اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
 

تاریخ اشاعت:۔30-11-2010

ادب کی تعلیم اور اساتذہ
مصنف ----------احمد ندیم قاسمی
ادب کی تعلیم کا مسئلہ
( مئی 1969 )


ادب میں نقطۂ نظر کے اختلاف سے شاید ہی کسی کو انکار ہو، مگر جب اس اختلاف کی بنیادیں ادب کی بجائے غیر ادبی مصالح پر استوار ہوتی ہیں تو یہی تعمیری اور تخلیقی اختلاف جنگ و جدل میں بدل جاتا ہے۔ بد قسمتی سے ان دنوں اس "ادبی" جنگ و جدل کا رواج بہت عام ہو چلا ہے اور یہ طرزِ عمل ادبی مسائل کی متوازن جانچ پرکھ کیلیے سخت مضر ہے۔ بہرحال یہ ادیبوں کا مسئلہ ہے اور وہ اسے طے کرتے رہیں گے۔ لیکن اگر ادبی مسائل سے متعلق اس منفی اندازِ فکر کے سائے ادب کی تعلیم دینے والوں پر بھی پڑنے لگیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کی ذہنی تخریب کے درپے ہیں اور اپنے بعض نہایت محدود بلکہ ذاتی مقاصد حاصل کرنے کیلیے ملک کے ادبی مستقبل کو داؤں پر لگا رہے ہیں۔

یہ تو یقیناً قطعی ضروری نہیں ہے کہ اگر ادب کا ایک استاد غالب کے فکر و فن کا پرستار ہے اور وہ میر و مومن کو غالب سے بڑا شاعر قرار نہیں دیتا تو اس سے جواب طلبی کی جائے کہ وہ غالب کو کیوں پسند کرتا ہے، اور میر و مومن کو کیوں اس حد تک پسند نہیں کرتا۔ البتہ اس استاد سے ہم یہ توقع ضرور رکھیں گے کہ وہ غالب کی پرستاری کے جوش میں میر و مومن کے فکر و فن کی خوبیوں کو فراموش نہیں کردے گا۔ اور اگر کوئی اس کا طالب علم میر یا مومن کے حق میں مدلل رائے دینے کی کوشش کرے گا تو اسے سکون سے سنے گا۔ بعینہ اگر کسی استاد کی رائے میں میر سے بڑا شاعر اب تک پیدا نہیں ہوا تو وہ میر کی عظمت کا محل غالب کی کلی مذمت پر استوار نہیں کرے گا اور تاریخِ ادب کے مطالعے نے اس بتایا ہوگا کہ جن اہلِ قلم کی ناموری کے قصر دیگر اہلِ قلم سے نفرت کی بنیادوں پر اٹھائے گئے، ان سے چند برس بعد نہ صرف یہ مصنوعی ناموری چھن گئی بلکہ ناموری کو غصب کرنے کی سازش بھی بے نقاب ہوگئی۔ یقیناً ہر شخص کی پسند اور ناپسند کا ایک اپنا معیار ہوتا ہے۔ ادب کا استاد بھی اس کلئے سے مستثنٰی نہیں ہے، لیکن استاد پر بھی یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اپنی پسند اور ناپسند کو طلبا پر مسلط نہ کرے بلکہ انہیں فن کی تحسین کے بنیادی اصول سمجھانے کے بعد انہیں اپنی اپنی انفرادی افتادِ مزاج کے مطابق کسی فیصلے تک پہنچنے دے۔ طلبا کے یہ فیصلے استاد کی ذاتی پسند اور ناپسند سے مختلف بھی ہو سکتے ہیں اور ہونے بھی چاہئیں کہ فن کا تنوع اور ادب کی رنگا رنگی اسی تخلیقی اختلافِ رائے سے قائم ہے، لیکن اگر کوئی استاد طلبا کے آزادانہ فیصلوں کو اپنی ہتک پر محمول کر لیتا ہے اور خفا ہوجاتا ہے کہ اس کے شاگردوں نے اس کے ادبی معیاروں پر صاد کیوں نہیں کیا تو معاف کیجیے، وہ استاد کے منصب کے لائق نہیں ہے۔

