اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
 

 

 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
تاریخ اشاعت:۔07-09-2010

خوفناک عمارت

باب دوم  

تحریر۔۔۔------------- ابن صفی

کیپٹن فیاض کی موٹر سائیکل فراٹے بھر رہی تھی اور عمران کیرئیر پر بیٹھا بڑبڑاتا چلا جا رہا تھا۔
“شلوار کا لٹھا۔ بوسکی کی قمیض۔۔۔شلوار کا بوسکا۔۔۔لٹھی۔۔۔لٹھی۔۔۔کیا تھا لاحول ولا قوۃ بھول گیا رکو۔ یار۔۔۔رکو۔۔۔شاید۔۔۔“
فیاض نے موٹر سائیکل روک دی۔
“بھول گیا۔“ عمران بولا۔
“کیا بھول گئے۔“
“کچھ غلطی ہو گئی۔“
“کیا غلطی ہوگئی۔“ فیاض جھنجھلا کر بولا۔“ یار کم از کم مجھے تو الو نہ بناؤ۔“
“شاید میں غلط بیٹھا ہوں۔“ عمران کیرئیر سے اترتا ہوا بولا۔
“جلدی ہے یار۔“ فیاض نے گردن جھٹک کر کہا۔
عمران اس کی پیٹھ سے پیٹھ ملائے ہوئے دوسری طرف منہ کرکے بیٹھ گیا۔
“یہ کیا؟“ فیاض نے حیرت سے کہا۔۔۔
“بس چلو ٹھیک ہے۔“
“خدا کی قسم تنگ کر ڈالتے ہو۔“ فیاض اکتا کر بولا۔
“کون سی مصیبت آگئی!“ عمران بھی جھنجھلانے لگا۔
“مجھے بھی تماشا بناؤ گے۔ سیدھے بیٹھو نا!“
“تو کیا سر کے بل بیٹھا ہوا ہوں!“
“مان جاؤ پیارے۔“ فیاض خوشامدانہ لہجے میں بولا۔“ لوگ ہنسیں گے ہم پر۔“
“یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔“
“منہ کے بل گر پڑو گے سڑک پر۔“
“اگر تقدیر میں یہی ہے! تو بندہ بے بس و ناچار۔“ عمران نے درویشانہ انداز میں کہا۔
“خدا سمجھے تم سے۔“ فیاض نے دانت پیس کر موٹر سائیکل سٹارٹ کردی اس کا منہ پچھم کی طرف تھا اور عمران کا پورب کی طرف اور عمران اس طرح آگے کی طرف جھکا ہوا تھا جیسے وہ خود ہی موٹر سائیکل ڈرائیور کر رہا ہو! راہ گیر انہیں دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے۔
“دیکھا یاد آگیا نا!“ عمران چہک کر بولا “شلوار کا لٹھا اور قمیض کی بوسکی۔۔۔میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ کوئی غلطی ہو گئی ہے۔“
“عمران تم مجھے احمق کیوں سمجھتے ہو؟“ فیاض نے جھنجھلا کر کہا۔“ کم از کم میرے سامنے تو اس خبطی پن سے باز آجایا کرو۔“
“تم خود ہوگے خبطی!“ عمران برا مان کر بولا۔
“آخر اس ڈھونگ سے کیا فائدہ؟“
“ڈھونگ؟ ارے کمال کر دیا۔ اف فوہ! اس لفظ ڈھونگ پر مجھے وہ بات یاد آئی ہے جسے اب سے ایک سال پہلے یاد آنا چاہئے تھا۔“
فیاض کچھ نہ بولا۔ موٹر سائیکل ہوا سے باتیں کرتی رہی۔
“ہائیں!“ عمران تھوڑی دیر بعد بولا۔ “یہ موٹر سائیکل پیچھے کی طرف کیوں بھاگ رہی ہے۔“
“ارے اس کا ہینڈل کیا ہوا۔۔۔“پھر اس نے بے تحاشہ چیخنا شروع کر دیا۔“ ہٹو۔۔۔بچو۔۔۔میں پیچھے کی طرف نہیں دیکھ سکتا۔“
فیاض نے موٹر سائیکل روک دی اور جھینپے ہوئے انداز میں راہ گیروں کو دیکھنے لگا۔
“شکر ہے خدا کا کہ خود بخود رک گئی!“ عمران اترتا ہوا بڑبڑایا۔۔۔پھر جلدی سے بولا۔“ لاحول ولا قوۃ اس کا ہینڈل پیچھے ہے! اب موٹر سائیکلیں بھی الٹی بننے لگیں۔“
“کیا مطلب ہے تمہارا؟ کیوں تنگ کر رہے ہو؟“ فیاض نے بے بسی سے کہا۔
“تنگ تم کر رہے ہو یا میں؟۔۔۔الٹی موٹر سائیکل پر لئے پھرتے ہو! اگر کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے تو؟“
“چلو بیٹھو۔“ فیاض اسے کھینچتا ہوا بولا۔
موٹر سائیکل پھر چل پڑی۔
“اب تو ٹھیک چل رہی ہے۔“ عمران بڑ بڑایا۔
موٹر سائیکل شہر سے نکل کر ویرانے کی طرف جا رہی تھی اور عمران نے ابھی تک فیاض سے یہ بھی پوچھنے کی زحمت گواراہ نہیں کی تھی کہ وہ اسے کہاں لے جا رہا ہے۔
“آج مجھے پھر تمہاری مدد کی ضرورت محسوس ہوئی ہے!“ فیاض بولا۔
“لیکن آج کل میں بالکل مفلس ہوں۔“ عمران نے کہا۔
“اچھا! تو کیا میں تم سے ادھار مانگنے جا رہا تھا؟“
“پتہ نہیں۔ میں یہی سمجھ رہا تھا! ارے باپ رے پھر بھول گیا۔۔۔۔لٹھ مارکا۔۔۔پائجامہ۔۔۔۔اور قمیض۔۔۔لاحول ولا قوۃ۔۔۔بوسکا۔۔۔“
“پلیز شٹ اپ۔۔۔عمران۔۔۔یو فول!“ فیاض جھنجھلا اٹھا۔
“عمران۔۔۔“کیپٹن فیاض نے ٹھنڈی سانس لے کر اسے مخاطب کیا۔
“اوں۔۔۔ہا۔“
“تم آخر دوسروں کو بیوقوف کیوں سمجھتے ہو۔“
“کیونکہ۔۔۔ہا۔۔۔ارے باپ یہ جھٹکے۔۔۔یار ذرا چکنی زمین پر چلاؤ۔“
“میں کہتا ہوں کہ اب یہ ساری حماقتیں ختم کرکے کوئی ڈھنگ کا کام کرو۔“
“ڈھنگ۔۔۔لو یار۔۔۔اس ڈھنگ پر بھی کوئی بات یاد آنے کی کوشش کر رہی ہے۔“
“جہنم میں جاؤ۔“ فیاض جھلا کر بولا۔
“اچھا۔“ عمران نے بڑی سعادت مندی سے گردن ہلائی۔
موٹر سائیکل ایک کافی طویل و عریض عمارت کے سامنے رک گئی! جس کے پھاٹک پر تین چار باوردی کانسٹیبل نظر آرہے تھے۔
“اب اترو بھی۔“ فیاض نے کہا۔
“میں سمجھا شائد اب تم مجھے ہینڈل پر بٹھاؤ گے۔“ عمران اترتا ہوا بولا۔
وہ اس وقت ایک دیہی علاقہ میں کھڑے ہوئے تھے جو شہر سے زیادہ دور نہ تھا یہاں بس یہی ایک عمارت اتنی بڑی تھی ورنہ یہ بستی معمولی قسم کے کچے پکے مکانوں پر مشتمل تھی۔ اس عمارت کی بناوٹ طرز قدیم سے تعلق رکھتی تھی! چاروں طرف سرخ رنگ کی لکھوری اینٹوں کی کافی بلند دیواریں تھیں اور سامنے ایک بہت بڑا پھاٹک تھا جو غالبا صدر دروازے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہوگا۔
کیپٹن فیاض عمران کا ہاتھ پکڑے ہوئے عمارت میں داخل ہو گیا۔۔۔اب بھی عمران نے اس سے یہ نہ پوچھا کہ وہ اسے کہاں اور کس مقصد کے تحت لایا ہے۔
دونوں ایک طویل دالان سے گذرتے ہوئے ایک کمرے میں آئے اچانک عمران نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لئے اور منہ پھیر کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے ایک لاش دیکھ لی تھی جو فرش پر اوندھی پڑی تھی اور اس کے گرد خون پھیلا ہوا تھا۔
“انا للہ و انا الیہ راجعون۔“ وہ کپکپاتی آواز میں بڑ بڑا رہا تھا۔
“خدا اس کے متعلقین کو جوار رحمت میں جگہ دے اور اسے صبر کی توفیق عطا فرمائے۔“
“میں تمہیں دعائے خیر کرنے کے لئے نہیں لایا۔“ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
“تجہیز و تکفین کے لئے چندہ وہاں بھی مانگ سکتے تھے آخر اتنی دور کیوں گھسیٹ لائے۔“
“یار عمران خدا کے لئے بور نہ کرو۔ میں تمہیں اپنا ایک بہترین دوست سمجھتا ہوں۔“ فیاض نے کہا۔
“میں بھی یہی سمجھتا ہوں۔ مگر پیارے پانچ روپے سے زیادہ نہ دے سکوں گا۔ ابھی مجھے۔۔ لٹھی کا بوسکا خریدنا ہے!۔۔۔۔ کیا لٹھی۔۔۔لو یار پھر بھول گیا! کیا مصیبت ہے۔“
فیاض چند لمحے کھڑا اسے گھورتا رہا پھر بولا۔
“یہ عمارت پچھلے پانچ برسوں سے بند رہی ہے۔ کیا ایسی حالت میں یہاں ایک لاش کی موجودگی حیرت انگیز نہیں ہے؟“
“بالکل نہیں۔“ عمران سر ہلا کر بولا۔“ اگر یہ لاش کسی امرود کے درخت پر پائی جاتی تو میں اسے عجوبہ تسلیم کر لیتا۔“
“یار تھوڑی دیر کے لئے سنجیدہ ہو جاؤ۔“
“میں شروع ہی سے رنجیدہ ہوں۔“ عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
“رنجیدہ نہیں سنجیدہ۔“ فیاض پھر جھنجھلا گیا۔
عمران خاموشی سے لاش کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔ “تین زخم۔“
فیاض اسے موڈ میں آتے دیکھ کر کچھ مسرور سا نظر آنے لگا۔
“پہلے پوری بات سن لو۔“ فیاض نے اسے مخاطب کیا۔
“ٹھہرو۔“ عمران جھکتا ہوا بولا۔ وہ تھوڑی دیر زخموں کو غور سے دیکھتا رہا پھر سر اٹھا کر بولا۔“ پوری بات سنانے سے پہلے یہ بتاؤ کہ اس لاش کے متعلق تم کیا بتا سکتے ہو۔“
“آج بارہ بجے دن کو یہ دیکھی گئی۔“ فیاض نے کہا۔
“اونہہ۔ میں زیادہ عقل مندانہ جواب نہیں چاہتا۔“ عمران ناک سکوڑ کر بولا۔
“میں یہ جانتا ہوں کہ کسی نے اس پر تین وار کئے ہیں۔“
“اور کچھ!“ عمران اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
“اور کیا؟“ فیاض بولا۔
“مگر۔۔۔شیخ چلی دوئم۔۔۔یعنی علی عمران ایم ایس سی۔ پی۔ ایچ۔ ڈی کا خیال کچھ اور ہے۔“
“کیا؟“
“سن کر مجھے الو سہی احمق بٹا دو سمجھنے لگو گے۔“
“ارے یار کچھ بتاؤ بھی سہی۔“
“اچھا سنو! قاتل نے پہلا وار کیا!۔۔۔پھر پہلے زخم سے پانچ پانچ انچ کا فاصلہ ماپ کر دوسرا اور تیسرا وار کیا اور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ زخم بالکل سیدھ میں رہیں۔ نہ ایک سوت ادھر نہ ایک سوت ادھر۔“
“کیا بکتے ہو!“ فیاض بڑبڑایا۔
“ناپ کر دیکھ لو میری جان۔ اگر غلط نکلے تو میرا قلم سر کر دینا۔۔۔آن۔۔۔شائد میں غلط بول گیا۔۔۔۔میرے قلم پہ سر رکھ دینا۔۔۔“عمران نے کہا اورادھر ادھر دیکھنے لگا اس نے ایک طرف پڑا ہوا ایک تنکا اٹھایا اور پھر جھک کر زخمون کے درمیانی فاصلے ناپنے لگا۔ فیاض اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
