہ کس دیدہ دلیری سے ہم جیسے معصوم جانوروں پر ظلم کرتے ہیں اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔
وہ اپنی زخمی ٹانگ کے ساتھ ایک گھر میں داخل ہوئی تو وہاں ایک مہربان بچے سے اس کا واسطہ پڑا۔
بچے کو اس کی حالت پر بہت ترس آیا۔ کچھ دیر بعد وہ اس کیلئے ایک پیالے میں دودھ لے آیا۔
مانو بلی پہلے تو جھجکی اسے بھوک بھی زوروں کی لگی ہوئی تھی۔
اس نے بچے کی طرف دیکھا جو دور جاکھڑا ہوا تھا۔ مانو بلی نے تھوڑا سا دودھ پیا تو اس کی بھوک اور زیادہ جاگ اٹھی۔ اس نے جلد ہی سارا دودھ پی لیا اور لیٹ گئی۔
بچہ اسے پچکارتا ہوا آگے بڑھا اور بڑے مہربان ہاتھوں سے اس کی زخمی ٹانگ ٹٹولی۔
پھر وہ اندر چلا گیا تو مانو بلی نے بھاگنے کا سوچا مگر اپنے اس نئے مہربان دوست کو چھوڑنے کو اس کا جی نہ چاہا۔
آخر بچہ آیا تو اس کے ہاتھ میں مرہم پٹی تھی۔ مرہم پٹی ہونے کے بعد مانو بلی کو کچھ سکون ہوا تو وہ سو گئی۔
اگلے دن بچہ اسے اپنے گھر کے اندر لے گیا۔ اس کے والدین بھی مانو بلی کو مہربان اور اچھے معلوم ہوئے۔ چنانچہ جلد ہی وہ اس گھر میں گھر کے ایک فرد کی طرح رہنے لگی۔
مہربان بچہ اسے لے کر باہر جاتا اس کیلئے اس کی پسندیدہ غذائیں لاتا۔ اسے صاف ستھرا رکھتا۔
مانو بلی کا دل وہاں لگ گیا۔ ان سب کی مہربانیوں کی صلہ اس نے یہ دیا کہ اس گھر میں سے تمام چوہوں کو گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
لال بیگ اور دوسرے کیڑے مکوڑے بھی اس نے ختم کرڈالے جب وہ آئی تھی چوہوں کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ ان کا کوئی حربہ کامیاب نہ ہوتا۔ مانو بلی جھٹ انہیں پکڑلیتی اور کھاجاتی۔
اچھا کھانا‘ آرام اور سب کی توجہ ملنے لگی تو مانو بلی آہستہ آہستہ کام چور ہونے لگی۔ کھاپی کر وہ سارا دن اور رات سوتی رہتی۔ اکثر چوری چھپے دودھ بھی پی لیتی۔ کبھی دوسری چیزیں بھی چپکے سے ہڑپ کرجاتی۔ زیادہ کھانے کی وجہ سے مانو بہت موٹی ہوگئی چلنا پھرنا اس کیلئے دوبھر ہوگیا۔
ایک روز چوہوں نے باورچی خانے پر ہلا بولا تو مانو بلی ان کے پیچھے دوڑی مگر جلد ہی تھک گئی۔
چوہے بھی مانو بلی کی کمزوری جان گئے تھے۔ وہ ہر روز ادھر ادھر پھرتے اور مانو بلی انہیں پکڑنہ پاتی‘ کیونکہ وہ بہت موٹی ہوگئی تھی۔ دوڑنے سے اس کا سانس پھول جاتا اور تھک جاتی۔
ایک دن اس نے گھر والوں کو کہتے سنا کہ مانو بلی کو واپس چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ یہ کسی کام کی نہیں رہی۔ اتنا سن کر اس کے ہوش اڑ گئے اسے اپنی آوارہ گردی اور غریبی کے دن یاد آگئے۔ اسے انسانوں کی خودغرضی پر غصہ آیا‘ لیکن قصور اس کا اپنا بھی تھا۔
چنانچہ اگلے دن سے اس نے زیادہ کھانا پینا چھوڑ دیا اور باقاعدگی سے روزانہ دوڑنا بھاگنا‘ ورزش کرنا شروع کردی۔
سستی کاہلی چھوڑ کر کام کو اپنا لیا اور پھر جلد ہی وہ دوبارہ چوہوں کیلئے خطرے کا نشان اور گھر والوں کی آنکھ کا تارا بن گئی۔
 

اگلا صفحہ      پچھلا صفحہ

 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved