اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
 

 

 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
تاریخ اشاعت:۔07-09-2010

خوفناک عمارت

باب سوم

تحریر۔۔۔------------ ابن صفی

دوسرے دن کیپٹن فیاض نے عمران کو اپنے گھر میں مدعو کیا۔ حالانکہ کئی بار کے تجربات نے یہ بات ثابت کر دی تھی کہ عمران وہ نہیں ہے جو ظاہر کرتا ہے نہ وہ احمق ہے اور نہ خبطی! لیکن پھر بھی فیاض نے اسے موڈ میں لانے کے لئے جج صاحب کی کانی لڑکی کو بھی مدعو کر لیا تھا۔ حالانکہ وہ عمران کی اس افتاد طبع کو بھی مذاق ہی سمجھا تھا لیکن پھر بھی اس نے سوچا کہ تھوڑی سی تفریح ہی رہے گی۔ فیاض کی بیوی بھی عمران سے اچھی طرح واقف تھی اور جب فیاض نے اسے اس کے ٬عشق٬ کی داستان سنائی تو ہنستے ہنستے اس کا برا حال ہو گیا۔
فیاض اس وقت اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھا عمران کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کی بیوی اور جج صاحب کی یک چشم لڑکی رابعہ بھی موجود تھیں۔
“ابھی تک نہیں آئے، عمران صاحب۔“ فیاض کی بیوی نے کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“کیا وقت ہے۔؟ فیاض نے پوچھا۔
“ساڑھے سات۔“
“بس دو منٹ بعد وہ اسی کمرے میں ہوگا۔“ فیاض مسکرا کر بولا۔
“کیوں۔ یہ کیسے؟“
“بس اس کی ہر بات عجیب ہوتی ہے۔ وہ اسی قسم کے اوقات مقرر کرتا ہے۔ اس نے سات بج کر بتس منٹ پر آنے کا وعدہ کیا تھا۔ لہٰذا میرا خیال ہے کہ وہ اس وقت ہمارے بنگلے کے قریب ہی کھڑا اپنی گھڑی دیکھ رہا ہوگا۔“
“عجیب آدمی معلوم ہوتے ہیں۔“ رابعہ نے کہا۔
“عجیب ترین کہئے! انگلینڈ سے سائنس میں ڈاکٹریٹ لےکر آیا ہے۔ لیکن اس کی حرکات۔۔۔ وہ ابھی دیکھ لیں گی۔ اس صدی کا سب سے عجیب آدمی۔۔۔لیجئے شائد وہی ہے۔“
دروازے پر دستک ہوئی۔
فیاض اٹھ کر آگے بڑھا۔۔۔دوسرے لمحے عمران ڈرائنگ روم میں داخل ہو رہا تھا۔
عورتوں کو دیکھ کر وہ قدرے جھکا اور پھر فیاض سے مصافحہ کرنے لگا۔
“غالبا مجھے سب سے پہلے یہ کہنا چاہیئے کہ آج موسم بڑا خوشگوار رہا۔“ عمران بیٹھتا ہوا بولا۔
فیاض کی بیوی ہنسنے لگی اور رابعہ نے جلدی سے تاریک شیشوں والی عینک لگا لی۔
“آپ سے ملئے، آپ مس رابعہ سلیم ہیں۔ ہمارے پڑوسی جج صاحب کی صاحبزادی اور آپ مسٹر علی عمران میرے محکمہ کے ڈائریکٹر جنرل رحمان صاحب کے صاحبزادے۔“
“بڑی خوشی ہوئی۔“ عمران مسکرا کر بولا پھر فیاض سے کہنے لگا۔“ تم ہمیشہ گفتگو میں غیر ضروری الفاظ ٹھونستے رہتے ہو۔ جو بہت گراں گذرتے ہیں۔۔۔رحمان صاحب کے صاحبزادے! دونوں صاحبوں کا ٹکراؤ برا لگتا ہے۔ اس کی بجائے رحمان صاحب کے زادے۔۔۔یا صرف رحمان زادے کہہ سکتے ہیں۔“
“میں لٹریری آدمی نہیں ہوں۔“ فیاض مسکرا کر بولا۔
دونوں خواتین بھی مسکرارہی تھیں۔ پھر رابعہ نے جھک کر فیاض کی بیوی سے کچھ کہا اور وہ دونوں اٹھ کر ڈرائنگ روم سے چلی گئیں۔
“بہت برا ہوا۔“ عمران برا سا منہ بنا کر بولا۔
“کیا؟ شائد وہ باورچی خانے کی طرف گئی ہیں۔“ فیاض نے کہا۔ “باورچی کی مدد کے لئے آج کوئی نہیں ہے۔“
“تو کیا تم نے اسے بھی مدعو کیا ہے۔“
“ہاں بھئی کیوں نہ کرتا میں نے سوچا کہ اس بہانے سے تمہاری ملاقات بھی ہو جائے۔“
“مگر مجھے بڑی کوفت ہو رہی ہے۔“ عمران نے کہا۔
“کیوں؟“
“آخر اس نے دھوپ کا چشمہ کیوں لگایا ہے۔“
“اپنا نقص چھپانے کے لئے۔“
“سنو میاں! دو آنکھوں والی مجھے بہتیری مل جائیں گی۔ یہاں تو معاملہ صرف اس آنکھ کا ہے۔ ہائے کیا چیز ہے۔۔۔ کسی طرح اس کا چشمہ اترواؤ۔ ورنہ میں کھانا کھائے بغیر واپس چلا جاؤں گا۔“
“مت بکو۔“
“میں چلا۔“عمران اٹھتا ہوا بولا۔
“عجیب آدمی ہو۔۔۔بیٹھو۔“ فیاض نے اسے دوبارہ بٹھا دیا۔
“چشمہ اترواؤ، میں اس کا قائل نہیں کہ محبوب سامنے ہو اور اچھی طرح دیدار بھی نصیب نہ ہو۔“
“ذرا آہستہ بولو۔“ فیاض نے کہا۔
“میں تو ابھی اس سے کہوں گا۔“
“کیا کہو گے۔“ فیاض بوکھلا کر بولا۔
“یہی جو تم سے کہہ رہا ہوں۔“
“یار خدا کے لئے۔۔۔“
“کیا برائی ہے۔۔۔ اس میں۔“
“میں نے سخت غلطی کی۔“ فیاض بڑبڑایا۔
“واہ۔۔۔غلطی تم کرو اور بھگتوں میں۔ نہیں فیاض صاحب۔ میں اس سے کہوں گا براہ کرم اپنا چشمہ اتار دیجئے۔ مجھے آپ سے مرمت ہو گئی ہے۔۔۔مرمت۔۔مرمت۔۔۔شائد میں نے غلط لفظ استعمال کیا ہے۔ بولو بھئی۔۔۔کیا ہونا چاہئے۔“
“محبت۔۔۔“ فیاض برا سا منہ بنا کر بولا۔
“جیئو! محبت ہو گئی ہے۔۔۔تو وہ اس پر کیا کہے گی۔“
“چانٹا مار دے گی۔“ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
“فکر نہ کرو میں چانٹے کو چانٹے پر روک دینے کے آرٹ سے بخوبی واقف ہوں طریقہ وہی ہوتا ہے جو تلوار پر تلوار روکنے کا ہوا کرتا تھا۔“
“یار خدا کے لئے کوئی حماقت نہ کر بیٹھنا۔“
“عقل مندی کی بات کرنا ایک احمق کی کھلی توہین ہے اب بلاؤ نا۔۔دل کی جو حالت ہے بیان کر بھی سکتا ہوں اور نہیں بھی کر سکتا۔۔۔وہ کیا ہوتا ہے جدائی میں۔۔۔بولو نا یار کون سا لفظ ہے۔“
“میں نہیں جانتا۔“ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
“خیر ہوتا ہوگا کچھ۔۔۔ڈکشنری میں دیکھ لوں گا۔۔۔ ویسے میرا دل دھڑک رہا ہے ہاتھ کانپ رہے ہیں لیکن ہم دونوں کے درمیان دھوپ کا چشمہ حائل ہے۔ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا۔ “
چند لمحے خاموشی رہی۔ عمران میز پر رکھے گلدان کو اس طرح گھور رہا تھا جیسے اس نے اسے کوئی سخت بات کہہ دی ہو۔
“آج کچھ نئی باتیں معلوم ہوئی ہیں۔“ فیاض نے کہا۔
“ضرور معلوم ہوئی ہوں گی۔“ عمران احمقوں کی طرح سر ہلا کر بولا۔
“مگر نہیں! پہلے میں تمہیں ان زخموں کے متعلق بتاؤں۔ تمہارا خیال درست نکلا۔ زخموں کی گہرائیاں بالکل برابر ہیں۔“
“کیا تم خواب دیکھ رہے ہو۔“ عمران نے کہا۔
“کیوں؟“
“کن زخموں کی بات کر رہے ہو؟“
“دیکھو عمران میں احمق نہیں ہوں۔“
“پتہ نہیں جب تک تین گواہ نہ پیش کرو یقین نہیں آسکتا۔“
“کیا تم کل والی لاش بھول گئے۔“
“لاش۔ ار۔۔۔ہاں یاد آیا۔ اور وہ تین زخم برابر نکلے۔۔۔ہا۔۔۔“
“اب کیا کہتے ہو۔“ فیاض نے پوچھا۔
“سنگ و آہن بے نیاز غم نہیں۔۔۔ دیکھ ہر دیوار سے سر نہ مار۔“ عمران نے گنگنا کر تان ماری اور میز پر طبلہ بجانے لگا۔
“تم سنجیدہ نہیں ہوسکتے۔“ فیاض اکتا کر بے دلی سے بولا۔
“اس کا چشمہ اتروا دینے کا وعدہ کرو تو میں سنجیدگی سے گفتگو کرنے پر تیار ہوں۔“
“کوشش کروں گا بابا۔ میں نے اسے ناحق مدعو کیا۔“
“دوسری بات یہ کہ کھانے میں کتنی دیر ہے۔“
“شائد آدھا گھنٹہ۔۔۔وہ ایک نوکر بیمار ہو گیا ہے۔“
“خیر۔۔۔ہاں جج صاحب سے کیا باتیں ہوئیں؟“
“وہی بتانے جا رہا تھا! کنجی اس کے پاس موجود ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ عمارت انہیں اپنے خاندانی ترکے میں نہیں ملی تھی۔“
“پھر۔“ عمران توجہ اور دلچسپی سے سن رہا تھا۔
“وہ دراصل ان کے ایک دوست کی ملکیت تھی اور اس دوست نے ہی اسے خریدا تھا۔ ان کی دوستی بہت پرانی تھی لیکن فکر معاش نے انہیں ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔ آج سے پانچ سال قبل اچانک جج صاحب کو اس کا ایک خط ملا جو اسی عمارت سے لکھا گیا تھا اس نے لکھا تھا کہ اس کی حالت بہت خراب ہے اور شائد وہ زندہ نہ رہ سکے۔ لہٰذا وہ مرنے سے پہلے ان سے بہت اہم بات کرنا چاہتا ہے۔ تقریبا پندرہ سال بعد جج صاحب کو اس دوست کے متعلق کچھ معلوم ہوا تھا۔ ان کا وہاں پہنچنا ضروری تھا بہر حال وہ وقت پر نہ پہنچ سکے ان کے دوست کا انتقال ہو چکا تھا! معلوم ہوا کہ وہاں تنہا ہی رہتا تھا۔۔۔ہاں تو جج صاحب کو بعد میں یہ معلوم ہوا کہ مرنے والے نے وہ عمارت قانونی طور پر جج صاحب کی طرف منتقل کر دی تھی۔ لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان سے کیا کہنا چاہتا تھا۔۔۔“
عمران تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔
“ہاں! ۔۔۔اور اس کمرے کے پلاسٹر کے متعلق پوچھا تھا۔“
