اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 اردو پاور کے لیے اپنی تحریر     اس ای میل ایڈریس پر روانہ کریں

Email:-ceditor@inbox.com.......... Email:-Jawwab@gmail.com

 
 
 

تاریخ اشاعت:2010-02-29

ڈی این اے کی مدد سے قدیم انسان کی شناخت

سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے سائبیریا سے ملنے والی ہڈی کو ڈی این اے ٹیکنالوجی کی مدد سے قدیم انسان کی ایک نئی قسم کے طور پر شناخت کر لیا ہے۔

سائنسی جریدے نیچر میں ’ایکس وومن‘ کے نام سے شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ہومینن نامی یہ انسان نما مخلوق وسطی ایشیا میں تیس ہزار سال سے لے کر اڑتالیس ہزار سال پہلے رہتی تھی۔ بین الاقوامی ماہرین کی ایک ٹیم نے فوسل سے حاصل ہونے والے مورثی مواد کی جانچ پڑتال کی ہے۔ جس کی مدد سے اس قدیم انسان کی جدید انسان اور انسان سے مشابہ مخلوق’ نیندر تھل‘ میں تمیز کرنے میں مدد ملی ہے۔

لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں انسانی اعضاء پر تحقیق کرنے والے پروفیسر کرس سٹینگر نے اس دریافت کو ’بہت جوش دلانے والی پیش رفت‘ قرار دیا ہے۔ ڈی این اے کے کام کی وجہ سے وسطی اور مشرقی ایشیا میں انسانی ارتقا کے عمل کو سمجھنے کا ایک نیا راستہ ملا ہے اس سے پہلے ابھی تک اس عمل کو سمجھنے میں مشکل کو سامنا تھا۔

اس دریافت کی وجہ سے امکانات پیدا ہوئے ہیں کہ ماضی میں انسان کی تین روپ ہو سکتے ہیں۔ ان میں ہومو سیپیئنز، انسان سے مشابہ مخلوق (نیندر تھل) اور ایکس وومن کی نمائندگی کرنے والی مخلوق شامل ہے، جو ہو سکتا ہے کہ ایک دوسرے سے ملی ہوں اور جنوبی ایشیا میں ان کی ملاقات ہوئی ہو۔

دو ہزار آٹھ میں آثار قدیمہ کے ماہرین کو سائبیریا التائی کے پہاڑوں میں ایک غار کی کھدائی کے دوران ہاتھ کی پانچویں انگلی کی ہڈی ملی تھی۔ بین الاقوامی ماہرین کی ایک ٹیم نے ہڈی سے ڈی این اے حاصل کرنے کے بعد اس کا موازنہ موجودہ انسان اور انسان سے مشابہ مخلوق (نیندر تھل) سے کیا تھا۔

نیندر تھل مخلوق اور موجود جدید انسانی ارتقاء کی لائنز کوئی پچاس ہزار سال قبل ایک دوسرے سے منشتر ہوتی ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سائیبریا کے غار سے ملنے والی باقیات اس سے پہلے نامعلوم انسانی نسل سے جا ملتی ہیں جس نے افریقہ سے ایک نامعلوم مقام کی جانب نقل مکانی کی تھی۔

ماہرین کی ٹیم میں شامل روسی اکیڈمی آف سائنس کے پروفیسر سٹینگر کا کہنا ہے کہ سائبیریا کے پہاڑوں میں نیندر تھل مخلوق کوئی چالیس ہزار قبل رہائش پذیر تھی اور اسی زمانے میں جدید انسان کی بھی اسی علاقے میں موجودگی کے شواہد ملتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ ایک سازشی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف ایشیا میں جدید انسان اور نیندر تھل کا ملاپ ہوا ہو یا ہو سکتا ہے کہ ان دونوں میں اور لیپ ( ایک چیز کا بڑھ کر دوسری کو ڈھانپ لینا) ہوا ہو۔
 

 

 

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team