اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-                                                            iqbal-janjua@gmail.com    

Telephone:-       

 

تاریخ اشاعت26-01-2009

ضمیر اگر جاگ ہی گیا توکیا ہوا

کالم:۔اقبال جنجوعہ

 

پندرہ جنوری دو ہزار دس ،کو امریکی مخلوق کا ایک نمائندہ حسب عادت پاکستان کے دورے پر تھا اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ اس قوم پر اپنا احسان جتیائے کہ ہم اپ کو مدد دے رہے ہیں اور اس کے بدلے میں آپ کی عوام کا خون چوس رہے ہیں ،اس کے دورے کا مقصد یہ بھی تھا کہ وہ یہ باور کر وائے کہ ہم اپنے غلاموں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں ،امریکی مخلوق کا یہ نمائندہ بے خوف و خطر تھا اس نے روٹین کے مطابق اس ملک کے سیاسی لیڈروں سے ملاقات کی ،مگر اس دوران ہمارے ملک کے سیاسی لیڈروں کا ضمیر ایک دم جاگ آٹھا ۔سب سیاسی رہنماوں کے اندر کا انسان بھی کروٹ لینے لگا سب بے چین ہو گئے ،سب نے اپنی اپنی زبانوں کو کنٹرول کرنا شروع کر دیا ،مگر جب صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو سب نے تند و تیز سوالات کرنے شروع کر دیے جب ان کے سوالوں کے جواب آنے لگے تو ان کے منہ غصہ سے لال پیلے ہو گئے اور انہوں نے اسی رفتار سے امریکی مخلوق کے جوابوں کے جواب دینے شروع کر دیے ،یہ سوال و جواب ،اور جواب و جواب اتنے تیز و تند تھے کی شاہد پہلی بارکسی امریکہ کو یہ اساس ہوا ہو کہ یہاں پر بھی کوئی زبان رکھتا ہے ،پہلی بار کسی امریکہ اہلچی کو یہ خیال آیا ہو کہ یہاں پر ابھی لوگوں کا ضمیر زندہ ہے ،کیونکہ زندہ ضمیر لوگ زندہ قوموں کی پہچان ہوتے ہیں ،جو لیڈر زندہ ہوں ان کی عوام بھی زندہ ہوتی ہے ،سب نے اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ ہم آپ سے امداد لیتے ہیں کوئی زر تلافی نہیں ،آپ ہمارے دوست ہیں کوئی آقا نہیں، آپ ہمارے ساتھ دوستوں کی طرح رہے ،ہم نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہےں مگر پھر بھی آپ راضی نہیں ہوتے ،اس وقت پاکستان میں عراق اور افغانستان سے زیادہ بم دھماکے ہو رہے ہیں مگر آپ پھر بھی مطمئن نہیں ،ہم نے آپ کے کہنے پر اپنے ہی ملک کے اپنے ہی بچے مروا دیے مگر آپ کے دل کو پھر بھی ٹھنڈ نہیں پڑی ،کسی نے کہا کہ ایک طرف آپ ہمارے ساتھ اچھے تعلق کے خواہاں ہیں اور دوسری طرف آپ ہم پر پابندیوں کی بھر مار کرتے جا رہے ہیں ،اس طرح کے سوالوں کا جواب اور جوابوں کا جواب پہلے تو امریکی مخلوق کے نمائندے مختلف لالی پاب کی صورت میں دیتے رہے کبھی کہتے کہ ہم کامیاب ہو رہے ہیں کبھی کہتے کہ ہمارے تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں ،کبھی کہتے کہ ہم آپ سے مذید یہ خواہش رکھتے ہیں ،مگر جن ان کی یہ ساری تفل تسلیاں ،جھوٹ،لالی پاب سب کے سب نام کام ہو گئے تو انہوں نے اپنی اصلی اوقات دیکھاتے ہوئے یہ کہا کہ اگر آپ امداد لیتے ہیں تو ٹھیک ورنہ ہم آپ کو زبر دستی نہیں دے رہے ،پھر یہ بھی کہا کہ جب ہم سے مداد لو گے تو اس کے بدلے میں ہمارہ حکم بھی مانو گے ،جب انہوں نے دیکھا کہ اب یہ زندہ قوم کے زندہ لیڈورں کی طرح بات کر رہے ہیں ان کے سامنے اب کوئی بہانا نہیں چلے گا تو موصوف وقت کی کمی کا بہانا کر کے ناراض چہرہ لئے کمرے سے باہر نکل گئے ،جیسے انہوں نے ہم پر احسان کیا ہے ،جیسے ہم ان کی چھری کے نیچے ہیں ،جیسے ہم ،ان کے نسل در نسل غلام ہیں ،ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ ایک غلام قوم کا ضمیر اگر جاگ جائے تو اس کو دنیا کی کوئی طاقت پھر غلام نہیں بنا سکتی ،ان کی اس برہمی کا کسی کو کوئی افسوس ہوا ہو یا نہیں ،ہو سکتا ہے کہ خود ہالبروک کو بھی اس کا کوئی دکھ نہ ہوا ہو کیونکہ اسے پتہ تھا کہ ہم ان کے ساتھ کیا کیا سلوک کرتے ہیں مگر افسوس کہ اس سے زیادہ ،ہمارے اپنے ملک کے سیاسی نمائندے جو عوام سے بات شروع کرتے ہیں اور عوام پر ہی ختم کرتے ہیں انہوں نے عزت مآب ہالبروک سے پاکستانی سیاست دانوں کی اس طرح کی گفتگو پسند نہیں آئی انہوں نے کہا کہ یہ سب سیاست دان منافق ہیں ۔ چلو دومنٹ کےلئے یہ مان لیتے ہیں کہ یہ سب منافق ہیں اس لئے کہ انہوں نے پہلے خود امریکہ کو اجازت دی کہ آو ہمارے ملک کی عوام کا قتل عام کرو ،آو ہم پر ڈرون حملے کرو ،اور اب یہ خود ہی اس کی مخالفت کر رہے ہیں ،،تو جناب ناراض ہونے والی پاکستانی شعلہ زبان سے اتنا سوال ہے کہ اگر چلتے چلتے کسی کو یہ خیال آجائے کہ میں جس راہ پر چل رہا ہوں وہ غلط ہے اس کا انجام کسی آگ کے سمند میں جا کر ہوتا ہے اور وہ اپنا راستہ بدل لیتا ہے تو کیا وہ منافق ہو گیا ،اگر کوئی کھانا کھاتے کھاتے اس لئے چھوڑ دیتا ہے کہ یہ اس کی صحت کے لئے اچھا نہیں تو کیا وہ منافق ہو گیا ،اگر کوئی اپنے اختیارات کے ساتھ بددیانتی کرتا ہے کہ اچانک اس کا ضمیر جاگ جاتا ہے اسے خیال آتا ہے کہ میںاپنے ساتھ ،اپنی عوام کے ساتھ ،اپنے ملک کے ساتھ نا انصافی کر رہا ہوں ،میں غداری کر رہا ہوں میں نے اگے جواب دید ہونا ہے تو وہ اپنا فیصلہ بدل دیتا ہے وہ اپنا موقف تبدیل کر لیتا ہے تو کیا وہ منافق ہوگا،اگر یہ سب لوگ منافق ہیں تو ہمیں اس طرح کے کروڑو منافق اور پیدا کرنے چاہیں جو کم از کم عوام کی بات تو کریں جو کم از کم اپنے ملک کی حفاظت کی بات تو کریں ،جو کم از کم کسی کے اگے سینہ تان کر بول تو سکیں ۔پھر تو یہ منافق بہت اچھے ہیں ،اگر ان کا ضمیر زندہ ہوگیا ،اگر ان کو اپنی عوام کا اساس ہو گیا ،اگر ان کو یہ سمجھ آگئی کہ ہم غلامانہ زندگی گزار رہے ہیں ،اگر ان کو یہ پتہ چل گیا کہ ہم جو بھی کر رہے ہیں وہ غلط ہیں تو اس میں ان کو جو مرضی کہہ دو ان کا دل سکون میں ہوگا سب راتوں کو سکون سے سوئے ہونگے کہ آج ہم نے امریکہ کی بے لگام مخلوق کو جواب دیا ہے۔
یہ دولت ،یہ طاقت ،یہ شہرت ،یہ اختیارات ،یہ اقتدار سب کہ سب عارضی ہیں ان میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو ہمیشہ رہے گی ہاں اگر کچھ باقی بچے گا تو وہ انسان کا نام ہوگا ،وہ انسان کا کردار ہو گا ،وہ انسان کے کارنامے ہونگے ،وہ انسان کا اخلاق ہوگا ،وہ انسان کا اپنی عوام کے ساتھ برتاوں ہوگا ،مگر افسوس کہ چند دنوں کی شہرت کی خاطر ،چند دنوں کی دولت کی خاطر اگر اپنے اختیارات ،اپنی عوام ۔اپنے ملک ،اپنے فرائض بھول جائیں تو میرے خیال میں اس سے بڑی بد بختی، اس سے بڑی بد قسمتی ،اس سے بڑی بد دیانتی اور کچھ نہیں ہو سکتی ، یہ ملک ہے تو آ پ کی طاقت ہے ،اس ملک کی عوام سلامت ہے تو آ پ کا نام ہے ،اس ملک کی عوام کی جان ومال سلامت ہے تو آپ کی ساری عیاشاں ہیں ۔کب تک ہم اور ہمارا ملک امریکہ کی بھیک پر پلتا رہے گا ،کب تک ہم امریکہ کی غلامی میں اپنا سر جھکاتے رہے گے ،کب تک ہم اپنے لہوں کو بہا کر امریکہ کے سامنے بیلی چڑہاتے رہے گے ،کب تک ہم اپنے ہی ملک کی بیٹوں کو ،بیٹوں کو ،امریکہ کے حوالے کرتے رہیں گے، کب تک ہم دوسری کی جنگ کو اپنی کہہ کر اپنے ہی فوجی جوان ،اپنے ہی شہری جوان ،اپنے ہی ماوں کے جگر گوشے بے گناہ جان بحق کرتے رہے گے ،یہ سلسلہ کب تک چلے گا ایک دن کسی نہ کسی کو یہ خیال تو آئے گا کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے ،اگر یہ خیال کل کی جگہ آج آگیا تو یہ اپنی اور اس ملک کی خوش قسمتی ہے،ہاں ایک بات کہ اس ملک کی اور اس عوام کی روزی روٹی ۔زندگی موت کا مالک اللہ کی ذات ہے،اگر کسی کو ان چیزوں کا خطرہ ہوگا تو وہ آپ جیسے لوگ ہو سکتے ہیں عوام نہیں ،یہ عوام پہلے سے ہی فاقے میں زندگی گزار رہی ہے ،پہلے ہی گندہ پانی پی رہی ہے ،پہلے ہی بغیر علاج کے مر رہی ہے ،پہلے ہی تعلیم کی سہولت سے محروم ہے ،پہلے ہی فٹ پاتھوں پر زندگی گزار رہی ہے ،اگر امریکی امداد بند ہو گئی تو کونسی قیامت برپا ہوجائے گی ،جو قوم بلا وجہ مر رہی ہے ،شہید ہو رہی ہے اس کو امریکہ کی کسی دھمکی سے کیا ڈر کیا خوف ،یہ ڈر خوف تو ان کو ہوگا جن کا رزق امریکہ دے رہا ہے ،جو اس کے اگے سر نہیں آٹھا سکتے۔بس بہت ہوگا اب عوام کو معاف کر دو۔۔۔

 

 

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team