“جج صاحب نے اس سے لاعلمی ظاہر کی۔ البتہ انہوں نے یہ بتایا کہ ان کے دوست کی موت اسی کمرے میں واقعی ہوئی تھی۔“
“قتل۔“ عمران نے پوچھا۔
“نہیں قدرتی موت، گاؤں والوں کے بیان کے مطابق وہ عرصہ سے بیمار تھا۔“
“اس نے اس عمارت کو کس سے خریدا تھا۔“ عمران نے پوچھا۔
“آخر اس سے کیا بحث۔ تم عمارت کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو۔“
“محبوبہ یک چشم کے والد بزرگوار سے یہ بھی پوچھو۔“
“ذرا آہستہ۔ عجیب آدمی ہو اگر اس نے سن لیا تو۔“
“سننے دو!۔۔! ابھی میں اس سے اپنے دل کی حالت بیان کروں گا۔“
“یار عمران خدا کے لئے۔۔۔کیسے آدمی ہو تم۔“
“فضول باتیں مت کرو۔“ عمران بولا۔ “ذرا جج صاحب سے وہ کنجی مانگ لاؤ۔“
“اوہ کیا ابھی۔۔۔!“
“ابھی اور اسی وقت!“
فیاض اٹھ کر چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی وہ دونوں خواتین ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں۔
“کہاں گئے۔“ فیاض کی بیوی نے پوچھا۔
“شراب پینے۔“ عمران نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
“کیا؟“ فیاض کی بیوی منہ پھاڑ کر بولی۔ پھر ہنسنے لگی۔
“کھانا کھانے سے پہلے ہمیشہ تھوڑی سی پیتے ہیں۔“ عمران نے کہا۔
“آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔وہ ایک ٹانک تھا۔“
“ٹانک کی خالی بوتل میں شراب رکھنا مشکل نہیں۔“
“لڑانا چاہتے ہیں آپ۔“ فیاض کی بیوی ہنس پڑی۔
“کیا آپ کی آنکھوں میں کچھ تکلیف ہے۔“ عمران نے رابعہ کو مخاطب کیا۔
“جی۔۔۔ جی۔۔۔ جی نہیں۔“ رابعہ نروس نظر آنے لگی۔
“کچھ نہیں۔“ فیاض کی بیوی جلدی سے بولی۔“ عادت ہے تیز روشنی برداشت نہیں ہوتی اسی لئے یہ چشمہ۔۔۔“
“اوہ اچھا۔“ عمران بڑبڑایا۔ “میں ابھی کیا سوچ رہا تھا۔“
“آپ غالبا یہ سوچ رہے تھے کہ فیاض کی بیوی بڑی پھوہڑ ہے۔ ابھی تک کھانا بھی تیار نہیں ہو سکا۔“
“نہیں یہ بات نہیں ہے۔ میرے ساتھ بہت بڑی مصیبت یہ ہے کہ میں بڑی جلدی بھول جاتا ہوں۔ سوچتے سوچتے بھول جاتا ہوں کہ کیا سوچ رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ میں ابھی یہ بھول جاؤں کہ آپ کون ہیں اور میں کہاں ہوں؟ میرے گھر والے مجھے ہر وقت ٹوکتے رہتے ہیں۔ “
“مجھے معلوم ہے۔“ فیاض کی بیوی مسکرائی۔
“مطلب یہ کہ اگر مجھ سے کوئی حماقت سرزد ہو تو بلا تکلف ٹوک دیجئے۔“
ابھی یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ فیاض واپس آگیا۔
“کھانے میں کتنی دیر ہے۔“ اس نے اپنی بیوی سے پوچھا۔
“بس ذرا سی۔“
فیاض نے کنجی کا کوئی تذکرہ نہیں کیا اور عمران کے انداز سے بھی ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ بھول ہی گیا ہو کہ اس نے فیاض کو کہاں بھیجا ہے۔
تھوڑی دیر بعد کھانا آگیا۔
کھانے کے دوران میں عمران کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ سب نے دیکھا لیکن کسی نے پوھچا نہیں خود فیاض جو عمران کی رگ رگ سے واقف ہونے کا دعوٰی رکھتا تھا، کچھ نہ سمجھ سکا۔ فیاض کی بیوی اور رابعہ تو بار بار کن انکھیوں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ آنسو کسی طرح رکنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔ خود عمران کے انداز سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسے بھی ان آنسوؤں کا علم نہ ہو۔ آخر فیاض کی بیوی سے ضبط نہ ہو سکا اور وہ پوچھ بیٹھی۔
“کیا کسی چیز میں مرچیں زیادہ ہیں؟“
“جی نہیں۔۔۔ نہیں تو۔“
“تو پھر یہ آنسو کیوں بہہ رہے ہیں۔“
“آنسو۔۔۔کہاں۔“ عمران اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔“ لل۔۔۔ لاحول ولا قوۃ۔ شائد وہی بات ہے۔۔۔ مجھے قطعی احسا س نہیں ہوا۔“
“کیا بات؟“ فیاض نے پوچھا۔
“دراصل مرغ مسلم دیکھ کر مجھے اپنے ایک عزیز کی موت یاد آگئی۔“
“کیا؟ مرغ مسلم دیکھ کر۔“ فیاض کی بیوی حیرت سے بولی۔
“جی ہاں۔۔۔“
“بھلا مرغ مسلم دیکھ کر کیوں؟“
“دراصل ذہن میں دوزخ کا تصور تھا۔ مرغ مسلم کو دیکھ کر آدمی مسلم کا خیال آگیا۔ میرے ان عزیز کا نام اسلم ہے مسلم پر اسلم آگیا۔۔۔پھر ان کی موت کا خیال آیا۔ پھ رسوچا کہ اگر وہ دوزخ میں پھینکے گئے تو اسلم مسلم۔۔۔ معاذ اللہ۔۔۔“
“عجیب آدمی ہو۔“ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
جج صاحب کی بیٹی بے تحاشہ ہنس رہی تھی۔
“کب انتقال ہوا ان کا۔“ فیاض کی بیوی نے پوچھا۔
“ابھی تو نہیں ہوا۔“ عمران نے سادگی سے کہا اور کھانے میں مشغول ہو گیا۔
“یار مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم سچ مچ پاگل نہ ہو جاؤ۔“
“نہیں جب تک کوکا کولا بازار میں موجود ہے پاگل نہیں ہو سکتا۔“
“کیوں؟“ فیاض کی بیوی نے پوچھا۔
“پتہ نہیں۔۔۔ بہرحال یہی محسوس کرتا ہوں۔“
کھانا ختم ہوجانے کے بعد بھی شائد جج صاحب کی لڑکی وہاں بیٹھنا چاہتی تھی۔ لیکن فیاض کی بیوی اسے کسی بہانے سے اٹھا کر لے گئی شائد فیاض نے اسے کوئی اشارہ کر دیا تھا۔ ان کے جاتے ہی فیاض نے عمران کو کنجی پکڑا دی اور عمران تھوڑی دیر تک اس کا جائزہ لیتے رہنے کے بعد بولا۔
“ابھی حال ہی میں اس کی ایک نقل تیار کی گئی ہے۔ اس کے سوراخ کے اندر موم کے ذرات ہیں۔ موم کا سانچہ۔۔۔ سمجھتے ہو نا!۔“

جاری ہے

 
 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team