اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
 
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-mahmedtarazi@gmail.com

تاریخ اشاعت:۔26-06-2010

وہی حالات ہیں فقیروں کے

کالم۔۔۔------------ محمد احمد ترازی

ہمارے ایک دانشوردوست کا خیال ہے کہ موجودہ زمانہ انسان اور خدا،انسان اور کائنات اور انسان سے انسان کے قدیم ترین رشتوں کو توڑنے کا زمانہ ہے، اُن کا خیال ہے کہ مغربی فکر و فلسفہ اور جدید سائنس نے اُن تمام انسانی رشتوں کو بری طرح توڑ پھوڑ کر رکھدیا ہے جو زمانہ قدیم سے لے کر آج تک انسانی زندگی کی معنویت کا تعین کرتے رہے اور جس کے بغیر انسانی زندگی کا تصور کرنا امر محال رہا ہے ،دور جدید میں انسانی رشتوں کی عزت،حرمت ، بے قدری اور بے توقیری کو دیکھتے ہوئے اپنے دانشوردوست کی بات سے سو فیصدی متفق ہونے کے باوجود ہمارا خیال یہ ہے کہ دور جدید نے صرف ان رشتوں کوہی توڑ پھوڑ کر نہیں رکھدیا بلکہ اِن کے معنی و مفہوم بھی بدل دیئے ہیں،آج انسانی تعلقات اور معیارات کے پیمانے بدل گئے ہیں کل تک انسان کی تمام تر جدوجہد اور سرگرمیوں کا مرکزاُس کے قریبی رشتے ، دوست احباب ، عزیز و اقارب ہوا کرتے تھے لیکن آج کے جدید سائنسی دور میں انسان کی تمام تر جدوجہد اورسرگرمیوں کا مرکز انسان کی انسان سے محبت اور نفسیاتی و جذباتی وابستگی کے بجائے معاشی تگ و دو نے لے لی ہے اور اب انسانی رشتوں اور تعلقات کا پیمانہ بہتر معاشی آسودگی اور اعلیٰ اسٹیٹس کے گرد گھومتا ہے۔
گویا معاشی آسودگی کے حصول نے انسانی زندگی کے اُس نظام کو جو محبت ، رواداری اور اپنائیت کے جذبوں اور ایک دوسرے کے احساسات کے گرد گھومتا تھا کو بری طرح مسخ کردیا ،اور آج یہ حال ہوگیا کہ اگر آپ معاشی طور پر مستحکم اور آسودہ ہیں تو آپ کے گرد دوست احباب اور رشتے داروں کا ہجوم عام سی بات ہے لیکن اگر آپ کی مالی حالت اور معاشی پوزیشن اچھی نہیں تو دوست احباب تو کجا سگے رشتے دار بھی آپ کو پہچاننے سے انکار کردیتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں اپنی قومی زندگی میں معاشرتی بے حسی اور سنگدلی کے یہ خوفناک مناظر جگہ جگہ بکھرے نظر آ تے ہیں،کہیں بھوک ،افلاس اور تنگدستی ہاتھوں مجبور باپ شفقت پدری کو مار کر اپنے تین ماہ کے بچے کو پانچ ہزار روپئے میں بیچ دیتا ہے توکہیں زرینہ جیسی ماں اپنی مامتا کا گلا گھونٹ کر اپنے پانچ جگر کے ٹکڑوں کو بیچنے کیلئے بازار میں لے آتی ہے،کہیں بشریٰ اپنے دو معصوم بچوں کے ساتھ ٹرین کے نیچے آکر غربت ،بھوک اور تنگدستی کے ہاتھوں تنگ آکر زندگی کی بازی ہار دیتی ہے، کہیں یاسمین اپنے تین بیٹیوں 12سالہ فائزہ، 9سالہ ایشا، 7سالہ جمیلہ اور 10سالہ بیٹے عدنان کو ،گل تاج بی بی اپنی دو بیٹوں 8سالہ عرفان اور 5سالہ عثمان کو اور رخسانہ اپنے دو بچوں 5سالہ وردہ اور 6سالہ نمرہ کو غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر کراچی کے ایدھی ہوم میں جمع کرانے پہنچ جاتی ہیں اور کہیں رضوان نامی غریب باپ سوکھے کی بیماری کا شکار اپنی پانچ سالہ بچی انعم کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیتا ہے ۔
غربت ،بھوک اورتنگدستی کے ہاتھوں مجبور ہوکر ملتان کی رہائشی خاتون زرینہ کا برائے فروخت کا بورڈ لگاکر کمہارانوالہ چوک پر اپنے چار بچوں کو فروخت کرنے کیلئے کھڑا کردیناہو یا لاہور میں سیون اپ اسٹاپ پر اپنے دو بچوں سمیت خودکشی کرنے والی بشریٰ بی بی کی دردناک موت ہویا کراچی کی رہائشی یاسمین،گل تاج بی بی اور رخسانہ کا اپنے 8بچوں کو ایدھی ہوم کے حوالے کرنا ہو ، یا رضوان کا اپنی بچی کو کوڑے کے ڈھیر پر پھیکنا ہو ،اہل وطن کیلئے یہ سب خبر یں ہرگز نئی نہیں ہیں ، روزانہ نامعلوم کتنے لوگ مفلسی اور بھوک سے تنگ آکر اپنے اعضاءبیچنے ، کتنی مائیں اپنے جگر کے ٹکڑوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں،اور کتنی بشرائیں ہیں جو پانچ سالہ زبیر اور تین سالہ معصوم صائمہ کے ساتھ بھوک اور افلاس کے ہاتھوں تنگ آکر زندگی کی بازی ہار رہی ہیں، کتنے رضوان اور کتنی یاسمین،گل تاج اور رخسانہ بی بی ہیں جو اپنے جگر کے ٹکڑوں کو ایدھی ہوم میں جمع کرانے یا کوڑھے کے ڈھیر پر پھیکنے پر مجبور ہیں۔
لیکن ارباب اقتدار اصل وجہ جاننے کے باوجود بھی اِس قسم کے واقعات کی روک تھام ، اُس کے تدارک اور کوئی مستقل حل تلاش کرنے سے معذورہیں ، روزمرہ زندگی میں پے درپے پیش آنے والے اِس قسم کے واقعات اور حالات کا جائزہ لینے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے جس طرح زرینہ کا اپنے بچوں کو فروخت کرنے کا اعلان ہمارے معاشرے میں کوئی پہلا اعلان نہیں تھا، بالکل اُسی طرح بشریٰ بی بی کی اپنے معصوم بچوں سمیت المناک موت ،رضوان کا اپنی بچی کو پھیکنااور یاسمین ،گل تاج بی بی اور رخسانہ کا اپنے بچوں کو ایدھی ہوم کے حوالے کرنا ہمارے گلے سٹرے معاشرے کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس طرح کے واقعات تو اب ہماری روز مرہ زندگی کا معمول بن چکے ہیں۔
اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک میں غربت کی شرح ستر فیصد سے تجاوز کرچکی ہے اور پانچ کروڑ سے زائد افراد غربت کی زندگی گزارہے ہیں،بیروز گاری میں % 8 سالانہ کے حساب سے اضافہ ہورہا ہے، مجموعی شہری آبادی کا پانچواں حصہ غریبی کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے ،ہر سال ملک میں50لاکھ بیروزگاروں کا اضافہ ہورہا ہے ،ملک کی 70% آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار کر جسم و جاں کے رشتے کو باقی رکھتے ہوئے زندگی گزارنے کی کوشش کرر ہی ہے،پاکستان کے کل آباد رقبے کی 55فیصد کچی آبادیاں زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں،ملک کی60فیصد آبادی کو پینے کاصاف پانی اور دیگر بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں،ملک کی نصف سے زائد آبادی ناخواندگی کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی ہے، غربت و افلاس اس حد تک قحط کی صورت اختیار کرگئی ہے کہ غریب عوام کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول ناممکن ہوگیا ہے، لوگ بے روزگاری کے ہاتھوں مجبور ہوکر خودکشی کر رہے ہیں۔
غربت و محرومی کی یہ داستان بڑی طویل ہے لیکن ان تلخ حقائق کے باوجوداِس غریب ملک کے حکمرانوں کے اللّے تلّلے اور شاہ خرچیوں کا یہ عالم ہے کہ ملک کے صرف ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ 17.5کنال پر محیط ہے ،جس کی تزئین و آرائش اور تعمیر نو پرسابقہ حکومت نے اربوں روپئے خرچ کیے گئے، اس دور میں ایوان صدر کے انتظام اور رکھ رکھاؤ کے اخراجات 29کروڑ اور ایوان صدر کے باغات کی دیکھ بھال کا بجٹ 70لاکھ روپئے سالانہ تھے ،اسی طرح سابقہ دور میں وزیر اعظم ہاؤس کا سالانہ خرچ 53کروڑ 87لاکھ روپئے تھا،وزراءکی فوج ظفر موج کیلئے کیبنٹ ڈویژن کے بجٹ میں 14کروڑ روپئے اور خفیہ فنڈ کی مد میں 40لاکھ روپئے رکھے جاتے ہیں،حکمرانوں کے بیرونی سفر بھی اس غریب ملک کے محدود وسائل کے بدترین استعمال کی شرمناک مثال ہیں، سابقہ دور میں ایک ایک سفر میں پانچ پانچ دس دس نہیں 60،60شرکاءسفر کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا رہا،اور کوئی مہینہ ایسا نہیں گزراجب صدر یا وزیر اعظم نے کسی بیرونی ملک کا رخت سفر نہ باندھاہو،قومی خزانے پر اِن دوروں سے پڑنے والے مالی بوجھ کا اندازہ صرف صدر ، وزیراعظم اور اُن کے ہمراہ جانے والے افراد کی مد میں کئی ارب روپئے سے زیادہ لگایا گیا ، جبکہ صدر ،وزیراعظم،وزرائے کرام،ارکان پارلیمنٹ اور اعلیٰ سرکاری حکام کے سالانہ دوروں پر مجموعی اخراجات کا تخمینہ 4ارب روپئے سے زیادہ بیان کیا جاتا ہے۔
بد قسمتی سے جو حال کل تھا وہی منظر آج بھی ہے، کردار ضرور بدل گئے لیکن منظر نہیں بدلا،جس ملک کے عام شہری کو سائیکل ،موٹر سائیکل یا اچھی ٹرانسپورٹ میسر نہیں اس ملک کے حکمرانوں کیلئے قیمتی ہوائی جہاز اور لگژری کاریں،جیپیں اور مرسڈیز بینز گاڑیاں منگوائی جائیں، زندہ معاشروں اور قوموں میں مضبوط قانون اور بلند اخلاقی سطح کے ہوتے ہوئے کبھی بھی کسی بھی حکمران کو اِس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ چیف منسٹر ہاوس، ایوان صدر ،اور ایوان وزیراعظم کی دیکھ بھال ،مہمانوں کی تواضع اور دیگر لوازمات اور وزراءو مشیروں کی فوج ظفر موج کے ساتھ بیرون ملک دوروں پر ملک و قوم کی خطیر رقم خرچ کریں اور مراعات و آشائش کے حصول کیلئے اپنی مرضی و منشا کا قانون بنائیں، عوام کے خادم اور غلام ہونے کے بجائے عوام کو اپنا خادم اور غلام سمجھیں،اور اُن کی طرز زندگی مفلوک الحال عوام کے برعکس عیش و عشرت ، خود غرضی اور ذاتی نمود ونمائش کی آیئنہ دار ہو، قوم نے دیکھا کہ حکمرانوں کے ایوانوں کی دیواریں بلند تر ہوتی گیئں لیکن غربت و افلاس کی ماری عوام کوپیٹ بھر روٹی،پینے کا صاف پانی اور دیگر بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں ہوئیں۔
جبکہ ہر دور میں ارباب اقتدار کے دستر خوان انواع اقسام کے کھانوں اور مرغ ِمسلم سے سجے رہے ،غریب کو کفن کیلئے کپڑا نصیب نہیں تھا لیکن حکمرانوں کو خیر مقدمی بینر کیلئے ہمیشہ ریشمی کپڑوں کے تھانوں کے تھان دستیاب رہے ، اِس وقت ایک عام آدمی بھوک ،افلاس اور مہنگائی کے جس خوفناک صحرا میں کھڑا ہے اُس کی ایسی کوئی دیوار نہیں جس سے وہ سر ٹکرا ٹکرا کر مرجائے،جس قبر نما گھر میں وہ رہتا ہے اس میں پاؤں پھیلانے کی صورت میں گھر کا حدود اربعہ ختم ہوجاتا ہے، روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اِس دور میں عام آدمی کو اپنے خانگی اور معاشی مسائل سے نبرد آزماءہونے کیلئے کم ازا کم 25ہزار روپئے ماہانہ درکار ہیں،جبکہ حکومت کم از کم تنخواہ چھ ہزار روپیئے مقرر کرکے سمجھتی ہے کہ اس نے ہر عام آدمی کے تمام مسائل حل کردیئے ہیں۔
اِس بات میں قطعا ً کوئی مبالغہ نہیں کہ اِس نظام زر کے ناخداؤں اور ملک کے فرمانرواؤں کا ایک ایک ڈرائنگ روم اور اُس میں سجے ہوئے نوادرات اور نمائشی ظروف اس ملک کے ہزاروں عام آدمی کے مکانات سمیت مجموعی اثاثے سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں، جناب صدر محترم اور محترم وزیر اعظم صاحب گستاخی معاف ایسے میں لوگوں کو صرف وعدوں سے بہلانا ،تقریروں سے جھوٹی تسلی دینا اور صبر کی تلقین کے ذریعےاپناہم خیال بنالینا ممکن نہیں رہا ہے، عوام اب باشعور ہوچکے ہیں اور اپنے ادرگرد کے حالات پر نظر رکھتے ہیں،آج ہر آدمی اپنے شکم کی آگ بجھانے اور زندگی کی ڈور کا سرا تھامے رکھنے کی تگ و دو میں بری طرح مصروف ہے ، اِس وقت مہنگائی،غربت،بے روزگاری،اور بھوک و افلاس نے عوام کو زندہ درگور کردیا ہے جس کا زندہ ثبوت غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہوکر ماؤں کا اپنے بچوں کا بیچنا ، معصوم بچوں سمیت خودکشی کرنایا ایدھی ہوم کے حوالے کرنا بھی ہے۔
معاشرے میں غربت و مہنگائی اور فاقہ کشی کے ہاتھوں موت جیسے سانحات کا جنم لینا سابقہ حکومت کی اُس آٹھ سالہ خوشحال ٹریکل ڈاؤن پالیسی کا اعادہ ہے جس کے ثمرات کا نتیجہ کراچی تا خیبر تک بچوں کی خرید و فروخت ،موت ،کچراخانوں پر پھیکنے اور یتم خانوں کے حوالے کرنے کی شکل میں بکھرا ہوا ہے ، گو کہ موجودہ حالات میں کچھ مخیر حضرات اور مختلف سیاسی تنظیموں کی جانب سے ان خاندانوں کی امداد کا اعلان یقینا ایک اچھاقدم ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غربت و افلاس کی ماری ہر ماں کو اپنے لخت جگر بیچ کر، موت کی وادی سے گزار کر ،کوڑے کے ڈھیر پر پھینک کر یا خیراتی اداروں میں داخل کراکے ارباب اقتدار کی توجہ حاصل کرنا ہوگی ؟
جناب صدر محترم اور وزیر اعظم صاحب یہ سارے واقعات آپ کی حکومت کیلئے ایک تازیانہ عبرت ہیں اور آپ کو فی الفور اِس کے اسباب و محرکات کے تدارک اور سابقہ حکومت کی غریب کُش پالیسیوں کو جاری رکھنے پر نظر ثانی کی دعوت دے کر لایعنی دعوؤں کے بجائے زمینی اور معروضی حقائق پر توجہ دینے کا تقاضا کررہے ہیں، موجودہ حالات میں عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ جب تک حکمران آمد و خرچ میں توازن پیدا نہیں کرتے ،مجموعی قومی وسائل کی روشنی میں کاروبار حکومت ترتیب نہیں دیتے اوروسائل و مسائل کے فرق کو مٹاکر ایک ایسا اعتدال پسند معاشرہ تشکیل نہیں دیتے ،جس میں حکمرانوں کی آسائشوں سے زیادہ عوام کی خواہشات کا احترام اور عکس نمایاں ہو،اُس وقت تک کوئی بھی سیاسی جماعت اور حکومت ملک سے غربت اور بھوک و افلاس کا خاتمہ کرکے سترہ کروڑ عوام کی تقدیر نہیں بدل سکتی۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team