اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-                                                            iqbal-janjua@gmail.com    

Telephone:-       

 

تاریخ اشاعت28-01-2009

عوام کو اب آنکھیں کھولنی ہونگی

کالم:۔اقبال جنجوعہ



ایک لڑکا تھا اس نے بڑے نامساعد حالات میں آنکھ کھولی وہ بچپن سے ہی اپنی حرکات کی وجہ سے بدنام ہو گیا تھا، اس کی معاشرے میں گاوں میں شہر میں کوئی عزت نہیں تھی ہر شخص اس کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا ،مگر اس لڑکے کی عادت تھی کہ وہ اپنے آپ کو خومخواہ محلے کے ہر کام میں ہر بات میں ٹانگ اڑاتا کوئی پوچھے نہ پوچھے وہ ہر بات میں ضرور بولتا صرف یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ وہ بھی کچھ جانتا ہے ،اس کی حرکات دیکھ کر گاو ¿ں کے چند بڑے لوگوں نے جن میں نمبردار ،چیئرمین شامل تھے انہوں نے سوچہ کہ یہ ہمارے کام آسکتا کیوں نہ اس سے فائدہ آٹھایا جائے یہ سوچ کر گاوں کے نمبردار نے سے بولایا اور کہا کہ تم بڑے کام کے آدمی ہو ہم تماری ہر طرح کی مدد کیا کرے گے تم نے ہمارے کام کرنے ہیں ،اس نے کہا کہ کیا کام انہوں نے کہا جو ہم کہئے گے تم نے کرنا ہوگا اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ تم ہم پر چھوڑ دو ،یہ سن کر اس لڑکے نے سوچہ کہ میری بہت بڑت عزت ہے اور میں بہت کام کا بندہ ہوں ،اس نے حامی بھر لی ،پھر اس کے بعد چل سو چل ،گاوں کے نمبردار جس سے بھی بدلہ لینا چاہتا اس کے لئے وہ اس لڑکے کو استعمال کرتا ،کوئی چوری کروانی ہو ،یا کوئی گھر جلانا ہو،کسی کو مارنا ہو ،کسی کے ساتھ کوئی دشمنی کرنی ہو اس لڑکا کا استعمال کیا جاتا ،یہاں تک کہ نمبردار اپنے تمام منفی کام اسی لڑکے سے کرواتا ،اس طرح دشمنی کا بدلہ بھی لے لیا جاتا اور الزام بھی اس پر نہ آتا جب کوئی اس لڑکے پر انگلی اٹھاتا تو وہ گاوں کا نمبردار گم نام طور پر اس کی حمایت کر کے اسے بچا لیتا ،اس طرح وہ لڑکا جس کا کوئی مقام نہیں تھا ایک وقت ایسا آیا کہ اس نے اپنے آپ کو گاوں کا بادشاہ سمجھنا شروع کر دیا ۔کچھ عرصہ یہ سلسلہ چلتا رہا پھر گاوں کا نمبر دار مر گیا مگر اس وقت تک اس لڑکے کی جڑے اتنی مضبوط ہو چکی تھیں کہ وہ اب کسی کے قابو میں نہیں آتا تھا سب گاوں والے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہر کام کا مجرم یہی ہے کوئی زبان نہ کھولتا کیوں کہ اس لڑکے کا کام اب یہ تھا کہ جو بھی اس کے خلاف بات کرتا وہ اس کو مار دیتا ،یا اس کا گھر جلا دیتا ،یا پھر کسی بھی طرح سے اس کو نقصان پہنچاتا ،اس نے بھی اپنا ایک گروپ بنا لیا تھا جو گم نام اس کے کہنے پر کام کرتا تھا ،اس نے اب گاوں والوں سے بھتہ بھی لینا شروع کردیا ،گونڈا ٹیکس بھی لینا شروع کر دیا ،جو کوئی نہ دیتا اس کے بچوں کو اغوا کر کے سزا دیتا ،اس طرح اس نے اپنا اور اپنی گینگ کا خرچہ اس بھتہ خوری سے نکالنا شروع کر دیا ،اس لڑکے ہاتھ اب اتنے لمبے ہو گئے کہ یہ اب کرایے پر بھی یہ کام کرنے لگا کہ کسی کو بھی اپنی دشمنی کا بدلہ لینا ہو تو وہ اس کو استعمال کرتا ۔ یہ جو بھتہ لیتا اس کا یہ اسلحہ لیتا اور اپنے گروپ کو دیتا، اب ایک گاوں دوسرے گاوں جہاں جہاں تک اس کی بات جاتی وہاں کہ بدمعاش اس سے رابطہ کرتے اور اپنا کام نکلواتے ،اب اس شہر میں اس گاوں میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جو اس کے اثر سے بچ سکے جو اس کے ساتھ تعاون نہیں کرتا تھا اس کو وہ مارنے کی دھمکی دے کر اس کو مجبوراََ اپنے ساتھ ملاتا،اب وہ ایک بے لگام ہاتھی بن چکا تھا ،گاوں میں کوئی بھی سیاست دان آتا وہ اس کا چمچہ بن جاتا اور اس وقت تک اس کے ساتھ رہتا جب تک کہ وہ اس سے کھا سکتا تھا جب وہ دیکھتا کہ اب یہ میرے کام کا نہیں رہا یا میں اب اس سے کچھ کھا نہیں سکتا ،یا یہ سیاست دان اب مجھے کچھ نہیں دے گا تو وہ ایک دم کچھ ایسے مطالبات سامنے لے آتا جس کو مانا اس سیاست دان کے لئے مشکل ہوتا اس طرح اسے یہ فائدہ ہوتا کہ وہ سیاست دان کی یا کسی بھی لیڈر کی کھل کر مخالفت کرتا ،اور ساتھ اپنے گاوں کے لوگوں کو یہ بتاتا کہ میں نے آپ کے حق میں آواز اٹھائی ہے آپ میرا ساتھ دے ،گاوں والے جانتے ہوئے بھی سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی اس کے ساتھ رہتے کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ اگر اس کی بات نہ مانی تو کل یہ خود ہی میں نقصان پہنچا کر یہ کہئے گا کہ ان کو فلاں بندہ مار گیا ہے ،وہ لڑکا اب لڑکا نہیں راہ تھا بلکہ اپنے آپ کو ایک لیڈرکہنے لگا اور اس نے لوگوں کے سامنے اپنی عزت بنانے کے لئے کچھ ایسے نعرے بنا لئے جنہیں سننے والا یہ کہتا کہ یہ بڑے اچھے ہیں ،یہ بندہ ہمارے کام آئے گا ،اس لڑکے نے ان ہی لوگوں کے خلاف آواز بلند کی جنہوں نے اسے اس مقام تک پہنچایا تھا ،اس کا کہنا تھا کہ میں گاوں میں غریبوں کا ساتھ دیتا ہوں میرا کام کمزورں کی مدد کرنا ہے مگر اس کے کام اس کے برعکس تھے نہ یہ کسی غریب کا ساتھ دیتا اور نہ یہ کسی وڈئرے کے خلاف کوئی کام کرتا اس نے اپنی مظلومیت ظاہر کر کے بہت سے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا جیسے جیسے لوگ اس کی اصلیت سے واقف ہوتے وہ اس کا ساتھ چھوڑتے جاتے ،مگر جو جو اس کا ساتھ چھوڑتا یہ ان کو مروادیتا ،مگر یہ کبھی نہ طاہر ہونے دیتا کہ ان کو کس نے مارہ ہے وہ پہلے کچھ ایسے حالات پیدا کرتا پھر ان حالات کی خرابی پر خود سامنے اتا اور کہتا کہ یہ ہمارے خلاف ظلم ہو رہا ہے ،پھر وہ موقع سے فائدہ آٹھاتے ہوئے ہر اس شخص کا قتل کر دیتا جس سے اس کو کوئی ڈر ہوتا یا جو اس کے خلاف بولتا ،اس طرح یہ پتہ ہی نہ چلتا کہ مرنے والے کو کون مار رہا ہے اور ان ہلاکتوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ،وہ گاوں جس میں یہ امن لانے کی بات کرتا ،جس میں یہ اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کرتا اسی گاوں میں یہ انڈر ورلڈ کا بادشاہ تھا ،اس کے اشارے پر سب کچھ ہوتا ۔
ایک وقت ایسا ایا کہ گاوں کے کچھ لوگوں کو یہ یقین ہو گیا کہ سب فساد کی جڑیہ ہے تو گاوں والوں نے اس کے خلاف جلسے جلوس نکالنا شروع کر دیئے اس طرح یہ بات سامنے آگئی کہ گاوں کا سکون تباہ کرنے میں اسی کا ہاتھ ہے ،جب اسے پتہ چلا کہ اب میرا یہاں پر رہنا مشکل ہو گیا ہے تو اس نے گاوں سے بھاگ کر ایک دوسرے شہر میں پناہ لے لی اور اپنے پیچھے چھوڑے بندوں سے اس نے دور بیٹھے کام لینا شروع کر دئے ،اس کا نیٹ ورک اتنا بڑا ہوگیا کہ اب ہر وہ آدمی جس نے کسی نہ کسی سے بدلہ لینا ہو یا جس نے کسی کا قتل کرنا ہو وہ اس کے گروپ میں شامل ہو جاتا ۔یہاں تک کہ بہت سے ممالک بھی اس کو رقم دے کر اپنے مفاد میں استعمال کرنے لگے۔وہ لڑکا بڑا ہو کر چنگیز خان بنا ،آج اگر ہم اپنی ملک کی سیاست پر نظر ڈالیں تو ہمیں ہر طرف چنگیز ہی چنگیز نظر آئیں گئے ،لیکن ان کے نام اور چہرے الگ الگ ہیں ،ایم کیو ایم ہو یا پھر کوئی دوسری سراٹھانے والی پارٹی ان کا آغاز بھی اسی طرح سے ہوا ہے ،آج ملک میں عوامی لیڈروں کا دعوہ کرنے والے ،آج اپنے آپ کو خدمت خلق کا دعوہ کرنے والے کردار کے اور عمل کے چنگیز خان ہیں ،یہ سب ایک ڈھونگ ہے ملک لوٹنے کا عوام کو دھوکا دینے کا ،جو مخلص ہوتا ہے وہ نظر آجاتا یہ یہ سب فصیلی بٹیرے ہیں موسم کے ساتھ ساتھ بدل جاتے ہیں ،ہماری تباہی کی سب سے بڑی وجہ ،ہماری ناکامی اور بربادی کی وب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم ان کے کردار کو بھول جاتے ہیں ہم ،ان کے ماضی کو بھول جاتے ہیں اور ان کو اپنی قسمت کا مالک بنا کر ملک کی اور عوام کی تقدیر ان کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں ،اس کا انجام یہی ہونا ہے جو ہو رہا ہے جب تک ان کو ان کے کئے کی سزا نہیں مل جاتی اس وقت تک نہ کوئی آنے والا ٹھیک ہوگا اور نہ یہ لوگ ٹھیک ہونگے ،عوام کو اب حقیقت کی آنکھ سے دیکھ کر اس ملک کی قسمت کے فیصلے کرنے ہونگے۔
٭٭


 

 

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team