اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 اردو پاور کے لیے اپنی تحریر     اس ای میل ایڈریس پر روانہ کریں

Email:-ceditor@inbox.com.......... Email:-Jawwab@gmail.com

 
 

مظلوموں کی فریاد

رات بہت زیادہ گہری ہو رھی تھی اور تمام لوگ مزے سے سو رہے تھے،اتنے میں یاسر کے کمرے میں آہستہ سے بولنے کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں، یہ آوازیں کسی انسان کی نہیں بلکہ یاسر کی غریب اور خستہ حال کتابوں کی تھیں، یاسر چونکہ اپنی کتابوں پہ کبھی کور جلد نہیں چڑھاتا تھا،اور اگر چڑھا بھیلیاتا تو بہت جلد پھاڑ دیتا تھا، اور پھر بیچاری کتابیں سال تک ایسے ہی رہتیں تھیں۔
پہلی کتابیں بولی یا اللہ مجھے تو اپنا بہت برا لگتا ہے، اتنا گندار رکھا ہوا مجھے اور دوسری صاف ستھری کتابیں دیکھ کر منہ چڑاتی ہیں۔
دوسری کتابیں اردو کی تھی کہنے لگی یاسر ایک طالب ہے، اور اکثر پڑھاتا بھی ہے کہ صفائی لصف ایمان ہے صفائی صرف جسم کی نہیں بلکہ ہر چیز کی ہونی چاہئیے جیسے کہ ہم یعنی کتابیں۔
تیسری کتاب بولی یہ کتاب کتنی خوبصورت اور صاف ستھری پیاری ہے جو کہ یاسر کے دوست کی تھی یہ تو بولتی ہی نہیں شیاد یہ مغرور ہے۔
یاسر کے دوست کی کتاب کہنے لگی میں بولتی بھی ہوں لکین میں مغرور نہیں ہوں اور مجھے تو لوگوں کو دیکھر کر بہت افسوس ہوا ہے، ایک بہت موٹی کتاب جو کہ یاسر کے بیڈ کے سرہانے کی طرف رکھی تھی، ان سے دور تھی اس لئے قریب جانے کیلئے ان کی طرف بڑھی، لیکن، یہ کیا؟ وہ ایک پن سے ٹکرا کر یاسر کے منہ پر دھڑام سے جاگری، یا سر ایک دم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا، پھر اس نے کمرے میں نگاہ دوڑائی آج وہ کمرے کی لائٹ بند کرنا بھول گیا تھا، اسے ڈر لگنے لگا، اور وہ سونے کیلئے لیٹ گیا لیکن، اسے نیدن نہیں آرھی تھی، اس لئے وہ آنکھیں بند کرکے لیٹ گیا، اتنے میں اسے آواز آئی، ایک تو موٹی سے چلا نہیں جاتا موٹی کتاب بولی میں تمہارے پاس آرہی تھی، تمہاری باتیں سننے کیلئے۔
دوسری کتاب بولی ہم نے یہ ہی کہا تھا کہ ہمیں یاسر بہت گندا رکھتا ہے، ہمارے کور پھاڑ دیتا اور ہمیں شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے، یاسر اب سمجھ گیا تھا کتابیں آپس میں باتیں کر رہی ہیں، لیکن وہ حیران تھا کہ کتابیں بھی بولی ہیں، اس نے سوچا کہ چلو نا کی گفتگو بھی سننی چاہئیے، موٹی کتاب یسر کے دوست کی کتاب سے بول تم اتنی صاف ستھری ہو کہ تمہیں تو استاد بھی پڑھنے کیلئے اٹھالیتےہوں گے اور ایک ہم ہیں جنہیں استاد دیکھ کر منہ چڑھا دیتے ہیں، وہ ہمیں اٹھا نا تو دور دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے، اتنی مرتبہ یاسر کے استاد نے کہا تھا کہ یاسر اپنی کتابوں پر کور چڑھالو، یاسر نے کبھی ان کی بات پہ غور نہیں کیا، آج کتابوں سے ایسی باتیں سنکر اسے افسوس ہورہا تھا۔
یاسر کے دوست کی کتاب بولی ہاں مجھے بہت خوشی ہوتی ہے، جب استاد مجھے لے کر پڑھتے ہیں۔
اتنے میں ایک اور آواز آئی ارے میری بھی کچھ سن لو، سب کتابوں نے پلنگ کے نیچے کی جانب دیکھا ارے یہ کیا؟ یہ تو یاسر کے جوتے بول رہے ہیں، جنہیں یاسر نے اسکول سے آنے کے بعد بستر کے نیچے ھی پھینک دیا تھا۔
جوتا بوال میں بھی تمہاری طرح شرمندگی اٹھاتا ہوں، جب دوسرے جوتے صاف ستھرے جگمگاتے پالش کئے ہوئے مجھے دیکھ کر منہ چڑاتے ہیں۔
تمام کتابیں ایک آواز ہو کر بولیں بھی جس طرح ہمیں شرمنگی ہوتی ہے ویسے ہی جوتے میں آپ کو بھی ہوتی ہوگی۔
یاسر نے جوتے صاحب کی بات سنی تو انہیں امی کے الفاظ یاد آئے جو ہر روز ان کو جوتوں پر پالش کرنےکا کہا کرتی تھیں، لیکن وہ کسی کیکب سنتے ہیں اور نہ ہی اسے کبھی شرمندگی ہوتی لیکن اب جوتے کی باتیں سن کر اسے شرمندگی ہورہی تھی، ابتو اس کی امی نے اسے جوتوں پر پالش کرنے کا کہنا بھی چھوڑ دیا تھا۔
جوتے میاں بولے، یہ بہت ہی ناسمجھ لڑکا ہے، دیکھو اگر یہ ہمیں صاف ستھرا رکھے گا تو ہم دیر تک چلیں گے، وہی حساب ہوجاتا ہے انسان کھانا نہ کھائے تو مرجائے، اسی طرح ہم بھی ہیں اگر یہ مجھے پالش کرگا، اور اگر یہ تمہیں صاف کرگا تو بھی بہت دنوں تک چلو گی، اللہ اس لڑکے کو سمجھ دے۔
چھوٹی کتاب جو بڑی دیر سے ان کی باتیں سن رہی تھی، کہنے لگی جو خود اتنا گندا رہتا ہو اس سے صفائی کی کیا امید رکھیں؟
یاسر چونکہ خود بھی گندا رہتا تھا اور نہاتا بھی مشکلوں سے تھا، اس کی امی اسے نہانے کا کہتی ہے، لیکن وہ کہاں کسی کی سنتا تھا، اسلامایت کی کتاب بولی اب دیکھو قرآن پاک میں بھی اللہ تعالی نے فرمایا ہے ، بے شک اللہ تعالی صاف ستھرا رہنے والوں کو پسند کرتا ہے، کتابیں فریاد کرنے لگیں، اے اللہ یاسر کو خود بھی اور ہمیں بھی صاف رکھنے کی توفیق دے، سب ہک زبان ہوکر کہنی لگیں۔
کتابوں کی باتیں سن کر یاسر کو بے حد شرمندگیہوئی اور انجانے اسے کب نیند آگئی، جب اسکی آنکھ کھلی تو صبح ہوچکی تھی، یاسر نے سب سے پہلے کام یہ کیا کہ اپنی الماری سے کپڑے نکالے جوکہ استری کئے ہوئے اور ترتیب سے رکھے ہوئے تھے، اس کی امی نے کل ہی الماری میں رکھے تھے، اس نے سوچا کہ اس کے پاس اتنے اچھے کپڑے ہیں لیکن وہ انہیں پہنتا ہی نہیں بلکہ گندا رہتا ہے، پھر وہ نہایا اور نماز پڑھی۔
آج ویسے بھی چھٹی کا دن تھا اس لئے سب سوئے ہوئے تھے، جب یاسر کی امی اٹھیں تو انہیں یاسر کو صاف ستھرا دیکھ کر حیرت ہوئی، یاسر ناشتہ کرنے کے بعد امی سے کہا کہ امی جان مجھے پیسے دیں، میں اپنی کتابوں پر چڑھانے کیلئے کور لائونگا۔
یاسر کی امی خوشی سے بولی شک رہے تمہیں اپنی کتابوں اور اپنی صفائی کا خیال تو آیا یہ لو پیسے اور میں بھی آپ کی کتابوں پر کور چڑھادونگی، یاسر خوشی سے بوال اور امی جان مجھے اپنے جوتوں پر پالش بھی کرنا ہے، یاسر کی امی یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے۔
بیٹا پالش گھر میں موجود ہے، تمہیں پالش نہیں کرنی آتی ، چلو میں تمہارے جوتوں پر پالش کر دونگی، صاف ستھرا رہنے والے کو سب پسند کرتے ہیں، یاسر کی امی نے اپنی بات ختم کی۔
یاسر بولا امی جان میں بہت شرمندہ ہوں لیکن اب میں صاف ستھرا رہونگا اور اپنی کتابوں، جوتوں اور دیگر اشیا کو صاف ستھرا رکھونگا۔
یاسر کی امی کہنے لگی شابش بیٹا اور انہوں نے یاسر کو گلے لگا کر پیار کیا اور خدا کاشکر ادا کیا کہ اللہ تعالی نے یاسر کو سمجھ دی۔
امی جان اب میں خود اپنی کتابوں پر کور چڑھائوں گا اور اپنے جوتے خود پالش کرونگا اور شام کو یسر نے اپنی کتابوں پر کور چڑھا لیا، اپنےجوے پالش کئے جواب جگمگارہے تھے، اور ایسا لہتا تھا جیسے وہ اسکا شکر یہ ادا کررہے ہوں۔
دوستو۔۔۔ اس سے جو سبق ملا وہتو ظاہری ہے اب ہم اپنا معاملہ دیکھیں کہ ان چیزوں کے ساتھ کیسا ہے اور ہم بھی انکو صاف ستھرا رکھے۔
 

 

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team