جن دنوں ادب کسی تحریک کے نام سے بھی نا آشنا تھا، ان دنوں بھی ادب میں مختلف تحریکیں چلتی رہیں، فرق صرف یہ ہے کہ ماضی میں یہ تحریکیں کسی بڑی شخصیت سے کسبِ فیض کرتی تھیں اور بیسویں صدی کی ادبی تحریکوں نے شخصیتوں کی بجائے ادبی نظریوں اور مسائل زندگی کے بارے میں خاص رویوں کو اپنا رہنما بنایا۔ بہرحال ان تحریکوں سے گھبرانا یا مختلف مکاتیبِ فکر کے ہجوم میں بوکھلا جانا کسی بھی ادیب یا ادب کے استاد کو زیب نہیں دیتا۔ خاص طور سے ادب کے استاد کا تو فرض ہوجاتا ہے کہ وہ ادب کی ہر تحریک کا مطالعہ غیر جانبداری سے کرے اور انہتائی "ناوابستگی" (Detachment) کے ساتھ ان کی خوبیوں اور خامیوں، کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لے۔ اس صورت میں اسے اپنی رہنمائی اس عالمانہ وقار کے سپرد کردینی چاہیئے جسے تصویر کے دونوں رخ دیکھے بغیر چین ہی نہیں آتا۔ اندھیرے کے بغیر روشنی اور سیاہی کے بغیر سفیدی کا تصور ممکن ہی نہیں۔ انسانی ادراک کا تو یہی کمال ہے کہ وہ سوچے سمجھے اور دیکھے بھالے اور جانچے پرکھے بغیر کوئی فیصلہ صادر نہیں کرتا۔ چنانچہ طلبا کے شعور و ادراک کے گرد حصار کھڑے کرنے کی بجائے ادب کے استاد کا فرض ہے کہ اگر ابتدائی تربیت نے یہ حصار کھڑے کر رکھے ہیں تو انہیں گرا دے اور نئے حصار قائم کرنے کی بجائے طلبا کو کھلی فضا کی وسعتوں کا سامنا کرائے تاکہ وہ اپنی بصیرت کو کام میں لائیں، اپنے منطقی استدلال سے اشیا کو پرکھیں اور جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے، اپنے فیصلوں تک پہنچیں۔ اب اسطرح استاد ان فیصلوں کو ذاتی معیاروں کی بجائے ادب کے مسلمہ معیاروں سے پرکھے گا۔ اور طلبا پر ان کی رسائیاں اور نارسائیاں واضح کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بہت ممکن ہے کہ اس دلچسپ بحث و تمحیص میں اس پر بعض اپنی نارسائیاں بھی واضح ہو جائیں کہ اچھا استاد تو بہرحال عمر بھر ایک طالب علم ہی رہتا ہے۔

مگر ہمارے ہاں یہ ایک عجیب سلسلہ چل پڑا ہے کہ ادب کے اساتذہ بھی اپنے آپ کو ادب کی کسی نہ کسی تحریک سے وابستہ کرنے لگے ہیں۔ یہ بھی کوئی غلط بات نہیں مگر اس وقت یقیناً غلط ہو جاتی ہے جب استاد اپنی اس وابستگی کو اپنے طلبا پر مسلط کرنے لگے۔ یوں وہ بے خیالی میں ایک ادبی آمر کا کردار ادا کر رہا ہوگا اور بھول جائے گا کہ ادیبوں کی دنیا تو قلندروں کی دنیا ہے، جہاں فن کی تحسین فنکاروں کے سماجی مرتبہ و مقام کے آئینے میں نہیں کی جاتی بلکہ فن اور محض فن کی روشنی میں کی جاتی ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں کا ہر فقیر اپنی اپنی نگری کا بادشاہ ہے۔ اس صورت میں ادب کے استاد کو طلبا کے سامنے جانے سے پہلے کسی ادبی تحریک کے ساتھ اپنے رشتوں کو اسٹاف روم میں چھوڑ آنا چاہیئے۔ اس حد تک ناوابستگی شاید ممکن نہیں ہے کیونکہ استاد کی شخصیت، اسٹاف روم یا کلاس روم میں، بہرحال ایک ہی رہتی ہے اسلیئے استاد کا فرض یہ ہونا چاہیئے کہ وہ طلبا کی انفرادیتوں کو پنپنے کا موقع دے اور اپنی ادبی وابستگی کے اعلان کو اس وقت تک ملتوی رکھے جب تک طلبا مختلف ادبی تحریکوں سے متعارف ہونے کے بعد اپنا نقطۂ نظر اختیار کرنے اور استاد کے ساتھ بحث میں حصہ لینے کے قابل نہ ہوجائیں۔ بصورتِ دیگر استاد اپنی انا کو تو یقیناً تھپک لے گا لیکن وہ نئی نسل کو مسلح کئے بغیر ایک ایسی دنیا میں دھکیل دے گا جہاں قدم قدم پر اس کے یقینوں اور روایتوں اور کلیوں پر حملے ہونگے اور یہ نسل اپنی مدافعت نہیں کرسکے گی کیونکہ اسکا ذہن تعصبات کے سنگین حصاروں میں جکڑا ہوگا، اس طرح وہ ذہنی انتشار جنم لے گا جس کی جھلکیاں آجکل ہمیں نظر آرہی ہیں۔ یعنی ادیب کو معلوم ہی نہیں ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور لا یعنیت ادبی فیشن میں شامل کی جانے لگی ہے اور جذبہ و خیال قابو میں نہیں آتے تو ادیب الفاظ پر غصہ نکالنے لگا ہے کہ یہ گھس گئے ہیں اور کثرتِ استعمال سے بے معنی ہو گئے ہیں۔ اس صورتِ حال کا تجزیہ کیجیے تو اصل وجہ وہی نکلے کہ نئی نسل پوری طرح مسلح نہیں ہے۔

ادب کے استاد کو ایک نظریاتی وقار بھی برقرار رکھنا چاہیئے اور مرعوب تو اسے کسی صورت نہیں ہونا چاہیئے۔ مجھے یاد ہے، ادب کے ایک پرانے استاد نے ایک بار اردو کے نئے نقادوں پر ایک تنقیدی مقالہ لکھا، مگر ایک ایسے نئے نقاد کے نام تک کا حوالہ دینا مناسب نہ سمجھا جو استاد کے نظریات سے متفق نہیں تھا، مگر جس نے اردو تنقید میں نئی راہیں کھولی تھیں۔ کچھ عرصے کے بعد یہی نقاد ایک ادبی رسالے کا ایڈیٹر ہوگیا تو ادب کے اسی استاد نے نئے نقادوں کے بارے میں ایک اور مقالہ رقم فرمایا جس میں اس نئے نقاد کا ذکر سر فہرست آیا۔ بدقسمتی سے یہ رسالہ زیادہ دنوں نہ چل سکا اور اسکے بعد جب ہم نے ادب کے اس استاد کی ایک تقریر سنی تو نئے نقادوں کے تذکرے میں وہ اس نقاد کو پھر سے گول کرگیا۔ یہ روش عام یقیناً نہیں ہے لیکن بعض عناصر کی بے یقینی اور بے وقری کی غمازی ضرور کرتی ہے۔ کسی ادبی رسالے کی ادارت اتنا بڑا منصب نہیں تھا کہ ادب کا استاد اس سے مرعوب ہوجاتا اور کوئی ادیب کسی رسالے کا مدیر نہیں ہے تو یہ کوئی اتنی بڑی محرومی نہیں ہے کہ وہ اپنے حقوق ہی کھو بیٹھے۔ ادب کے استاد کو ادیب کے صرف ادب کو پرکھنا چاہیئے اور اس چمک دمک سے اپنی آنکھوں کو خیرہ نہیں کر لینا چاہیئے، جسکا ہمارے ہاں کے بعض ادبی عناصر نے اپنی شخصیتوں کے اردگرد اہتمام کر رکھا ہے، ممکن ہے اسطرح وہ اپنی بعض مصلحتوں کو پورا کرلیتا ہو مگر وہ اپنی طلبا کی گمراہی کا بھی ارتکاب کرتا ہے اور انہیں اس غلط فہمی میں مبتلا کردیتا ہے کہ جو کچھ وہ مصلحت کے دباؤ کے تحت کہہ رہا ہے، وہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔

یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ادب کا استاد، ادبی مسائل اور ادبی شخصیتوں کے بارے میں مسلسل برسوں تک وہی باتیں دہراتا چلا جائے گا جو اس سے پہلے کسی نقاد نے لکھی تھیں۔ اس طرزِ عمل سے ادب میں تلاش و جستجو کا عنصر غائب ہو جاتا ہے اور پٹی ہوئی لکیر کو پیٹتے رہنے کا رجحان شروع ہوتا ہے جو ادبی تنقید کے جمود اور اس کے بعد موت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ یقیناً ماضی کی ادبی تحریریں ہم سب کی رہنمائی کرتی ہیں، مگر خدا نے ہمیں اپنے دل و دماغ بھی تو عطا کر رکھے ہیں جن سے کام لینا ہمارا فرض بھی ہے اور عبادت بھی۔ ادب کا استاد اپنے اعلٰی منصب کے ساتھ صرف اسطرح انصاف کرسکتا ہے کہ جن اہلِ قلم کے بارے میں اسے طلبا کو بتانا ہے، انکا بالاستیعاب مطالعہ کرے۔ انکی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں اپنی رائے قائم کرے، اسکے بعد بے شک اپنی آراء کا مقابلہ ماضی کے نقادوں کی آراء سے کرے، مگر مرعوب ہو کر نہ کرے بلکہ اس یقین کے ساتھ کرے کہ ماضی کے نقادوں سے کوتاہیاں بھی سرزد ہوسکتی ہیں۔ اور ہر بڑا فنکار ہر دور میں نئے سرے سے دریافت کیا جا سکتا ہے۔ اس حقیقت سے روگردانی کا نتیجہ یہ ہے کہ فیض اور راشد کے ساتھ، ایک ہی سانس میں مجاز اور جذبی کا بھی ذکر کردیا جاتا ہے، یہ ذکر برسوں سے کیا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حالانکہ مجاز اور جذبی بیسیوں دیگر شعرا کے مقابلے میں اس پائے کے شاعر نہیں ہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ مصروفیتیں بڑھ گئی ہیں، نئی زندگی میں تندی اور تیزی آگئی ہے، مطالعے کا وقت تو شاید مل جاتا ہو مگر اس مطالعے سے اپنے اندازے مرتب کرنے کا وقت کسی کو نصیب نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا شاید میں نے "وقت" کا لفظ غلط استعمال کیا ہے اور مجھے یہاں "شوق" یا "لگن" کا لفظ استعمال کرنا چاہیئے تھا۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved