اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

 

Email:-mrgohar@yahoo.com 

Telephone:- 92-300-4700092        

Mr. Altaf Gohar
Advisor Foreign Studies (Punjab Bar Council)
Principal: National Institute of Computer Education & Consultancy (N.I.C.E)

Phone: +92-42-6370566, 6314348

 

تاریخ اشاعت13-04-2010

 محبت اور لذتِ آشنائی

کالممحمد الطاف گوہر


انسانی جذبوں کا انسائیکلوپیڈیا کھولاجائے یا پھر جذبوں کی ابجدAlphabet بنائی جائے تو سب سے بلندی پر صرف ایک ہی جذبہ نظر آئے گا اور وہ ’محبت © ‘ کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔انسانیت کو عظمت کی بلندی پر پہنچانے میں محبت کا جذبہ پیش پیش ہے۔ اس حقیقت سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا کہ محبت کی ڈوری کے بغیر رشتوں کے موتی مالاﺅں میں پروئے جا ئیں،بلکہ یہ صرف محبت کا ہی ثمر ہے کہ افراد ایک صحت مند معاشرہ کے محرک رکن بنتے ہیں اور انکے روابط امن و آشتی کے بندہن میں بندے رہتے ہیں جہاں نفرت کی پرچھائیاں نہیں پڑتیں۔
محبت کا جغرافیہ دیکھا جائے تو یہ جذبہ اپنی عالگیرئیت اور آفاقیت کے باعث لازوال ہے اور کسی بھی طور عمر،رنگ و نسل اور علاقہ پر محیط نہیں، جبکہ لامحدود ہونے کا ساتھ ساتھ نہ صرف اس کرئہ عرض پر بسنے والی تمام مخلوق اس میں غرق ہے بلکہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ اس میں جکڑا ہوا ہے محو رقص ہے۔ اکیسویں صدی میں آج سائنس اس بات سے آگاہی رکھتی ہے کہ ٹھوس اشیاءکا کوئی وجود نہیں بلکہ ہر شے یا تو ذرات کا مجموعہ ہے یا پھر محو رقص Vibrating اور مرتعش ہے کیونکہ اس دنیا کی اساس ایک انتہائی کمترین ذرہ، الیکٹران ہے، جو یاتو ذرہ کی خاصیت کا اظہار کرتا ہے یاپھر لہر کی اور توانائی کی یہ لہریں اپنا رقص کسی نہ کسی طور ایک مرکز کے گرد جاری رکھے ہوئے جبکہ ایٹم اسکی ایک ادنیٰ سی مثال ہے ۔
محبت کی سائنس کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے محبت میں انسانی بوائیو کیمسڑی میں تبدیلی آتی ہے ، ذہن جب محبت کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے تو سائنسی تحقیق اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خوشی کا عنصر شامل ہوتے ہوئے ایڈرنالائن نیورو ٹرانسمیٹر متحرک ہوجاتے ہیں اوردل کی دھڑکن تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ بے چینی کا اظہار بھی ہوتا ہے ، جبکہ دوسرے مرحلے میں محبت کرنے والوں کے اذہان اب ڈوپامائن نیورو ٹرانسمیٹرسے لبریز ہو جاتے ہیں جسکے باعث ایک نشے جیسی کیفیت کا احساس ہوتا ہے ، طبیعیت خوشی کے جذبے سے لبریز ہوجاتی ہے © ’چاہنے اور پانے‘ کی تمنا جاگ اٹھتی ہے۔اضافی توانائیوں کا احساس ہوتا ہے ، نیند اور بھوک کی کمی پیدا ہوتی ہے جبکہ توجہ میں ٹھہراﺅ آجاتا ہے جوکہ خوبصورتی ، لذتِ لاثانی اور اس محبت کے بندھن کی چھوٹے سے چھوٹے لمحے کی تفصیلات پر مرکوز ہوتی ہے۔ اسی طرح تیسرے درجہ پر سیروٹونائن نیوروٹرانسمیٹر کا افراز ہوتا ہے اورڈوب جانے کی کیفیت کا احساس ہوتا ہے اس کیمیکل کو محبت کا اہم عنصر کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ خیالات اور سوچوں کے انداز کو تبدیل کرتا ہے کہ محبت کا پھول نظارئہ جاناں میں کھوئے ہوئے محبوب کے آنگن کو کو مہکا دیتا ہے۔
محبت کی نفسیات اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ جذبہ محبت سے سرشار فرد تصور ِ محبوب میں ڈوبارہتا ہے اوراسی طرح ایک نظریہ کہ محبت اندھی ہوتی ہے بھی صادق نظر آتا ہے کہ اکثر اپنے محبوب کو آئیڈیل بناتے ہوئے اسکی اچھایﺅں اور خوبیوں کو بڑھاچڑہا کر مگر اسکی خامیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پیش کرتا ہے۔محبوب کو تقدس کے آبگینوں میں سجاتا ہوامحسوس کرتا ہے کہ اس رشتے سے بڑھ کر اور بہتر رشتہ کوئی نہیں لہٰذا اس طرح دونوں ایک مضبوط ڈوری سے بندھ جاتے ہیں ۔ ان لمحات میں انسان محبت کے اگلے درجہ میں قدم رکھتا ہے جسے ’ قربت ‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔

محبت کارنگ انسانی چہرے پر ایک نکھار پیدا کرتا ہے جس کے باعث چہرہ پرکشش ہوجاتا ہے اور آنکھوں میں گہری مستی چھاجاتی ہے،سوچوں میںارتکاز اور آواز میں جادو کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔لمحات چاہے وصل کے ہوں یا فراق کے اک انجانی لذت کا احساس پیدا ہوتا ہے جبکہ فضاﺅں میں بھی نظارئہ محبوب کاسماں بندھ جاتاہے۔ طبعیت میں ایک ٹھہراﺅسا آجاتا ہے ،جبکہ ہرآواز پر دئہ سماعت پر موسیقی کا سماں پیدا کرتی ہے اور ہر طرف خوبصورتی کا دورودورہ ہوتاہے ،خواب بھی رنگین ہوتے ہیں اور خیال بھی مرکوز ، اس دورِ انسانی کو افراد کا موسم بہار کہا جائے تو بجاہوگا۔
کھو جانے والی اس کیفیت کو حاصل کرنے کیلئے کسی ’ مصنوئی پیار‘ کی ضرورت نہیں بلکہ دیدئہ دل وا کیجئے اور ’ ذہنی تصاویر‘ کو تبدیل کرنے والی ٹیکنالوجی کا سہارا لیجئے ، جی ہاں! اپنے ذہن کے پردئہ سکرین پر ’نفرت‘ کو ملاحظہ کیجئے اور پھر ان جڑی بوٹیوں کو ذہن سے اکھاڑ پھینکئے ، کرنا صرف یہ ہے کہ جہاں جہاں رشتوں میں اور معاملاتِ زندگی میں ’ نفرت ©‘ کی تصویریں نظر آ ئیں ، انہیں پہلے ذہن کی پردئہ سکرین پر واضح کریں اور پھر سمیٹتے سمیٹتے ایک مہمل سے ذرہ کے برابر متصور کریں اور آخر میں دھویں کی طرح فضاﺅں میں اڑادیں۔اس طرح سے اب ’نفرتیں‘ بے وقعت ہوگئی ہیں۔
محبت کا مراقبہ بھی شناسائی کا ایک عمل ہے جس میں ایک فرد معاملہ محبت کے آمنے سامنے والے زاویہ پر ہوتا ہے۔ روح و قلب کو اس لازوال جذبہ سے سرشار کرنے کیلئے تو محبوب کا تصور ہی کافی ہوتا ہے ، محبوب کے خیال میں بے خیال ہونا ہی معنی رکھتا ہے۔ مجازی طور پر تو جس فرد کو یاد کرکے اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہواور جو تنہائیوں کا ہمراز بن جائے ، انسان غیر اردی طور پر اس کے پیار میں مبتلا ہوتا ہے ، اور اسکا تصور اور یاد ایک انجانی خوشی کی کیفیت سے دوچار کرتی ہے جبکہ یہ غیر ارادی مراقبہ ءمحبت کہلاتا ہے ، اور اگر افراد اس تجربہ سے نہ گزرے ہوں تو اس کا حصول صرف ایک طور ہی ممکن ہے کہ کسی بھی فرد سے چاہت اور اس کا تصور اپنے آپ ہی اس کیفیت سے دوچار کردیتا ہے۔
حقیقی محبت کا اگر ادراک حاصل کرنا ہو تو اس کائنات کی وسعتوں کو دیکھیں اور قدرت کے بے پناہ نظاروں کو ملاحظہ فرمائیں ، رب العزت نے انسان کیلئے کیسی کیسی نعمتیں عطا فرمائی ہیں کہ اگر کوئی ساری زندگی بھی اس کا شکر ادا کرتا رہے تو کم ہے ، جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے کہ وہ اپنے بندوں سے خود بھی محبت رکھتا ہے اور بندے بھی اس سے محبت رکھتے ہیں ۔
قران کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ؛
یحبھم و یحبونہ (المآئدہ:54)
اللہ ان سے محبت کرتا ہے ، وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں
وھوالغفورالودود(البروج:14 )
وہ بے حد بخشنے والا اور کمال محبت کرنے والا ہے
اسماالحسنٰی میں الودود، یعنی بڑا محبت کرنے والا، اس اسم مبارک کو تصور کریں ، اور دعا گووں ہوں کہ الٰہی ہم کو اپنی محبت عطاکر اور جو کوئی تجھ سے محبت رکھتا ہے اس کی بھی محبت عطاکراور اس عمل کوبھی محبت دے جو ہم کو تجھ سے قریب بنادے۔اور باہمی محبت کو ترقی دیں ، محبت نفسانی و شہوانی کو پامال کرکے محبت روحانی وایمانی کو بڑھانے میں کوشاں رہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ؛
الاَخِلَّائ ± یَومَئِذٍ بَعضھ ±م لِبَعضٍ عَد ±واِلَّا الم ±تَّقینَ (43:67)
(جو آپس میں) دوست (ہیں) اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ مگر پرہیزگار (کہ باہم دوست ہی رہیں گے) (43:67)
یعنی قیامت کے دن سب ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے ، ان کے سوا جن کی محبت کی بنیاد للہیت پر ہوگی۔

 
 
Email:-jawwab@gmail.com
Advertise Guest book Privacy Policy Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team