اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
 

تاریخ اشاعت:۔30-11-2010

پاکستان کی نئی نسل اور جدید ادب
مصنف ----------احمد ندیم قاسمی
( جون 1967ء )


اردو کے ایک مشہور شاعر عارف عبدالمتین نے رسالہ "اوراق" کی تازہ اشاعت کے اداریے میں اربابِ تعلیم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ طلبا کو نظمِ آزاد سے محروم نہ رکھیں کیونکہ نظم آزاد اردو کی چند مقبول اصناف میں ہمیشہ کیلیے شامل ہوچکی ہے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "آج ہمارے ملی و شخصی ضمیر کی آواز جس شعری سانچے میں سب سے زیادہ ڈھل رہی ہے وہ نظم آزاد ہی ہے۔" ۔۔۔۔۔۔۔ یوں درسی کتابوں میں نظم آزاد کے بعض اعلٰی اور مکمل نمونوں کی شمولیت ضروری ہوجاتی ہے اور پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر حمید احمد خان کو اس طرف بطورِ خاص توجہ کرنی چاہیئے کہ وہ بنیادی طور پر ادب کے آدمی ہیں۔ "اور انکی سلامتیِ فکر اور بیباکیِ عمل مسلمہ ہے۔" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عارف صاحب کی یہی سطور میرے اس مضمون کی محرک ہیں۔ مگر درسی کتابوں میں جدید ادب کے نمائندہ نمونے شامل کرنے سے متعلق میرا نقطۂ نظر ذرا سا مختلف ہے۔ میں درسی کتابوں میں راشد، میرا جی اور بعض دوسرے "آزاد" شاعروں کی منتخب نظمیں شامل کرنے کا پرزور حامی ہوں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ صرف نظمِ آزاد ہی "جدید ادب" کی نمائندگی نہیں کرتی اور اربابِ تعلیم سے میرا مطالبہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کی نئی نسل کو پاکستان کے جدید ادب سے محروم نہ رکھیں۔ کیونکہ اسطرح وہ ایک ایسی بوالعجبی کا ارتکاب کررہے ہیں جیسے ریل اور ہوائی جہاز کے اس زمانے میں کسی شخص کو بیل گاڑی میں بٹھا کر لاہور سے کراچی روانہ کردیا جائے۔

شروع ہی میں واضح کردوں کہ "نئی نسل" سے مری مراد وہ نونہالانِ وطن ہیں جو اس وقت سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ اور "جدید ادب" سے میری مراد وہ سارا معیاری، شعری اور نثری ادب ہے جو اقبال کے بعد اب تک تخلیق ہوا ہے۔ ہماری درسی کتابوں کے مندرجات کچھ عرصہ پہلے تک تو اقبال پر آکر ختم ہو جاتے تھے۔ پھر حافظ محمود شیرانی مرحوم نے جوش، حفیظ اور اختر شیرانی کو بھی شامل کیا۔ اسکے بعد درسی کتابوں میں صرف اکا دکا نئے شاعروں کا اضافہ ہوا ہے۔ مگر یہ شاعر نہ تو "جدید ادب" کے نمائندے قرار دیے جاسکتے ہیں اور نہ انکا فنی مرتبہ اتنا بلند ہے کہ فیض اور راشد اور میرا جی وغیرہ کو نظر انداز کرکے انکی تخلیقات کو درسی کتابوں میں شامل کیا جائے۔ جسطرح اقوام متحدہ میں چین کی نشست پر فارموسا کو بٹھا کر چین کو نمائندگی دینے کا دعوی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جزیرہ فارموسا پر تو امریکہ کا منظورِ نظر ہونے کی "پاداش" میں چین کے سے نیم براعظم کی نمائندگی ٹھونس دی گئی ہے، اسی طرح اکا دکا منظور نظر شاعروں کو درسی کتابوں میں شامل کرکے جدید ادب کے قاری کو یہ دھوکا نہیں دیا جا سکتا کہ نئی نسل کو جدید ادب بھی پڑھایا جا رہا ہے۔ اور نئی نسل کو نئے ادب سے محروم رکھنا ایسا ہی ہے جیسے کسی کو تازہ ہوا اور دھوپ سے محروم کردیا جائے اور پھر حیران ہوا جائے کہ یہ نسل زرد رو اور نحیف و نزار اور قنوطی کیوں ہے اور یہ پوری شان اور شدت سے زندہ رہنے کی بجائے اپنی ساری زندگی موت کے فرشتے کی چاپ سننے میں کیوں گزار دیتی ہے۔

یقیناً نئی نسل کیلیے کلاسیکی ادب کی تعلیم نہایت ضروری ہے کیونکہ اس ادب کا مطالعہ نوجوانوں کے ذہن میں اپنی تہذیبی اور ثقافتی قدروں اور روایتوں کی بنیاد قائم کرتا ہے۔ پھر اس ادب کا مطالعہ اسلیے بھی ضروری ہے کہ قدیم و جدید کا تقابلی مطالعہ کیا جا سکے اور اس امر کا تجزیہ کیا جا سکے کہ ہمارا قومی ذہن کہاں سے سفر کرکے کہاں تک پہنچا ہے اور وہ کون سے تقاضے تھے جن کے تحت یہ تبدیلیاں عمل میں آئیں۔ مگر یہ تقابلی اور تجزیاتی مطالعہ جبھی ممکن ہے جب نئی نسل کو جدید ادب بھی پڑھایا جائے اور اس پر اس عصر کی شخصیت کے خد و خال بھی واضح ہوں جس میں وہ سانس لے رہا ہے اور جسکی کٹھن راہوں کو طے کرکے اسے مستقبل کو سنبھالنا اور سنوارنا ہے۔ میرا محدود علم یہ بتانے سے قاصر ہے کہ درسی کتابوں میں صرف قدیم ادب کے نمونے شامل کرنے کا سلسلہ کیسے چلا۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ بھی میکالے کے سے سامراجی ذہنیت والے ماہرینِ تعلیم کی شرارتوں میں سے ایک شرارت تھی۔ تاکہ محکوم ملک کی نئی نسلیں ان سلگتے ہوئے جذبات اور ان بے قرار امنگوں سے متعارف ہی نہ ہو پائیں جن سے ہر دور کی جدید ادبی تخلیقات لبریز ہوتی تھیں اور جن سے غیر ملکی استحصال کو ہمیشہ شدید خطرہ لاحق رہتا تھا۔ بدقسمتی سے بہت سی دوسری باتوں کی طرح دورِ غلامی کی یہ روایت بھی ہمارے ہاں کم و بیش بدستور قائم ہے اور یہ اس حقیقت کا دردناک ثبوت ہے کہ ہمارے اربابِ تعلیم پر بھی آزادی کا مفہوم پوری طرح واضح نہیں ہے۔ درسی کتابوں میں سے "یا رب رہے سلامت فرمانروا ہمارا" اور "انگریزی راج کی برکتیں" قسم کے مضامین کو خارج کردینے سے غلامی کے ٹھپے اتر نہیں جاتے۔ برصغیر میں انگریز کا رائج کردہ نظامِ تعلیم تو براہ راست ہماری نئی نسلوں کے لاشعور تک پر حملہ آور رہتا تھا۔ اسکا تخریبی عمل زیادہ تر نفسیاتی تھا۔ اسکے اثرات بیشتر غیر محسوس تھے، مگر حصولِ آزادی کے بعد تو اس نظامِ تعلیم کے تمام ڈھکے چھپے رازوں کو فاش ہو جانا چاہیئے تھا اسلیے کہ آزادی صرف نظامِ حکومت ہی کو تو نہیں بدلتی، وہ تو نظامِ فکر کو بھی بدلتی ہے اور اگر نظامِ فکر نہ بدلے تو آزادی مکمل ہی نہیں ہو پاتی، وہ ادھوری اور اکثر صورتوں میں نمائشی آزادی ہوتی ہے۔

اقبال نے ان دنوں انتقال کیا جب انکے طرزِ فکر کے اثرات ادیبوں کی نئی نسل کے ذہنوں پر پوری طرح مرتسم ہوچکے تھے اور ساتھ ہی جب "شفق نہیں مغربی افق پر، یہ جوئے خوں ہے، یہ جوئے خوں ہے" کا انتباہ ایک سچی پیش گوئی ثابت ہونے والا تھا، 1938ء سے 1947ء تک کے عرصے میں اس دور کے اہلِ قلم کی نئی نسل نے جو ادب تخلیق کیا وہ ہماری قومی تاریخِ حریت کا ایک ناقابلِ فراموش حصہ ہے۔ پھر اس زمانے میں جو افسانے لکھے گئے انکا جواب کم سے کم ایشیا کا تو کوئی دوسرا ملک نہیں دے سکتا۔ اسی طرح نئی نظموں میں بھی ہمارا جذبۂ آزادی جس بے خوفی سے منعکس ہوا، اس پر ان سب لوگوں کو فخر کرنا چاہیئے جنکے ہاتھوں میں قلم ہیں۔ اس دور کی نظم و نثر سے آج کی نئی نسل کو محروم رکھنا اگر ظلم نہیں تو ظالمانہ کوتاہی ضرور ہے۔ ہم یہ کہتے ہوئے تو کبھی نہیں تھکتے کہ ہماری نئی نسل کو آزادی کے مفہوم سے آگاہ ہونا چاہیئے۔ مگر ہم ان لوگوں کی تحریروں کو نئی نسل سے باقاعدہ شعوری طور پر چھپاتے ہیں جو غیر ملکی حکمران کی قوت و جبروت سے بے نیاز ہو کر ان پر واضح کرتے رہے کہ آزادی ہمارا پیدائشی حق ہے اور ہم اپنی سرزمین پر سے تمھارے ناپاک قدموں کو اکھیڑ کر ہی دم لیں گے۔ دس برس کا یہ ادب ہماری ادبی اور قومی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ نئی نسل اس زمانے کے شعر و ادب کے چند نمائندہ نمونوں سے آگاہ ہوگی تو اسکی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا۔ وہ اپنے آپ کو ایک مقدس روایت کا وارث قرار دے گی اور اسے محسوس ہوگا کہ غلامی کتنی بڑی لعنت ہے کہ اسکے خلاف فنونِ لطیفہ تک چیخ اٹھتے ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ غیر ملکی سامراج کے تسلط سے متعلق پڑھے لکھے طبقے کی نفسیات تک کو بدل ڈالنا 1938ء سے 1947ء تک کے اہلِ قلم کا ایک ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔ یقیناً ان نو دس برسوں میں ایسے اہلِ قلم بھی تھے جنہوں نے اپنی ذات کے خول میں محبوس رہنا پسند کیا اور زندگی کے ساتھ ادب کے رشتوں سے انکار کرتے رہے اور قومی خواہشات کو ادب کی صورت بخشنے پر ناک بھوں چڑھاتے رہے کہ اس طرح تو ادب سیاست سے آلودہ ہوجائے گا۔ مگر ایسے اصحابِ ذوق کی تعداد بھی کم تھی اور وہ پڑھے بھی کم ہی جاتے تھے۔ اسلیے ہمارے فہمیدہ طبقے کا بیشتر حصہ انکے مردہ اور جامد اور محکومیت پسند رجحانات سے محفوظ رہا۔ چنانچہ جب میں ان نو دس برس کے ادب پاروں کے انتخابات کو پاکستان کی درسی کتابوں میں شامل کرنے کیلیے کہتا ہوں تو میری مراد ان ادب پاروں سے ہے جن میں یہ روحِ آزادی دھڑک رہی ہے اور درسی کتابوں میں شامل نہ ہونے کے باوجود دھڑکتی رہے گی۔ سو یہ ادب پارے اگر ہماری نئی نسل کے سامنے نہیں لائے جاتے تو اس سے ان ادب پاروں کی اہمیت ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اصل نقصان نئی نسل کو اور ملک کے تہذیبی مستقبل کو پہنچتا ہے۔

جدید ادب کے بارے میں ان حضرات کا طرزِ عمل غیر حقیقت پسندانہ ہے جو قدیم ادب کے استاد مانے جاتے ہیں۔ قدیم شعر و ادب کی تنقید و تحقیق پر انکے علمی مرتبے اور شہرت کا محل استوار ہے، مگر جدید ادب کے بارے میں انکا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آخر اس ادب میں غزلوں، نظموں، کہانیوں اور ڈراموں کے سوا رکھا ہی کیا ہے۔ تخلیقی ادیبوں کے بارے میں یہ انداز بہت عام ہے اور شاید اسی وجہ سے ہماری یونیورسٹیوں اور ہمارے ادیبوں کے درمیان کوئی افادی رابطہ قائم نہیں ہے۔ مگر معروف شاعروں اور ادیبوں کی طرف سے دانش گاہوں میں لیکچروں کا معاملہ تو رہا ایک طرف، خود جدید ادب ہی ہمارے نظامِ تعلیم کیلیے اجنبی کی حیثیت رکھتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ جب ہمارا نوجوان فارغ التحصیل ہو کر نکلتا ہے تو وہ اپنی قوم کی نئی سوچوں اور نئے خوابوں سے بے خبر ہوتا ہے۔ وہ عملی زندگی کے میدان میں اس ذہنی بے سر و سامانی کے عالم میں اترتا ہے جیسے کوئی دور افتادہ گاؤں کا باشندہ زندگی میں پہلی بار لاہور کے گرجتے گونجتے ریلوے سٹیش پر اترے۔ اب تو خوش قسمتی سے اردو ایم اے کے امتحان میں زندہ ادیبوں کے بارے میں بھی تحقیقی مقالے لکھنے کا سلسلہ جاری ہے، مگر چند برس پہلے کی ذہنیت اس واقعے سے پوری طرح نمایاں ہوتی ہے کہ جب ایک طالب علم نے ایک مشہور زندہ ادیب کے بارے میں تحقیقی مقالہ لکھنے کی خواہش ظاہر کی تو اسکے استاد نے کہا۔ "زندہ ادیب تو ابھی زندہ ہیں، اسلیے ان پر لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ تمھارا فرض تو یہ ہے کہ تم مردہ ادیبوں کو زندہ کرو۔"۔۔۔۔۔۔۔اس مردہ پرستی کی وجہ شاید یہ ہو کہ ہمارے اساتذہ بھی نئے خیالوں اور نئے جذبوں سے ڈرتے ہیں یا پھر وہ ادب سے متعلق اپنی پرانی معلومات میں کوئی اضافہ، کوئی ترمیم و تنسیخ نہیں کرنا چاہتے۔ یہ صورتِ حال بھی شاید اس آسائش پسندی اور تساہل کا ایک حصہ ہے جو روپیہ کمانے کے سوا، قومی زندگی کے ہر اہم شعبے پر مسلط ہے۔

درسی کتابوں میں نظمِ آزاد کی شمولیت کی تجویز، تعلیم میں جدید ادب کی نمائندگی کا محض ایک حصہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اب کوئی بھی قوت اردو شاعری میں سے نظمِ آزاد کو خارج نہیں کرسکتی، اور اس صنف کو بھی ہماری درسی کتابوں میں نمائندگی ملنی چاہیئے۔ مگر درسی کتابوں کو "اپ ٹو ڈیٹ" بنانے کیلیے ہمیں اس سطح سے کچھ اونچا ہوکر سوچنا ہوگا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا اردو کے جدید افسانے ہماری درسی کتابوں میں شامل ہیں؟ کیا اردو کی جدید غزل کو ہمارے نصابوں میں نمائندگی حاصل ہے؟ کیا ہماری نئی نسل اس ادب سے متعارف ہے جس نے آزادی سے پہلے کے دس برس میں ذہنیتوں کو بدلا اور ذہنوں کو ڈھالا؟ مروجہ درسی کتابوں میں جو نئے نام نظر آنے لگے ہیں وہ کہیں محض اشک شوئی کا ذریعہ تو نہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ "نئے" موضوع و مواد کے معاملے میں بہت پرانے ہیں اور روحِ عصر انہیں چھو کر بھی نہیں گئی ہے؟ یہ درست ہے کہ گزشتہ ربع صدی سے ہم اپنی درسی کتابوں میں مسلسل ایسے لوگوں کے نام دیکھ رہے تھے جنکا علمی و ادبی مرتبہ ابھی تک طے نہیں ہے۔ ان میں سے بعض کے بارے میں تو ثقہ حلقوں میں یہ تک مشہور ہے کہ جو کچھ انہوں نے لکھا ہے وہ خود انہوں نے نہیں لکھا اور انکی شہرت کے محل دوسروں کی محنت و ریاضت پر قائم ہیں اور ان رازوں کو فاش کرنے کیلیے وقت کو کسی قلندر قسم کے قلمکار کا انتظار ہے۔ یہ بیشتر لوگ محض اپنے معاشرتی رشتوں اور اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے ہماری درسی کتابوں میں گھسے رہے اور اب تک گھسے ہوئے ہیں۔ ان میں جن لوگوں کے نام بڑھائے گئے ہیں وہ جدید ادب کے نمائندے نہیں ہیں اور نہ انہیں جدید ادب کی مختلف اصناف کی نمائندگی کا حق حاصل ہے۔ سو اگر ایسی درسی کتابیں مرتب کرنا مقصود ہو جو ایک آزاد قوم کی نئی نسل کی ذہانت کے شایانِ شان ہوں تو ان کتابوں کے مرتبین کو متعدد تعصبات سے پیچھا چھڑانا ہوگا۔ انہیں اپنی ذاتی اور گروہی پسند سے اونچا ابھرنا ہوگا اور اس ناقابلِ تردید حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ جدید ادب، وقت کی طرح بہت آگے نکل چکا ہے۔ صرف جدید اردو غزل کو غور سے پڑھیئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ غالب اور اقبال کی غزل سے استفادے کے باوجود انکی غزلوں سے سراسر مختلف ہے کیونکہ یہ بیسویں صدی کے نصف آخر کی غزل ہے۔ نئی نسل اگر اس غزل سے محروم ہوگی تو اسکا مطلب یہ ہوگا کہ وہ روح کے اس کرب سے محروم ہے جو ایک مثبت کرب ہے اور جو تعمیرِ نو کی ناگزیر شرط ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جدید غزل نے روحِ عصر کی جس بھر پور انداز میں نمائندگی کی ہے، وہاں تک نظمِ آزاد فی الحال نہیں پہنچ سکی۔ مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ درسی کتابوں میں صرف غزل کے چند نمونے شامل کرکے اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہو لیا جائے۔ درسی کتابوں میں جدید غزل، جدید پابند نظم، جدید نظمِ آزاد، جدید افسانے، جدید ڈرامے اور جدید تنقید سب کو نمائندگی حاصل ہونی چاہیئے۔ کیونکہ ایسا کئے بغیر ہم نئی نسل کے ساتھ دیانتدارانہ برتاؤ نہیں کرسکیں گے اور اسے ان سوچوں اور خوابوں سے بے خبر رکھیں گے جن سے با خبر رہ کر ہی نئی نسل مستقبل کی امانت کو خود اعتمادی اور وقار کے ساتھ سنبھال سکے گی۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved