اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-                                                            iqbal-janjua@gmail.com    

Telephone:-       

 

تاریخ اشاعت21-01-2009

یہ کیسی نظر ہے

کالم:۔اقبال جنجوعہ

 پہلے آپ اس ملک کی تصویر کا ایک روخ دیکھئے پھر دوسرا اور پھر خود فیصلہ کیجیے گا ہونا کیا چاہیے اور ہو کیا رہا ہے۔۔ ، ہمارے پاکستان کی تصویر کا ایک روخ یہ ہے جس میں ،سوائے غربت کے ،بے روز گاری کے،بم دھماکوں کے کچھ نہیں، جس میں بد امنی ،کرپشن ،مہنگائی کے سوا کچھ نہیں ،جس میں آٹا ،دال چینی ،سبزی ،گھی،دوھ د،اور عام آدمیوں کے روز مرہ کے استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کے سوا کچھ نہیں،جس میںتعلیم کی بد حالی،تعلیمی نظام کی طبقاتی تقسیم،نصاب کی نہ سمجھ آنے والی کتب،ہسپتالوں کی خستہ حالی،علاج کی سہولیات کا فقدان،مریضوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہونا،ادویات کا جعلی اور پھر اوور ڈیٹ کے سوا کچھ نہیں ،جس میںکسان کے ساتھ ظلم ،مزدور کے ساتھ جبر،روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کے ساتھ نا انصافی کے کچھ نہیں ،جس میں عدالتوں میں چلتے برسا برس سے کیس ظالم کو تحفظ اور مظلوم کو اذیت،معاشرے میں نا انصافی کے علاوہ کچھ نہیں،جس میں قتل خون ریزی،بد معاشی،دھمکی ،پابندی،اغواہ کے سوا کچھ نہیں،جس میں امریکہ کی تعبداری ،ڈرون حملوں کے اور امریکہ کے اگے یس سر کہنے کے کچھ نہیں،جس میں امیر ،امیر تر اور غریب ،غریب سے غریب تر ہونے کے علاوہ،جہالت ،دو نمبری،وڈیرہ شاہی،افسر شاہی،لاقانونیت،بد اخلاقی،اور چند لوگوں کی اجارہ داری کے سوا کچھ نہیں،جس میں بجلی ،گیس ،پانی،روٹی کی بندش ،بے گھر عوام کی خستہ حال زندگی،سڑکوں پر چلتے پھرتے موت کے فرشتوں،کے سوا کچھ نہیں۔جس میں میڈیا پر پابندی، میڈیا پر تنقیداپنی نااہلیوں کا چھپانا،اپنی نالائقیوں پر پردہ ڈالنا،اونچی آواز میں بول کر سمجھنا کہ ہم نے بہت بڑا کام کیا ،دوسروں پر الزام لگانا ،ججوں کو سرعام سڑکوں پر گھسیٹنا،ہر آزاد ادرے کو اپنے تعابع کرنا،اپنی مرضی کا قانون بنانا،آئین کو توڑ کر یہ کہنا کہ ہم نے کچھ نہیں کیا کے سوا کچھ نہیں،بینکوں سے اربوں کے حساب سے قرضے لینا اور پھر معاف کروانا ،این ار اوز سے اپنا نام نکلوانا،اپنے ظلموں کو اپنے کارنامے بنا کر پیش کرنا،جس کو امریکہ کہے اسے پکڑ کر اس کے حوالے کر دینا،امریکی چمچوں کو سلامی دینا اور ان کے گلے میں تمغے ڈالناکے سواہ کچھ نہیں،ڈرون حملوں کی اجازت دینا اور پھر انکار کر جانا کہ ہمیں اس کا پتہ نہیں،اپنے شہر گلیوں،بازاروں،پارکوں ،مسجدوں،مدرسوں،سرکاری اور پرائیویٹ اداروں ،سکول کالج اور یونیورسٹیوں میں خود کش حملوںکے سواہ کچھ نہیں،کیری لوگر بل پاس کروانا ،سالانہ اربوں