اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
 

تاریخ اشاعت:۔30-11-2010

چڑیل
مصنف ----------احمد ندیم قاسمی
 
مختصر افسانہ

جی ہاں ہےتو عجیب بات مگر بعض باتیں سچی بھی ہوتیں ہیں، دن بھر وہ برساتی نالوں میں چقماقی کے جھولیاں چنتی ہے اور رات کو انہیں آپس میں بجاتی ہے، اور جس اسے جنگاریاں جھڑنے لگتی ہیں تو زور زور سے ہنستی ہے، اور پھر اس کی ہنسی شدید ہونے لگتی ہے، تو ہم پر رحمتیں برسا خوتون، تو آسمان پر ستارے گنکنے لگتے ہیں، جھیل کی سطح پر چمٹے ہوئے چاند کو لطیف جھونکے لا تعداد دنوں کی قطاروں میں تقسیم کر دیتے ہیں اور ہوائیں گھنی پریوں میم سے سمت سمٹ اور لچک لچک کر نکلتی ہوئی گنگنانے لگتی ہیں، اور یہ گنگناہٹ سنسناتے ہوئے سناتے کا روپ دھار کر پہاڑیوں اور وادیوں پر مسلط ہوجاتی ہے، اور صرف تبھی ٹوٹتی ہے جب پوپھتے گلابی کنکروں سے پٹی ہوئی ڈھیریوں پر ایک سایہ سا منڈ لانے لگتا ہے۔ اول اول جب وہ ان ڈھیریوں پر آئی تو چیت کے مہینے کی ایک رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی، آسمان پر بادلوں کی جنگ جاری تھی، اور برساقی بالے گرج رہے تھے، کسی کھوہ میں ایک گڈریا دبکا بیٹھا تھا، یہ قریب سے گزری تو چڑیل چڑیل پکارتا چیختا چلاتا کنکر اڑاتا اندھیرے میں جذب ہوگیا، دوسرے روز چرواہوں نے بہت دور سے اسے ڈھیریوں پر چقماق چنتے ہوئے دیکھا تو گڈرئیے کے واویلا میں سچائی کی رمق نظر آئی۔، گھروں کے صدر دروازوں پر تعویز لٹکائے گئے، وہقانوں کے چھیروں کے اردگرد پیر جی کا دم کیا ہوا پانی چھیڑکا جانے لگا، اور نمبر دار نے مولوی جی کو دین وسط میں بٹھا کر کہا کہ تین مرتبہ قرآن مجید پڑھ کر چھو کرو اور پیٹ بھر حلوہ۔۔۔۔ سنتا سنگھ جوار راولپنڈی کے سفادوں کا حال سن کر گھر کی چار دیواری میں بند ہوگیا تھا اور باہر آیا، اور مکان کے قفل پر سیندور چھڑک کر اندر بھاگ گیا اور لالہ چومی لال نے اڑوس پڑوس کے پنڈتوں کو فوراً جمع کیا اور ایک بھجن منڈالی قائم کرلی، ہو حق کے ورد اور رام رام کے جاپ سے گاؤں بھڑوں کے چھتے کی طرح سر سرانے لگا، اس روز مدرسہ بھی بند رہا، کیوں کہ گائنوں نے اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کو کلیجیوں میں سے چمٹائے رکھا اور اور مدرسے کے برآمدے میں بیٹھ کر چڑی کی باتیں کرتے رہے۔ مگر چند ہی دنوں کے بعد مراد نے گاؤں میں یہ خبر پھیلا دی کہ وہ چڑیل نہیں، چڑیل نہیں، مولوی جی نے پوچھا تھا، ارے بھئی تمہیں کیا معلوم کے سکندر اعظم کے زمانے میں کالی ڈھیری کی ایک چوٹی پر ایک ہندوستانی چڑیل نے ایک یونانی کی کھوپڑی توڑ کر اس کا گودا نگل لیا تھا، جب سےاس ڈھیری پر کسی نے قدم نہیں رکھا اور اکثر دیکھا گیا ہے، کہ طوفانی راتوں میں ڈھیری پر دئیے جلتے ہیں اور تالیاں بجتی ہیں اور ڈراؤنے قہقہوں کی آوازیں آتی ہیں، دادا سے پوچھ لو۔ دادا جسے قرآن مجید کی کئی آیتوں سے لے کر ابابیلوں کی چونچ اور گدھ کی آنکھوں کے مرکب سے ایک اکسیری سرمے کا نسخہ تک یاد تھا، بولا کون نہیں جانتا کوئی ماں کا لال کالی ڈھیری پر چڑھ کر تو دکھائے، کہتے ہیں کہ اکبر بادشاہ دلی سے صرف اس لئے یہاں آیا تھا کہ اس چوٹی کا راز معلوم کرے مگر مارے ڈر کےپلٹ گیا تھا۔ مراد بوالا میری بات بھی تو سنو۔ ہاں ہاں بھئی دادا نے کہا سچ مچ مراد کی بات بھی تو سنو، ہمارے تمہارے جیسا نادان تو نہیں کہ سنی سنائی ہانک دے کا پڑھا لکھا ہے انگریز کو اردو پڑھاتا رہا ہے فوج میں۔۔۔۔کہو بھئی مراد اور مراد بولا وہ چڑیل نہیں بلکہ بلا کی خوبصورت عورت ہے اتنے لمبے بال اور گھنے بال ہیں اس کے معلوم ہوتا ہے اس کے بدن پر گاڑھے دھوئیں کا ایک لہراتا ہوا سا خول چڑھا ہوا ہے، اور رنگ تو اس غضب کا ہے کہ چاندی کی کرنوں کی ایسی کی تیسی، آنکھیں بادامی ہیں پتھر کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھے تو چٹخا دے، پلکیں اتنی لمبی اور ایسی شان سے مڑی ہوئی جیسے تیر کمان ۔۔۔۔۔اور دادا۔۔۔۔کہتے جاؤ۔۔۔۔کہتے جاؤ۔۔۔دادا مسکرا رہا تھا، مولوی جی تسبیح پر سینکڑا خمت کرا لیا تھا، اور مراد بولا۔۔۔۔دادا۔۔۔۔اس کی دونوں ابروؤں کے درمیان ایک نیلی سی بندیا بھی۔ ارے دادا جیسے سنبھل کر بیٹھ گیا اور مولوی جی نے تسبیح کو مٹھی میں مروڑ کر ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہا۔ میں نہیں کہتا تھا کہ وہ کالی ڈھیری کی چڑیل ہے، جس نے یونانی سپاہی کی کھوپڑی کا گودا نکال تھا، یہ ماتھے کی بندیا یا ہندو عورت ہی کا نشان تو ہے، خدا لگتی کہوں گا مراد۔۔۔۔دادا بولا۔۔۔مولوی جی کی بات جچ رہی ہے، نفل پڑھو شکرانے کے کہ بچ کرآ ئے ہو۔۔۔۔نہیں وہ چڑیل نہیں، مراد کی آواز میں اعتماد تھا، اگر وہ چڑیلیں ایسی ہیں تو میں ابھی کالی ڈھیری پر جانے کیلئے تیار ہوں۔۔۔ مگر دادا۔۔۔۔میرا دل کہتا کہ وہ چڑیل نہیں۔ تو پھر کون ہے آخر؟ دادا نے لوگوں کی آنکھوں میں دبکے ہوئے سوالوں کو زبان سے ادا کردیا، ہوگئی کوئی مراد بولا مگر میں سچ کہتا ہو کہ ایران میں بھی دیکھا اور عراق میں اور مصر میں بھی کہیں کشمیر سیب کی سی رنگت تھی تو کہیں چنبیلی کی سی لیکن گندم کا ساندی کنارے ریت کا سا، سنہری سنہری، یہ ہمارے ہندوستان میں ہی ملتا ہے۔ ہندوستان میں اور بھی تو بہت کچھ ہے، نمبر دار کا بیٹا رحیم جو لاہور کے ایک کالج میں پڑھتا تھا، اور ایسٹر کی چھٹیاں گزرانے گاؤں میں آیا تھا، بھاری بھاری کتابوں کی اوٹ سے بولا، یہاں بنگلا کے گلے سڑے ڈھانچے بھی ہیں اور بہادر کے یتیم اور سارے ہندوستان کی وہ بیوائیں بھی ہیں جب کے آبرو کے راکھوالوں پر مشرق و مغرب کے میدانوں میں گدھوں، مچھلیوں اور کیڑو نے ضیافتیں اڑائیں اور جن کے لہو کی پھوانے فاشزم کا فانسو بھجایا اور جن کے خون کی حددت نے کئی اور کافور شمیعیں روشن کیں اور پھر ہندوستان میں تمہارا امر تسر روالپنڈی اور ملتان بھی تو ہیں، جہاں صرف اس لئے عورتوں کی آبرو ریزی کی جار ہی ہے کہ ان کے ماتھے پر نیلی سے بندیاں ہے اور جہاں بچوں کو۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں بھئی دادا ابوکے بچوں کو نہیں بچوں کو ابھی تک کیس نےکچھ نہیں کہا۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved