اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
 

تاریخ اشاعت:۔30-11-2010

نصابِ تعلیم میں سے اقبال کا اخراج
مصنف ----------احمد ندیم قاسمی

( مئی 1970ء )


اس وقت مجھے یومِ اقبال کی وہ پہلی تقریب یاد آرہی ہے جو 1937ء میں لاہور میں منعقد ہوئی تھی۔ اقبال کے اعزاز میں اس یادگار تقریب کا اہتمام کرنے والوں کے نام، اس وقت کے پنجاب کے وزیراعظم اور اقبال کے ایک اہم سیاسی حریف سر سکندر حیات خان نے ایک پیغام دیا تھا۔ سر سکندر حیات نے اپنے پیغام میں اقبال کی شاعرانہ اور فلسفیانہ عظمت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے بعد تجویز کیا تھا کہ اس موقعے پر شاعرِ مشرق کی خدمت میں روپووں کی ایک تھیلی پیش کریں۔ اقبال کے فقرِ غیور نے یہ کہہ کر اس تجویز کو رد کردیا تھا کہ:

"عوام کی ضروریات بحیثیت مجموعی کسی ایک فردِ واحد کی ضروریات سے کہیں زیادہ اہم ہوتی ہیں، خواہ اسکی تصانیف عامۃ الناس کیلیے روحانی فیض کا ذریعہ ہی کیوں نہ ہوں۔ ایک شخص اور اسکی ضروریات ختم ہوجاتی ہیں لیکن عوام اور انکی ضروریات ہمیشہ باقی رہتی ہیں۔ مقامی اسلامیہ کالج میں اسلامیات سے متعلق طرزِ جدید پر تحقیقی شعبہ کا قیام صوبے کی اہم ترین ضرورت ہے کیونکہ ہندوستان کے کسی اور صوبے میں اسلامی تاریخ، الٰہیات، فقہ اور تصوف سے لاعلمی کی وجہ سے اتنا فائدہ نہیں اٹھایا گیا جتنا پنجاب میں۔ یہ بہترین وقت ہے کہ اسلامی فلسفہ اور زندگی کا غائر مطالعہ کرکے لوگوں پر واضح کیا جائے کہ اسلام کا اصل مقصد کیا ہے، اور کس طرح اس خول نے جو موجودہ ہندوستانی مسلمانوں کے ضمیر پر چھایا ہوا ہے، اسلامی اصولوں اور خیالات کو دبا دیا ہے۔ اس خول کو فوراً دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئی پود کا ضمیر اس آلائش سے پاک ہو کر فطری اور آزادانہ طریق پر پرورش پاسکے۔

اس قسم کے ادارے سے اب بھی مسلمان کافی فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ اسلام ایشیائی قوموں کی زندگی میں بڑا اہم جزو ہے اور بنی نوع انسان کی مذہبی اور عقلی ترقی میں اسکا بہت بڑا حصہ ہے۔

مجھے امید ہے کہ وزیرِاعظم میری تجویز سے اتفاق کریں گے اور اپنے رسوخ کو استعمال میں لا کر اس تجویز کو کامیاب طور پر عملی جامہ پہنائیں گے۔ میں اس فنڈ میں سو روپے کی حقیر رقم پیش کرتا ہوں۔"

اقبال کے اس بیان کے طویل اقتباس کو اتنے برس بعد دہرانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ بسترِ مرگ پر اقبال کو ہماری جس ضرورت کا احساس تھا، وہ اب تک پوری نہیں ہوئی۔ برٹش انڈیا کی اہم برسرِ اقتدار شخصیت سر سکند حیات نے اگر اس سلسلے میں اپنے رسوخ سے کام نہ لیا تو انکی کچھ مجبوریاں ہونگی۔ اسی طرح اسی زمانے میں اقبال نے "الازہر" کے انداز کی اسلامی یونیورسٹی کے قیام کیلیے مشرق کے مسلمانوں اور یورپ کے اسلام پسندوں سے جو طویل خط و کتابت کی تھی وہ اگر بے نتیجہ رہی تو اسکا بھی اتنا غم نہیں کہ اس زمانے میں ہم برٹش سامراج کے محکوم تھے مگر آج طلوعِ آزادی کے اتنے برس بعد بھی اقبال کی ان عزیز ترین تمناؤں کا محض خواب و خیال بنے رہنا کیا معنی رکھتا ہے اور اس سلسلے میں کیا ہماری مجبوریاں سر سکندر حیات جیسی ہیں۔

مجھے اس سوال کا جواب اثبات میں دے کر سخت رنج ہو رہا ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ اقبال کے خوابوں کے اس دیس میں، اقبال کے تصورِ تعلیم و تربیت کو ایک ٹھوس اور زندہ شکل دینے میں ہمیں سراسر ناکامی ہوئی ہے اور اب تو یہ حالت ہے کہ رفتہ رفتہ اقبال کو ہمارے نصابی تعلیم میں سے خارج کیا جا رہا ہے۔ اس المناک عمل کی ابتدا 1954ء کے لگ بھگ ہوئی جب ہم نے غیر ممالک سے اقتصادی امداد لینا گوارا کیا۔ اقتصادی امداد کے ساتھ ساتھ تعلیمی مشیر آئے اور ان غیر ملکی تعلیمی مشیروں کی رہنمائی میں ہونے والی ہر اصلاح کے ساتھ خود شکنی و خود نگری، خود اعتمادی و خود انحصاری کا درس دینے والے اقبال کیلیے ہمارا نصابِ تعلیم تنگ سے تنگ تر ہوتا چلا گیا۔

اس المیے کو آپ کیا کہیں گے کہ آزاد پاکستان کے ایم اے اردو کے نصاب میں بھی اقبال کے کلام پر سنسر شپ عائد ہے۔ پورا اقبال ہم یونیورسٹی طلبا تک کو نہیں پڑھاتے۔ "بالِ جبریل" کا وہ حصہ ایم اے نصاب سے خارج ہے جس میں کہیں لینن خدا کے حضور میں دکھائی دیتا ہے۔ کہیں پنجاب کے پیرزادوں کی سرکار پرستی اور دین فروشی پر طنز کرنے اور الارض اللہ کی قرآنی صداقت کی حسین ترین شاعرانہ اور فلسفیانہ توجیہہ کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں اور کہیں ہمیں خدا فرشتوں سے مخاطب ملتا ہے۔


اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو


کیوں خالق و مخلوق میں حامل رہیں پردے

پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو


یہاں یہ تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اسی لاہور میں ایک صاحبِ سیاست اور ماہرِ دینیات نے اقبال کے ان اشعار پر تبصرہ کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ ایسے اشعار پر توجہ دینے کی ضرورت اس وجہ سے نہیں ہے کہ اول تو یہ اقبال کا پیغام نہیں ہے، خدا کا پیغام ہے جو انسانوں کی بجائے فرشتوں کے نام ہے اور دوسرے یہ کہ اس میں بھی شاعرانہ مبالغے سے کام لیا گیا ہے۔ یعنی خدا، کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا ڈالنے کے حق میں نہیں ہے۔ اقبال کو گلہ تھا کہ:


خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق


اور ہم اپنی جمود پسندی میں اتنے راسخ ہوچکے ہیں کہ قرآن کے علاوہ اقبال کو بھی بدلنے کے درپے ہیں۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، مگر اس سے بھی یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ ہمارے ہاں، اقبال کی انقلابی فکر سے خائف قوتیں فکرِ اقبال کو تاویل کے پھندوں میں گرفتار کرکے نئی نسل کو اقبال کے تصورات سے ناآشنا رکھنے میں کس حد تک سرگرمِ کار ہیں۔

چند برس پہلے ڈاکٹر امداد حسین نے بی اے کے انگریزی نصاب میں اقبال کا وہ خطبہ شامل کیا تھا جو نظریۂ پاکستان کی اساسی دستاویز ہونے کے علاوہ انگریزی نثر کا ایک عمدہ نمونہ بھی ہے۔ اب یہ کتاب بی اے کے لازمی انگریزی نصاب سے صرف اس بنا پر خارج کردی گئی کہ یہ مشکل ہے۔ میں یہ ماننے کو اسلیے تیار نہیں کہ اسکی جگہ Raweinson Prose رکھی گئی ہے جو اس سے زیادہ مشکل ہے۔ ہاں موجودہ کتاب میں یہ خوبی ضرور موجود ہے کہ اس میں براہِ راست اور بالواسطہ دونوں ذریعوں سے اسلام کی بجائے ایک اور مذہب کی تبلیغ کی گئی ہے۔ اگر بفرضِ محال یہ مان بھی لیا جائے کہ نثر کی نئی کتاب آسان ہے، تو بھی میں پوچھتا ہوں کہ کیا ہم اپنی نئی نسل کو نظریۂ پاکستان سے محض اس بنا پر دور رکھنا پسند کریں گے کہ اسکی اساسی دستاویزات کی نثر مشکل ہے۔ ہرگز نہیں، اقبال کا وہ خطبہ اور مولانا حسین احمد مدنی کے جواب میں مشہور بیان ہمارے تعلیمی نصاب کی ہر سطح پر کسی نہ کسی انداز میں ضرور پڑھانا چاہیئے۔ میرے خیال میں ایسا کرنا اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ انگریزی اور اردو میں ایسے حسین نثر پارے کم ہی ہیں۔ مگر ہمارے تعلیمی مشیروں اور ماہروں کا کہنا ہے کہ:


اقبال یہاں نام نہ لے علمِ خودی کا

موزوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات


بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے

پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات


آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور

محکوم کا اندیشہ گرفتارِ خرافات


ہمارے نصابِ تعلیم کے ناخدا اقبال کے ساتھ جس مسلسل بدسلوکی میں مصروف رہے ہیں اور ہیں، اس سے آپ مجھ سے کچھ زیادہ ہی آشنا ہونگے۔ میں نے یہ چند مثالیں اسلیئے پیش کی ہیں ک میری نظر میں یہ پاکستان کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اقبال نے 1932ء میں آل انڈیا مسلم کانفرنس کے مندوبین سے شکایت کی تھی:

"ایک مدتِ مدید سے ہندی مسلمانوں نے اپنی اندرونی کیفیات کی گہرائیوں کو چھوڑ رکھا ہے، اسکا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ زندگی کی پوری تابندگی اور آب و تاب کو دیکھ نہیں پاتا اور اسلئے یہ اندیشہ ہے کہ وہ ان قوتوں کے ساتھ کسی بزدلانہ صلح پر تیار ہوجائے گا جو اسکے نزدیک ناقابلِ عبور ہیں۔"

اقبال ہم سے ابھی تک شاکی ہیں۔ اقبال اور بہت کچھ ہونے کے علاوہ ہمارا اجتماعی حافظہ اور اجتماعی تخیل بھی ہیں۔ اس حافظہ و تخیل سے نئی نسل کو محروم رکھ کر کہیں نوجوان پاکستان کو باطل کی قوتوں کے ساتھ کسی بزدلانہ صلح کیلیے تیار تو نہیں کیا جارہا؟ یہ سوال ایک ایسا چیلنج ہے جسکے مقابلے کیلیے پوری قوم کو تیار ہوجانا چاہیئے۔ اور ان لوگوں کیلیے تو یہ چیلنج اور بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے جو درس و تدریس کا مقدس فریضہ انجام دینے میں مصروف ہیں۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved