اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309
 

Email:-      m.wajiussama@gmail.com 

Telephone:-                                                  +92-334-5877586          

 

محمد وجیہہ السماء

تاریخ اشاعت26-02-2010

ہم اور ہمارے بچے

کالم:۔ محمد وجیہہ السماء


ہمارے ملک کے زیا دہ تر لو گ پر یشان ہیں کہ اولاد با ت نہیں ما ن رہی ۔ اپنی من ما نی کر تی ہے۔ کو ئی بھی بات کر یںاس کا الٹا جواب دتی ہے ۔ ہم نے اس اولا د کو زند گی کی ہر آ سائش فراہم کی ۔ اپنا ”خون جگر“ ان پر لگا یا ۔ اپنا جسم ”کا ٹ “کر ان کو کھلا یا ۔ مگر یہ پھر بھی ہمارے بڑہا پے کا”آسرا“نہیں بن رہی ۔ کیوں؟؟؟؟؟
اس با ت کا ہر کسی کو خود جواب بھی پتا ہے کہ انہوں نے زیادہ لاڈ پیار دے کر اپنی اولاد کا بیڑہ غرق کیا ہوا ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی بتا دیتے ہیں کہ دنیا میں نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں ہر روز کو ئی نا کو ئی سا ئنسی چیز مارکیٹ میں آ کر ہمارے ذہن کے دریچوں کو ہلا رہی ہے۔ ہر کسی ملک سے کو ئی نا کو ئی چیز اس دنیا کی ما رکیٹ کا حصہ بن ر ہی ہے چا ہے وہ الیکٹرونکس کی ہو یا جیو لری ، کپڑوں کے ڈیزائن ہو ں یا کھا نے کی چیز یں فر نیچر کے ڈیزئن ہوں یا بچوں کے کھلو نے۔ ہر ملک دوسرے کو”معا شی ”مات دینا چا ہتا ہے ان میں سے چند ایک ایجادات تو صرف امیر ممالک کے لئے بنا ئی جا تی ہیں اور باقی جو زیادہ ترغریب ممالک کے عوام کے دلوں پر ”راج“ کر نے کے لئے بنا ئی جا تی ہیں جن میں بچوں کے کھلونے آرٹیفیشل جیولری وغیرہ ہیں ۔ اور ہر انسان اپنی اولاد کے لئے ان کو خریدتا ہے تا کہ اس کی اولادان سے دل بہلا سکے۔
با ت ہو رہی تھی بچوں کے کھلو نو ںکی تو لوگ کی نفسیات ہی ایسی ہے کہ اپنے بچوں کے لئے کھلونے لیتے ہی ایسے ہیں کہ ان کے ذہن با غی ہو جا ئیں ۔ اورکھلونوں کی تو یہ بات بھی قا بل ذکر ہے کہ آ ج جو بھی کھلونے بچوں کے لئے بنا ئے جا تے ہیں وہ چا ئینہ میڈ ہو تے ہیں وہ ہر کھلو نے کو کسی نا کسی شکل میں جنگ کے متعلق بنا تے ہیں ۔ان میں ہیلی کیپٹر ۔ میزائل ، ٹینک اور اس کے ساتھ ساتھ جو نئے کھلو نے نما گنیں بنا ئی گئی۔ اور یہ کھلو نا نما گنیں ڈاکٹروں کے مطا بق آنکھیں متا ثر کر سکتی ہیں۔ ان میں استعال ہو نے والی پلا سٹک گولیاں آنکھیں ذائع کر سکتی ہیں ہیں ان کا سب سے زیادہ نقصان بچوں پر ہو رہا ہے ۔ ہم اپنے بچوں کو کھلو نے بھی یہی لے کر دیتے ہیں تا کہ وہ ان سے اپنے دل بہلا ئیں ۔
ان کی وجہ سے اپنے پیاروں کو بچپن میں ہی ”دہشت گردانہ“اور اسلحہ وغیرہ کے” رسیا کار“ بنا ئے جا رہے ہیںاور بچے بھی اس جا نب را غب ہو رہے ہیں
اور تو اور ہمارے شادی و بیاہ کے مو قعوں پے اب ”بچے“ ہی اسلحہ استعمال کر تے دیکھا ئی دیتے ہیں۔ کو ئی 15سال کا ہے تو کو ئی18/20سال کا ہے ۔ جو پہلے کم از کم 50/55سال کے آ دمی استعما ل کر تے تھے کہ ان کو کچھ ہو بھی گیا تو خیر ہے مگر اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور 1980ءکے قریب تو شاید اسلحہ کو شادی و بیا ہ پر ایسے استعمال نہیں کیا جا تا ہو گا جیسے اب ہوتا ہے۔اس سے پہلے تو لوگ اس بات کو ” عیب“ تصور کیا کر تے تھے
اور اس کے ساتھ ساتھ آ ج کی ما ں اپنے بچوں کو نما ز ۔ قرآ ن نہیں سکھا تی بلکہ ڈراموں کے ٹا ئم بتا تی ہے۔ اور ڈراموں کے نا م یاد کر واتی ہے۔گانوں سے اسے لو ریاں دیتی ہے
گھر میںفون پر” جھوٹ“ بو لنے کا عمل” معمولی“ تصور کیا جا تا ہے۔
کمپیوٹر لے کے دیئے ہو ئے ہیں ۔ بیلیڈ گیم لا کے دی ہیں ۔ اور با ہر بھی ان کے لئے ہر ”آسائش“موجود ہے تو پھر یہ گلے شکو ے کر نے کا فا ئدہ؟؟؟
ہم اپنے بچوں کو کس دوراہے پر لے جا رہے ہیں کیا کبھی کسی نے اس بات کو سو چا ہے بعد میں لو گ کہتے ہیں کہ ہم نے تو اپنے بچوں کی” تربیت“ بہت اچھی کی ہے پھر پتا نہیں کس کی نظر لگ گئی ہے ان کو کیا ہو گیا ہے تو جناب اس کی وجہ بھی آ پ ”خود“ ہیں
جب ہم اپنے بچوں کو اسلحہ دیں گے ان کے سامنے جھوٹ بو لیں گے ۔ اپنے والدین کے ساتھ اونچی آواز میں بات کر یں گے۔ ان کا کہا نہیں ما نیں گے اپنے والدین کا کام نہیں کر یں گے ۔تو کل کو جب ان کی اپنی اولاد یں ان کے سا تھ یہ کریں گے تو کو ئی غلط بھی نا ہو گا ۔ اب بھی وقت ہے ہم اپنے آ پ کو اور اپنی دنیا و آخرت ٹھیک کر سکتے ہیں ۔اس کے لئے ہمیں سب سے پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کر نا ہو گا۔ اپنے والدین سے معا فی مانگنی ہو گی ۔ جو کو ئی جا نے نا جا نے میں غلطی ہو گئی ہو گی۔ اگر والدین ہم سے خوش ہو گئے تو ان لو گوں کی اولاد خود ہی ٹھیک ہو جا ئے گی۔ اور ویسے بھی والدین تو گھر میں ”جنت“ ہو تے ہیں۔ ورنہ جیسے ملک حکمرانوں کی پا لیسوں کی وجہ سے امریکی غلام بن چکا ہے کہیں والدین ” بچوں “ کے غلام نا بنانا شروع ہو جا ئیں

 

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team