ڈالر کی امداد لے اپنے اپنے کھاتوں میں جمع کروانا،کسی وی ائی پی کی موومنٹ پر کئی کئی گھنٹوں ٹریفک کو جام کر دینا ،مریض،دفتری لوگ،اپنی روزی کمانے کے لئے خاک چھاننے والے ،ایمولینسس،امرجنسی سفر پر جانے والے سب کو ایک لائن میں کھڑا کر دینا،مجبور بے بس کمزور ،کوئی سیاسی وابسگی نہ رکھنے والوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کرنا ،عام آدمی کو انسان تک نہ سمجھنا،چور ڈاکو،فراڈیے کی پشت پناہی کرنا کے سوا اور کچھ نہیں۔
اس کی تصویر کا دوسرا روخ دیکھئے گا۔جس میں سترویں ترمیم،این ار او،ففٹی ایٹ ٹو بی،جھوٹ فراڈ،دھوکا دہی،سیاست میں سازشیں،لگ پلنگ،نظر آتی ہے جس میں سیاست دانوں کے ٹاک شو ،بیان بازیاں،کھنچا تانی ،امریکہ کی چاپلوسی ،ڈرون حملوں کی حمایت،دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے شہری مار کر کہہ دینا کے دہشت گرد مارے گئے ،بیرونی ممالک کے ان گنت دورے،وزرا کی عیاشوں پر اربوں کھربوکے حساب سے خرچ کرنا ہے ،جس میں اپنی نا کامیوں کو ،کامیابیاں کہہ کر دن رات اپنے اور اپنی پارٹی اپنی حکومت کے گن گانا ،اپنے آپ کو بے گناہ اور دوسرے کو مجرم کہنا ہے،جس میں،میں ہوں تو یہ ملک ہے ،میں ہوں تو جمہوریت ہے ،میں ہوں تو یہ دنیا ہے ،میں ہوں تو اس جہاں کا نظام ہے ،میں ہوں تو استحکام ہے کی رٹ ہے،جس میں اپنی بولڈپروف گاڑیاں،درجنوں سیکورٹی اہلکار،ان پر کروڑو کے اخراجات ،دھندلیاں،ہیرہ پھریاں شعلہ بیانیاں،شعلہ زبانیاں،ہیں،اس میں کیک بیک لینا کمیشن لینا رشوت لینا ہے ،جس میںاعلیٰ پیمانے پر دو نمبریاں اپنی مرضی کے ایس ایچ اوزلگانا ،غریبوں کی زمینوں پر قبضہ کرنا ،سو سو کنال کی زمین پر قبضہ کر کے اپنے لیے محل بناناہے،جس میںسڑکوں ائرپورٹس،کے نام بلند و بالا عمارات تعمیر کرنا ،ہر چیز کا نام اپنے نام سے رکھنا ہے،جس میں اپنے بچوں کو دوسرے ممالک میں سیٹل کرنا ،اپنے بینک اکاونٹ بیرون ممالک کے بینکوں میں کھولنا،اپنی دولت ملک سے باہر منتقل کرنا ،بیرون ممالک میں اپنے کاروبار کرنا ،اپنے فلیٹس بناناہے،
اب ہم آتے ہیں اصل بات کی طرف کی ایک تصویر کے دو روخ ہیں ایک نظر آتا ہے تو دوسرا کیوں نہیں آتا،کیا اس پہلے روخ میں کوئی حقیقت نہیں یا اسے دیکھ کر آنکھیں خود بند ہو جاتیں ہیں،یا پھر خود غرضی کا ایسا غلبہ ہے کہ اپنے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا ہم اس کا معائینہ اپنے ملک کے تیز ترین صدر صاحب کی آنکھوں سے کرے گے۔ صدر آصف زرداری نے لاہور میں اپنے ایک خطاب میں کہا کہ میں صدر ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں گونگااور بہرہ ہوں ،میری آنکھیں باز کی طرح کھلی ہیں ،ہر اس چور اور سازشی پر نظر ہے جو میرے جمہوریت اور پاکستان کیخلاف سازش کر رہا ہے ،انکی سازش میں کامیاب ہونے سے پہلے سیاست سے روک دیتا ہوں اور عوام کوبتادیتا ہوں سازشی سمجھ جاتے ہیں کہ اسے پتہ چل گیا ہے مفاد پرستوں کا ٹولہ مجھے گناہ گار سمجھتا ہے۔اس کے علاوہ روٹین کے مطابق بہت کچھ کہا مگر اس وقت اس ملک کی جس کا نام پاکستان ہے جو پر آج کے حکمران اپنے آپ کو خدا بنا بیٹھے ہیں ان کے اسی ملک کی لاوارث ،بے بس مجبور،بھوکی ،ننگی،بے روزگار،دھماکوں کی ماری عوام یہ سوال کرتی ہے کہ ہمارے صدر صاحب کو ہمارے مسائل نظر کیوں نہیں آتے ان کی باز کی آنکھیں ہیں جو صرف اپنے ساتھ ہونے والی سازش کو تو دیکھ لیتے ہیںمگر عوام کے ساتھ جو ظلم ہو رہا ہے ،عوام کے جو مسائل ہیں ان کو وہ نظر نہیں آتا ،ان کو اپنے ارد گرد میں ہونے والی تبدیلی تو نظر آتی ہے مگر مہنگائی ،بے روزگاری ،امریکہ کی چلاکی،دہشت گردوں کی پلانگ،بھوکے ننگے بچوں کے معصوم جسم نظر نہیں آتے ،یہ کیسی ان کی پرواز ہے جس سے اپنے مفاد کا دانہ تو نظر آجاتا ہے مگر بے حال پڑے مریضوں کی فریادیں،عوام کی خود کشیاں،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ہونے والی بے قائدگیاں،آٹے دال چنی ،گھی دودھ کی قیمتیں،انصاف کے لئے ترستے نسل دار نسل غریب ،وڈیرہ شاہی ،افسر شاہی ،نظر نہیں آتیں،ان کو لیکشن میں ہونے والے نتیجے کی خبر ہو جاتی ہے مگر ان کو عوام کی وہ آواز کیوں سناہی نہیں دیتی ،ان کو عوام کی وہ زندہ لائشیں کیوں نظر نہیں آتیں جن کی بدولت یہ آج اس ملک کے صدر ہیں جن کی بدولت یہ آج اس ملک کی اٹھاروہ کروڑ عوام کی قسمت کے مالک ہیں ،ان کو وہ طالب علم ،وہ مریض ،وہ فنکار،وہ باصلاحیت نوجوان ،وہ بے بس والدین ،وہ مجبور عورت،وہ مجبور بہن،وہ ہونہار شہری نظر کیوں نہیں آتا جو صرف اور صرف اس ملک کے نظام کی خرابی کی وجہ سے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ،جو اپنی زندگی کو اپنے لئے عذاب سمجھ کر جی رہے ہیں جو ان کے رحم و کرم کے منتظر ہیں جن کو ان کی ضرورت ہے ،اس بات کا کوئی ملال نہیں کہ ان کو اپنے دشمن کیوں نظر آتے ہیں شکوہ یہ ہے کہ باز کی آنکھیں جب دیکھتی ہیں تو اسے آسمان کی بلندیوں سے کھیت میں ایک ایک دانہ نظر آرہا ہوتا ہے اسے زمین پر ایک ایک تنکے کی حرکت نظر آرہی ہوتی ہیں،مگر یہاں پر اپنے مطلب کا ایک رائی برابر دانہ تو نظر آجاتا ہے مگر مسائل کے بڑے بڑے پہاڑ نظر نہیں آتے ،عوام کی مصیبتوں کے فلک تک انبار نظر نہیں آتے ،تمام پاکستانی ،اور سارے پاکستان کے مسائل ان کے لئے برابر ہیں ان سے ایک ایک شخص کے بارے میں پوچھا جائے گا ان سے ایک چرسی سے لے کر بڑے سے بڑے افسر تک کی پوچھ ہوگی ،ان کی نظر میں سب برابر ہونے چاہیے،یہ فرق یہ تضاد عوام کو تو کچھ دے نہ دے مگر ان کے آنے والے کل کو نقصان پہنچا سکتا ہے،نظر وہی ہے جس سے سب کچھ ایک ساتھ نظر آئے۔ 

 

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team