اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
 

تاریخ اشاعت:۔30-11-2010

پاکستانی بچوں کیلیے کتابیں
مصنف ----------احمد ندیم قاسمی
 
( اپریل 1968 )

یہ کہنا تو شاید صحیح نہ ہو کہ پاکستان میں بچوں کی کتابیں بہت کم تعداد میں شائع ہوتی ہیں۔ البتہ یہ طے ہے کہ ادب کے نام پر پاکستانی بچوں کے ساتھ شدید بدسلوکی روا رکھی جارہی ہے اور انہیں عموماً ایسی کتابیں پڑھنے کو مل رہی ہیں جن کے بغیر وہ زیادہ بہتر شہری بن سکتے ہیں۔ اب یہ کہنا درست نہیں ہے کہ بچوں کے ادب کی طرف توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ توجہ تو بہت زیادہ دی جا رہی ہے مگر اس توجہ کا رخ سرے سے غلط ہے۔ ذرا ان دکانوں میں جا کر جھانکئے جہاں بچوں کی کتابیں پانچ پانچ، دس دس پیسے کے عوض کرایے پر دی جاتی ہیں۔ یہ دکانیں بچوں کی کتابوں سے اٹی پڑی ہیں، مگر آپ کو انکے ناموں اور انکے ٹائیٹلوں ہی سے اندازہ ہوجائے گا کہ پاکستانی بچوں کو کس نوع کا مواد پڑھنے کو مل رہا ہے۔ یہ کتابیں عموماً جنوں بھوتوں، دیوؤں، روحوں، ڈاکوؤں اور قزاقوں سے متعلق ہوتی ہیں اور انکے سرورق انسانی چہرے میں سے نکلے ہوئے لمبے نکیلے دانتوں، چلتے ہوئے ریوالوروں اور بہتے ہوئے خون سے آراستہ ہوتے ہیں۔ کیا کبھی کسی نے اس نکتے پر غور فرمانے کی زحمت گوارا کی ہے کہ ایسا ادب ہم اس نسل کو پڑھنے کیلیے دے رہے ہیں جسے ربع صدی بعد پاکستان کی ترقی و تعمیر کا نگران بننا ہے۔

ہمارے ہاں پہلے ہی جنوں، بھوتوں اور دیوؤں کی کہانیوں کی کمی نہ تھی۔ اس پر ستم یہ ہوا کہ مغرب کے "کومکس" کے زیرِ اثر انسانوں نے ہی دیوؤں اور جنوں کا کردار ادا کرنا شروع کردیا اور انکی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی مار دھاڑ اور قتل و غارت کی کہانیاں لکھی جانے لگیں۔ اسی ذہنیت کا نتیجہ تھا کہ ہمارے بچوں کے ایک مقبول رسالے میں بھوپت ڈاکو کی کہانی بالاقساط شائع ہوتی رہی اور بچے اسے شوق سے پڑھتے رہے۔ بچے غیر معمولی واقعات سے بھری ہوئی کہانیاں ہمیشہ شوق سے سنتے اور پڑھتے ہیں کیونکہ اس طرح انکی بے پناہ قوتِ تخیل کو تسکین ملتی ہے مگر اس نوع کی کہانیاں بچوں کی نفسیات اور کردار پر جو اثر مرتب کرتی ہیں انکے بارے میں ان مصنفینِ کرام اور ناشرینِ عظام نے شاذ ہی سوچا ہو۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج بازاروں میں بچوں کی جو کہانیاں دھڑا دھڑ بک رہی ہیں یا کرائے پر پڑھی جا رہی ہیں وہ ہماری نئی نسل کو ذہنی طور پر بگاڑنے کا کام تیزی سے انجام دے رہی ہیں۔ ہم حیران ہوتے ہیں کہ ہماری نئی نسل کو یکایک کیا ہوگیا ہے۔ اور وہ اپنے سے پہلی نسل سے اتنی ناگوار حد تک مختلف کیوں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تفاوت کے دوسرے اسباب کے علاوہ ایک سبب یہ بھی ہے کہ دونوں نسلوں کو بچپن میں جو ادب پڑھنے کو ملتا رہا ہے وہ موضوع و مواد کے معاملے میں ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہے۔ حیرت ہے کہ اس صورتِ حال سے متعلق اِکا دکا بیانات نظر سے ضرور گزرتے رہتے ہیں مگر حکامِ تعلیم یا مصنفین یا ناشرین نے اجتماعی طور پر اس صورت کی اصلاح کیلیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

ناشرین اپنے حقوق کیلے تو متفق ہوجاتے ہیں اور یہ بہت اچھی بات ہے۔ اپنے حقوق کا تحفظ دراصل اس امر کی علامت ہے کہ ہمیں اپنی آزادی اور اس آزادی سے ملنے والی سہولتوں کا شعور حاصل ہے، چنانچہ ناشرین کو اپنے حقوق کی یقیناً حفاظت کرنی چاہیے، مگر حقوق کے علاوہ ہر آزاد شہری کے فرائض بھی تو ہوتے ہیں۔ اب تو ناشرین میں ماشاءاللہ بڑے پڑھے لکھے اور باشعور افراد شامل ہیں، اگر وہ طے کرلیں کہ وہ بچوں کا ایسا ادب نہیں چھاپیں گے جو بچوں کی ذہنی تعمیر کی بجائے انکی تخریب کرے اور اگر وہ ایسے ناشرین کا مقاطعہ کرنے کا فیصلہ کریں جو محض معمولی سی مالی منفعت کی خاطر پاکستان کی پوری نسل کو اور یوں بالواسطہ طور پر پاکستان کے مستقبل کو تباہ کررہے ہیں تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ بچوں کا جو خطرناک ادب ان دنوں شائع ہو رہا ہے اسکا کماحقہ تدارک ہوجائے گا۔ اسی طرح مصنفین کے ادارے بھی اپنی برادری کی حد تک یہ فرض ادا کرسکتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں میں نے ایک بچے کے ہاتھ میں "بچوں کا ایک ناول" دیکھا جو لیلٰی مجنوں کی داستانِ عشق پر مبنی تھا۔ یہ ناول بظاہر سلیس زبان میں لکھا گیا ہے مگر لیلٰی مجنوں کا عشق اتنی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے جیسے مصنف کے نزدیک بچوں کا ان تفصیلوں پر عبور حاصل کرنا بہت ضروری ہے ورنہ انکی ذہنی نشو و نما رک جائے گی۔

رہ گئے حکامِ تعلیم تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعض نادر مستشنیات کو چھوڑ کر یہ حضرات کتابیں پڑھتے ہی نہیں ہیں اور اور انہیں اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ پاکستان میں بچوں کیلیے کیا لکھا جارہا ہے۔ کیا چھپ رہا ہے اور نئی نسل اس ادب سے کیا کیا اثرات قبول کررہی ہے اس حقیقت کی گواہ وہ فہرستِ کتب ہے جو محکمہ تعلیم نے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں کیلیے منظور کی تھی اس فہرست کو غور سے دیکھیے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ کتابوں کو کتابوں کی نوعیت کے معیار پر منتخب نہیں کیا گیا بلکہ کتابیں شائع کرنے والے اداروں کی رسوخ و رسائی کو اس انتخاب کا معیار بنایا گیا ہے۔ بعض ادارے جنہوں نے معیاری کتابیں شائع کی ہیں اور انکے اس اعلٰی معیار کا گواہ پورا ملک ہے اس فہرست میں سے صرف اسلئے غائب ہیں کہ انہوں نے اپنی کتابیں انتخاب کیلیے پیش کردیں، اور یہ سمجھا کہ کتاب کا انتخاب تو کتاب کے معیار کے مطابق ہی ہوگا۔ اسکے برعکس اسی فہرست میں ایسی ایسی کتابیں شامل کی گئی ہیں جو مروجہ اخلاقی قدروں کے سراسر منافی ہیں مگر جنکا انتخاب اس لئے عمل میں آیا کہ انہیں شائع کرنے والے ادارے دنیائے نشر و اشاعت کے "شرفا" میں شمار ہوتے ہیں۔ منظور شدہ کتابوں کی اس فہرست کا جائزہ اگر مسترد شدہ کتابوں کی فہرست کو سامنے رکھ کر لیا جائے تو ہمارے حکامِ تعلیم کے معیارِ ادب کی قلعی بڑے بھیانک انداز میں کھلے گی۔ کیا کوئی ایسا کمشن مقرر کیا جاسکتا ہے جو اس دھاندلی کا جائزہ لے سکے؟ یہ استفسار اس لئے کیا جارہا ہے کہ جب مسئلہ پوری نسل اور ساتھ ہی پورے ملک کے مستقبل کا ہو تو چند با اثر ناشرین کی خوشنودی کا لحاظ رکھنا پرلے درجے کی عاقبت نااندیشی اور تعلیم دشمنی ہے۔ حیرت ہے کہ پاکستان رائٹرز گلڈ کا سا ادارہ، جو مصنفین کے حقوق کے تحفظ کیلیے وجود میں آیا تھا، اس سلسلے میں بے حس ہے اور میرے خیال میں اسکے کارپردازوں کو علم ہی نہیں ہوگا کہ چند برس پہلے حکامِ تعلیم، مصنفین کے ساتھ کیا سلوک روا رکھ چکے ہیں۔

پاکستانی اور اسلامی تاریخ کے بے شمار واقعات بچوں کیلیے کہانیوں کے موضوع بن سکتے ہیں۔ اور اس طرف توجہ بھی دی گئی ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ محض خوارق کی حد تک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاریخی ناولوں کی طرح تاریخی کہانیوں میں بھی ایک مجاہد ایک ہزار کفار کو تہہِ تیغ کرتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ستمبر 1965 کی جنگ میں پاکستانی افواج نے جو کارنامے انجام دیئے، انہیں بعض سبز پوش گھڑ سواروں کا مرہونِ منت قرار دے ڈالا گیا۔ یقیناً عقیدے میں بڑی قوت ہے، مگر اب ایک ایسا زمانہ آگیا ہے کہ ہمیں افواج کی تربیت اور جدید اسلحہ کی فراہمی اور فنونِ جنگ کی تعلیم اور ہمہ وقت چوکنا اور چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ اسکے ساتھ ہی اگر عقیدے کی قوت بھی شامل ہو تو سبحان اللہ، مگر بچوں کیلیے اس موضوع پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں، وہ انہیں عصرِ جدید کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلیے تیار نہیں کرتیں، بلکہ سبز پوش گھوڑوں پر تکیہ کرنے پر آمادہ کرتی ہیں۔ یہ عقیدے کے سے پاکیزہ جذبے سے غلط کام لینے کی ایک کوشش ہے جسے نظر انداز کرنا درست نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اگر غیبی امداد کا یہ تصور پختہ ہوجائے تو بچہ جسے چھوٹی سی چھوٹی بات کی بھی کرید رہتی ہے، ذرا سا بڑا ہونے کے بعد اس چکر میں پڑ جائے گا کہ آخر مصر اور اردن اور شام پر یہودیوں کو کیوں فتح حاصل ہوگئی اور جب مسلمانوں کا قبلہء اول اسرائیل کے قبضے میں جا رہا تھا تو زمین کیوں نہ پھٹ پڑی اور آسمان کیوں نہ ٹوٹ پڑا اور یاد رکھئے کہ وہ خطہء ارض تو سر زمینِ انبیاء ہے جس کے تحفظ کو ہم لوگ بھی جو وہاں سے ہزاروں میل ادھر بیٹھے، اپنا دینی فرض سمجھتے ہیں۔ عقل اور منطق سے بچوں کے ذہنوں کو نابلد رکھنے کا نتیجہ بے حد خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور جب وہ کچھ بڑے ہوتے ہیں تو حقیقت کے تصادم سے انکی شخصیتیں ٹوٹ پھوٹ کر رہ جاتی ہیں۔

ہمیں پوری کوشش کرنی چاہئے کہ بچوں کے ادب کا موضوع چاہے پاکستانی اور اسلامی تاریخ کے واقعات ہوں یا روزمرہ زندگی کے نقوش ہوں یا اخلاقی قدریں ہوں یا بچوں کی قوتِ متخیلہ کو تیز کرنے کے سلسلے میں تخیئلی اور علامتی کہانیاں ہوں ہم اس حقیقت کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ ہمارے ذمے بچوں کی ذہنی تعمیر ہے۔ اس مقصد کیلیے اول تو براہِ راست قسم کے وعظ و نصیحت کا انداز درست نہیں ہے کہ بچہ اس انداز سے متاثر ہونے کی بجائے بور ہوتا ہے۔ دوم ہمارے مدِ نظر ہمیشہ خیر و برکت اور حسن و توازن کی قدریں ہونی چاہیئں۔ ہمیں اپنے بچوں کو انسان اور انسانیت کا احترام سکھانا چاہیئے۔ انہیں بہادر بنانا چاہیئے۔ مگر ساتھ ہی ان پر یہ واضح کرنا چاہیئے کہ چھرے سے راہ چلتے کا پیٹ پھاڑ کر اس کا بٹوا نکال لے جانے والا بہادر نہیں ہے، بزدل ہے، غنڈہ ہے، اخلاقی مجرم ہے اور سارے معاشرے کی مذمت کا سزاوار ہے، اسی طرح اس حقیقت کو بچوں کے سامنے واضح طور سے آنا چاہیے کہ:


خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

اس ضمن میں خود اسلامی تاریخ میں متعدد واقعات موجود ہیں۔ مثلاً ایک شخص حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے پوچھا کہ تمھارا اونٹ کہاں ہے وہ بولا کہ مدینے کے باہر چراگاہ میں چھوڑ آیا ہوں اور اللہ کے توکل پر چھوڑ آیا ہوں۔ اس پر حضور (ص) نے فرمایا کہ جاؤ پہلے جا کر اونٹ کا گھٹنا باندھو اور اسکے بعد اسے اللہ کے توکل پر چھوڑ آؤ۔ اس روایت سے انسان کی ذاتی کوشش اور محنت کی اولیت کا جو پہلو نکلتا ہے، اسے نہایت سلیقے سے ایک کہانی کی صورت میں پیش کیا جاسکتا ہے اور یاد رکھئے کہ اس قسم کے واقعات کی سلجھی ہوئی کہانی بچوں کیلیے اس سبق کے مقابلے میں کہیں زیادہ نتیجہ خیز ہے کہ بچو محنت کرو اور خدا پر تکیہ کرو۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved