اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
 

تاریخ اشاعت:۔30-11-2010

ادب کی تعلیم اور اساتذہ
مصنف ----------احمد ندیم قاسمی
 
( نومبر 1968 )

نہ جانے ادب کے بعض نقادوں کی یہ کونسی نفسیاتی کیفیت ہے کہ وہ ان لوگوں کو ادب کی تنقید کا حق دینے کو تیار نہیں ہیں جو یونیورسٹیوں، کالجوں یا اسکولوں میں ادب کی تعلیم دیتے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ اساتذہ کے خلاف اس تعصب کا آغاز کس نے کیا، لیکن جس نے بھی کیا اس نے ادب اور ادیب سے ہمدردی کے پردے میں اپنے کسی نفسیاتی خلا ہی کو پُر کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے ہاں کے معاشی نظام کی مجبوریوں کے باعث ہمارے ادیب صرف ادب تخلیق کرکے عزت مندانہ زندگی بسر نہیں کرسکتے۔ ان ادیبوں میں سے جسطرح بعض سرکاری محکموں کے اہلکار ہیں، بعض دوکاندار ہیں اور بعض صحافی ہیں، اسطرح بعض اساتذہ بھی ہیں۔ پھر جب ہم کسی ادیب کی سرکاری ملازمت یا دوکانداری یا صحافت کی وجہ سے اسکی ادبی تنقید پر معترض نہیں ہوتے، تو اساتذہ سے ایسا کونسا جرم سرزد ہوگیا ہے کہ وہی "غیر استاد" نقادوں کے ہدف بنتے ہیں اور انکا باقاعدہ مذاق اڑانے کا بھی فیشن چل نکلا ہے۔ حالانکہ اگر بے تعصبی اور غیر جانب داری سے اس مسئلے کا جائزہ لیا جائے تو ادب کے استاد کو ادب کی تنقید پر دوسروں سے کچھ زیادہ ہی حاوی ہونا چاہئیے۔

دورِ حاضر میں ادب کے حوالے سے اساتذہ پر اعتراض کا آغاز جناب محمد حسن عسکری سے ہوا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ علامہ اقبال کے فن کے کسی پہلو پر پروفیسر خواجہ منظور حسین نے ایک مقالہ لکھا جس پر عسکری صاحب معترض ہوئے اور ظاہر ہے کہ انہیں اعتراض کرنے کا حق حاصل تھا۔ مگر جب وہ اس اختلاف کا اظہار کرنے بیٹھے تو پروفیسروں کی پوری نسل کے معیارِ تنقید کو کچھ اس شدت سے لتاڑا کہ انکے ہر ارشاد پر بے سوچے سمجھے آمناً صدقناً کہنے والوں نے اس اعتراض کو گرہ میں باندھ لیا اور اپنی تحریروں کی مدد سے ایک ایسی فضا قائم کرنے میں لگ گئے جس میں کسی پروفیسر یا ٹیچر کی زبان یا قلم سے ادب کا نام لینا بھی گناہِ کبیرہ سمجھا جانے لگا۔ مشکل یہ ہے کہ یہ صورت اب تک قائم ہے۔ آج بھی پروفیسروں اور ٹیچروں میں سے کوئی اگر ادب کے کسی موضوع پر قلم اٹھاتا ہے تو یار لوگ اسکے لتے لے ڈالتے ہیں کہ میاں تمھیں ادب کے پھڈے میں ٹانگ اڑانے کی کیا ضرورت ہے جبکہ تم بچوں کو پڑھاتے ہو اور ادھر لطیفہ یہ ہوا کہ عسکری صاحب پروفیسروں پر خوب ٹوٹ کر برسنے کے بعد خود بھی پروفیسر بن گئے اور جب سے اب تک وہ بھی بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ یہ مذاق صرف عسکری صاحب ہی کے ساتھ نہیں ہوا۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ایک صاحب ادب کے نام پر صحافت کو برا بھلا کہتے رہے مگر آخرکار خود صحافی بننے پر مجبور ہوگئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نہ تو انکے صحافی بننے سے انکے ادب کا "حقِ خود اختیاری" انسے چھنا اور نہ عسکری صاحب پروفیسر بن جانے سے ادبی تنقید کا حق گنوا بیٹھے۔

پچھلے دنوں ایک صاحبِ ذوق سے پروفیسروں اور دوسرے اساتذہ کے خلاف میں نے ایسی ہی باتیں سنیں تو میں نے انکے سامنے اردو کے مشہور اور مستند نقادوں کی فہرست مرتب کی۔ اس فہرست سے ثابت ہوا کہ ہمارے نوے فیصد نقاد تدریس ہی کے پیشے سے متعلق ہیں۔ پھر انگریزی زبان کے نقادوں پر ایک نظر ڈالی تو انکی بھی خاصی تعداد اسی پیشے سے متعلق پائی۔ ظاہر ہے کہ دوسرے ملکوں اور دوسری زبانوں میں بھی مدرس نقادوں کی تعداد کم و پیش یہی ہوگی اور اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ ایسا ہونا قدرتی ہے۔ ادب کے استاد کا موضوع ہی ادب کی تاریخ، اسکا ماضی و حال اور اسکے امکانوں اور خامیوں کا جائزہ ہے۔ پھر نوجوان طلبا کی صورت میں ادب کے ذہین قارئین کے ساتھ اسکا روزانہ سابقہ پڑتا ہے۔ یوں ادب سے متعلق اسکی معلومات میں ایک نمایاں اور نہایت قیمتی حصہ اسکے براہِ راست مشاہدے اور تجربے کا ہوتا ہے۔ اسطرح وہ زیادہ گہرائی میں جا کر ادب کا جائزہ لے سکتا ہے۔ پھر ادب کا نقاد یا ادیب چاہے یونیورسٹی یا کالج کا پروفیسر ہو، چاہے صحافی ہو، چاہے سرکاری ملازم ہو اور چاہے دوکاندار ہو (اور چاہے بیکار ہو) ہم اسکی تحریروں کو اسکے پیشے کے حوالے سے برا یا بھلا نہیں کہہ سکتے۔ ستم یہ ہے کہ ادب کے نقادوں پر پروفیسری کا اعتراض کرکے انکی تنقیدوں کو گھٹیا ثابت کرنے والے بیشتر حضرات اس مدرسۂ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جس کا اصول یہ ہے کہ کسی ادب کے بارے میں غور کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھنا چاہئیے کہ اس میں کیا کہا گیا ہے۔ قاری کو تو صرف اس سے غرض ہونی چاہئیے کہ جو کچھ کہا گیا ہے، کیسے کہا گیا ہے۔ نہ جانے اس "کیسے" میں کسی کی پروفیسری کیسے گھس آتی ہے۔

یقیناً ادب کے سب استاذہ اچھے نقاد نہیں ہوسکتے۔ اگر ادب کا ہر استاد خود کو ادب کا ایک منجھا ہوا نقاد سمجھتا ہے تو شدید خوش فہمی میں مبتلا ہے۔ مگر اس خوش فہمی کا دائرہ تو خاصا وسیع ہے۔ ایسے حضرات بھی تو موجود ہیں جن کا تدریس کے پیشے سے کبھی تعلق نہیں رہا، مگر وہ ایسی تنقیدیں لکھتے ہیں کہ فنِ تنقید شرما جاتا ہے۔ چنانچہ کسی کمزور تنقید پر اعتراض یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ پروفیسر یا ٹیچر ہے یا وہ صحافی یا کلرک ہے۔ پیشے کے حوالے سے اردو ادب کی تنقید میں جو تعصب پھیلایا جارہا ہے، اس کا تدارک ہم سب کا فرض ہے، البتہ ہم جس طرح ایک ادیب سے جو پیشے سے صحافی ہے، یہ مطالبہ کرسکتے ہیں کہ جب وہ ادبی تنقید لکھنے بیٹھے تو صحافت کے پینترے نہ دکھایا کرے، اسی طرح ایک استاد سے بھی مطالبہ کرسکتے ہیں کہ وہ اس انداز سے تنقیدی مضامین نہ لکھا کرے جس طرح وہ بچوں کو کلاس روم میں ادب پڑھاتا ہے۔ بے شک ہمارے ہاں بعض اساتذۂ ادب کی ایسی کتابیں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں جن کی حیثیت ایک محنتی طالب علم کے "نوٹس" سے زیادہ نہیں ہوتی اور وہ اس پر بھی بضد نظر آتے ہیں کہ ان کی تحریر کو تنقید کہا جائے مگر اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آخر بعض دوسرے حضرات بھی تو ہم پر اسی نوع کی ادھ کچری تنقیدیں مسلط کرتے رہتے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ دنیائے تنقید میں ان تنقیدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ آخر تخلیقی ادب کی دنیا میں بھی تو ہزارہا لوگ مصروف ہیں۔ ناولوں، افسانوں، نظموں اور غزلوں کا ایک طومار دھڑا دھڑ جمع ہورہا ہے۔ مگر کون کہتا ہے کہ یہ سب کچھ اعلی ادب ہے۔ یہ حادثہ صرف ہمارے ساتھ تو نہیں ہو رہا ہے، ہر ملک میں اور ہر زبان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ادب کے نام پر کوئی چیز لکھتے رہتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں ان کے قارئین بھی موجود ہیں۔ مختصر یہ کہ اس صورتِ حال سے نہ گھبرانے کی ضرورت ہے اور نہ کسی خاص پیشہ کو مطعون قرار دینے کی۔ اصل چیز تو یہ ہے کہ کس نے کیا لکھا اور کیسے لکھا۔

اگر یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں میں ادب کے اساتذہ سے ہمیں کچھ مطالبہ کرنا ہے تو یہ مطالبہ کرنا چاہئیے کہ جب وہ ایک استاد اور رہنما کی حیثیت سے طلبا کے سامنے جائیں تو ادب کی تعلیم میں اپنی پسند اور ناپسند، اپنے تعصبات اور اپنے نظریات کو ذرا دبا کر رکھیں۔ مثلاً جب ان کا ذاتی نقطہ نظر بھی یہی ہو اور طلبا پر بھی اپنا یہی خیال ٹھونسنا چاہتے ہوں کہ ادب کا زندگی سے کوئی مثبت رشتہ نہیں ہوتا۔ اور ادب برائے زندگی کا قائل ہونے سے ادیب، فنکار سے زیادہ پروپیگینڈسٹ اور صحافی بن جاتا ہے تو وہ یہ کہنے سے پہلے یہ نہ بھولا کریں کہ انہیں علامہ اقبال کے فن اور نظریۂ فن پر بھی اظہار خیال کرنا ہوگا۔ یا اگر وہ میر کی عظمت کو اجاگر کرنے کیلیے غالب کی مذمت کو ضروری سمجھتے ہوں تو انہیں طلبا کی طرف سے اس سوال کا تسلی بخش جواب دینے کیلیے بھی تیار رہنا چاہئیے کہ اگر غالب ایسا ہی معمولی شاعر تھا تو کیا گزشتہ صدی کے اہلِ قلم، اہلِ فن اور شیدایانِ فن پاگلوں کی کسی نسل سے تعلق رکھتے تھے؟ یا اگر کوئی استاد معیارِ معیشت ہی کو زندگی اور ادب کا محور قرار دیتا ہے تو اپنے نکتے کی وضاحت سے پہلے اسے سوچ لینا چاہئیے کہ ابھی جب مومن کا یہ شعر سامنے آئے گا۔

اس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک

شعلہ سا لپک جائے ہے، آواز تو دیکھو

تو وہ جدلیاتی مادیت کے کس اصول کے تحت اس شعر کے حسن کا جائزہ لینے میں کامیاب ہوسکے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم دانش گاہوں سے متعلق ادب کے اساتذہ سے صرف یہی مطالبہ کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے مضامین میں جو چاہیں لکھیں مگر جو کچھ بچوں کو پڑھائیں وہ اس انداز سے پڑھائیں کہ بچوں کے سامنے حقائق رکھ دئیے جائیں اور وہ خود ہی اس میں سے نتائج اخذ کریں اور اگر کوئی طالب علم، استاد کے نقطۂ نظر سے کسی مختلف نتیجے تک پہنچے تو استاد صاحب خفا نہ ہو جایا کریں بلکہ اسے داد دیں کہ وہ ذاتی کاوش سے اس منزل تک پہنچا۔ اگر اساتذہ سے اس سے زیادہ کوئی مطالبہ کیا جائے تو اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ معترضین کو پرفیسروں کے پروفیسر ہونے پر محض اس لئے اعتراض ہے کہ وہ خود پروفیسر کیوں نہ ہوئے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved