اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
 

تاریخ اشاعت:۔30-11-2010

سائنس کے اثبات کیلیے شاعری کی نفی کیوں؟
مصنف ----------احمد ندیم قاسمی
 
( نومبر 1969ء )

آج کل ایک مسلمان سائنسدان، ابن الہیثم کا ہزار سالہ جشن منایا جا رہا ہے۔ اسکے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ "وہ مسلمانوں میں سب سے بڑے طبیعات دان تھے۔ کیمرے اور خوردبین کا راز سب سے پہلے اسی نے معلوم کیا تھا۔ اس نے چار سو سائنسی کتابیں لکھیں جن میں سے صرف چند کے لاطینی ترجمے محفوظ ہیں۔ روشنی اور بصارت کے تمام حقائق اور علوم کی بنیاد ابن الہیثم ہی کی تحقیق پر رکھی گئی ہے۔ اور چٹانوں کی ساخت اور عمر معلوم کرنے کے آج جو طریقے رائج ہیں وہ بھی اسی کے تجربات کا نتیجہ ہیں۔" بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہماری توجہ قدیم مسلمان مفکرین اور انکے نظریات کی طرف مبذول کرائی جا رہی ہے اور یوں اس یقین کو ثبوتوں کے ساتھ پختہ کیا جا رہا ہے کہ ہمارا علمی و تہذیبی ماضی شاندار ہے۔ مگر اس مبارک مقصد کیلیے یہ قطعی ضروری نہیں ہے کہ ہم علوم کے ایک شعبے کی برتری کو نمایاں کرنے کی خاطر علوم کے ایک اور شعبے کو غیر اہم اور بیکار قرار دے ڈالیں۔ علوم ہمیشہ ایک دوسرے کے سہارے چلتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ کوئی علم دوسرے تمام علوم سے کٹ جانے کے بعد زندہ رہ سکا ہو۔ چنانچہ سائنس تک کے بارے میں اب عام خیال یہ ہے کہ یہ انسان کی اسی متخیلہ سے قوت حاصل کرتا ہے جسکا بہترین اور حسین ترین اظہار شاعری اور دوسرے تخلیقی ادب میں ہوتا ہے۔ اس صورت میں ہمیں کراچی کے ایک معاصر میں ابن الہیثم کے کارناموں کے بارے میں لکھے ہوئے ایک عالمانہ مقالے کے یہ جملے کچھ عجیب سے لگے۔

"ذہنی پراگندگی ہماری تہذیب (دور حاضر کی تہذیب) کا خاصہ ہے۔ ہمارے اسلاف ارتکازی قوت سے آراستہ تھے اور قوتِ ارتکاز اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک ہمارے اذہان اس آلودگی سے پاک نہ ہو جائیں جو بیرونی تمدنوں نے ہمارے اندر پیوست کردی ہے۔ حصول علم و ترقی کیلیے لازمی ہے (؟) لیکن اس سے یہ معنی اخذ کرنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ ہم مغربی تمدن کا تمامتر بوجھ اپنے سر منڈھ لیں۔ اسکا کا نقصان ناقابلِ تلافی حد تک پہنچ چکا ہے اور آئندہ مہلک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ سب سے عظیم نقصان جو ہمارے اذہان کو پہنچا ہے وہ منفی رہا ہے۔ ہم نے اپنی تخلیقی قوت سائنس کے بجائے شاعرانہ غرابت میں صرف کی۔ جہاں الفاظ کے سحر کو ہم کارآمد بنا سکتے تھے وہ سحر ہم نے قصیدہ خوانی کی نظر (نذر) کر دیا۔ غرض کہ ہر جگہ تخلیقی قوتوں کا اسراف ہی اسراف نظر آتا ہے۔ اسکے نتیجے میں ہم تقدیری نظریات کے تابع ہوگئے اور ہمارے اوپر آرام طلبی کا غلبہ ہوگیا۔ یہی کیفیت قدرے یونانی تہذیب کی تھی جو چوتھی صدی عیسوی میں ختم ہوگئی۔"

میں نے یہ طویل اقتباس اسلیے درج کیا کہ مجھ پر عبارت کو اسکے سیاق و سباق سے الگ کرکے اسکا جائزہ لینے کا الزام عاید نہ ہوسکے۔ ورنہ دراصل مجھے حیرت اس اقتباس کے آخری چند جملوں پر ہے جو خط کشیدہ ہیں۔ سب سے آخری جملے ("یہی کیفیت قدرے یونانی تہذیب کی تھی جو چوتھی صدی عیسوی میں ختم ہوگئی۔")سے متعلق اربابِ علم و فضل ہی بہتر طور پر بتا سکتے ہیں کہ اسلامی تہذیب اور یونانی تہذیب کے علمی اور تخلیقی زوال کے درمیان کونسی قدر مشترک ہے اور کیا سقراط، ارسطو اور افلاطون کی تہذیب واقعی ختم ہو چکی ہے۔ اور مسلمان علماء کے کارنامے سچ مچ زوال اور گمنامی کی نذر ہوچکے ہیں؟ بہرحال یہ مبحث دوسرا ہے۔ مجھے تو صرف اتنی سی عرض کرنا ہے کہ اگر ہمارے اسلاف نے شاعری کی تو کیا انہوں نے اسلامی تہذیب میں اضافے کئے یا اس شاعری کا صرف یہ نتیجہ نکلا کہ سائنس اور سائنسی تحقیق کے ساتھ مسلمانوں کی دلچسپی ختم ہو گئی؟ کیا ہمیں سائنسی تحقیق سے غیر متوجہ کرنے والے عناصر میں صرف شاعری ہی دکھائی دیتی ہے یا اس میں ملوکیت کا بھی ہاتھ تھا اور ان لوگوں کا بھی جو سائنسی انکشافات اور ایجادات کو کفر قرار دینے سے بھی نہیں ہچکچاتے تھے؟ کہیں اس میں امراء و روساء کی تن آسانیوں اور عیش پرستیوں کو تو دخل حاصل نہیں تھا؟ اور کہیں اسکی وجہ یہ تو نہیں کہ ہمارے اربابِ حکومت نے سائنسی علوم کو عوام کی خود آگاہی کا ایک ذریعہ سمجھ کر انکی حوصلہ شکنی شروع کردی تھی؟ کیا اتنے بہت سے مجرموں کی نشاندہی محض اسلیے مشکل ہے کہ تاریخ نے ان امراء و روساء کو ہمارے ہیرو بنا کر انہیں ہمارے ذہنوں پر مسلط کر رکھا ہے۔ اور کیا صرف شاعری اور الفاظ کی سحر کاری پر سارا الزام تھوپ دینا اسلیے آسان ہے کہ تخلیقِ شعر کرنیوالی مخلوق میں قلندرانہ صفات ہوتی ہیں اور شعراء پورے فنِ شاعری کی یہ تضحیک بھی محض اسلیے برداشت کرلیتے ہیں کہ انہیں اس حقیقت کا یقین ہے کہ جب تک انسان زندہ ہے، شاعری بھی زندہ ہے اور جس روز شاعری سے دست کش ہوگا اسی روز روحانی اور محسوساتی حیثیت سے اسکا انتقال ہو جائے گا، صرف جسم زندہ رہیں گے، جسطرح ڈھور ڈنگر زندہ رہتے ہیں۔

بلاشبہ بعض شعراء نے اپنی پوری قوتِ تخلیق قصیدہ گوئی پر صرف کردی مگر ایسے حضرات کی تعداد آخر کتنی ہے۔ یقیناً وہی شعراء اکثریت میں ہیں جنہوں نے اول تو قصیدہ گوئی کی نہیں اور اگر کی تو محض رسماً کی، جیسے آجکل بعض شعراء محض رسماً آزاد نظم کہہ لیتے ہیں۔ پھر قصیدہ گوئی آج ہماری نظروں میں مطعون و مقہور سہی اور اب یقیناً اس صنفِ سخن کی گنجائش حتمی طور پر ختم ہوچکی ہے۔ مگر جس زمانے میں بڑے بڑے قصیدہ نگار پیدا ہوئے اس زمانے کے تقاضے ہی کچھ اور تھے کہ شاعر شاہ کے قصیدے لکھتے تھے اور سائنسدان شاہ کے شبستان کو مستور روشنیوں کی مدد سے اجالنے میں لگے رہتے تھے۔ یوں قصور نہ شاعر کا ہے نہ سائنسدان کا بلکہ اس مطلق العنان ادارے کا ہے جس نے افراد کی تخلیقی قوتوں پر اپنی حکمرانی کا جھنڈا لہرا رکھا تھا۔ آج بیشتر اہلِ قلم کا ذریعہ معاش انکی قلمکاری ہے لیکن قصیدہ گوئی کے دور میں وہ تخلیق کار اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنے کیلیے قصیدے نہ لکھتے تو اور کیا کرتے۔ پھر جو علم دوست اربابِ ثروت شعرا کی تخلیقی قوتوں کو تنو مند رکھنے کیلیے انکے وظائف مقرر کرتے تھے، انکی علم دوستی کی تعریف میں اس زمانے کے شعرا نے اگر شاعری کی تو یہ سمجھ میں نہ آسکنے والی بات نہیں ہے۔ آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ذریعہ معاش کے طور پر نمک مرچ کی دکان کھول لیتے مگر قصیدے نہ لکھتے تو بڑا اچھا کام کرتے اور صرف اسلیے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے آج کے معیار مختلف ہیں لیکن کیا اس طرح ہم سینکڑوں مسلمان شعراء کی ان نگارشات سے محروم نہ رہ جاتے جنہیں ہم اپنی تہذیب کا اثاثہ اور اپنی ثقافت کا سرمایہ قرار دیتے ہیں؟ پھر قصیدہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ناپسندیدہ صنفِ سخن سہی مگر جس دور کو ہم دورِ قصائد قرار دے سکتے ہیں اسکے چند منتخب قصائد کا غیر جانبداری سے مطالعہ کیجیئے تو معلوم ہوگا کہ انسان کی قوتِ متخیلہ یہاں کتنے عروج پر ہے۔ انسانی ذہن ان قصائد کے دوران کتنی ان دیکھی دنیاؤں کی ٹھوس صورت ہمارے سامنے لا کھڑا کرتا ہے، اور کتنی غیر مرئی چیزوں کو محسوس شکل بخشتا ہے، جیسے ہم چاہیں تو انہیں چھو لیں۔ بظاہر قصائد نگاروں کی یہ سب معجزہ نمایاں بیکار نظر آتی ہیں، لیکن اگر اس حقیقت کا ادراک حاصل ہو کہ متخیلہ میں تحریک و تلاطم پیدا کئے بغیر انسانی ارتقاء ممکن ہی نہیں تو پھر ہم نہایت آسانی سے ان شعراء کی شاعری کو اپنی تہذیبی قوت کا ایک اہم کارنامہ قرار دے سکتے ہیں۔ یہاں میں قصیدہ نگاری کا جواز نہیں پیش کر رہا ہوں بلکہ یہ گزارش کر رہا ہوں کہ جس زمانے میں قصیدہ نگاری شاعری کی ضرورت تھی تو اس زمانے میں بھی شاعروں نے قصیدہ نگاری تک میں پرواز اور کرید کے عناصر بھر دیئے تھے اور انہوں نے الفاظ کو بیچ کر بھی ان سے ان کا مثبت سحر نہیں چھینا تھا اور یہ صورتِ حال تخلیقی قوتوں کا اسراف نہیں، اثبات ہے۔

دراصل اِس زمانے میں یہ ایک فیشن سا بن چکا ہے کہ جب کسی ادبی شخصیت پر لکھو تو ادب کو بے شک قوم کی تہذیب کا مؤثر ترین ذریعہ قرار دے ڈالو۔ لیکن جب کسی سائنسی، ٹکنیکی یا اصطلاحی مسئلے پر بات کرو تو شعر و ادب کو خوب رگیدو اور اعلان کرو کہ قوم کو سائنسدانوں کی ضرورت ہے، شاعروں کی نہیں۔ قوم کو مشینیں تیار کرنے والے درکار ہیں مصرعے گھڑنے والے نہیں۔ ایسا کہتے ہوئے یہ کوئی نہیں سوچتا کہ روح کی تہذیب کرنا اور دماغ کو گداز کرنا اور دل میں وسعت پیدا کرنا اور حسن و محبت کی قدروں کو عام کرنا بھی بجائے خود ایک سائنس ہے اور جب تک کسی قوم کو اسکے شاعروں نے تہذیب و گداز نہ بخشے ہوں اس وقت تک اول تو وہ سائنس کے نت نئے انکشافات کے ناقابل رہے گی اور اگر سائنس کے نام پر اس نے کوئی کارِ نمایاں انجام دے بھی لیا تو اسکا وہی انجام ہوگا جو ہمارے زمانے میں جوہری قوت کا ہو رہا ہے کہ اس سے تعمیر سے زیادہ تخریب کا کام لیا جا رہا ہے۔ صحراؤں کو گلزار بنانے والی قوت بین البراعظمی ہائیڈروجن بم بردار مزائل تیار کرنے پر صرف ہو رہی ہے۔ یہ ذہن کے گداز کے فقدان اور تنگیِ دل و نظر کا کیا دھرا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں شاعر کو اپنا منصب ادا کرنا ہے۔ بعض شعراء ایسا کر بھی رہے ہیں کہ جس نشتر کو جراحی کیلئے ڈھالا گیا تھا اسی سے انسانوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ تعمیری قوت کو سراسر تخریبی قوت میں بدلتا دیکھ کر شعراء چکرا گئے ہیں اور بے بسی اور بے معنویت کے چنگل میں گرفتار ہیں، کیونکہ ہر باشعور انسان کو دیوانہ کر دینے والی صورتِ حال ہے۔ مگر میں جانتا ہوں کہ یہ کیفیت عارضی ہے۔ شاعر کا منصب ہی یہ ہے کہ وہ انسان کو انسان سے اور اسکی زندگی سے اور اسکی ننھی منی مسرتوں سے پیار کرنا سکھائے۔ وہ جانتا ہے کہ ہر چیز عارضی سہی مگر خود انسان اپنے تسلسل کہ وجہ سے، روزِ اول سے اب تک زندہ ہے اور ابد تک زندہ رہے گا۔ یقیناً یہ یقین اپنی انفرادیت کو دوسروں کی انفرادیتوں کا رفیق بنا کر ہی حاصل ہوتا ہے۔ مگر شعراء کیلئے یہ کوئی مشکل مرحلہ نہیں ہے وہ ہر قیامت میں سے زندگی کے ذرا ذرا سے ریزے چن کر زندگی کو پھر زندہ کردیتے ہیں یہ انکا فرض بھی ہے اور انکی مجبوری بھی۔

سائنسی علوم کو یقیناً ترقی دیجئے مگر اہلِ علم کی خدمت میں استدعا ہے کہ شعراء کو اپنا حریف نہ سمجھئے۔ شعراء سب کے رفیق ہیں، اور اگر وہ حریف ہیں تو جہالت کے، تنگ دلی کے، بد ہیئتی کے، بے انصافی اور عدل کشی کے، ظلم اور جبر کے۔ غرض کے وہ ہر اس چیز کے حریف ہیں جو زندگی کے حسن و صباحت کی حریف ہے۔ شاعروں نے سائنس کی راہ میں کبھی بند نہیں باندھا کہ سائنس تو ایک طرح سے مادیت کی شاعری ہے۔ شاعر تو سائنسدان کا رفیق ہے کہ دونوں کا اثاثہ انکی قوتِ متخیلہ ہے۔ ممکن ہے کہا جائے کہ یہ حسن و محبت کی شاعری اور یہ ہجر و وصال کے قصے سائنس کے کس کام کے، تو عرض یہ ہے کہ میں دوسروں کو مجرم کیوں ٹھہراؤں اور اپنا ہی ایک شعر کیوں نہ عرض کردوں۔


کبھی گر جرم ٹھہرا تذکرہ حسن و محبت کا

تو کس کافر سے ملک و قوم کی بھی شاعری ہوگی


یہ حسن و محبت اور ہجر و وصال کی شاعری ذہنی عیاشی نہیں ہے۔ یہ انسانی زندگی کی رعنائیوں اور دھوپ چھاؤں کی کیفیتوں کی ترجمانی ہے۔ اس شاعری سے ہم اپنے حوالے سے سب انسانوں کو سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ انسانوں کے مابین پیارے پیارے رشتوں کی آگاہی کا علم ہے۔

ع۔ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

جب شاعری کے سلسلے میں سبھی اسی طرح سوچنے لگیں تو یہ انسانی بھائی چارے کی معراج ہے۔ تو کیا انسانی بھائی چارے کی تبلیغ تخلیقی قوتوں کا اسراف ہے؟ اور کیا ہم اسی وقت ترقی یافتہ کہلائیں گے جب قوم کا ایک ایک فرد کسی نہ کسی سائنسی ایجاد میں مصروف ہوگا اور شعراء کو وطن بدر کر دیا جائے گا؟ تو کیا ہمیں چلتے پھرتے پتھر بننا منظور ہے؟ اور کیا شاعروں کی ایسی باتوں پر جھوم جانا اور کھو جانا اور پھر جذبہ و احساس کی ایک حقیقت کو پا لینا کوئی گھاٹا ہے کہ۔


پھونکا ہے کس نے گوشِ محبت میں اے خدا

افسونِ انتظار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمنا کہیں جسے

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved