اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-                                                            iqbal-janjua@gmail.com    

Telephone:-       

 

تاریخ اشاعت08-02-2010

وہ میرا ہیرو نہیں ہو سکتا

کالم:۔اقبال جنجوعہ




ڈاکٹر فرقان میرے بڑے اچھے دوست ہیںوہ صرف ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ ایک سوشل ورکر اور روحانی ڈاکٹر بھی ہیں،دوہزار پانچ کے زلزلے میں انہوں نے نہ صرف اپنی خدمات پیش کی بلکہ لاورث ہونے والی بچوں کو بھی کشمیر سے ساتھ لائے ، ان کو اپنی اولاد کی طرح پال رہے ہیں ،مون مارکیٹ لاہور میں ہونے والے حادثے میںزخمی ہونےوالے افراد کو بھی انہوں نے ٹریٹ کیا تھا ،وہ اکثر مجھے روحانی مشورے بھی دیتے رہتے ہیں اور میرے حوصلے بلند رکھنے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے ،ان کو اس ڈاکٹری کے شعبے سے وابسطہ کم از کم آٹھ دس سال ہوگئے ہیں جب وکلا کی تحریک چل رہی تھی وہ اکثر مجھ سے اس پر بحث کیا کرتے اور کہتے کہ واقعی یہ بات سچ ہے کہ لیڈر لیڈر ہی ہوتا ہے کسی بھی تحریک کو کامیاب یا نا کام بنانے میں لیڈر کابہت بڑا کردار ہوتا ہے ،وہ اکثر یہ بھی کہتے کہ اس تحریک سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے ،اور یہ بھی سمجھ آئی کہ لیڈر کا کسی بھی تحریک میں کسی بھی قیادت میں کیا کردار ہوتا ہے ،اس میں ایک بات انہوں نے یہ بھی محسوس کی کہ لیڈر جس قدر سچا دیانت دار ہوگا وہ اتنا ہی مضبوط اور کامیاب ہوگا ،اسی تحریک کے دوران انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں اس تحریک کے روے رواں اور بے باک لیڈر عتزازا حسن سے بہت متاثر ہوا ہوں لہذا میں نے اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں نے بھی وکیل بننا ہے ،میں نے ان سے کہا کے اب آپ کی عمر کہاں اور اس میں کونسا آپ راتوں رات وکیل بن جائیں گے آپ اتنے کامیاب ڈاکٹر ہیں آپ کی آمدنی بھی ماشااللہ بہت اچھی ہے آپ نے اپنا ہسپتال بھی بنا رکھا ہے میری ساری باتوں کا انہوں نے ایک ہی جواب دیا کہ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ اس ملک میں تندیلی کا باعث یہ وکیل بن رہے ہیں اور یہ وکیل اس ملک کا نام دنیا میں روشن کرےں گے میں چاہئے کامیاب وکیل بنوں یا نہ بنوں مگر میں نے یہ پیشہ اپنانا ہے اور یہ کرنا ہے ،فرقان صاحب کے پاس دولت کی کوئی کمی نہیں تھی وہ جتنا مرضی مہنگا انسٹیٹوٹ جوائن کر تے ان کے لئے کوئی مسلہ نہیں تھا ،وہ اپنے ارادے پر قائم رہے چند دن بعد مجھے ملے اور کہا کہ بھائی میں نے اب داخلہ لے لیا ہے اور میںاب یہ کام کر کے ہی چھوڑوں گا،ان کا کہنا تھا کہ جب میں کسی کو کہوں گا کہ میں وکیل ہوں تو میرے لئے یہی عزاز کافی ہے کہ وکیلوں نے ایک امر کے ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ،میرے لئے یہی کافی ہے کہ وکیل کسی طاقت کے اگے جھکے نہیں ،میرے لیے یہی کافی ہے کہ میں نے اس ملک میں تبدیلی لائی ہے ،وہ عتزاز کے بہت بڑے فین بن گئے حالانکہ ان کو سیاست سے نہ کوئی دلچسپی تھی اور نہ وہ اس کو پسند کرتے وہ جب بھی وکلا کی بات کرتے اس میں وہ عتزازا حسن کی بات ضرور کرتے ،ان کا کہنا تھا کہ جس دن اس ملک کو اعتزاز جیسا لیڈر مل گیا اس دن سمجھ لو کہ اس ملک کی تقدیر بدل گئی ،میری اکثر ان سے یہ بحث رہتی کہ اصلی ہیرو تو افتخار چوہدری ہے امر کے سامنے تو اس نے انکار کیا اس کے جواب میں فرقان صاحب مجھے لاجواب کر دیتے کہ اگر وکلا تحریک نہ چلتی تو چوہدری افتخار کیا کرتا ،اس تحریک میں اعتزاز جیسے لیڈر نہ ہوتے تو اس کو کامیاب کون کرتا ،دو سال تک مسلسل اس کو چلانا اور اس حد تک کہ ہر عام و خاص کی زبان پر یہی تھا ،بڑے بڑے تبصر ہ نگاروں کا ،تجزیہ کاروں کا یہی کہنا تھا کہ اب وکلا تحریک ختم ہو گئی ہے ،غیر فعا ل جج کبھی بحال نہیں ہو سکتے مگر یہ اعتزاز اور کرد ہی تھے جنہوں نے اس تحریک میں جان ڈالے رکھی اس کو مرنے نہیں دیا آخر وہ وقت آگیا کہ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ،وہ مجھ سے سوال کرتے بتاو کون ہے جس نے یہ سب کچھ کیا میں لاجواب ہو جاتا مگر اپنی تسلی کے لئے کہتا کہ کونسا کوئی ایک وکیل تھا یہ تو سب کی برابر کوشش تھی ،اس پر وہ پھر بے اختیار شروع ہو جاتے کہ بتاو کہ تم اپنے گھر کے چار بندوں کو ایک ساتھ نہیں رکھ سکتے تم اپنے رشتے داروں کو ،اپنے دوستوں میں اتحاد قائم نہیں رکھ سکتے یہ لاکھوں وکیل جو ایک موٹھ تھے ،یہ لاکھوں وکیل جو ایک آواز تھے ،یہ لاکھوں وکیل جو سیسہ پلائی ہوئی دیوار تھے جن کے گھر کھانے کو کچھ نہیں تھا مگر وہ بغا وت نہیں کرتے تھے ،اپنے بچوں کے سکولوں کی فیسیں تک نہیں ادا کر سکتے تھے،اپنے بچوں کا علاج تک نہیں کروا سکتے تھے جو ان کی آمدنی کا ذریعہ تھا وہی انہوں نے قربان کر رکھا تھا پھر بھی بغاوت نہیں کی کیوں یہ سب سہرا کس کے سر جاتا ہے اس لاکھوں کے مجمع کو ایک رکھنے میں کس کا کردار ہے یہ سب عتزازا حسن کی لیڈر شپ کا کمال ہی تو ہے کہ لاکھوں وکیل اپنے چولہے ٹھنڈے کر کے بھی اس کے ساتھ رہے،میں ایک بار پھر فرقان صاحب کے آگے لاجواب ہو جاتا ،وہ اکثر یہ کہتے کہ میں کسی سے متاثر نہیں ہوا مگر عتزازا حسن کی سچائی نے ،بہادری نے ،بے لوث خدمت نے ،مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں اب انہی کے نقش قدم پر چلوں گا ،فرقان صاحب نے اپنی لا کی تعلیم جاری رکھی وہ اس میں بڑی دلچسپی سے محنت کرتے ،انہوں نے دو سمسٹر میں بڑے نمایاں نمبر بھی لیے،ان کا مستقبل کا کیا پلان تھا یہ بھی بڑی دلچسپ کہانی تھی مگر میں یہاںپر مختصر کرتا ہوں ۔
وہ پچھلے دنوں میرے پاس آئے میں نے ان سے ان کے لا کی تعلیم کے بارے میں پوچھا ،انہوں نے کوئی جواب نہ دیا میں نے طنزیہ کہا کہ بس شوق ختم ہو گیا یا پھر ارادہ بدل دیا ،انہوں نے لمبی آہ بھری اور افسرہ لہجے میں کہا کہ سب کچھ خاک میں مل گیا میرے سارے خواب ،میرے سارے ارادے چور چور ہو گئے، مجھے اب اپنے آپ سے شرم آنے لگی ہے میں سوچتا ہوں کہ ہم لوگ کتنے معصوم ہوتے ہیں میں نے ان سے پوچھا خیر ہے آخر ہوا کیا وہ بولے کہ میں نے اب لا کی تعلیم حاصل کرنا چھوڑ دی ہے ان کی یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی میں نے کہا آ پ کو نہ فیس کی کمی ہے نہ کوئی اور مسلہ ہے اب تو آپ کا آخری سمسٹر ہے اتنے قریب آکر چھوڑنا کوئی عقل مندی تو نہیں ،اس پر انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ تم اگر کسی کہ نقش قدم پر چلتے ہو اور چلتے چلتے وہ تمام خوبیاں جس کو سامنے رکھ کر تم کسی کو آپنا آئیڈیل بناتے ہو ختم ہو جائیں تو تم کیا کروگے میں نے کہا کے میں اس آئیڈیل کا ساتھ چھوڑ دوں گا ،انہوں نے کہا کہ بس میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ میں جس عتزازا حسن سے متاثر ہو کر اپنے آپ کو تبدیل کرنے میں خوش قسمتی سمجھتا تھا ،میں جس عتزازا حسن کو جانتا تھا ،میں نے جس عتزاز احسن کو پڑا تھا دیکھا تھا ،سنا تھا ،وہ بد گیا ہے وہ اس معاشرے سے گم ہو گیا ہے ،وہ مجھے نظر نہیں آتا ،میں نے پوچھا آخر ہوا کیا ایسی کونسی بات آپ کو بری لگی جس سے تم اتنے ڈس ہارٹ ہو گئے ہو ،اسے نے کہا میں تمیں اپنی نہیں بلکہ اپنے دوستوں کی زبان میں جواب دیتا ہوں ،میرے دوست جو یہ جانتے تھے کہ میں عتزازا حسن کو کس قدر چاہتا ہوں انہوں نے اب طنز کرنا شروع کر دیا کہ یہ وہی وکیل ہے جو مشرف کے زمانے میں بابنگ دھل یہ کہتا تھا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں کوئی کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ایک ملک میں ایک قانون ہوتا ہے ،یہ وہی وکیل ہے جس کی نظم بے حد مقبول ہوئی تھی کہ عدل بینا جمور نہ ہوگا ،عدل بنیا بے بس ہر شہری ،عدل بینا ناکام اکائیاں،دھرتی ہوگی ماں کی جیسی، ہر شہری سے پیار کرے گی ،والی نظم ،یہ وہی وکیل ہے جس نے اپنی سچائی ،اپنی دیانت ،اپنی بے باکی ،اپنی لیڈر شپ سے اس ملک میں انصاف کی خاطر دو سال تک بغیر کام کیے تحریک چلائی اور کامیاب ہوا ،یہ وہ عتزازا حسن ہے جس کا نام اس ملک کے بچے بچے کی زبان پر تھا ،آخر وہی عتزازا حسن اپنی اسی زبان سے یہ کہہ رہا ہے کہ ملک کے سربراہ کو استثنیٰ حاصل ہے ،آج یہی کہا رہا ہے کہ آصف زرداری کو صادق و امین کہنا لازم ہے ،آج یہی عتزازا حسن اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ،اپنی پارٹی کی خاطر یہ کہہ رہا ہے کہ کوئی صدر صاحب کو نہیں چھڑ سکتا ،میں جس عتزاز سے متاثر ہوا تھا وہ اب نہیں رہا میں نے سوچا اگر اس دنیا میں عتزاز احسن جیسے بندے بھی بدل سکتے ہیں اگر اپنے کسی بھی مفاد کی خاطر عتزازا حسن جیسے بندے اپنا بیان بدل سکتے ہیں تو پھر ہمارا کیا بنے گا ،ہم جن پر فخر کر کے اپنی زندگی داو پر لگا دیتے ہیںوہی بدل جائیں ،کیا اس وقت کوئی اور قانون ہے ،،،اگر کوئی مجرم ہے اسے سزا ملنی چاہئے اور اگر بے گناہ ہے تو اسے کسی استثنی کا سہارا نہیں لینا چاہئے یہ کیا ہوا کہ مجرم بھی ہو استثنیٰ بھی ہو اور بے گناہی کا ڈنڈورہ بھی ہو،اس کے آخری الفاظ تھے میں جتنی محبت سے اس طرف آیا تھا اب میں اتنی نفرت سے اس کو چھوڑ کر جا رہا ہوں،ایک ہی بات پر دو رائے رکھنے والا میرا ہیرو نہیں ہو سکتا۔
 

 

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team