اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
 

تاریخ اشاعت:۔30-11-2010

شعر و شاعری کا فائدہ
مصنف ----------احمد ندیم قاسمی
 
( مئی 1967ء )


گذشتہ دنوں لائل پور کی ایک ادبی تقریب میں وہاں کے ایک مشہور دانشور نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہمارا معاشرہ بھی، صنعتی لحاظ سے بے انتہا ترقی یافتہ مغرب کی طرح، شاعری، مصوری اور موسیقی وغیرہ کے بارے میں یوں سوچنے لگا ہے کہ آخر ان کا "فائدہ" کیا ہے؟ یہ لوگ فائدے کے لفظ کو مادی منافع کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ جب شعر کہنے اور گیت گانے سے کچھ "حاصل حصول" نہیں ہوتا تو معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے کا ایک ذہین حصہ اپنا وقت فنونِ لطیفہ پر کیوں ضائع کرتا ہے۔ جب کہ ایک تھان کپڑے کی پیداوار ایک نظم کی تخلیق سے کہیں زیادہ منفعت بخش ہے۔ جب پھول کا ذکر آتا ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ گوبھی کے پھول کے بارے میں سوچ سکتے ہیں اور گلاب کا پھول انکے نزدیک صرف یہ اہمیت رکھتا ہے کہ اس سے گلقند بنائی جا سکتی ہے جسکے استعمال سے نظامِ ہضم درست رہتا ہے۔

اگر "افادیت پسندی" (Utilitarianism) کسی معاشرے کی صنعتی ترقی کا ناگزیر نتیجہ ہے تو جب بھی ہم فی الحال اس حد تک ترقی یافتہ نہیں ہو پائے کہ انسان کو مشین کا ایک پرزہ سمجھ لیں جو دوسروں پرزوں سے صرف اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس پرزے کا دماغ بھی ہے اور یہ کبھی کبھی معین مشینی دائرے کو توڑنے پر بھی تل جاتا ہے۔ ہماری معیشت ابھی تک زرعی ہے اور زمین اور اسکی مٹی کی باس کے ساتھ زرعی معیشت کے جو رشتے ہوتے ہیں، وہ ہمارے روزمرہ کے تعلقات میں آج بھی نمایاں ہیں۔ یوں اگر ہم بھی اہلِ مغرب کی طرح افادیت پسند ہو رہے ہیں تو اسکی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ ہم صدی دو صدی کی غلامی کے باعث آزادی کے بیس برس بعد بھی اپنی تہذیب اور اپنے ماحول کے بارے میں احساسِ کمتری کے مریض ہیں۔ اور اس معاملے میں بھی مغرب کی یوں اندھا دھند نقالی کر رہے ہیں جیسے اپنی نئی عمارتوں کو ہم واشنگٹن اور لنڈن کی عمارتیں بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اور مغرب کی نقالی کا جنون ہمیں اتنی سی بات پر بھی غور کرنے کی مہلت نہیں دیتا کہ ہم گرم ملک کے رہنے والے ہیں۔ جہاں سایہ درکار ہوتا ہے اور ہوا کی آزادنہ آمد و رفت درکار ہوتی ہے اور دھوپ کی براہ راست تمازت سے بچنے کیلیے تہ خانے اور دوسرے کونے کھدرے درکار ہوتے ہیں۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ کسی معاشرے کے صنعتی ہو جانے سے اس کا فنونِ لطیفہ سے بے نیاز ہو جانا ضروری ہو جائے۔ صنعت انسان کے نازک احساسات کو کند تو شاید کر دیتی ہو مگر جب تک انسان کی جسمانی ساخت میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آجاتی یعنی جب تک اس کا دل دھڑکتا ہے اور اس کا دماغ سوچتا ہے اور اسکے اعصاب تنتے اور ڈھیلے ہو جاتے ہیں اور اسے خیال سے اور آواز سے اور رنگ سے محبت ہے، انسان کیلیے فنونِ لطیفہ کی "افادیت" ختم نہیں ہوسکتی۔ آج اگر صنعتی لحاظ سے ترقی یافتہ مغرب، فنونِ لطیفہ خاص طور سے شاعری سے برگشتہ نظر آرہا ہے تو یہ اس نو دولتیے کی سی برگشتی ہے جو سمجھتا ہے کہ وہ روپے کی قوت سے جسمانی آسائشوں کے علاوہ روحانی اہتراز بھی بھی خرید سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بالکل عارضی کیفیت ہے کیونکہ فنونِ لطیفہ تو انسانی روح کی طرح غیر فانی ہیں۔

