اس دور
کا فتنہ عظیم مال و زر کی محبت
ہے اسی کی وجہ سے سارا معاشرہ جرائم زدہ ہو چکا ہے۔ رشوت‘ ڈاکہ زنی ‘
اغوا برائے تاوان‘ ناانصافی‘ ظلم‘ فرائض سے لاپروائی‘ سب کے پیچھے
ایک ہی سبب کار فرما ہے۔ مال سے بطور مال محبت اور اسے جمع کرنے کا
شوق اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور
چیز سے شدید محبت رکھنا ایمان کے منافی ہے۔
قرآن پاک میں مال سے بطور مال محبت کی سخت مذمت ہے۔ سورہ الھمزہ میں
فرمایا ترجمہ‘
۱۔ تباہی ہے ہر طعنہ باز چغل خور کیلئے
۲۔ جس نے مال جوڑا اور اسے گن گن کے رکھا
سورہ التکاثر میں فرمایا
۱۔ غفلت میں ڈالے رکھا تمہیں بہتات کی چاہ نے
(مثلاً یہ خواہش کہ روپیہ زیادہ ہو مکانات زیادہ ہوں‘ اراضیات زیادہ
ہوں)
۲۔ یہاں تک کہ تم قبروں تک جاپہنچے۔
۳۔ زندگی‘ یہ نہیں تم جلدی جان لو گے۔
۴۔ (ہم پھر کہتے ہیں‘ زندگی) یہ نہیں تم جلدی جان لو گے۔ (کہ ان
چیزوں کی حقیقت کیا ہے)
سورۃ التوبہ میں فرمایا ’’جو لوگ سونا اور چاندی خزانہ کر کے رکھتے
ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں عذاب درد
ناک کی خوش خبری دیں ایک روز اس سونے چاندی کو جہنم کی آگ میں تپایا
جائیگا اور اس سے انکی پیشانیاں پہلو اور کمریں داغی جائیں گی (پھر
ان سے کہا جائیگا) یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لئے جمع کر کے رکھا تھا۔
اب اس جمع کئے ہوئے کا مزہ چکھو‘‘ ۔
سورہ آل عمران میں فرمایا ’’بخیل کا مال اس کے گلے میں طوق بنا کر
ڈالا جائیگا‘‘ ۔
سورۃ المعارج میں فرمایا : ’’یقیناً وہ شعلہ زن آگ ہے جو چہرے کی
کھال ادھیڑ دیتی ہے وہ اس شخص کو بلاتی ہے جس نے ہدایت سے پیٹھ پھیری
اور منہ موڑ لیا اور مال جمع کیا اور پھر اسے بند کر کے رکھا‘‘ ۔
حدیث پاک کیمطابق شیطان ہمیشہ ایسے نیک آدمی سے جو لالچی ہو پرامید
رہتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی دن ضرور اس کے چنگل میں پھنس جائیگا۔
معاشرہ کو جرائم سے بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ لوگوں کے دلوں سے
مال کی محبت کم کی جائے اور یہ کام صوفیا کے کرنے کا ہے۔ قرآن پاک
میں ارشاد گرامی ہے۔ ’’اور وہ جو ایمان رکھتے ہیں‘ انکی محبت اللہ
تعالیٰ سے بہت شدید ہے‘‘ (سورۃ البقرہ)
قلوب میں اللہ تعالیٰ کی شدید محبت ڈال کے دولت کی محبت کو کم کیا
جائے۔ علاوہ ازیں مال جمع کرنے کے لالچ کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رحمت
جمع کرنے کا لالچ پیدا کیا جائے۔ ساتھ ہی لوگوں کو ذہن نشین کرایا
جائے کہ مال جمع کر کے رکھنے سے ’’سوائے تفکرات اور اندیشوں کے اور
کچھ نہیں ملتا‘ تفکرات سے قسم قسم کی بیماریاں جنم لیتی ہے۔
|