اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
 
 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-sikanderdgk@hotmail.com

تاریخ اشاعت:۔25-06-2010

نیتوں کی بات ہے

کالم۔۔۔ محمد سکندر حیدر
 
کرغیزستان میں مناس فوجی اڈے پر امریکن سے ملاقات کا تانا بانا بُنتا اُس کا دماغ نئی سازشوں اور دہشت گردی کے ممکنہ واقعات کی تشکیل میں مصروف تھا۔ اُسے اِس بار یقین تھا کہ وہ امریکہ ، برطانیہ اور نیٹو فورسز کی معاونت سے ایران کو کاری ضرب لگانے میں کامیاب ہوجائے گاکیونکہ نیٹو کے سکریٹری جنرل Jaap De Hoop Schefferنے اُس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایران مخالف سرگرمیوں کے لیے اُسے ملٹری سازوسامان بالخصوص بم ،مشین گن کے ساتھ ایک اڈا Base) (بھی دیں گے۔2003 سے تاحال بطور کمانڈر اِن چیف جند اللہ وہ 154ایرانی فوجیوں اور 22سے زائد سویلین کو ہلاک جبکہ 320افراد کو زخمی کر چکا تھا۔ ایران کی طر ف سے وہ ہٹ لسٹ پر تھا لیکن امریکہ برطانیہ اور نیٹو کی پشت پناہی کی بنا پر وہ خود کو محفوظ سمجھنے لگا تھا۔ 23فروری 2010ءکو کرغیزستان ائیر ویز کی فلائٹ نمبر QH-454کے ذریعے وہ دبئی سے کرغیرستان روانہ ہوا۔ اِس کا جہاز محو پرواز خلیج فارس پہنچا تو اچانک ایرانی فضائیہ کے جنگی جہازوں نے اُس کے جہاز کو گھیرے میں لے کر پائیلٹ کو جنوبی ایران میں اُترنے حکم دیا۔جہاز کی غیر متوقع ایران میں لینڈنگ پر وہ پتھر کا مجسمہ بن گیا۔ ایرانیوں کو گرفتاری دینے کے سوا اب کوئی چارہ نہ بچا تھا۔ وہ عبدالمالک ریگی جو حفاظتی اقدامات کے طو رپر کبھی بھی کہیں دو راتیں اکٹھی نہ گزارتا تھا اور لوگوں سے ہاتھ ملاتے وقت دستانے پہنتا تھا۔ آج یوں گرفتا رہوا جیسے کسی شاہین نے اپنے شکار کو فضا میں جھپٹ لیا ہو۔عبدا لمجید عرف عبدالمالک ریگی 1979میں سیستان بلوچستان ایران میں پیدا ہوا۔ جامعہ العلوم اسلامیہ بنوری ٹاﺅن کراچی سے اُس نے دینی تعلیم حاصل کی ۔ 2002ءمیں جند اللہ تنظیم بنی تو 2003ءمیں اُسے اِس تنظیم کا کمانڈر اِن چیف بنا دیا گیا۔ سیستان بلوچستان میں سُنی مفادات کے تحفظ اور آزادی بلوچستان کے نام پر اِس تنظیم نے ایران میں قتل و غارت اور دہشت گردی کا ایک اذیت ناک خونی کھیل شروع کررکھا تھا۔ 24مئی 2010ءکو زہدان میں اُس کے بھائی عبدالحمید ریگی کو اُس کا شریک ِجرم ہونے کی بنا پر پھانسی دی گئی جبکہ 20جون 2010ءکو تہران کی ایون جیل میں اُسے اسلامی انقلابی عدالت کے حکم پر پھانسی دی گئی۔ عبدالمالک ریگی کی یوں ڈرامائی گرفتاری سے لے کر پھانسی تک کے تمام مراحل کی کاروائی کو دیکھ کر ایران مخالف قوتیں انگشت بدنداں ہیں کہ پلک جھپکتے یہ کیا ہو گیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب ایرانی قوم کا کہنا ہے کہ یہ پھانسی عبدالمالک ریگی کو نہیں امریکہ او ر اُس کے حواریوں کے ایران مخالف عزائم کو پھانسی دیتے ہوئے ایرانیون نے اُن کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ہے۔اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایرانیوں کا یہ طمانچہ اِس قدر زور دار تھا کہ تمام امریکن اور مغربی میڈیا شرمندگی کی بنا پر اِس واقعہ پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ ایرانی انٹیلی جنس اور فورسز کی اِس بے مثال کاروائی پر پوری قوم پھولے نہیں سما رہی۔ حقیقت نظری میں واقعی ہی ایرانی دادِتحسین کے مستحق ہیں۔ اُنہوںنے اپنے ملک میں انتشار اور دہشت گردی پھیلانے والے باغی گروپ کے سربراہ کو پھانسی د ے کر اپنے سیستان بلوچستان کے شہریوں کو امن وامان کا ایک انمول تحفہ دیاہے۔ ایرانی حکومت کی جانب سے دونوں باغی بھائیوں کو ڈرامائی انداز میں پکڑنا ،انصاف کے کٹہرے میں لانا، اسلامی انقلابی عدالت میں شہادتوں کی بناپر کیس لڑنا اور پھر بروقت انصاف کی فراہمی پر عمل کرتے ہوئے دہشت گردی اور قتل و غارت کی کاروائیوں میں نشانہ بننے والے افراد کے لواحقین کے سامنے اِن مجرموںکو پھانسی دینا پاکستان کے حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ سب کچھ ایک خواب لگتا ہے۔ پاکستان میں تفتیش اور پراسیکیوشن کے ناقص سسٹم کی بناپر قائم ہمارا عدالتی نظام اِس قدر لاغر ہو چکا ہے کہ اُسے اپنی قانونی تقاضوں کی لاچارگی کی بنا پر دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات میں ملوث ملزمان کو بری کرنا پڑ رہا ہے۔ میریٹ ہوٹل کے حملہ آور، پاکستان آرمی سرجن جنرل لیفٹینٹ جنرل مشتاق اور میجر جنرل (رٹیائرڈ)فیصل علوی کے قاتل ، جی ایچ کیو راولپنڈی پر حملہ کے سرغنہ ڈاکٹر عثمان، مناواں پولیس ٹریننگ سکول پر حملہ آور دہشت گرد ہجرت اللہ ہمارے عدالتی نظام کی کمزرویوں کی بنا پر باعزت بری ہوچکے ہیں۔ چیف جسٹس آف ہائی کورٹ پنجاب لاہور اِن واقعات کا بروقت ازخود نوٹس نہ لیتے تویہ دہشت گرد آج سڑکوں پر سرے عام گھوم رہے ہوتے۔یہ سب کیوں ہوا اور کیوں ہو رہا ہے ؟ اِس میں بہت سے قانونی امور کا عمل دخل شامل ہے۔ جن کو سلجھانا توقانونی ماہرین کا کام ہے ۔راقم سمیت تمام پاکستانی شہری تو فقط اِس قدر خواہش تمنا رکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے معصوم شہریوں کی جان لی ہے۔ انہیں ایرانی حکومت کے طرز انصاف پر سرعام پھانسی دے کر چوراہوں پر نشان ِعبرت بنا کر لٹکا دیا جائے اور اُن تفتیشی افسران اور پراسیکیوٹرز کے خلاف تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے جنہوںنے اِس قدر اہم مقدمات میں ایماندارانہ اور پیشہ وارانہ کارکردگی کا مناسب مظاہرہ نہیں کیا۔ ڈاکٹر عثمان اور ہجرت اللہ جیسے لوگ اگر بے گناہ تھے تو پھر انہیں وقوعہ کے روز پکڑ کر کیوں میڈیا پر تماشہ بناکر عوام کے سامنے پیش کرکے متاثرین کے لواحقین کو جھوٹی تسلی دی گئی۔ یہ ملزمان اگر بے گناہ ہیں تو اصلی مجرمان پھر کہاں غائب ہیں اور اب تک کیوںنہیں پکڑے گئے؟ایرانی اگر اپنے دہشت گرد مجرم کو فضامیں پکڑ سکتے ہیں۔ تو کیا ہماری فورسز اِس قدر نااہل ہو چکی ہیں کہ وہ زمین پر چلتے پھرتے اپنے مطلوبہ مجرموںکو بھی نہیں پکڑ سکتیں؟ جبکہ حقیقت کا آئینہ تو یہی چغلی کھا رہا ہے کہ واقعی ہی ہماری فورسز نالائق اور کام چور ہوچکی ہیں اِسی بنا پر تو مورخہ19جون 2010ءکو دن دیہاڑے سٹی کورٹ کراچی سے جند اللہ تنظیم کے دہشت گردوں نے اپنے تین ساتھیوں کو دستی بموں سے حملہ اور فائرنگ کرکے نہ صرف چھڑالیا بلکہ پولیس کانسٹیبل محمد شہبا ز کو شہید کرکے اُس کے لواحقین کو کرب مسلسل میںمبتلا کردیا۔
 

 
 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team