اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-                                                            iqbal-janjua@gmail.com    

Telephone:-       

 

تاریخ اشاعت19-02-2010

 فضول بات نہیں کرنی

کالم:۔اقبال جنجوعہ


دوپہر کا وقت تھا،مین آفیس سے ریجنل مینجر کا فون آیا کہ آج ہیڈ آفس سے کچھ بندے آنے والے ہیںسب تیار رہنا،میں نے کہا ،او کے سر،پھر سارے سٹاف کو بتایا کہ اپنی اپنی فائلوں سے گرد جھاڑ دیں اپنے اپنے تمام کام اپ ڈیٹ کر کے رکھ دیں یہ بات سنتے ہی ہر ایک اپنے اپنے کام میں مصروف ہوگیاکوئی صفائی کر رہا ہے ،کوئی فائل اپ ڈیٹ کر رہا ہے ،کوئی اپنے مطالبات کی یا مسائل کی لسٹ تیار کر رہا ہے سب نے اپنا اپنا کام مکمل کر کے سکھ کا سانس لیا اور انتظار میں بیٹھ گئے سب نے یہ سوچ رکھا تھا کہ یہ اچھا موقع ہے کیونکہ بہت سے ایسے مسائل تھے جو حل طلب تھے بہت سے شکوے تھے جو جونیئر کرنا چاہتے تھے ان کے ذہین میں تھا کہ ہم بات کرےں گے کہ دو سال سے ہمارا کوئی انکریمنٹ نہیں لگا مہنگائی میں چار گناہ اضافہ ہو چکا ہے مگر ہمیں کوئی سہولت نہیں دی گئی ،ہمیں چاے کا بل بھی نہیں ملتا ،ہمیں میڈیکل بھی نہیں ملتا،کسی قسم کا ،ٹی اے ڈی اے ،بھی نہیں ملتا ،بہت سے ایسے کام ہوتے ہیں جو آفس کے لئے کئے جاتے ہیں مگر ان کا خرچہ بھی جیب سے کرنا پڑتا ہے اس کے علاوہ آفس آنے کا ٹائم ہوتا ہے مگر جانے کا کوئی نہیں کسی کو اوور ٹائم بھی نہیں دیا جاتا جو سینئر سٹاف ہے اس کا سال میں دو دو بار انکریمنٹ لگتا ہے ان کو بونس بھی ملتا ہے اس کے علاوہ موبائل فون بل،ٹرانسپورٹ الاونس،میڈیکل الاونس،اور پرفارمنس الاونس بھی دو دو بار ملتا ہے ،حال ہی میں ہمارے مینجر صاحب کو ہماری محنت پر بیسٹ پرفارمنس پر لاکھ سے اوپر انعام ملا مگر اس نے اپنے اسٹاف کی حوصلہ افرائی تک نہیں کی اس طرح کی بے شمار شکایات تھیں جو جونیئر اپنے ہیڈ آفیس سے آنے والے چیرمین اور جی ایم سے کرنا چاہتے تھے ،کیونکہ یہ تما م مسائل کے ذمہ دار مین آفیس کے لوگ تھے کیونکہ سینئر جب تک کوئی مدد نہیں کرے گا ،یا سینئر جب تک اپنے جونیئر کی تعریف یا اس کو ریکمنڈ نہیں کرتا اس وقت تک ہیڈ آفس والے کبھی مہربان نہیں ہوتے،مگر یہاں پر مسلہ یہ تھا کہ سینئر کو سال میں دو دو بار تنخوائیں بڑھ جاتیں ہیں ان کو بونس مل جاتا ہے ،ان کو تمام سہولیا ت مل جاتیں ہیں پھر ان کو کیا تکلیف کہ وہ اپنے جونیئر سٹاف کی کوئی سفارش کریں،جب بھی ان سے بات کی جاتی کہ سر ابھی تک انکریمنٹ نہیں لگا ،ہمیں انٹرٹینمنٹ تک نہیں ملتی تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ آپ اگر اپنی نوکری سے مطمئن نہیں ہیں تو نوکری چھوڑ دیں یہاں پر بے روزگار بہت ہیں آپ کی تنخواہ پر ہم دو بندے لگا دیں گے جب سینئر کی طرف سے ایسا جواب ملتا تو پھر آگے مذید بات کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ،دوپہر کو جب آر ایم نے فون کیا تو اس کے بعد اس نے ہر دس منٹ بعد فون کرنا شروع کر دیا اور جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا وہ ایک ہی بات تھی کہ ہیڈ آفس سے جو لوگ آرہے ہیں ان کے سامنے کسی قسم کی کوئی فضول بات نہیں کرنی ہے ،یاد رکھنا کسی قسم کی کوئی فضول بات نہیں کرنی ہے ،ٹھیک ہے سر،کچھ وقت گزرا تو تین چار آدمی گاڑی سے اترے سب ان کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے انہوں نے اپنے ایجنڈے کے مطابق کام چیک کیا اور پوچھا کوئی مسلہ سب اپنی اپنی باری پر بولے ،،نو سر،جب تک وہ لوگ آفس میں رہے سب کی زبان پر دو ہی لفظ تھے،،،یس سر،نو سر،، اس کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوئی جیسے ہی وہ واپس نکلے تو آر ،ایم نے پھر سے فون کیا ہاں کیسا رہا ان کا وزٹ ،کوئی فضول بات تو نہیں کی ،اب یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ فضول بات کیا تھی یا کیا ہو سکتی تھی اپنے حق کی بات ،اپنی محنت کی با ت ،اپنی انکریمنٹ کی بات ،اپنی انٹر ٹینمنٹ کی بات ،اپنی میڈیکل کی بات ،اپنی چھٹی کی بات ،یہی باتیں تھیں جس کا خطرہ آر ایم کو تھا اسی کو وہ فضول بات کہہ رہا تھا ،یہاں پر ایک بات نوٹ کرنے والی ہے کہ کسی بھی بات کی اہمیت ،یا کسی بھی مسلے کی اہمیت اصل میں اسٹیٹس کے لحاظ سے ہوتی ہے یہاں آپ اندازہ کریں کہ ایک طرف مشکلات ،مسائل ،کسی کا حق تھے ،کسی کی محنت تھے ،کسی کی خوشی تھے ،کسی کی پریشانی کا حل تھا ،کسی مسائل کا حل تھے ،کسی کی روزی روٹی کو پورا کرتے تھے ،وہی مسائل ،وہی مشکلات ،وہی پریشانیاں دوسری طرف ایک آر اہم کے سامنے ایک فضول بات تھی،اس کی نظر میں تھا کہ یہ کوئی مسلہ نہیں اگر انہوں نے یہ باتیں کر دی تو شاید میرے لئے کوئی مسلہ پیدا ہو جائے یا میری ریپوٹیشن میں فرق آجائے ،اور یہ اس کے لئے فضول بات اس لئے تھی کہ اس کے گھر کا خرچہ اپنی تنخواہ سے نہیں بلکہ اوپر سے ملنے والے الاونسیس سے ،میڈیکل سے ،فون کے بل سے ٹرانسپورٹ کے فیول سے چلتا تھا اس کو یہ پریشانی نہیں تھی کہ بجلی کابل کہاں سے آئے گا بچوں کی فیس کہاں سے پوری ہوگی ،کچن کا سودہ کیسے پورا ہوگا ،اس کو پتہ تھا کہ چھ ماہ بعد مجھے اپنی اوقات سے زیادہ مل جاتا ہے اس لئے ان کی نظر میں ایک مزدور کے مسائل ،ایک مزدور کا حق ،ایک مزدور کی محنت کی اجرت ایک فضول بات سے زیادہ کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔
یہ کسی ایک پرائیویٹ کمپنی کے ملازمین کا قصہ نہیں ہے یہاں پر ہزاروں پرائیویٹ ،ادارے اور سرکاری ،نیم سرکاری اداروں میں یہی کچھ ہوتا ہے کہ محنت کوئی اور کرتا ہے ،دن رات ایک کوئی اور کرتا ہے ،اپنی جان کو مشکل میں کوئی اور ڈالتا ہے مگر اس کا صلہ کسی اور کو ملتا ہے ،سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب کوئی ایم ڈی ،یا کوئی جی ایم ،یا کوئی ایسا شخص جو ان جونیئرز کے لئے کچھ کر سکتا ہو وزٹ کرتا ہے سب کی امیدیں ہوتیں ہیں کہ ہم ان کو اپنے مسائل بتائیں گے شاید کوئی شنوائی ہو جائے مگر وہاں پر ،کوئی فضول بات نہیں کرنی،،،کہہ کر سب کچھ ختم کر دیا جاتا ہے ،ہاں اگر کوئی زیادہ بہادر بنے ،یا کوئی تیز طراز بننے کی کوشش کرے اور وہ اپنا مسلہ بیان کر دے تو اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے کہ اس کو نوکری سے نکال دیا جاتا ہے یہ کہہ کر کہ تم نے اپنے حق کی بات کر کے ہمیں بدنام کیا ہے ،یا اس کی بم ڈیسپوزل سکواڈ کے اہلکار کی طرح سچ بولنے پر سکھر ٹرانسفر کر دی جاتی ہے ،یہاں یہ المیہ ہے کہ اس غلام قوم کی غلام محنتی مزدور دن رات ایک کر کے کسی بھی ادارے کو کامیاب بناتے ہیں کسی بھی ادارے کے سینئرز کو لاکھوں کی تنخواہیں دلانے کے قابل ہوتے ہیں مگر وہ خود قابل رحم حالت میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ان کو ذہنی طور پر ایسا یرغمال بنایا ہوتا ہے کہ وہ اگر اپنے سینئر سے اپنے حق کی بات کرتا ہے تو اسے نوکری چھوڑنے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور اگر وہ کسی سینئر کے سینئر سے بات کرتا ہے چاہئے اس کا مسلہ حل بھی ہوجائے مگر اس پر کچھ نہ کچھ الزام لگا کر اس کو فارغ کر دیا جاتا ہے یا پھر اس کو تبدیل کردیا جاتا ہے اور اگر کسی طرح سے وہ بچ جائے تو سارا وقت اسے طعنے سننے میں اور طنز سننے میں گزرتا ہے ،یہ اس ملک کے مزدور کی کہانی ہے یہ اس ملک کے ایک محنت کش ،ایک پڑھے لکھے عام آفیسر کی کہانی ہے ،یہ اس ملک کے پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے کروڑوں ملازمین کی کہانی ہے ،یہ پرائیویٹ ملازمین اس لحاظ سے بد قسمت ہوتے ہیں کہ ان کو نہ گورنمٹ کے کسی اعلان کا فائدہ ہوتا ہے اور نہ ان کو اپنا سینئر کوئی عزت دیتا ہے یہ کئی کئی سالوں تک ایک ہی تنخواہ میں ایک ہی پوسٹ پر کام کر رہے ہوتے ہیں ان کی تعلیم ان کی ڈگریاں ،ان کا علم اپنے سینئرز سے کئی گناہ زیادہ ہوگا مگر ذہنی ٹارچر کر کر کہ ان کو اتنا نفسیاتی بنا دیا جاتا ہے کہ یہ اپنے آپ کو نالائق ترین انسان سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں ،یہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ہم میں کوئی کوالٹی ہی نہیں ہے ہم کیا بات کرے گئے ،جب کہ اصل میں ایسا ہوتا نہیں ۔یہاں یہ رونا رویا جاتا ہے کہ حکومت ذمہ دار ہے یا اس کی غلطی ہے ،یا حکومت کی نا اہلی ہے مگر یہاں پر تو کسی حکومت کی نہیں بلکہ اس معاشرے میں بسنے والے انسان کی بے حسی نظر آتی ہے ،یہاں پر تو اسی معاشرے کے انسان کی خود غرضی نظر آتی ہے کہ اسے اپنے ساتھ رہنے ،چلنے ،بسنے والے کے مسائل ،مشکلات ،پریشانیاں کوئی بات نہیں لگتی بلکہ اسے ایک فضول بات لگتی ہے ،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان پریشانیوں کو دور کون کرے گا ،ان مسائل کو حل کون کرے گا ان مزدوروں کو حق کون دے گا جس کے اختیار میں ہے اسکی نظر میں تو یہ فضول بات ہے پھر کونسا فرشتہ ائےگا ،یہی حال ہمارے ملک کا ہے کہ جتنے بھی عوامی مسائل ہیں ،جتنی بھی عوامی پریشانیاں ہیں ،وہ سب ان حکمرانوں کے لئے ان لیڈروں کے لئے ،ان عوامی نمائندوں کے لئے ایک فضول بات سے زیادہ کچھ نہیں ہے ،یہ مہنگائی کا رونا ،یہ گڈ گورئنس کا نہ ہونا ،قانون کی بالادستی نہ ہونا ۔انصاف کا نہ ملنا ،وڈیرہ شاہی ہو،یا جاگیرداری نظام ،بیوروکریسی ،اورآفسر شاہی کا راج یہ سب عام آدمی کے لئے بڑے مسائل پیدا کرتے ہیں اور یہ سب حکمرانوں ،بااختیار ،اور بر سر اقتدار لوگوں کے لئے امیر،رئیس،جاگیرداروں،سرمایا داروں،صنعت کاروں،سیاست دانوں،اور بیوروکریٹس کے لئے ایک فضول بات ہے جو کہ کرنی ہی نہیں چاہئے،

 

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team