اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
 

تاریخ اشاعت:۔30-11-2010

فن کا اثبات
مصنف ----------احمد ندیم قاسمی
 
( اپریل 1970ء )


ایک کرم فرما نے مجھے مشورہ لکھ بھیجا ہے کہ میں قومی تاریخ کے اس دور میں آئندہ چھ مہینے کیلیے نہ صرف تہذیب و فن کے مسائل پر اظہارِ خیال کو ختم کردوں بلکہ میرے مضامین کا مستقل عنوان بھی "تہذیب و فن" کی بجائے آئندہ ششماہی کیلیے "سیاسیات و معاشیات" رکھ دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ مشورہ خلوصِ نیت سے دیا گیا ہے اور ایک ایسے شخص کی طرف سے دیا گیا ہے جسے ملکی حالات سے بہت گہرا لگاؤ ہے اور جو ملکی سیاست کو صراطِ مستقیم پر گامزن رکھنے کی کوشش میں ملک کے ہر فرد کو شامل کرنا چاہتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ آج ہماری سیاست میں جو کچھ ہو رہا ہے اور آئندہ ایک برس کے اندر جو کچھ ہوگا، اسی سے ہمارا جمہوری مستقبل متعین ہوگا اور ہم عملاً اس امر کا ثبوت مہیا کر سکیں گے کہ ایک بہت بڑی عوامی تحریک نے اور بے شمار اور بے بہا قربانیوں نے ہمیں جو آزاد وطن دلایا ہے اسکی آزادی کی ہم قدر کر سکتے ہیں یا نہیں اور اسکے تحفظ کو ہم باقی سب چیزوں پر ترجیح دے سکتے ہیں یا نہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ سیاست صرف سیاستدانوں کی میراث نہیں ہے۔ آزاد ملکوں میں ہر شخص سیاسی ہوتا ہے اور اسے سیاسی ہونا چاہیئے۔ ورنہ اگر اسکا ذہن آزادی کا مفہوم کھو بیٹھا تو چند گنے چنے لوگوں کا سیاست پر اجارہ قائم ہو جائے گا اور یہی اجارہ آخر کار ایک من مانی آمریت پر منتج ہوگا۔ میں تو اسی لیئے اس بات کا قائل ہوں کہ اہلِ قلم اور اہلِ علم کو بھی کم سے کم ملکی سیاست پر تو ضرور حاوی ہونا چاہیئے تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ اجتماعی حیثیت سے وہ کہاں کھڑے ہیں اور بین الاقوامی سیاسیات کے حوالے سے انکے ملک نے کون کون سی قابلِ فخر انفرادیتوں کا مظاہرہ کیا ہے اور اگر اسکی انفرادیتیں دبی ہوئی ہیں تو اسکا سبب کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں، صرف وہی دانشور، دانش فروشی کی سطح پر گر سکتا ہے جسے ان سیاسی مصلحتوں کا ادراک ہی حاصل نہیں ہوتا جو اسے دانش فروشی پر مجبور کردیتی ہے اور دانش فروشی ملکی خود مختاری کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے۔ چنانچہ میں سیاسی باخبری کی اہمیت کا تو اعتراف کرتا ہوں مگر یہ مسئلہ میری سمجھ میں نہیں آ سکتا کہ سیاست کی ہمہ گیری پر علم و ادب، شعر و فن اور تہذیب و تمدن کے مسائل کو بھی قربان کر دیا جائے، جیسے وہ سیاسی مؤثرات کی تشکیل سے بالکل غیر متعلق ہیں اور جیسے یہ علوم زمین کی بجائے خلا میں بستے ہیں۔

فنونِ لطیفہ کردار سازی کا اتنا مؤثر ذریعہ ہیں کہ اسکا ثبوت مہیا کرنے کیلیے کسی بہت بڑے تحقیقی کارنامے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ قومی تاریخ کا ایک اچٹتا سا مطالعہ ہی کافی ہے۔ پھر یہ تو متفقہ حقیقت ہے کہ سیاسیات کو صراطِ مستقیم پر گامزن رکھنے کیلیے جمہور کی عظمتِ کردار بہت ضروری ہے۔ جمہور کے کردار میں حق گوئی، انصاف، اعتدال اور نرم گفتاری کے عناصر موجود ہونگے تو اربابِ سیاست خود ہی مجبور ہو جائیں گے کہ وہ اپنے معیاروں کو ذرا سا بلند کرکے جمہوری ذہن کو اپیل کرنے کیلیے حق گوئی اور انصاف، اعتدال اور نرم گفتاری کو اپنے کردار کا ایک حصہ بنائیں۔ یہ جو آجکل سیاسی اور علمی سطح پر اسکینڈل بازوں کا ایک گروہ ملک کے طول و عرض میں اچکتا پھاندتا پھر رہا ہے اور یہ جو کل کے بالشتیئے آج کے دیو پیکروں میں بدلے جا رہے ہیں، تو اسکی وجہ بھی صرف یہ ہے کہ ان عناصر کو علم ہے کہ لوگوں کی ایک خاصی بڑی تعداد عقل و فکر اور دلیل و منطق سے زیادہ جذباتیت کی زد میں رہتی ہے۔ اگر ہمارا معاشرہ اس جذباتیت زدگی سے پاک ہوتا اور مسائل کو عقل و فکر کی کسوٹی پر پرکھنے کے قابل ہوتا یا اسے اس پرکھ کی تربیت دی گئی ہوتی تو مغلظات بکنے والوں کی مجال نہیں تھی کہ وہ یوں کھل کھیلتے اور اپنے ضمیرکی غلاظت کو یوں آزادی سے اچھالتے پھرتے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس مرحلے پر کردار سازی کی شاید ہر دور سے زیادہ ضرورت ہے۔ کردار سازی کے اور بھی کئی ذرائع ہیں مگر ان ذرائع میں ایک ذریعہ شعر و فن کا بھی ہے۔ شعر و فن تہذیب کے مؤثر ترین اظہار کا دوسرا نام ہوتا ہے اور جب میں یہ کہتا ہوں تو میرے پیشِ نظر معیاری شعر و فن ہوتا ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ معیاری اور غیر معیاری کے درمیان امتیاز کیسے کیا جائے تو عرض یہ ہے کہ جو شعر و فن، متعلقہ فن کے جمالیاتی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے انسان کو حسن و خیر اور عدل و توازن سے رجوع کرنا سکھاتا ہے اور جو زندگی کا اثبات کرتا ہے اور انسان کے بنیادی جذبوں کی گہرائیوں تک پر اثر انداز ہو کر ان جذبوں کی تہذیب پر قادر ہوتا ہے، وہی معیاری شعر و فن ہے۔ تو گزارش یہ ہے کہ یہی معیاری شعر و فن انسان کا بہت بڑا کردار ساز ہے۔ آپ پھر پوچھیں گے کہ ایک غزل کا پیارا سا شعر یا ایک کامیاب افسانہ، یا ایک مکمل نظم پڑھ کر یا اسٹیج پر ایک ڈرامہ دیکھ کر یا ایک نغمہ سن کر یا ایک تصویر دیکھ کر کسی کے اس کردار پر کیا اثر پڑ سکتا ہے جو نسبی صفات کے علاوہ ایک خاص نوعیت کے ماحول، ایک خاص طرح کی تربیت اور پھر ایک خاص قسم کی جبلت کا مجموعہ ہوتا ہے، تو عرض یہ ہے کہ شعر و فن کا اثر قطعی غیر شعوری طور پر ایک طلسماتی انداز میں ہوتا ہے اور ان اثرات کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب متاثر ہونے والا اپنا تجزیہ کرتا ہے اور یہ دیکھ کر دم بخود رہ جاتا ہے کہ وہ تو کندن ہو چکا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ایک اچھا شعر پڑھ کر اور ایک اچھا نغمہ سن کر، ایک باذوق یعنی فنی اثرات کو قبول کرنے والے ایک ذہن کو جس اہتزازی کیفیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے اسکا نتیجہ قلب و ذہن کے گداز کی صورت میں نکلتا ہے۔ اور انسان نے تہذیب کی جو منزلیں طے کی ہیں، وہ یہی قلب و ذہن کی گداز ہی کی منزلیں ہیں۔ انسانی کردار کی سب سے بڑی صفت یہی گداز ہے۔ یہ وہ گداز ہے جو انسان کو اپنی ذات کے علاوہ بھی کسی کے بارے میں سوچنا سکھاتا ہے اور وہ دوسرے کے جذبے کی اپنائیت کے احساس کے ساتھ قدر کر سکتا ہے۔ پھر جب ہم دوسروں کے جذبہ و احساس کے احترام پر قادر ہو جائیں تو اسی کیفیت میں سے عدل و توازن کے سوتے پھوٹتے ہیں اور جب عدل و توازن کسی قوم کا کردار بن جاتا ہے تو اسکا نتیجہ ہوگا سیاسی سطح پر کامل سکون، اقتصادی خوشحالی اور روحانی آسودگی۔۔۔۔۔۔۔آپ کہیں گے کہ میں الفاظ کی ایک مترنم اور دلآویز ترتیب کے کارنامے۔۔۔۔۔۔یعنی شعر۔۔۔۔۔۔۔کے اثرات کو کھینچ کھانچ کر بہت دور لیے جا رہا ہوں، مگر سچی بات یہ ہے کہ میں مبالغہ نہیں کر رہا ہوں، ایک حقیقت بیان کر رہا ہوں۔ ایک معمولی سی مثال ملاحظہ کیجیئے۔ غالب کا ایک شعر ہے:


ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی

وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے


کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ خستگی کا شکار اپنے آپ کو دنیا کا سب سے زیادہ خستہ انسان سمجھتا ہے، یوں وہ خود ترحمی کا شکار ہو جاتا ہے، قنوطیت زدہ ہو جاتا ہے، عمر بھر شکست خوردہ رہتا ہے اور اپنی ذات سے باہر جھانکنے سے ڈرتا ہے لیکن اگر وہ اس خوف پر غالب آ جائے اور اس خول سے نکل کر دیکھے تو اسے معلوم ہوگا کہ اس دنیا میں اس سے بھی کہیں زیادہ "خستۂ تیغِ ستم" موجود ہیں۔ اس انکشاف سے وہ خوش نہیں ہوگا بلکہ اپنی خستگی کا احساس اسے دوسروں کی خستگی میں شریک کر لے گا۔ اور وہ سب کی خستگی کو ختم کرنے کیلیے ایک مثبت جِدوجہد میں مصروف ہو جائے گا۔ وہ اس کیفیت کے تدارک کی تجویزیں سوچے گا جس نے ہر انسان کو خستگی کے سپرد کر رکھا ہے۔ ہر انسان کے ساتھ اسے محبت محسوس ہوگی۔ ہر شخص کا دکھ اسکا اپنا دکھ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔کیا اسطرح غزل کا یہ ایک شعر انسانی جذبات کی تہذیب کا اتنا بڑا کارنامہ انجام نہیں دے ڈالے گا، جو بڑی بڑی تحریکوں کے بھی بس میں نہیں ہوتا۔

مگر شرط یہ ہے کہ شعر پڑھنے، نغمہ سننے اور تصویر دیکھنے والے کا ذہن Receptive ہو۔ فنی اثرات کی قبولیت کیلیے اسکے دروازے وا ہوں۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہو؟ یہ صرف اسطرح ممکن ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کے معیار ایسے ہوں کہ اساتذہ جب ادب و فن کی تعلیم دینے بیٹھیں تو محض فرہنگیں کھول کر نہ بیٹھ جایا کریں اور مشکل الفاظ کے معانی بیان کرکے اور شعر و ادب کو سلیس زبان میں منتقل کرکے اپنے منصب سے عہدہ برآ نہ ہو جایا کریں بلکہ متعلقہ فن پارے کی گہرائیوں تک پہنچیں اور اسکے مفاہیم کے پھیلتے ہوئے افقوں سے آگاہ ہوں۔ صرف اسطرح نوجوانوں میں صحیح قسم کا ادبی ذوق پیدا ہوگا۔ اور وہ اس حیات بخش قوت کو اپنے کردار میں رچا سکیں گے۔ مگر جب تک ہمارا فرسودہ طرزِ تعلیم نہیں بدلتا اور ادب کی تعلیم بعض کور ذوقوں کے قبضے میں سے نکالی نہیں جاتی۔ ادب و فن سے اہلِ ملک کا یہ مثبت استفادہ صرف اس ذریعے سے ممکن ہے کہ ہر طرف ادب و فن کے چرچے ہوں۔ ممکن ہے اسطرح پڑھے لکھے طبقے کے افراد اس طرف متوجہ ہوسکیں اور انکے کردار میں چھپی ہوئی خوبیوں کے تاروں کو چھیڑ سکیں۔ میں جب "تہذیب و فن" کے سلسلے میں مضامین لکھتا ہوں تو مجھے علم ہوتا ہے کہ ان کے مندرجات سے متاثر ہونے والوں کی تعداد محدود ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر مطالعہ کرنے والے ڈیڑھ دو لاکھ افراد میں سے ایک سو افراد بھی میری گزارشات کو غور سے پڑھتے ہیں اور ان سے کوئی معمولی سا اثر بھی قبول کرتے ہیں تو مجھے انکی افادیت کا یقین ہو جاتا ہے۔ سیاست کی گرم بازاری میں کسی بھی شعبۂ زندگی کو نظر انداز کر دینا بہت بڑی غلطی ہے۔ خاص طور سے اس صورت میں جب بعض شعبے سیاسیات کو تہذیبی حدود کے اندر رہنے میں مدد دے سکتے ہیں اور ایک ایسا ماحول قائم رکھ سکتے ہیں جب گالی بکنے والے کو گالی باز سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاتا۔ اور اسے قومی رہنمائی اور علمی سربراہی کے منصب سپرد نہیں کئے جا سکتے۔ جب معاشرے میں جذبات کی آتش زنی انتہا پر پہنچ جائے تو چند فقیروں کو شبنم افشانی کے کام سے روکنا نہیں چاہیئے۔ اگر یہ شبنم افشانی چند چنگاریوں کو بھی بجھا سکے تو یہ بھی کوئی معمولی کام نہیں ہے۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved