اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-                                                               

Telephone:- 03009432919
      

 

 

آئمہ محمود۔ اایگز  یکٹو ڈائر  یکڑر ورکنگ ویمن آرگنا ئز یشن

 

تاریخ اشاعت04-03-2010

آٹھ مارچ ایک صدی کا سفر

کالم آ ئمہ محمود


ما رچ جہا ں مو سم بہار کی وجہ سے پھو لوں، رنگو ں اور خو شبووں کا مہینہ ہے ۔وہا ں ایک خاص دن بھی اس مہینے میں آتا ہے ۔جودنیا کے بیشتر ملکوں میں ایک تہوار کی صو رت منا یا جا تا ہے وہ ہےخواتین کا عالمی دن آٹھ مارچ© © 
خواتین کا بین الا قوامی دن منانے کے فیصلے کو اس سال پورے سو سال ہو  جاءیں گے ۔خواتین کی معا شی ،      سیا سی اور سما جی کامیابیوں کو  یاد کر تے پو ری دنیا میں ا س دن کو خصو صی تو جہ دی جا تی ہے ۔ اگر چہ اس د ن کا محرک سیا سی جذبہ تھا خصو صاً سابقہ سویت یونین میں، لیکن کافی ملکو ں میں یہ سیا سی رنگ کھو کر محض ایک چھٹی کا دن بن کر رہ گیا ہے اور اسے مدر ڈے  یا ویلنٹا ئن ڈے کے طو ر پر مناتے ہوئے مرد حضرات خواتین کو پھو ل پیش کرتےہیں۔ تا ہم اقوا م متحدہ کی طر ف سے متعین کردہ سیاسی اور  بنیا دی حقو ق کے مو ضو عات ابھی بھی اس مو قع پر مرکزی  اہمیت رکھتےہیں اور مجموعی طو ر پر اس دن خواتین تحر  یک کے نتا ئج کو ز یر بحث لا  یا جا تا ہے ۔
خو ا تین کے عا لمی دن کا آغا ز اگر چہ 1910 میں ہوا لیکن امر  یکن سو شلسٹ ویمن نے 1908 میں عورتوں کا پہلا قو می دن منا کر اس کی  بنیا د رکھی ۔

 انیس سو دس سے پہلے جب صنعتی انقلا ب کی وجہ سے عورتوں کی بڑی تعداد ٹیکسٹا  ئل مینوفیکچر اور          گھر یلو ملازمین کی حیثیت سے دشوار حالات اور تھو ڑے معا وضوں کے ساتھ کام کر رہی تھیں ۔  یہی وہ وقت تھا جب یونین سا زی پنپ رہی تھی اور یو رپ میں انقلا ب کی چنگا ری بھڑ ک اٹھی تھی ۔  پو رے یو رپ ،بر طا نیہ ، امر  یکہ اور کسی حد تک آسٹر یلیا میں خواتین اپنے لیے ووٹ کا حق ما نگ رہی تھیں ۔1908میں فروری کے آخری اتوار کو امر  یکن سو شلسٹ ویمن نے مالی
و سیا سی حقوق با لخصو ص ووٹ کے حق کے حصو ل کیلےے بڑے  پیمانے پر احتجا جی مظا ہرے کیے۔
 

1909

 میں گا رمنٹ انڈسٹری کی 30,000 محنت کس خواتین نے بہتر اجرتوں اور ورکنگ حالات کے لیے 13ہفتوں کیلئے ہڑتا ل کی، ہڑتال میں گرفتا ر ہونے والی مزدوروں کی ضمانتوں اور ہڑتال فنڈ کے لیےویمن ٹر یڈ یونین لیگ جس کی  بنیا د 1903 میں رکھی گئی تھی نے فنڈ فراہم کیے ۔ 1910 میں کو پن ہیگن میں پہلے عا لمی دن کے مو قع پر خواتین کی عالمی کا نفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں 17ملکوں سے 100عور توں نے شر کت کی اور ووٹ کے حق کے ساتھ  میٹر نٹی بینیفٹ اور عو رتو ں کیلئے رات کی شفٹ کے خا تمے کے مطا لبا ت ا ٹھا ئے۔   نیو زی لینڈ میں سب سے پہلے عورتوں کو 1893میں ووٹ کا حق ملا امر  یکی خواتین کو 1920 میں  انیسویں ترمیم  کے ذریعے ووٹ کا حق ملا۔
اقوا م متحدہ نے اولا ً 1975کو 8مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار د یا اور اس کے لیے وسا ئل فراہم کرنے شروع کیے ۔2011کو عورتوں کے عالمی دن کی صد سا لہ تقر یبات منا ئی  جاءیں گی ۔اس دن کا آغا ز ایک احتجاجی تحر  یک سے شروع ہوا گزشتہ سو سالوں میں خواتین نے ہر میدان میں اپنی ذہنی جسمانی صلاحیتوں کا لوہا منوا تے ہو ئے اپنے حقو ق کے تحفظ کے حوالے سے ایک لمبا سفر طے کیا ہے ۔
یہ خواتین کی انتھک محنت اور کا وشوں کا ہی نتیجہ تھا کہ 1948 میں اقوام متحدہ نے یو نیورسل ڈیکلرشن اف ہیو من ر ا ئٹس کو پاس کر کے ایک عالمی قانون متعارف کر وا یا جس میں سب کو ووٹ کا حق د یا گیا ۔  عورتوں کے ساتھ  ہونے والے ہر قسم کے  امتیا زی رویوں کے خاتمے کیلئے اقوام متحدہ نے 1979میں ایک کنو نشن پاس کیا
Convention on the Elimination of All Forms of Discrimination Against Women (CEDAW).
جس کودنیا کے بیشتر ملک اپنے قو ا نین کا حصہ بناچکےہیں۔

قا بل فخر کا میا بیو ں کے ساتھ ساتھ خواتین کو ابھی بھی کئی  چیلنجوں اور سختیوں کا سا منا ہے   انہیں ذہنی و جسمانی تشدد کا نشا نہ بنا  یا جا رہا ہے ۔ تعلیم، صحت اور ترقی کے مواقعوں میں نظرانداز کیا جاتا ہے ۔                    گلو بلا ئز یشن اور فری مارکیٹ اکنامی نے ایک مزدور کی حیثیت سے عورت کے ورکنگ حالات کو درگوں کر د یا ہے اور اسے کم تنخواہ پر عارضی، پئس ورک ، پا رٹ ٹا ئم ، ہوم بیسڈ، سیز نل ورکر کے طور پر کا م کرنے پر مجبور کر کے اس سے وہ حقوق چھین لیےہی ںجو اس نے طو یل جد و جہد اور کئی قر بانیوں کے بعد حا صل کیے تھے ۔
 جیسے کے ملا زمت کا تحفظ ، میٹر  نٹی بینیفٹ ، 8 گھنٹے اوقات کار اور پنشن کا حق وغیرہ مز ید براں دنیا بھر میں ہرسال 500,000عورتوں یعنی ہر منٹ میں کم از کم ایک خاتون حمل  یا اس سے متعلقہ پیچید گیوں کی وجہ سے فوت ہو جا تی ہیں۔اسی اموات کی شر ح ترقی پذ یر ممالک میں بہت ز یادہ ہے ۔افر یقہ میں 16میں سے ایک عو رت بچے کی پیدائش کے دوران انتقا ل کر جا تی ہے ۔ ایشیاءمیں 65میں سے 1 ۱ ور یورپ میں یہ شر ح  چودہ سو میں سے 1عورت کی ہے

  ایچ   آئی وی /ایڈز کے مریضوں کی کل تعداد میں آدھی خواتین ہیں
ترقی پذ یر ملکو ں میں غیرتعلیم  یا فتہ با لغوں کی تعداد 876ملین ہے جسمیں 2/3عو رتیں ہیں
ترقی پذ یر ملکوں میں سکول جا نے والے بچوں کی تعداد 600ملین سے ز یا دہ ہے جن میں سے 120ملین سکول جا نے سے محروم ہیں ان بچوں میں لڑکیوں کی تعداد 53% ہے۔
مغربی ملکوں میں اعلیٰ تعلیمی ادادروں میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے ز یادہ ہے۔ لیکن افر یقہ اورایشیاء ءمیں صو رتحال بر عکس ہے وہا ں 100مرد طلبا ءکے مقابلے میں 38طلبا ت ہیں۔
عو رتیں دیہی مزدوروں کا 60%ہیں جو کہ پو ری دنیا کے لیے آدھی سے زائد خورا ک  پیدا کر رہی ہے ۔ لیکن صرف 1% زمین کی ما لک ہیں۔
مہا جرین اور بے گھر لو گو ں کی آدھی آبادی عورتیں اور لڑکیا ں ہیں جو جنسی تشدد کا شکا ر ہو تی ہیں

پا کستا نی خواتین نے بھی پچھلے 62سا لوں میں حقو ق اور ان کے تحفظ کیلئے ایک طویل جدو جہد کی ہے جس میں اگر وہ دو قدم آگے بڑھتی تھیں تو انکی مخا لف طاقتیں   انہیں چا ر قدم پیچھے دھکیل د یتی تھیں تعلیمی میدان میں اگرچہ کا فی بہتری ہو ئی لیکن ابھی بھی پا کستان میں عورتوں میں تو تعلیم کی شر ح دنیا کے  دیگر ممالک کے  مقابلے میں انتہا ئی کم ہے ۔ بچیوں میں سکول چھو ڑنے کی شرح تقر یباً 65% ہے ۔ عورتوں کی کل آبادی کاچالیس فیصد  سے زائد خون کی کمی کا شکا رہیں۔ صرف 20% عورتوں کو ڈ لیو ری کے دوران طبی امداد میسر ہو تی ہے

   عورتوں پر تشدد اور انکے خلاف جرائم میں خطرناک حد تک اضا فہ ہوا ہے ۔  مختلف رسو مات خاص طور پر عزت کے نام پر عورتوں کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے ۔ لیکن ما یوس کن حا لا ت کے با وجود محنت کش خواتین  نے اپنے حقو ق سے دستبرداری کوتسلیم نہیں کیا        اور پوری تندہی اور ذمہ داری سے معا شرے کو تعصبات اور نا انصافیوں سے پاک کرنے کی کوشش میں جٹی ر ہیں ۔ فو جی آمر ضیا ءالحق کے غیر انسانی اور غیر مذہبی قوانین بھی ان کو اپنی راہ سے ہٹانے میں کا میا ب نہ ہو سکے آ ج سیا ست ، معا شیا ت ، سا ئنس، میڈ  یا کو نسا ایسا فیلڈ ہے جہا ں خواتین متحرک نہ ہوں یہ خواتین کی پر عزم کوششیں ہی تھیں  جس نے   قا نو ن سا ز اداروں خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کا احساس دلا یا ۔ دوہزار چھ کے اواوخر میں پارلیمنٹ نے ویمن پروٹیکشن بل پاس کیا جس سے حدود آرڈیننس کی کچھ شقوں کا خاتمہ ممکن ہوا

 مو جو دہ صدر نے جنوری 2010میں '' کام کی جگہ پر عورتوں کو جنسی ہراساں کرنے سے بچا ﺅ بل2009 پر منظوری کے دستخط کیے ۔یہ بل دراصل اسی بل کا حصہ ہے جو سا بقہ
وز یر اطلا عات شیری ر حما ن نے ہاﺅوس میں پیش کیا تھا اور اس میں سزا کے حوالے سے سیکشن کی منظوری اسمبلی نے نومبر 2009میں دی تھی ۔
خواتین کو تحفظ مہیا کرنے کے حوا لے سے ملکی قوانین اور انکے نفاذ کو ابھی بہت ز یادہ بہتر بنا نے کی ضرورت ہے جس کیلئے خواتین مختلف سطح پر سر گرم عمل ہیں لیکن یہا ں قا بل ذکر با ت یہ ہے کہ خواتین نے کبھی بھی اپنی تحر  یک اور جدو جہد سے انحراف نہیں کیا اور دھیما ہی سہی مگر مسلسل آگے بڑھتی ر ہیں ہیں۔ انتہا پسندوں، خود غرض حکمرا نوں ، مختلف اداروں اور اپنے اہل خانہ کی حا ئل کر دہ رکا وٹوں ، طعنےتیشین، جان لینے کی دھمکیوں اور کردار کشی کے با وجود ملک کو پر امن ، خو شحال اور برا بری پر مبنی معا شرہ بنانے کی کوشش کرتی عورتوں کو سلام ۔

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team