جان اسٹورٹ مل کے "فلسفۂ افادیت پسندی" (یوٹیلیٹیرینیزم) کو آج کے مادیت پسند معاشرے نے "فلسفۂ مفاد پرستی" بلکہ "منافع پرستی" بنا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی "اونچی" محفل میں کسی شاعر یا اسکی شاعری کا ذکر ہوتا ہے تو لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ آخر اس شاعر اور مال روڈ پر بھیک مانگنے والے اپاہج گداگر کے درمیان معاشرتی مفاد کے معنوں میں کونسا فرق باقی رہ جاتا ہے؟ پھر جب وہ کوئی شعر کہتا ہے تو کیا وہ مشین کا کوئی نیا پرزہ بناتا ہے یا "انرجی" کا کوئی نیا نسخہ تجویز کرتا ہے کہ چار طرف شور اٹھتا ہے کہ لیجیے ایک ہمیشہ زندہ رہنے والا شعر ہوگیا ہے؟ ان سوالوں کا مفہوم یہ ہے کہ آخر شاعر اپنی شاعری سے معاشرے کی مادی خوشحالی میں کیا اضافہ کرتا ہے اور اسکا شعر کتنا زرِ مبادلہ کماتا ہے؟ اگرچہ شاعر اور شاعری کے بارے میں یہ طرزِ فکر صنعتی دور اور ہمارے ملکی حالات کے حوالے سے "مغرب کی اندھا دھند نقالی کے دور" کے ساتھ خاص ہے، مگر پرانے زمانے میں بھی یہ انداز عام تھا کہ جب کوئی باپ اپنے بیٹے کے بارے میں سنتا تھا کہ اس نے غزل کہی ہے تو اسکے اوسان خطا ہوجاتے تھے۔ محض اسلیے کہ یہ باپ بھی اپنے بیٹے کے مستقبل کو زر و جواہر کی میزان میں تولتا تھا اور شاعر کا اثاثہ ہر دور میں زر و جواہر کی بجائے چند پھول اور چند آنسو ہی ہوتے ہیں اور پھول مرجھا جاتے ہیں اور آنسو خاک میں جذب ہوجاتے ہیں۔ اور منڈی میں شاعری کی دکان نہیں کھل سکتی اور بڑے بڑے شہروں کے مضافات میں شعروں کی ملیں نہیں لگائی جاسکتیں۔ یہ اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ ایک بار جب میں نے ایک خاصے "انٹلکچویل" قسم کے بزرگ سے کہا تھا کہ آئیے آج آپ کو پاکستان کے چند مشہور شعراء کا کلام سنوائیں تو وہ بولے۔ "میرا قصور؟"

ہمارے ہاں شعر و شاعری کے خلاف یہ اندازِ نظر ایک تو مغرب پرستوں نے پیدا کیا ہے اور دوسرے اس کوتاہ اندیش طبقے نے جو انسان کے ہر نازک جذبے کو گناہ قرار دیتا ہے۔ اس طبقے کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ چاند ستاروں کو بجھا دے، افق پر شفق نمودار نہ ہونے دے، انسانی بستیوں میں نسیمِ سحری کا داخلہ بند کردے، باغوں میں سبزیاں اگائے، صبح کے اس حسن پر کالک پھیر دے جس سے متاثر ہو کر شاعر نے


ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لیے

اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی


کہا ہے۔ گزشتہ برس میں نے اہلِ مُلک سے استدعا کی تھی کہ وہ فنونِ لطیفہ کے سلسلے میں ایک واضح نقطۂ نظر اختیار کریں اور ایسا کرتے ہوئے جذباتیت کی بجائے حقیقت پسندی سے کام لیں اور آرٹ گیلریوں سے محض اسلیے نہ بدکیں کہ وہاں تصویریں رکھی جاتی ہیں جبکہ ہم توہم پرستی کے دور سے صدیوں آگے نکل آئے ہیں اور توحید پر ہمارا عقیدہ چھوئی موئی کا سا نہیں ہے کہ مصوری یا سنگ تراشی کا ایک شاہکار اسے چھو گیا تو وہ خدانخواستہ مرجھا جائے گا۔ میں نے اس ضمن میں اقبال کا حوالہ بھی دیا تھا کہ انہوں نے مرقع چغتائی کا دیباچہ لکھا، جب کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ علامہ احیائے اسلام کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ اس پر متذکرہ طبقے کے ایک بزرگ نے مجھے ایک خط لکھا، جسکا ایک اقتباس یہ ہے کہ:

"آرٹ گیلری کیا چیز ہے؟ یہ وضاحت طلب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ کسی ولی کا مقبرہ ہے؟ کسی شہید کا مزار ہے؟ کوئی عبادت گاہ ہے؟ کوئی رفاہِ عامہ و صحتِ عامہ کا مرکز ہے؟ کوئی درس گاہ ہے؟ آخر یہ کیا چیز ہے؟"

"جن فنکاروں کے آپ نے نام گنوائے ہیں (شاید چغتائی اور اللہ بخش کے نام تھے) وہ بت گر اور بت تراش ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علامہ اقبال مرحوم نے مرقع چغتائی کا دیباچہ لکھا تھا، بے شک میں ببانگِ دہل کہتا ہوں کہ انہوں نے فواحش کی پیٹھ ٹھونکی تھی۔ کسی قصص الانبیاء کا دیباچہ تو نہیں لکھا تھا۔ انہوں نے ایک ایسی کتاب کا دیباچہ لکھ کر اپنی ساکھ کھو دی جس سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا اور جس کو اسلامی شائستگی، مجلسی ضوابط، آدابِ معاشرت اور تہذیبی اقدار سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اب چغتائی صاحب، علامہ اقبال کا کلام مصور کررہے ہیں۔ کیا وہ وقت ضائع نہیں کررہے؟"

ان بزرگ کی یہ تنگ دلی قابلِ مواخذہ نہیں ہے۔ قابلِ مواخذہ وہ نظامِ تعلیم ہے جس نے موصوف کو اس حد تک تنگ دل بنا دیا کہ انکا ارشاد ہے۔

"اللہ کو چاہنے والے غالب اور اقبال کے شعروں پر سر نہیں دھنا کرتے۔"

یہ اندازِ نظر عام ہو رہا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ذہنیت کو پھیلنے سے روکا جائے اور لوگوں کو بتایا جائے کہ اللہ کو چاہنے والوں کیلیے غالب اور اقبال وغیرہ کے کلام میں اتنا کچھ موجود ہے کہ ایک عام ذہن اسکا احاطہ ہی نہیں کرسکتا۔ اچھی شاعری، اور اچھی مصوری حقیقت کی تلاش کا دوسرا نام ہے۔ اس حسن کو حقیتِ اولٰی کہہ لیجیئے یا حسنِ مجرد، بہرحال یہ فنون انسان کے دل میں نرمی، ذہن میں گداز اور عادات میں شائستگی پیدا کرتے ہیں۔ یہ ان جذبوں کو جا کر چھوتے اور متحرک کرتے ہیں جو اگر جامد رہیں تو انسانی شخصیت کو بگاڑ کر اسے بیحد کریہہ المنظر بنا دیتے ہیں۔ یہ فنون تہذیب اور معاشرے کا سنگار ہیں۔ آپ گھر سے نکلتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ آپ نے صاف ستھرے کپڑے پہن رکھے ہوں، بالوں میں کنگھی کر رکھی ہو، آپ پر ایک اجنبی کی بھی نظر پڑے تو وہ آپ کو مہذب اور معزز سمجھے۔۔۔۔۔۔۔پھر آپ کے طرح آپ کے معاشرے کی بھی ایک شخصیت ہے اور اس شخصیت کا نکھار انہی فنون کے دم سے ہے، یہی فنون ایک اجنبی معاشرے کو بتاتے ہیں کہ آپ کیا سوچتے ہیں، کیا کرنا چاہتے ہیں، قدرت کے مظاہر آپ کو کس طرح متاثر کرتے ہیں۔ انسان کے جسم اور اسکی روح کا حسن کتنا بے پناہ ہے۔ جب ہم کوئی شعر پڑھتے ہیں تو ہمارا خیال کتنی کائناتوں میں گھوم آتا ہے۔ جب ہم ایک تصویر دیکھتے ہیں تو ہمارے اندر سوئی ہوئی کتنی نیکیاں بیدار ہوتی ہیں اور کتنے شکنجے ٹوٹتے ہیں۔ جب ہم ایک موسیقی کی تان سنتے ہیں تو ہمارے ذہن و ضمیر کے کیسے کیسے ان دیکھے اور غیر محسوس تاروں پر چوٹ پڑتی ہے۔ فنونِ لطیفہ کی یہ وہ "افادیت" ہے جسکی کوئی قیمت لگائی ہی نہیں جا سکتی، جو گراں بہا ہے۔ جسے بنک میں تو جمع نہیں کرایا جا سکتا، البتہ روح کی گہرائیوں اور ضمیر کی تہوں میں ضرور محفوظ کیا جا سکتا ہے اور یہ وہ "بنک" ہے جس تک "وقت کے ڈاکو" کا بھی ہاتھ نہیں پہنچ سکتا۔

فنونِ لطیفہ کے سلسلے میں ہماری افادیت پسند یعنی مفاد پرست اور منافع پرست ذہنیت کو جتنی جلدی بدلا جائے، اتنا ہی ہماری قومی ترقی اور ہمارے تہذیبی احیاء اور ہماری ہمہ جہتی بیداری اور آگاہی کیلیے مفید ہے۔ گوبھی کے پھول کی افادیت اپنی جگہ، مگر گلاب کے پھول کی پتی پر لرزتے ہوئے اوس کے موتی کی بھی افادیت ہے اور اس افادیت کا اندازہ وہ اذہان نہیں لگا سکتے جن کے گرد خول منڈھ دیئے گئے ہوں اور جو صرف معین حد تک سوچ سکتے ہیں اور صرف مقررہ دائرے میں محسوس کر سکتے ہوں۔ ہمارے پاس ہمارا سب سے بڑا اور قیمتی سرمایہ ہماری شاعری کا ہے۔ یہ وہ شاعر تھے جنہوں نے اس وقت بھی مسائلِ حیات پر فکر کرنے کی جرأت دکھائی جب ہمارے "دانش ورانِ کامل" نے سب اچھا کا نعرہ بلند کر دیا تھا۔ یہ وہی بے چین اور بے قرار روحیں تھیں جنہوں نے استحصال کی کسی بھی صورت کو کبھی قبول نہ کیا اور اپنی غزلوں اور مثنویوں اور شہر آشوبوں میں اپنے دور کی غیرت مندی کے نقوش ثبت کر گئے۔ ان میں سے جو کم جری تھے وہ معاملہ بندی کے ہو کر رہ گئے مگر اس طرح بھی انہوں نے ایک مفید کام کیا کہ اپنے پڑھنے والوں کو زندگی سے قطعی طور پر مایوس نہ ہونے دیا اور زندگی کو زندہ رہنے کے قابل بنانے کی مقدور بھر کوشش کی۔ آج انکی شاعری کو گناہ کا پروپیگنڈہ قرار دیا جاتا ہے، لیکن اس وقت خیر کا پروپیگنڈہ کرنے کرنے والے کہاں تھے کہ ہماری غیرت و حمیت کے کلیجے میں یونین جیک گڑا ہوا تھا۔ اور کہیں سے یہ صدا نہیں آتی تھی کہ اس غیر ملکی استبداد سے خلاصی پانا اس دور کی سب سے گراں قدر نیکی ہے۔ اکا دکا مثالوں سے قطع نظر کیجیئے کہ ایسے سر پھرے تو ہر طبقے میں مل جاتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی گروہوں کے کرادر کا جائزہ لیجیے تو ان میں ہمارے شاعروں کا مقام سب سے بلند ہوگا جو کہتے تھے۔


تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں

تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے


یہ کون سے ستم تھے؟ پڑھنے والے کا خیال کن کن ستم گاروں کی طرف منعطف ہوتا تھا؟ ضمیروں میں شعراء کی طرف سے اس زلزلہ افگنی کی کیا کوئی دوسری مثال ہمارے پاس ہے؟

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved