اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-sikanderdgk@hotmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔25-06-2010

ڈیپر یشن ایک معاشرتی بیماری
 
محمد سکندر حیدر

مہنگائی، بے روزگاری، عدم تحفظ جان و مال ، سرد بازاری اور افراتفری کے اس دور میں عزت سے دو وقت کی روٹی کمانا جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا ہے ایک عا م مزدور سے لے کر اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران تک کو پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ذہنی و جسمانی صحت کی شکل میں بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے ۔ ہر شخص مشکلات کے ہاتھوں زخم زدہ ہو نے کا شکوہ گُوہے ۔ چار دن کی زندگی میں زوری کمانے کے چکر میں ہر شخص روزگار کے گرداب میں ایسا پھنسا ہے کہ ہر شخص کی معاشرتی زندگی کی رنگ رلیوں اور مخصوص ثقافتی روایات پر معاشی الجھنوں کی دُھند چھا گئی ہے۔ ملازمت کے عدم تحفظ، دفتری سازشوں، افسران اعلیٰ کے دباﺅ، ڈوان سائزنگ ،رائٹ سائزنگ، ٹرانسفر، برطرفی کے خوف، کم تنخواہ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی بنا پر ہونے والی مالی مشکلات ، معاشرتی ناہمواریوں اور ازدواجی الجھنوں نے ملازمین کو ذہنی ٹینشن کا شکار کردیا ہے چھوٹا بڑا ہر ملازم نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہو نے کی بنا پر خواب آور ادویہ اور ذہنی سکون پہنچانے والی ادویات (اینٹی ڈپریشن)کے استعما ل پر مجبور ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں خاص طور پر ایگز یکٹوز پوسٹ کے حامل افراد کے بریف کیس اور الماریوں کو کھول کر دیکھیں تو ان میں کاغذات کے علاوہ خواب آور گولیاں،برین ٹانکس، ملٹی وٹامنز کی گولیاں اور بلڈپریشر کو معتدل رکھنے والی گولیاں بکثرت ضرور ملیں گی۔ ڈیپریشن بائی پروفیشن کی نفسیا تی بیماری جو چند عشروں قبل تک ترقی یافتہ ممالک کی بیماری تصور کی جاتی تھی آج پاکستان میں تیزی سے پھیل رہی ہے پاکستا ن مینٹل ہیلتھ فیڈریشن کے مطابق پاکستان کی پانچ سے دس فیصد آبادی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہے اور ان دفاعی نفسیاتی امراض میں سب سے بڑا مرض ڈیپر یشن ہے جبکہ سرکاری ملازمین کے حوالے سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق ۰۸ فیصد ملازمین پروفیشنل ڈیپریشن کا شکار ہیں ۔ ماہرین نفسیا ت کی رائے کے مطابق اس وقت دنیا میں 60 کروڑ سے زائد افراد ڈیپریشن کی بیماری میں مبتلا ہیں اور اگر ڈیپریشن کی شرح اِسی تیزی سے بڑ ھتی رہی تو ۰۲۰۲ءتک یہ دنیا کا دوسر ا بڑا مرض بن جائے گا۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی،ناگواری کی کیفیت، مایوسی، گھریلو رنجشیں، مالی تنگد ستی، فکرِمعاش ، افلاس،نعمتوں کے چھن جا نے کا خوف، خواہشات کی عدم تکمیل، احساس محرومی، ناجائز سختی اور معاشرتی ناہمواریاںتیزی سے لو گوں میں ذہنی دباﺅ اور افسردگی کا باعث بن رہی ہیں یہی وجہ ہے اس وقت ایک چپڑاسی سے لے کر اعلیٰ افسر تک اپنی معاشرتی زندگی اور ملازمت کی مجبوریوں کی بنا پر چڑ چڑے پن ، یاداشت کے متاثر ہونے، کا م پر عدم توجہ، زندگی اور خود کو بے کار سمجھنے،خوشیوں اور دلچسپیوں سے کنارہ کشی کرنے، ذمہ داریوں سے فرار، قوت فیصلہ میں کمی، بلاوجہ جسمانی تھکن محسوس کرنے، بھوک کا بہت زیادہ یاکم ہونے ، نیند نہ آنے یا پھر بہت دیر تک سونے، غمگین افسردہ اور چُپ چاپ رہنے، معاشرتی میل جول سے کترانے ، بات بات پر اشتعا ل انگیز ہونے، ہر وقت شکوہ گُو رہنے، احساس ِ کمتری یا برتری کے اظہار کر نے کی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے پروفیشنل ڈیپریشن کا یہ مرض ہمہ قسمی پیشوں سے وابستہ افراد مثلاً کلرک، مزدور، کسان، ددکاندار،ڈرائیور، ٹیچرز، پروفیسرز، ایڈوکیٹ،جج صا حبان، تاجروں اور صحافی حضرات میں تیزی سے سرایت کر کے ان کی زندگیوں کو اجیرن کر رکھا ہے ۔معاشرے کے تھنک ٹینک کی زندگیا ں ڈیپریشن کی بناپر اِسی طرح اجیرن ہوتی رہیں تو مجموعی قومی کارکردگی متا ثر ہو کر پوری قوم کے زوال کا باعث بن سکتی ہے ۔ بنکاروں کے بقول معقول تنخواہ اور ہمہ قسمی سہولیا ت کی فراہمی کے باوجود اُن پر جاب کا بے حد دباﺅ رہتا ہے ہر روز رقوم کی ادائیگیاں،وصولیاں اور بقایا جات کے اعداد شمار میں غلطی کا خدشہ نوکر ی سے ہاتھ دھونے کا خوف دلاتا رہتا ہے اور پھر جب سے حکومت نے ڈاون سائزنگ ، رائٹ سائزنگ اور گولڈن ہینڈ شیک سکیموں کا اجرا کیا ہے ان کی خو شگوار زندگی میں دکھوں کی تاریکی چھا گئی ہے۔ علوم انبیاءکے وارث معاشرے کے معمار اور مقدس ترین پیشہ سے وابستہ ٹیچرز حضرات کے بقول روز افزاں مہنگا ئی کی نسبت کم تنخواہ دور دراز علاقوں میں بِنا اضافی مراعات کے جبری ملازمت، معاشرے میں استاد کے احترام کے رحجان میں کمی اور درس و تدریس کے فرسودہ نظام کی بِنا پر ان کی زندگیاں ڈیپریشن کا شکار ہیں پاکستانی حالات و واقعات سے غیر ہم آہنگ ایجوکیشنل سسٹم، افسر شاہی کے رُعب، سیاسی اثرورسوخ کی بے جا مداخلت اور کلر ک بادشاہوں کی سازشوں کی بِنا پر ہو نے والے ٹرانسفر کے خوف نے انہیں آج مجبور کر دیا ہے کہ وہ درس و تدریس کی بجائے اپنا زیادہ وقت © © © © ©"نوکری کیسے بچائی جائے اور ٹرانسفر کیسے رکوائی جائے" پر صرف کریں۔پرائیویٹ جاب کرنے والوں کے بقول عدم تحفظ ملازمت کم تنخواہ اور کئی کئی ما ہ تک تنخواہ کی عدم ادائیگی نے ان کی زندگی کو گرہن زدہ کر دیا ہے۔ ہر وقت نوکر ی سے نکالے جانے کا خوف اور بچوں کی غربت نے انہیں زندہ لاش بنارکھا ہے بچوں کی فیس ، سوئی گیس ،بجلی ، ٹیلی فون اور پانی کے بلوں نے ان کے ماتھے پر نامرادی کی مہر ثبت کر رکھی ہے ۔ پاکستان کے کسی بھی پیشے اورمیدان ِ زندگی پر نگاہ ڈالیںتو یہی منظر دکھائی دیتا ہے کہ موجودہ غیر مستحکم اقتصادی حالات اور گذشتہ63 سالوں کی ناقص حکومتوں کی ناقص پالیسوں نے عام آدمی سے لے کر اعلیٰ افسران تک کی زندگیوں سے خوشیوں کو کشید کر لیا ہے ماہرین دماغی اور نفسیاتی امراض کے کلینکس میں تل دھرنے کو جگہ نہیں مل رہی ،دماغی امراض کی ادویات بنانے والی فیکٹریوں کی سیل اربوں ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے پروفیشنل ڈیپریشن کی بنا پر ملازمین میں ذیابیطس، آرتھرائٹس ،کمردرد، سینے اور معدے کے امراض پائے جانے لگے ہیں لوگوں کی زندگی ہر روز کا م پر جانے سے قبل یا کام سے واپسی پر ایک درد شکن گولی یا پھر خواب آور گولیاں کھانے تک محدود ہوکر رہ گئی ہے اور نجانے کب تک اِس بے بس اور مردہ احساسات کی زندگی کو مذید کِس قدر نا اہل حکمرانوں اور نا قص پالیسی سازوں کی بھینٹ چڑھنا ہے۔


 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved