اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 اردو پاور کے لیے اپنی تحریر     اس ای میل ایڈریس پر روانہ کریں

Email:-ceditor@inbox.com.......... Email:-Jawwab@gmail.com

 
 

خواہش

اس تپتی دھوپ میں ہر کوئی سایہ تلاش کرتا ہے، پرندے اپنے اپنے گھونسلوں میں پناہ لیتے ہیں۔
انسان اپنے گھروں میں چھپ جاتا ہے کہ گرمی کی لو سے بچ سکے، ایسے میں میرے گھر کے قریب ہی سائیکلوں کی دکان پر دس سال کا یاک بچہ کام کرتا تھا۔
آج جب میں اسکول سے گھر آرہا تھا کہ اچانک میری نظر اس چھوٹے بچے پر پڑی وہ اتنی تیزی سے اپنا کام کررہا تھا کہ میں حیران رہ گیا، میں مسلسل سوچ رہا تھا کہ یہ عمر تو اسکی اسکول جانے کی ہے مگر لگتا اس کو اسکول کا شوق نہیں یہ سوچ کر میں گھر میں داخل ہوگیا۔
میں روزانہ اسکول سے آتے جاتے اسے دیکھتا، کبھی اس کا استاد اسے کسی چیز کے لانے کی آواز دیتا تو کبھی استاد کے بیٹے اسے چائے لانے کیلئے کہہ کر پکارتے۔
بعض اوقات جب وہ دیر سے آتا تو اس کا استاد اس کو مرغا بنا کر جوتے سے مارتا میں اس دردناک اور دہشت ناک منظر کو دیکھ کر دم بخور درہ جاتا وہ مجھے اسکھول جاتا ہوا خوشی سے دیکھتا اور میرا جی بھی اس سے ملنے کا چاہتا۔
اللہ کے حکم سے ایک دن میری سائیکل خراب ہوئی، ابو جی نے مجھے پیسے دئیے کہ بیٹا تم سائیکل ٹھیک کروالو، ورنہ تمہیں پیدل اسکول جانا پڑے گا۔
میں سائیکل لے کر اسی دکان پر چلا گیا، میں وہاں بیٹھ گیا، میری سائیکل وہی بچہ ٹھیک کرنے کی کوشش کررہا تھا، ابھی وہ استاد کیبات سنکر آتا تو استاد فورا اسے دوبارہ بلا لیتا، اس طرح وہ بیچارہ بار بار اٹھ کر جاتا اور میں بھی اس دوران صرف اس سے ایک آدھ بات ہی کرسکا۔
ابھی تک میں اس کا نام ہی پوچھا تھا کہ اچانک اوپر سے استاد آگیا، چھوٹے نے مشکل سے ابھی سائیکل ہی کھولی تھی کہ استاد نہ کہا تمہیں شرم نہیں آتی صاحب کتنی دیر سے بیٹھے ہوئےہیں، اور اسے مرغا بننے کا حکم دیا۔
میں بڑی حیرت سے یہ منظر دیکھ رہا تھا، اور چھوٹا استاد کو یہ بھی نہ کہہ سکا کہ استاد جی آپ نے مجھے پہلے اوزار دینے کیلئے اور پھر کئی مختلف کاموں کیلئے بلایا تھا، وہ خاموشی سے مرغا بنا رہا۔
استاد نے جلدی جلدی سائیکل ٹھیک کی اور پیسے بنائے، میں نے پیسے دئیے اور گھر آگیا، مجھے اچھی طرح یاد ہے جب جون کے آخری میں بہت گرمی پڑ رھی تھی، بہت سخت لو چل ری تھی، کہ دوپہر کو دروازے پہ دستک ہوئی، میں ابھی کھانا کھا کر لیٹا ہی تھا بھلا کون اتنی سخت دھوپ میں اے سی والے کمرے سے نکل کر باہر جاتا۔
ممجبورا مجھے جانا پڑا جب دروازہ کھولا تو سامنے ہی چھوٹا کھڑا تھا، مجھے دیکھ کر وہ فورا بولا بھائی صاحب استاد جی نے ٹھنڈا پانی منگوایا ہے، میں اسے گھر کے اندر لے آیا، کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا مگر اس نے انکر کردیا، کہ ارہ صاحب ہم لوگ تو فرش پر ہی بھلے لگےت ہیں، اور وہ نیچے فرش پر بیٹھ گیا۔
میں نےکہا سنو تمہارا نام کیا ہے، میں نے اس سے پوچھا، بابو جی میرا کیا نام ہونا ہے، چھوٹے یا کاکے، بس یہ دو نام ہمارے ہوتے ہی۔
مگر میں تمہارا نام جاننا چاہتا ہوں ، میں نے اس کو دوبارہ کہا۔
تنویر اس نے جوابا کہا۔
تنویر تم اسکول کیوں جاتے؟ کیا تمہیں پڑھنے کا شوق نہیں ہے۔
بایوجی میر ابھی جی چاہتا ہے کہ میں بھی دوسرے بچوں کی طرح اسکول جائوں، صاف ستھرے کھڑے پہنوں میں نے اس کا پتہ پوچھا اس نے مجھے اپنا پتہ بتادیا۔
اچھا بائو جی آپ مجھے جانے دیں، میں نے کہا ابھی تو بہت دھوپ ہے ہم جیسے جکو دھوپ کیا کہتی ہے۔ارے بائو جی جلدی سےپانی دو، ورنہ استاد پھر مجھے بہت مارے گا۔
میں نے ایک بار پھر اپان سوال دہرایا کہ تم پڑھو گے؟ میرے سوال سن کر وہ مسکین صورت بنا کر بولا میری سوتیلی ماں نہیں پڑھنے دیتی۔
میں نے پوچھا سوتیلی ماں تو وہ کہنے لگا میں گھر میں اکیلا تھا کیونکہ ابو دفتر گئے ہوئے تھے اور امی اور بہن قریبی گائوں شادی میں گئی ہوئیں تھیں، کہ ایک ایکسڈنٹ نے ان دونوں کی جان لے لی، میں اس دن زندگی میں جی بھرکر پہلی مرتبہ رویا، سنا ہے جو لوگ اللہ تعالی کو اچھے لگتے ہیں اللہ تعالی انہیں جلدی اپنے پا س بلالیتا ہے۔
بائو جی آپ کو پتا ہے میری امی جان مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں، کہ ایک دن کچن میں کھانا تیار کررہی تھیں، کہ میرے ہاتھوں سے سالن گرگیا اور امی جان نے فورا گرم گرم شوربہ میرے ہاتھ میں صاف کیا اور تسلے کو بغیر کسی کپڑے کے پکڑ کر دکھیل دیا، انکے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے تھے۔
بائو جی ایک دن امی جان نے مجھے بیٹ بھی لاکر دی، اللہ جی کے پاس میری امی چلی گئی ہیں، بائو جی میری امی کی میری خواہش کی تکمیل کیلئے بے چین رہنے والی ماں ہزاروں من مٹی تلے دب گئی۔
اس واقعہ کے چار ماہ بعد ابو جی ایک نئی امی لے آئے، جب میں دوسری کلا میں پڑھتا تھا، امی نے مجھے کہا بیٹے تم اسکول نہ جایا کروں، میں تمہیں پڑھا دیا کروں گی۔
شام کو ابوجی آئے تو اس نے انہیں کہ یہ مجھ سے پڑھے گا، میں اسے ہائی اسکول میں داخل کروادون گی، ابوجی مان گئے، اور میرے لئے علم کا دیا ہمیشہ کیلئے بجھ گیا، اب میرے ابو جی بھی وفات پاچکے ہیں، اور میرے سوتیلی امی کے تین بچے ہیں، پہلے بھی ہم کرائے کے مکان میں رہتے تھے، میرے سوتیلے بہن بھائی پڑھتے ہیں اور میں صبح کو اخبار بیچ کر دکان پر آجاتا ہوں اور شام کو برف والے گولے کی ریٹھی لگاتا ہوں، اور وہ سب میری محنت کی کمائی کھاتےہیں۔
اس کے ساتھ وہ رو رہا تھا اور میری آنکہیں بھی پر نم تھیں ، میں اس سے کہا تم پڑھو گے تو اس نے ہاں میں سر ہلادیا۔
میں نے کہا کہ میں تم کو صبح اسکو داخل کرائونگا اور تمہاری سوتیلی امی کے بچوں کو بھی، وہ بہت خوش ہوا اور پانی لےکر واپس چلا گیا۔
دوستوں۔۔۔۔ اس واقعہ کو ایک بار پھر پڑھئیے اور سوچئے کہ ہم نے بھی کبھی از راہ ہمدردی اپنے ابور اور چچا جان سے کہہ کر اسی طرح کے غریب مسکیب پر ترس کھایا اس کے اچھے مستقبل کی فکر کی، اگر نہیں تو آج طے کرلیں کہ ہم بھی ایسا قدم اٹھائیں گے۔

 
 

 

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team