اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
 

تاریخ اشاعت:۔30-11-2010

بچوں کا ادب
مصنف ----------احمد ندیم قاسمی
ہم دنیا کی شاید واحد قوم ہیں جو اپنے بچوں کی اکثریت کی طرف سے مکمل طور پر غافل ہے۔ میں جب اپنی قوم کے بے شمار بچوں کو شہروں میں گندی نالیوں کے کنارے اور کوڑے کے ڈھیروں کے پاس، اور دیہات کی ویران گلیوں میں کھیلتا دیکھتا ہوں۔ اور جب میں محسوس کرتا ہوں کہ اس وقت میری قوم کے جتنے بچے مدرسوں مین بیٹھے پڑھ رہے ہیں، ان سے کئی گنا زیادہ بچے اپنے گھروں اور اپنے محلوں اور اپنے ملک کے پورے مستقبل کیلیئے عذاب بنے ہوئے ہیں، تو میں سوچتا ہوں کہ ہماری مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے زخموں پر حریر و دیبا کے پھاہے رکھ کر اپنے آپ کو اس خوش فہمی میں مبتلا کرلیتا ہے کہ وہ تو تندرست ہے۔ بعینہ ہم مدارس کی تعداد کا اعلان کرنے میں تو بہت تیز ہیں مگر ہماری شماریات کی حس ان بچوں کی گنتی پر قادر نہیں ہے جنہیں ہم نے یا ہمارے مروجہ نظامِ معیشت نے بڑی سیر چشمی کے ساتھ برباد ہونے کیلیے نظر انداز کر رکھا ہے۔

آج بھی ہم اپنے شہروں میں ہاتھ ہاتھ بھر کے بچوں کو سائیکلوں کے پہیوں میں ہوا بھرتے، بڑے بڑے کڑاہو مانجھتے، ورکشاپوں میں اپنے ہاتھ منہ سیاہ کئے کام کرتے اور بیگم صاحبہ کیلئے گھر کا سودا لانے کی خاطر دوکانوں پر بھٹکتا دیکھتے ہیں تو اسے معمول کی بات سمجھتے ہیں اور یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ ہم صرف پندرہ فیصد خواندہ قوم ہیں اور ہماری آبادی کا باقی پچاسی فیصد حصہ اپنے دستخظ تک کرنے کا اہل نہیں ہے۔ ہم اپنے جرم سے یہ کہہ کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں کہ آخر ہمارے ملک کی معیشت زرعی ہے اور زراعت پیشہ آبادی کیلیئے پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ہے کہ ہل چلانے اور فصل بونے وغیرہ کیلیئے کتابی علم کی کچھ ایسی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسا کہتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم سب ایک جمہوری مملکت کے افراد ہیں اور ہم میں سے ہر فرد کو سیاسی اور تہذیبی اور تاریخی لحاظ سے باشعور ہونا چاہیئے اور باشعور ہونے کیلیے خواندگی ضروری ہے اور صد فی صد خواندگی کیلیے اس نظامِ معیشت میں حقیقت پسندانہ اور عادلانہ انقلاب کی ضرورت ہے جس نے ہمارے پچاسی فیصد حصہء جسم کو شل کر رکھا ہے۔ اس حقیقت سے کسی خود فریب شخص ہی کو انکار ہوگا کہ ہماری مستقبل کی نسلوں کی ہمہ گیر تربیت و اصلاح اور انکے شعور و ادراک کا مسئلہ ہمارے نظامِ معیشت میں متوازن اور مناسب تبدیلیوں کا مسئلہ ہے۔ جب تک دولت کی منصفانہ تقسیم کا انتظام نہیں ہوتا اور جب تک ہر طبقے کے لوگوں کو آگے بڑھنے کیلیے یکساں مواقع میسر نہیں آتے، پاکستانی بچوں کی اکثریت یوں ہی سرگرداں رہے گی۔ اور نتیجتاً ہم اپنے مستقبل کے بارے میں خود اعتمادی کے ساتھ کوئی اندازہ نہیں لگا سکیں گے۔

ہمارے بچوں کی غالب اکثریت تو ذہنی طور پر یوں پراگندہ ہوئی لیکن بچوں کی جس معمولی اقلیت کو تعلیم کی سہولتیں حاصل ہیں انکے ساتھ بھی ہمارا سلوک ایک آزاد قوم کے شایانِ شان نہیں ہے۔ انکیلیے ہم نے جو طریقہء تعلیم گھڑ رکھا ہے وہ انکی انفرادی صلاحیتوں کو ابھرنے ہی نہیں دیتا۔ ساتھ ہی ہم انکیلیے نصاب کی جو کتابیں مرتب کرتے ہیں انہیں اگر مولانا محمد حسین آزاد کی مرتب کردہ نصابی کتابوں کے سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو اگر ہم میں اخلاقی جرأت ہے تو ہمیں اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہم بچوں کیلیے نصابی کتب مرتب کرنے کے معاملے میں مسلسل زوال پذیر رہے ہیں۔ ہمارے موضوعات یقیناً بدل گئے ہیں لیکن ان موضوعات کیساتھ شاید ہی کہیں انصاف ہوتا ہو۔ غیر ذمے داری انکی سطر سطر سے ٹپکی پڑ رہی ہے۔ یہ احساس کسی کو بھی نہیں کہ جب ہم کوئی نصابی کتاب مرتب کرتے ہیں تو دراصل اس طرح اپنے ملک اور اپنی قوم کے مستقبل کی تابانی میں اضافے کا سامان کرتے ہیں۔ پھر ان موضوعات پر لکھنے والوں کی نہ وہ زبان ہے، نہ بچے کی طرح سوچنے کی وہ حیرت اور معصومیت ہے اور نہ انکی نفسیات کا وہ لحاظ ہے جو کسی تحریر کو بچوں کے مطالعے کے قابل بناتا ہے۔ مولانا آزاد پچھلی صدی میں جو کچھ کر گئے تھے اس سے ایک قدم آگے بڑھنا تو بجائے خود رہا، ہم تو چند قدم پیچھے ہی ہیں۔ اور اسکی کوئی وجہ اگر سمجھ میں آتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ ہم سب "ٹھیکے" پر کام کرنے کی ذہنیت کے اسیر ہیں۔ مقصد کے ساتھ وہ لگن ختم ہوچکی ہے جو معیاروں کے قائم رکھنے کی ضامن ہوتی ہے۔ چند گنے چنے مصنفین بچوں کی ہر نصابی کتاب میں موجود ہوتے ہیں اور انکی جو تحریریں منتخب کی جاتی ہیں انکے انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محض بسلسلہ ضرورت لکھی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نظم ہو یا نثر، ان پر آورد مسلط ہوتی ہے اور ایک بھاری پن جو کسی تحریر کو ہضم کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ اپنی قوم کے بچوں کے ساتھ صاف اور صریح بدسلوکی ہے۔ جو لوگ بچوں کی کتابیں مرتب کرنے کے ٹھیکے دیتے ہیں اور وہ لوگ جو یہ ٹھیکے لیتے ہیں، سب ہماری "انٹیلیجنسیا" کے افراد ہیں۔ پھر جب ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی اپنی قوم کے مستقبل کے سلسلے میں اس حد تک بے حسی کا شکار ہے تو ہم گلہ کریں تو کس سے کریں۔ ویسے ان حضرات کو یہ بتانا ہمارا فرض ہے کہ آپ کا یہ تساہل اور تغافل ملک دشمنی کے مترادف ہے، زندہ قوم کے افراد اپنے ملک کے بچوں کے نام پر دولت نہیں کماتے۔ وہ اپنا سب کچھ ان بچوں پر قربان کر دیتے ہیں۔ سو عرض یہ ہے کہ نصابی کتابیں یقیناً آپ ہی مرتب کیجیئے اور سلسلے میں عام ٹینڈر طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہے مگر قوم اور اس کے مستقبل کے ساتھ مذاق نہ کیجیئے کہ یہ قوم کچھ کر دکھانے کیلیے عالمِ وجود میں آئی ہے۔

نصابی کتابوں کے علاوہ بچوں کیلیے جو ادب تخلیق کیا جارہا ہے اس کا بیشتر حصہ کسی صورت میں بھی ہمارے بچوں کے مطالعے کے لائق نہیں ہے۔ اگر پاکستان کے ادباء اور ماہرینِ تعلیم از خود ایک کمیشن مقرر کرکے بچوں کے اس ادب کا جائزہ لیں جو ہر مہینے ڈھیروں میں شائع ہوتا ہے تو ان پر اور ان کے ذریعے پورے ملک پر یہ انکشاف ہوگا کہ اردو میں بچوں کے ادب نے ابھی گھٹنوں چلنا بھی نہیں سیکھا۔ بچوں کے جو شاعر ہیں انہیں یہی معلوم نہیں کہ کون سی بحر بچوں میں زیادہ مقبول ہوگی۔ ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنی نظموں میں ایسی باتیں کہیں گے جو غیر شعوری طور پر بچے کے کردار کی تعمیر کریں گی، یکسر بیکار ہے، یہی عالم نثر نگاروں کا ہے ابھی تک جنوں بھوتوں نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ بیشتر کتابوں میں وہی پرانے دیو ہتھیلی پر پہاڑ اٹھائے پھرتے ہیں۔ میں بچوں کی کتابوں کے ان کرداروں کا مخالف نہیں ہوں۔ اگر یہ کردار ظلم اور برائی کی نمائندگی کرتے ہی اور آخر کار انصاف اور نیکی کی قوتوں کے ہاتھوں انہیں شکست ہوتی ہے تو انہیں بچوں کے ادب سے خارج نہیں کرنا چاہیئے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ بے شمار گمنام مصنفین ان کرداروں سے بچوں کو محض ڈرانے کا کام لیتے ہیں۔ یہی عالم پریوں کا ہے۔ پری دنیا بھر کے بچوں کے ادب کا ایک نہایت پیارا کردار ہے۔ پری کا نام آتے ہی بچے کا ذہن خواب دیکھنے لگتا ہے اور جس ذہن سے خواب دیکھنے کی قوت سلب کرلی جائے وہ تخلیقی لحاظ سے ٹھس ہو کر رہ جاتا ہے، مگر ہمارے ہاں کی پری ہماری کہانیوں کیلیے مصیبت بن کر رہ گئی ہے۔ اس سے وہ کام کبھی نہیں لیا گیا جو مثلاً "ایلس ان ونڈر لینڈ" میں لیا گیا ہے۔ وہ پری ہمارے بچوں کو نہ ہنساتی ہے نہ گدگداتی ہے، نہ ان کے دلوں میں اڑنے اور اونچا اڑنے، اور بھی اونچا اڑنے کی امنگ پیدا کرتی ہے۔ نہ رحمت بن کر آتی ہے کہ صحراؤں میں پھول کھلیں اور نہ شفقت بن کر ظاہر ہوتی ہے کہ مظلوموں اور مسکینوں کے آنسو پنچھیں۔ یہ پری تو بس شہزادے کی مدد سے دیو کو مارنے کے بعد شہزادے سے نکاح کرلیتی ہے اور کہانی ختم ہوجاتی ہے۔ ادب میں حقیقت پسندی کی تحریک کی برکت سے زندگی کے جیتے جاگتے کرداروں پر بچوں کی کہانیاں تعمیر کرنے کا رجحان بھی عام ہوا ہے۔ مگر صرف اس حد تک جیسے یہ کہانی بڑوں کیلیے لکھی گئی تھی، لیکن اب اسکی زبان کو سلیس بنا کر بچوں کے حوالے کردیا گیا ہے کہ لو تم بھی پڑھ لو۔

بچوں کیلیے لکھنا یقیناً آسان کام نہیں ہے۔ مشہور ہے کہ مولانا محمد علی جوہر مرحوم اپنے اخبار "کامریڈ" کے بہت لمبے لمبے اداریے لکھتے تھے، کسی دوست نے عرض کیا کہ قبلہ، آپ مختصر اداریے کیوں نہیں لکھتے؟ مولانا نے جواب دیا: "مختصر اداریے لکھنے کا میرے پاس وقت نہیں ہوتا"۔ مولانا نے اس جواب میں اختصار کے ساتھ لکھنے کی دشواری کی طرف نہایت بلیغ اشارہ فرمایا۔ میں سمجھتا ہوں یہی عالم بچوں کے ادب کا ہے، عموماً یوں سوچا جاتا ہے کہ آخر بچوں کا ادب ہی تو ہے۔ مگر بچوں کیلیے بچہ بن کر، بچوں کی زبان اور لہجے میں بڑوں کا کوئی بات کہنا اتنا مشکل کام ہے کہ اگر ملک کے بیشتر بڑے بڑے ادیبوں کی بھد اڑانا مقصود ہو تو انسے بچوں کیلیے ایک کہانی لکھنے کو کہیے اور پھر دیکھئے کہ یہ اشہبِ قلم کے شہسوار کیسی کیسی بھونڈی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان بھر میں بچوں کا ادب لکھنے والا کوئی ادیب ہے ہی نہیں۔ مصیبت صرف یہ ہے کہ بہت کم نے اس طرف توجہ کی ہے۔ توجہ نہ کرنے کا سبب یہ ہے کہ پوری قوم کا موڈ ہی بچوں سے اور اسلیے بچوں کے ادب سے غفلت برتنے کا ہے۔ جب اس معاملے میں ہر طرف رطب و یابس کی کی مانگ ہو تو کوئی بڑا ادیب اس سطح پر کیسے اترے؟ اور اگر اپنی سطح برقرار رکھے تو اسے چھاپے کون؟ لیکن اگر بڑے ادیب اس قسم کی رکاوٹوں کو بھی خاطر میں لائیں تو وہ بڑے کس طرف سے ہوئے؟ بڑے تو وہ ہوتے ہیں جو مروجہ ڈھرے سے ہٹ کر پوری جرأت اور خود اعتمادی کے ساتھ نئی راہیں تراشتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو تاریخ کے دھاروں کو موڑتے اور وقت کی رفتار کو پابند کرلیتے ہیں۔ پھر انہیں بچوں کا اچھا ادب پیدا کرنے سے کونسی طاقت روک سکتی ہے؟ یوں کہنا چاہیئے کہ وہ بھی اپنی قوم کی طرح بچوں کے سلسلے میں تساہل اور تغافل کا شکار ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ وہ بڑے ادب کی صورت میں جو کچھ لکھ رہے ہیں اسے مستقبل میں بہت کم لوگ پڑھیں گے کیونکہ اس وقت تک قوم کے ذوق کا معیار مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہوگا۔

پاکستان کے شاعروں اور ادیبوں سے میری استدعا ہے کہ وہ بچوں کیلیے بھی لکھنے کی عادت ڈالیں، وہ نہیں لکھیں گے تو پھر وہی حضرات لکھتے رہیں گے جنکی تحریروں سے بچوں کی نصابی کتب مرتب ہوتی ہیں اور جن میں بچوں کیلیے صرف یہ کشش ہوتی ہے کہ وہ انہیں رٹ لیں گے تو سالانہ امتحان میں کامیاب ہوجائیں گے۔ بچوں کے کرداروں کی تعمیر صرف شاعر اور ادیب ہی کرسکتا ہے۔ مگر تعمیر کے لفظ سے میرے دوستوں کو کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوجانا چاہیئے۔ میرا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ وہ پند و نصائح سے لبریز نظمیں اور کہانیاں لکھیں اور ہر نظم اور کہانی کے آخر میں ایک اخلاقی درس دیں یہ تو بچوں کو بور کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ وہ بچوں کو صرف ہنسا کر بھی ان کے ذہنوں کو گداز کرسکتے ہیں۔ مگر یہ ہنسی صحت مندانہ ہونی چاہیے۔ ابھی پچھلے دنوں میں نے بچوں کی ایک کہانی پڑھی جس میں چند بھائی اپنے چھوٹے بھائی سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ اسے شادی کا لالچ دیکر لے جاتے ہیں۔ اور انکا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ دریا پار کرتے ہوئے وہ چھوٹے بھائی کو پانی میں گرادیں گے۔ چھوٹا بہت کائیاں ہے، وہ انکی نیت بھانپ لیتا ہے اور کسی بہانے وہاں سے چلا آتا ہے، راستے میں وہ ایک گڈریے کو اپنا بھائی سمجھ کر دریا میں ڈبو دیتے ہیں۔ یہ چھوٹا بھائی جو ایک گڈریے کی موت کا بلاواسطہ سبب بنا ہے اور جو اسے مار کر مویشیوں کا مالک بن بیٹھا ہے اس کہانی کا ہیرو ہے۔ مگر مصنف نے اسے ہوشیار ثابت کرنے کی کوشش میں بچوں کو ایک بے گناہ انسان کی موت پر قہقہے مارنے پر مجبور کیا ہے۔ یہ مریضانہ ہنسی ہے، ایسی ہنسی سے ظلم میں بھی رومان نظر آنے لگتا ہے، اور میری تمنا ہے کہ ہمارے ادیب اور شاعر جب بچوں کیلے لکھنے بیٹھیں تو اس نوع کی کمزوریوں کی زد میں نہ آئیں جو بظاہر بے ضرر کمزوریاں ہیں، مگر جو پنپ کر کٹے ہوئے سروں کے میناروں پر بھی قہقہے مارسکتی ہیں۔

میں یہاں صرف ایک مثال عرض کروں گا۔ یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہمیں سب سے زیادہ ضرورت اپنی نئی نسل کے ذہنوں میں پاکستانی قومیت کا جذبہ بیدار کرنے کی تھی۔ صرف اس صورت میں ہم پاکستانیت کو ایک ہمیشہ زندہ رہنے والی حقیقت بنا سکتے تھے، جو ہماری آزادی اور ہماری قوت کی سب سے مضبوط ضمانت ثابت ہوتی۔ مگر ہم نے ایسا نہیں کیا، ہم تو گذشتہ ایک چوتھائی صدی میں یہی طے نہیں کرسکے کہ کیا پاکستانی قوم کا کوئی منفرد قومی کلچر بھی ہے؟ اِکا دکا لوگوں نے، جن میں یہ عاجز بھی شامل ہے، قومی کلچر کی واضح طور پر نشاندہی کی اور عرض کیا کہ پاکستانی قوم کی تہذیبی انفرادیت کو گومگو کے عالم میں رکھنا دراصل ایک بین الاقوامی سازش ہے اور یہ سازش وہ لوگ کررہے ہیں جو برصغیر پر پاکستان کے آزاد وجود کو گوارا نہیں کرسکتے۔ باربار التجا کی گئی کہ ان عناصر سے خبرادا رہنے کی ضرورت ہے جو بھارت اور پاکستان کی تہذیبی یکسانیت کا پرچار کرتے ہیں اور یوں برصغیر کے مسلمانوں کی ایک صدی کی جِدوجہد پر نہایت چالاکی سے خطِ تنسیخ کھینچ دیتے ہیں۔ اس التماس کی طرف کسی نے توجہ نہ فرمائی اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے، ہمارا ملک آدھا رہ گیا ہے۔ ہمارے بقیہ ملک میں ایک قوم کی بجائے چار قوموں کی موجودگی کا ڈھکوسلا کھڑا کیا جارہا ہے۔ غیر ملکی مصنفین کی ایسی کتابیں ہمارے ہاں برسرِعام بِک رہی ہیں جن میں پاکستان کو نہایت دریدہ دہنی سے چار پانچ قوموں کا ملک مگر بھارت کو صرف ایک قوم کا ملک ثابت کیا گیا ہے۔ یعنی جنوبی بھارت کے مراٹھے اور شمالی بھارت کے سکھ تو ایک نسل اور اسلیے ایک قوم کے افراد ہیں مگر پشاور کے پٹھان اور لاہور کے پنجابی دو الگ الگ قوموں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر ہم 1947-48 میں ہی اپنی نئی نسل کو نصابی کتابوں کے ذریعے یہ نکتہ ذہن نشین کرانا شروع کرتے کہ ہم نے اپنی منفرد تہذینی انفرادیت کی بحالی اور ترقی نیز سامراج اور پھر سامراج کی اقتصادی اسیری سے مکمل رہائی کیلیے پاکستان قائم کیا ہے اور مسلمان قوم نسلی امتیازات سے چودہ سو سال پہلے ہی بلند ہوچکی تھی تو آج یہ صورت پیدا ہوتی کہ ہم پنجابیوں، سندھیوں، پٹھانوں اور بلوچوں کے حقوق کیلیے کمربستہ ہورہے ہیں مگر پاکستان کا، پاکستانی قوم کا، اس قوم کی پاکستانیت کا کہیں دور دور تک تذکرہ نہیں ہے۔ یہ ہماری تاریخ کا بہت بڑا المیہ ہے اور اس امر کا اعتراف کرنا چاہیئے کہ اس المیے کی صورت پذیری میں ہمارے نصاب ساز بھی شریک ہیں۔ آج پاکستان میں بچوں کا ادب تخلیق کرنے والوں کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ اس ربع صدی کی افسوسناک فروگزاشت کی تلافی کریں اور کم سے کم آئندہ نسل کو تو پاکستان اور پاکستانیت کے معاملے میں خوداعتمادی سے بہرہ یاب کریں۔

میں یہ نہیں کہتا کہ پاکستان میں بچوں کے اچھے ادب کا وجود ہی نہیں ہے، بعض اداروں نے ماضی میں بھی اور حال میں بھی بچوں کی بعض نہایت وقیع کتابیں چھاپی ہیں، مگر قوم کے لاکھوں کروڑوں بچوں کیلیے اتنی سی کتابیں قطعی نا کافی ہیں۔ تمام ناشرینِ کتب کا فرض ہے کہ جہاں وہ موٹے موٹے بیکار اور بے معنی ناول چھاپ کر ہزارہا کماتے ہیں، وہاں ایک ننھا سا تعمیری کام بھی کرلیا کریں اور ہر ضخیم ناول کی "پخ" کی صورت میں ہی سہی، بچوں کی ایک ایسی کتاب بھی چھاپ ڈالا کریں جو ایک آزاد قوم کے بچوں کے مطالعے کے لائق ہو۔ یقیناً انکی راہ میں مشکلات بھی ہیں۔ بچے کے ہاتھ میں صاف ستھری کتاب ہونی چاہئیے، مگر کاغذ، طباعت اور کتابت کے نرخ اتنے زیادہ ہیں کہ کتاب مہنگے داموں بیچنی پڑے گی اور ظاہر ہے کہ کم بکے گی، کیونکہ ہمارے بیشتر بچوں کیلیے تو اسکول کے کام کیلیے ایک کاپی خریدنا بھی باقاعدہ ایک مسئلہ ہے، پھر ہمارے کمرشل مصور بھی بچوں کی کتابوں کو مصور کرنے کے عادی نہیں ہیں اور جنہوں نے اس طرف توجہ کی ہے وہ بھی یورپ اور امریکہ کی کتابوں کے چربے اڑاتے ہیں، اور اگر خود سوچ کر کوئی تصویر بناتے ہیں تو اسکی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی۔ یہ اور اس قسم کی دیگر مشکلات مسلم، مگر کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر ہم سب قانع ہو کر بیٹھ جائیں اور اپنے فلم پروڈیوسروں کا سا طرزِ استدلال اختیار کرلیں کہ عوام یہی چاہتے ہیں اسلیے یہی حاضر ہے۔ یہ اندازِ فکر اس طبقے کو تو زیب نہیں دیتا جو کتابیں لکھنے اور چھاپنے کا وہ کام کرتا ہے جو تہذیبی لحاظ سے مقدس ترین کام ہے۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved