اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
 

تاریخ اشاعت:۔30-11-2010

مادی ترقی اور قومی ثقافت
مصنف ----------احمد ندیم قاسمی
 
( اکتوبر 1967ء )

حال ہی میں ایک امریکی ماہر ڈاکٹر پال ایف زیڈ وائفل نے راولپنڈی کی ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے ثقافت کے بارے میں چند ایسی باتیں کہیں جو غلط بھی تھیں اور ناقابلِ برداشت بھی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک (ظاہر ہے کہ افریقی اور ایشیائی ممالک بشمول پاکستان) اس وقت تک سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک وہ ثقافت سے متعلق اپنے موجودہ تصورات کو ترک نہیں کر دیتے اور مغربی اندازِ نظر نہیں اپناتے۔ اس خیال کو انہوں نے اس دلیل سے مستحکم کرنے کی کوشش کی کہ آپ مادی قدروں کو اہمیت دیے بغیر مادے کی ترقی کے بارے میں سوچ ہی کیسے سکتے ہیں۔

خوشی کی بات ہے کہ راولپنڈی کی اس تقریب میں موجود پاکستانی دانشور یہ سب کچھ سنکر خاموش نہیں رہے بلکہ انہوں نے ڈاکٹر وائفل پر سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ انہوں نے امریکی دانشور کو واضح طور پر بتایا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی ہمارے مذہبی عقائد سے متصادم نہیں ہوتے بلکہ ہمارے لیے تو ان علوم کا حصول مذہبی طور پر بھی ضروری ہے۔ ان پر واضح کیا گیا کہ ماضی میں مسلمان سائنس دان پوری دنیا کیلیے مشعلِ راہ بنے تھے مگر انہیں اپنے مذہبی عقائد اور اپنے ثقافتی تصورات سے دست کش ہونے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ اسکے بعد ڈاکٹر وائفل سے استفسار کیا گیا کہ اگر آپ کا ارشاد درست ہے تو پھر کیا سبب ہے کہ چین نے مغربی تہذیب و ثقافت کو اپنائے بغیر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بے پناہ ترقی کی ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب میں کہا کہ چین کے بارے میں وہ زیادہ نہیں جانتے اور ویسے بھی وہ چین کی سائنسی اور ٹیکنیکل ترقی کو تسلیم نہیں کرتے۔ یہ طرزِ فکر کسی ایسے شخص کو زیب نہیں دیتا جسے دانشوری کا بھی دعوٰی ہو اور جو اسی براعظم کے لوگوں کو اپنی ثقافت ترک کرنے کا مشورہ دینے آیا ہو جسکا ایک بہت بڑا حصہ چین کے نام سے موسوم ہے۔ اگر امریکہ سیاسی طور پر چین کو تسلیم نہیں کرتا اور اقوامِ متحدہ میں چین کی رکنیت کے مسئلے کو اس نے اپنی انا کا مسئلہ بنا رکھا ہے تو امریکہ کے دانشوروں پر یہ کیسے لازم آتا ہے کہ وہ بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کی حیرت انگیز ترقی کے بارے میں نہ صرف لاعلمی کا اظہار کریں بلکہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے بھی محض اسلیے انکار کردیں کہ جب ہم سیاسی لحاظ سے چین کو تسلیم نہیں کرتے تو ثقافتی لحاظ سے اسکی ترقی کو تسلیم کرنے کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے۔ یہ اندازِ نظر اس ملک کے اربابِ علم کو کسی صورت زیب نہیں دیتا جسے "آزاد" دنیا کا سربراہ قرار دیا جاتا ہے اور جس کے بارے میں سنا ہے کہ وہاں تقریر، تحریر اور عقیدے کی آزادی اوجِ کمال پر پہنچی ہوئی ہے۔ اگر چین کے بارے میں ڈاکٹر وائفل کے اس ارشاد کو اس اوج کا اظہار قرار دیا جائے تو ہمیں افسوس ہے کہ امریکہ میں ان بنیادی آزادیوں کی کوئی اچھی تصویر ذہن میں نہیں ابھرتی۔ اسلیے کہ ذہنی تعصبات آزادی کی بجائے آزادی کا ناجائز استعمال ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر وائفل نے چین کے بارے میں بے خبری کا اظہار کرنے کے بعد جاپان کی مثال پیش کی کہ دیکھئے اس نے مغربی ثقافت کو اپنا کر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کتنی ترقی کی ہے۔ پاکستانی دانشوروں کی طرف سے انہیں فوراً مطلع کیا گیا کہ جاپان میں مغرب کے ثقافتی تصورات کا نفوذ تو اب شروع ہوا ہے ورنہ جاپان نے تو اس سے پہلے ہی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مغرب سے اپنا لوہا منوا لیا تھا۔ اور جاپان کی مادی ترقی تو مغرب کی مادہ پرستی کی درآمد سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی۔ اگر ڈاکٹر وائفل کو پاکستانی دانشوروں کی طرف سے اس "انکشاف" پر اب بھی شبہ ہو تو ہم انھیں بعض تفاصیل سے مطلع کرنا چاہیں گے۔ عرض یہ ہے کہ جاپان میں مغرب کے ثقافتی تصورات کا نفوذ اگست 1945ء میں شروع ہوا تھا۔ یہ وہ مہینہ ہے جب امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر تاریخِ انسانی کے پہلے ایٹم بم گرائے تھے اور اسی مہینے امریکی اور برطانوی افواج نے جاپان پر قبضہ کرلیا تھا۔ مغربی ثقافت کے تصورات کے نفوذ کی تاریخ یہیں سے شروع ہوتی ہے اور پرل ہاربر کا حادثہ اس سے چار سال پہلے کا ہے۔ پھر ہم سمجھتے ہیں کہ اگر جاپان پر مغربی ثقافت مسلط نہ کردی جاتی تو سائنس اور ٹیکنالوجی میں جاپان کی ترقی کی رفتار اتنی تیز ہوتی کہ امریکہ کے سے ملک بھی اس سے پیچھے رہ جاتے۔ یہ مغربی ثقافت کا نفوذ تو جاپان کی مادی ترقی کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔

جب ملک سے اسکی ثقافت چھن جاتی ہے تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ملک کی بے ساختگی چھن گئی ہے۔ اپنی ثقافت انسان کو ایک ایسا ماحول مہیا کرتی ہے جس سے وہ پوری طرح مانوس ہوتا ہے اور جب تک مانوس ماحول میسر نہ ہو، انسان کو اپنے ہاتھ پاؤں بلکہ اپنا دماغ تک استعمال کرنے میں رکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجنبی ماحول میں بڑ بولے گونگے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اور بے چین مزاج کے لوگوں پر جامد ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ قوموں کی انفرادی ثقافتوں کا مطالعہ کیجیئے تو صاف معلوم ہوگا کہ یہ ثقافتیں قوم کے افراد کو فکر و عمل کی چند سہولتیں مہیا کرتی ہیں۔ پھر ہر قوم کی ثقافت اس قوم کے خاص مزاج کے مطابق ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ثقافتوں کی صورت پذیری کا عمل غیر محسوس ہوتا ہے۔ محبت کی طرح یا زبان کی طرح ثقافت بھی کہیں اوپر سے ٹھونسی نہیں جا سکتی بلکہ اس کی جڑیں انسانوں کے محسوسات اور تصورات میں ہوتی ہیں۔ اور یہ "اشجار" اسی "مٹی" میں پھولتے پھلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ثقافتیں مشینوں کی طرح درآمد برآمد نہیں ہوتیں۔ وہ ان ثقافتوں سے متاثر ضرور ہوتی ہیں جن سے ان کی مڈ بھیڑ ہوتی ہے مگر یہ اثر پذیری یک طرفہ نہیں ہوتی۔ یک طرفہ اثر پذیری کا خیال صرف ان ذہنوں میں پیدا ہو سکتا ہے جو اپنی ثقافت کی برتری کے دعویدار ہوتے ہیں اور یوں غیر شعوری طور پر فسطائیت کی زد میں آجاتے ہیں۔ امریکہ کے ڈاکٹر وائفل نے اگر ہمیں سائنسی اور ٹیکنیکل ترقی کیلیے اپنی ثقافت کو ترک کردینے اور مغربی ثقافت کو اپنا لینے کا مشورہ دیا ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ غیر محسوس طور پر ہی سہی، یورپ کی اس نو آبادیاتی ذہنیت کے شکار ہیں جو ایشیا اور افریقہ کو ہر لحاظ سے کمتر اور نالائق سمجھتی ہے۔ یہ اندازِ فکر خود ڈاکٹر وائفل کی ثقافت کا کوئی اچھا ثبوت نہیں ہے کیونکہ اسطرح تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اب مغرب سیاسی شکست کے بعد ثقافتی سطح پر "سورت" میں اپنی "کوٹھیاں" بنانے نکلا ہے۔

سوال یہ ہے کہ مغرب کے دانشوروں کو ہمارے ہاں آکر ایسی باتیں کرنے کا حوصلہ ہی کیسے ہوتا ہے؟ تنقید کو برداشت کرنا یقیناً بڑی فراخدلی کا کام ہے مگر تنقید کا بھی ایک معیار ہوتا ہے۔ اس میعار سے ہٹ کر جو تنقید کی جاتی ہے وہ تنقیص کہلاتی ہے اور یاد رہے کہ نقائص نکالنے اور گندگی اچھالنے سے زیادہ آسان کام آج تک کسی کو سوجھا ہی نہیں۔ پھر مغرب سے آنے والے ہمارے یہ نقاد شاید اس حقیقت سے بے خبر ہیں یا بے خبر رہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی بنیاد ہی اہلِ پاکستان کی تہذیبی اور ثقافتی انفرادیت پر ہے۔ ہم نے اپنے عقائد، اپنی تہذیب اور اپنے ثقافتی تصورات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کیلیے یہ خظۂ زمیں حاصل کیا ہے۔ چنانچہ جب ڈاکٹر وائفل کے سے مغربی دانشور ہمیں اپنے ثقافتی تصورات کو ترک کردینے کا مشورہ دیتے ہیں تو اسطرح وہ ہمارے وجود کی بنیاد پر ضرب لگانے کا مرتکب ہوتے ہیں۔ اس قسم کے مشورے اس صورت میں بالکل بے معنی ہو جاتے ہیں جب ہم اس امر پر غور کرتے ہیں کہ مغرب کی مادی ترقی دراصل ایشیا اور افریقہ کے ظالمانہ استحصال سے کشید کی گئی ہے۔ ایک لمحے کیلیے فرض کیجیئے کہ یورپ کو ایشیائی ممالک پر کبھی تسلط حاصل نہیں رہا۔ تب نہایت آسانی سے اس مغرب کا تصور کیا جا سکتا ہے جو غریب ہے اور جس کے شب و روز دو وقت کی روٹی مہیا کرنے کی تگ و دو میں صرف ہو جاتے ہیں۔ اس صورت میں امریکہ میں یورپی آبادی کا انتقال بھی مشکوک ہو جاتا ہے اور وہ براعظم وہاں کے اصل باشندوں کے قبضے میں چلا جاتا ہے۔ اب جو مغرب ہمارے سامنے آتا ہے وہ اس مغرب سے سراسر مختلف ہے جس نے افریشیائی ممالک کے استحصال کے بعد اپنے رخساروں میں سرخی پیدا کی اور شکم پری کی طرف سے مطمئن ہو کر سائنس اور ٹیکنالوجی کی سمت متوجہ ہونے کا وقت نکال لیا۔ کیا ڈاکٹر وائفل نے اپنی ثقافت کے اس پہلو پر بھی غور کیا ہے؟

یہ درست ہے کہ اوہام سائنٹیفک ترقی کی راہ میں بری طرح مزاحم ہوتے ہیں مگر کیا اوہام صرف مشرق میں پائے جاتے ہیں؟ کیا مغرب کا معاشرہ اوہام سے قطعی طور پر آزاد ہے؟ جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے، مغربی معاشرے میں اب تک ایسے اوہام موجود ہیں جنکا ذکر آج کے مشرق میں سامانِ تضحیک بن جائے، اسکے باوجود اگر مغرب نے ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی ہے تو اسکی وجہ وہاں کے ثقافتی تصورات کی حقیقت پرستی نہیں بلکہ یہ تو تاریخ کا ایک حادثہ ہے۔ رہی یہ بات کہ مادی قدروں کو اہمیت دیئے بغیر مادے کی ترقی کے بارے میں سوچا ہی نہیں جا سکتا تو یہ ایک ایسا مبحث ہے جو بہت تفصیل چاہتا ہے۔ اور شاید مجھ ایسا آدمی جو صرف شاعر اور افسانہ نگار ہے، اس مبحث سے انصاف بھی نہیں کر سکتا۔ مادے کے وجود سے کوئی منکر نہیں ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ پوری کائنات مادے ہی کی کار فرمائی ہے۔ ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ مادے کے اپنے خواص ہیں اور انہی خواص کی برکت سے مادے میں حرکت ہے اور نئی سے نئی صورت پذیری کی قوت ہے۔ شاید کسی بھی قوم کے ثقافتی تصورات مادے کی مکمل نفی سے نہیں ابھرتے۔ جھگڑا صرف اس صورت میں پیدا ہوتا ہے کہ مغرب مادے کو مطلق العنان مانتا ہے۔ مگر مشرق کے اہلِ مذہب مادے کو ایک اور قوت کی۔۔۔۔۔۔۔۔جو کائنات کی سب سے بڑی قوت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تخلیق قرار دیتے ہیں۔ اور بیشتر کا ایمان ہے کہ کائنات میں مادہ جو کچھ کر رہا ہے وہ ایک نظم سے کر رہا ہے اور یہ نظم ایک ایسے منتظم کے ہاتھ میں ہے جسکی اجازت کے بغیر ایک پتا تک نہیں ہل سکتا۔ عقائد کی نوعیت کچھ بھی ہو مگر کوئی بھی اس پر معترض نہیں ہوسکتا کہ ہم پہاڑوں کو کھود کر معدنیات تک پہنچیں یا ایٹم کو توڑ کر اس سے قوت و حدت حاصل کریں یا خلا میں ابھر کر ناپیدا کنار وسعتوں تک پھیلے ہوئے کروں کے اسرار معلوم کریں۔ اگر ڈاکٹر وائفل کو کسی نے یہ بتایا ہے کہ اہلِ پاکستان کا عقیدہ پاکستان کی ٹیکنیکل ترقی میں حائل ہے تو غلط بتایا ہے۔ ہمارا "قصور" صرف یہ ہے کہ ہم ایٹمی ری ایکٹر کا آغاز بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر کرتے ہیں۔

ڈاکٹر وائفل کی اس تقریر کی رپورٹ پاکستان کے سب اخباروں میں شائع ہوئی مگر حیرت ہے کہ کسی نے اسکا کماحقہ نوٹس نہیں لیا۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ جب کوئی شخص ارضِ پاکستان کی تاریخ کو موہن جودڑو سے بھی قبل کے زمانے سے شروع کرتا ہے تو ہم سب بے قرار ہوجاتے ہیں کہ یہ کیا کفر بک رہا ہے۔ مگر جب مغرب کا ایک دانشور ہماری ثقافت کو بیسویں صدی کے تقاضوں کی نفی قرار دے ڈالتا ہے تو ہم چپ سادھ لیتے ہیں۔ اسکی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ مغرب کے معاملے میں ہم اب تک احساسِ کمتری کے شکار ہیں (جیسا کہ مغرب ہمارے معاملے میں احساسِ برتری کا شکار ہے اور ڈاکٹر وائفل نے اسکا ثبوت مہیا کر دیا ہے۔) ہم اپنے بارے میں مغرب سے آج بھی بڑے سے بڑا جھوٹ سنکر اس سوچ میں کھو جاتے ہیں کہ کہیں یہ سب سچ تو نہیں ہے۔ اس احساسِ کمتری سے ہمیں جلد سے جلد پیچھا چھڑانا چاہیئے کہ یہ طرزِ فکر ہمیں آئندہ صدیوں تک ذہنی لحاظ سے مغرب کا محکوم بنائے رکھے گا۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہم بڑے مہمان نواز اور فراخ دل لوگ ہیں اور مہمانوں کی عزت کرتے اور اپنی تنقید خندہ پیشانی سے سنتے ہیں۔ ہماری ثقافت کا یہ پہلو قابلِ فخر ہے۔ لیکن مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ جب اپنی ثقافت کے وقار کا مسئلہ درپیش ہو تو ہمیں تھوڑا سا "متعصب" ضرور ہونا چاہیئے۔ اور میں راولپنڈی کے دانشوروں کو داد دیتا ہوں کہ انہوں نے اس مقدس "تعصب" کا برسرِ عام مظاہرہ کیا۔ یہ "تعصب" دراصل اپنی روایتوں اور اپنی قدروں سے پیار کا دوسرا نام ہے۔ ہمیں اہلِ مغرب کو بتا دینا چاہیئے کہ یقیناً ہمارے ثقافتی تصورات اور اخلاقی قدریں فولاد سے نہیں بنی ہیں، ان میں بلا کی لچک ہے اور ہم "خذما صفاوع ماکدر" کے اصول پر ہمیشہ سے کاربند ہیں، البتہ ہم اپنی قومی اور تہذیبی اور ثقافتی انفرادیت پر فخر کرتے ہیں اور اس انفرادیت کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved