اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
 

 

 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-mabdullah_87@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔02-04-2011

احتجاج ہی ہمارا مقدر ہے ؟

کالم۔۔۔-------------محمد عبداللہ شارق

خدارا اپنے اوپر رحم کھائیں،اس امت بے چاری کے حال پر کچھ رحم کریں۔ نئی پودکی نئی امنگوں کا واسطہ ، انہی کی صلاحیتوں اور حوانیوں پر ہی کچھ ترس کھالیں۔ ہم کب تک یوں ہی بے سمت اور بے مقصد چکراتے اور بھٹکتے رہیں گے ؟ہمیں کب یقین آئے گاکہ جلسوں اور جلوسوں سے ،نعرے لگا نے اور پتلے جلانے سے کچھ ہونے والا نہیں؟ان سے جذبات کی صرف وقتی تسکین اور تشفی ہی ہوسکتی ہے اور بس! قرآنِ کریم جلانے کی حرکت کوئی نئی بات نہیں ۔ اسلامی شعائر کی توہین اور تضحیک اب مغرب میں معمول کا حصہ ہے ۔ اب ہمیں اپنے طرزِ عمل پر نظرِ ثانی کرہی لینی چاہئے ۔ مغرب اور دشمنان ِ اسلام کی خلاف نکالے گئے جلسے جلوسوں سے کیا پہلے کبھی ان کو کوئی نقصان پہنچا ہے یا کسی کو کوئی نکیل پڑی ہے ؟ایک ہزار ایک طریقے ایسے ہیں جن کے ساتھ واقعہ میں ملوث ممالک کو ٹف ٹائم دیا جاسکتا تھا مگر ان طریقوں سے استفادہ کے لیے قبلہ کے تعین اورڈ ائریکشن کی درستگی درکار ہے جو بدقسمتی سے ہمارے ہاں دستیاب نہیں۔ دنیا کے کسی گم نام گوشہ میں بیٹھا دو ٹکے کا انسان ایک ذراسی تیلی لگا کر ڈیڑھ سو کروڑ انسانوں کے جذبات کو بھڑکاتا ہے اور دنیا کا ٹاپ پاپولر انسان بن جاتا ہے۔ خلوص سے کئے گئے ہمارے شور شرابے سے ہمیںتو کوئی فائدہ پہنچتا نہیں ، البتہ واقعہ میں ملوث بدبخت شہرت کے بلند ترین افق پر پہنچ جاتا ہے ۔ شہرت اور نام بنانے کا سب سے آسان اور سستا ترین طریقہ اِس وقت دنیامیںیہی ہے کہ کسی نئے اور منفرد انداز میں اسلام کے خلاف زبان درازی کی جائے اور اسلامی مقدسات کی توہین کردی جائے ۔ سلمان رشدی سے لے کر ٹیری جونز تک سبھی بدنصیبوں کامنتہائے نظر وہی کچھ تھا جو ہماری ہی نادانستہ محنت کے ثمر کے طور پر ان کو حاصل ہو چکا ہے ۔نیز دشمنانِ اسلام ایسی حرکتوں کے ساتھ ہماری بے بسی کا جو تماشہ دیکھنا چاہتے ہیں ، بے سلیقہ اشتعال اور اچھل کود کے ساتھ ہم ان کی تفریح ِ خاطر کا یہ سامان بھی انتہائی جوش وجذبہ اور صدقِ دل سے انہیںمہیا کردیتے ہیں۔
ایک بات تو طے ہے کہ قرآن کا بال بھی بیکانہیںکیا جاسکتا ۔ سرورِ دوجہاں نے جس کتاب کی حفاظت اور اشاعت کے لیے پتھر کھائے اور اپنا تن من دھن سب کچھ اس کی اشاعت کے لیے وار دیا ، دنیا بھر کا کفر مل کر بھی چودہ صدیوںمیں جس کتاب کا ایک حرف نہ بدل سکا ، جس کتاب کی حفاظت کا ذمہ زمین وآسمان کے مقتدرِ اعلی نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے ، کیاناپاک پانی سے پےداہونے والے ٹیری جونز اور اس کے ہم نوا اپنی احمقانہ اور مجنونانہ حرکتوں کے ساتھ اس کتاب ِ پاک کے تقدس ، حرمت اور آفاق گیری میں کوئی کمی لاسکیں گے ؟”ایں خیال است ومحال است وجنوں“
ایک سیدھے سادے مسلمان کو اپنے ان انقلابی واعظوں کے بھول پن پر حیرت کیوں نہ ہوجو یہ چاہتے ہیں کہ غیر مسلم آج کے بعد اسلامی شعائر کا احترام کرنا شروع کردیں ۔ اپنے دل پہ ذرا ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ ایک ایسا آدمی جس کے نزدیک قرآن (نعوذباللہ )سیاہ اور آڑھی ترچھی لکیروں پر مشتمل کاغذات کا ایک پلندہ ہے ، بلکہ اس سے بھی دو قدم آگے ”دہشت گردی“ اور” انتہاپسندی“ سکھانے والی ایک طلسماتی کتاب ہے ، وہ اگر قرآن کو قرآن سمجھے یا اس کے ساتھ ادب واحترام والا رویہ اختیار کرے تو آخر کیوں؟؟؟ہمارا المیہ یہ نہیں کہ ہمارے دور میں ٹیری جونز جیسے شیطان سانس لے رہے ہیں۔ ہمار االمیہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہمارے منتخب حکم ران جنہوں نے اس طرح کے افسوس ناک واقعات پر سنجیدگی کے ساتھ اسٹینڈ لیناتھا ، امہ کے جذبات کی نمائندگی کرنی تھی اور اسلام کے علانیہ دشمنوں کو پناہ دینے والے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات اور سفارتی آداب وشرائط پر نظرِ ثانی کرنا تھی، وہی بدل گئے ، انہوں نے منافقت کا لبادہ اوڑھ لیا، امہ سے زیادہ کفر کے مفادات کے نگہبان بن گئے اور چند ٹھیکریوں کے عوض اپنا سب کچھ فروخت کرڈالا۔ ہر ایسے واقعہ کے بعد ہم اپنی جو قوت مغرب کے خلاف احتجاج کے لیے صرف کرتے ہیں ، اگر دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان مل کر اپنا یہی زور او آئی سی کے خلاف اور اپنے ہی حکم رانوں کے خلاف لگالیتے تو تھوڑے ہی سہی ، لیکن بہرحال بہتر نتائج ظاہر ہوتے ۔ ہمارے تمام مسائل کی جڑ یں ہمارے اپنے اندر پھیلی ہوئی ہیں۔ اس لیے دائیں بائیں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے پوری یک سوئی کے ساتھ ہمیں اپنی داخلی خرابیوں اور کم زوریوں کے خلاف ہی احتجاج کے لیے کمر بستہ ہونا چاہئے ۔ ان داخلی اسباب ووجوہات کے علاج اور حل کے لیے مستعدہونا چاہئے جن کی وجہ سے ہم مسلسل انحطاط او رتنزلی کی کھائی میں نیچے سے نیچے گرتے چلے جارہے ہیں، اپنی خودی اور عزت کی بحالی کے لیے وہ کرگزرنے میں دیر نہیںکرنی چاہئے جو سو فی ص ہمارے بس میں ہے ۔ یقین کیجئے کہ یہ جہان چیز ہے کیا، لوح وقلم تیرے ہیں۔اندرونی رکاوٹوں کا ادراک کیے بغیر خارجی حملہ آوروں کی گردن زنی صرف اور صرف خواب ہے ۔ اس خواب سے جتنا عرصہ جی چاہے لطف اندوز ہولیجئے ،مگر اس بات کو نوشتہ ¿ دیوار سمجھئے کہ کامیابی کا راستہ اً دھر سے ہی ہوکرگزرتا ہے ۔
ہمارے ملک کے سینیٹرز نے بھی ٹیری جونز کے اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے امریکا سے اس کی پھانسی کا مطالبہ کیاہے ۔ کاش کہ یہ مہربان امریکا سے اس کی پھانسی کا مطالبہ کرنے کی بجائے اپنے ہی حکم رانوں پر امریکی مفادات کی جنگ سے کنارہ کش ہونے کے لیے دباو ¿ ڈالتے اور سخت تنقیدکا نشانہ امریکا کو بنانے کی بجائے اوآئی سی کو یامسلم حکم رانوں کو بناتے جن کا سارازور مسلمانوں میں نام نہاد اعتدال اور برداشت کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے صرف ہورہا ہے مگرہماری فہم وفراست کو داد دیجئے کہ ہم کمند ہی اس دیوار پر ڈالتے ہیں جو ہماری اپروچ سے باہر ہوتی ہے تاکہ دیوار کی بنیر تک رسائی نہ پاسکنے کا قصور وار اس کی اونچائی کو قرار دے کر اپنا بھر م قائم رکھا جاسکے ۔ٹیری جونز کی پھانسی کامطالبہ اور وہ بھی امریکا سے ! کیا ہم احمقو ں کی جنت میں رہتے ہیں؟مغرب کے نزدیک اسلام کا تصور ”ِ جہادوقتال“ اپنے کسی بھی شرعی معنی کی رو سے دہشت گردی کے ہم معنی او رقطعا ناقابلِ برداشت ہے جبکہ قرآن اسی جہاد کو مسلمانوں کے اجتماعی فرائض میں شامل کرتا ہے اور انہیں غیرمسلم جارح افواج کے خلاف جم کر لڑنے اور ان کے مقابلہ میںسدسکندری بن جانے کی تعلیم وترغیب دیتاہے ۔”دہشت گردی“ کے مغربی تصور پر ایمان رکھنے والے مغربیت زدہ روشن خیال ایک طالبِ علم کو سمجھائیں کہ جس دہشت گردی کی بناءپرافغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانا جائز ہے ، اسی ”دہشت گردی “ کا بنیادی فیکٹر اور سبب سمجھ کر مغربی جنونیوں کا قرآن کو جلاناکیوںجائز نہیں؟ہمارے خیال میں وارآن ٹیرر کے شراکت داروں کا اس معاملہ پر احتجاج کرنا بالکل ہی بے معنی ہے ۔


 

 
 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team