“لو۔“ عمران اسے تنکا پکڑاتے ہوئے بولا۔“ اگر یہ تنکا پانچ انچ کا نہ نکلے تو کسی کی ڈاڑھی تلاش کرنا۔“
“مگر اس کا مطلب۔“ فیاض کچھ سوچتا ہوا بولا۔
“اس کا مطلب یہ کہ قاتل و مقتول دراصل عاشق و معشوق تھے۔“
“عمران پیارے ذرا سنجیدگی سے۔“
“یہ تنکا بتاتا ہے کہ یہی بات ہے۔“ عمران نے کہا۔ “اور اردو کے پرانے شعراء کا بھی یہی خیال ہے۔ کسی کا بھی دیوان اٹھا کر دیکھ لو۔ دو چار شعر اس قسم کے ضرور مل جائیں گے جن سے میرے خیال کی تائید ہو جائے گی۔ چلو ایک شعر سن ہی لو۔
موچ آئے نہ کلائی میں کہیں سخت جاں ہم بھی بہت پیارے"
“مت بکواس کرو۔ اگر میری مدد نہیں کرنا چاہتے تو صاف صاف کہہ دو۔“ فیاض بگڑ کر بولا۔
“فاصلہ تم نے ناپ لیا۔ اب تم ہی بتاؤ کہ کیا بات ہو سکتی ہے۔“ عمران نے کہا۔
فیاض کچھ نہ بولا۔
“ذرا سوچو تو۔“ عمران پھر بولا۔ “ایک عاشق ہی شاعری کے مطابق اپنے محبوب کو اس بات کی اجازت دے سکتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے اسے قتل کرے۔ قیمہ بنا کر رکھ دے یا ناپ ناپ کر سلیقے سے زخم لگائے یہ زخم بدحواسی کا نتیجہ بھی نہیں۔ لاش کی حالت بھی یہ نہیں بتاتی کہ مرے سے پہلے مقتول کو کسی سے جدوجہد کرنی پڑی ہو۔ بس ایسا معلوم ہوتا ہےجیسے چپ چاپ لیٹ کر اس نے کہا جو مزاج یار میں آئے۔۔۔“
“پرانی شاعری اور حقیقت میں کیا لگاؤ ہے؟“ فیاض نے پوچھا۔
“پتہ نہیں۔“ عمران پرخیال انداز میں سر ہلا کر بولا۔ “ویسے اب تم پوری غزل سنا سکتے ہو۔ مقطع میں عرض کر دوں گا۔“
فیاض تھوڑی خاموش رہا پھر بولا۔ “یہ عمارت تقریبا پانچ سال سے خالی رہی ہے۔۔۔۔ویسے ہر جمعرات کو صرف چند گھنٹوں کے لئے اسے کھولا جاتا ہے۔“
“کیوں؟“
“یہاں دراصل ایک قبر ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کسی شہید کی ہے چنانچہ ہر جمعرات کو ایک شخص اسے کھول کر قبر کی جاروب کشی کرتا ہے۔“
“چڑھاوے وغیرہ چڑھتے ہوں گے۔“ عمران نے پوچھا۔
“نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ جس لوگوں کا یہ مکان ہے وہ شہر میں رہتے ہیں اور ان سے میرے قریبی تعلقات ہیں انہوں نے ایک آدمی اسی لئے رکھ چھوڑا ہے کہ وہ ہر جمعرات کو قبر کی دیکھ بھال کیا کرے!۔۔۔یہاں معتقدین کی بھیڑ نہیں ہوتی۔ بہرحال آج دوپہر کو جب وہ یہاں آیا تو اس نے یہ لاش دیکھی۔“
“تالا بند تھا؟“ عمران نے پوچھا۔
“ہاں۔ اور وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ کنجی ایک لمحے کے لئے بھی نہیں کھوئی اور پھر یہاں اس قسم کے نشانات نہیں مل سکے جن کی بناء پر کہا جاسکتا کہ کوئی دیوار پھلانگ کر اندر آیا ہو۔“
“تو پھر یہ لاش آسمان سے ٹپکی ہوگی!“ عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ “بہتر تو یہ ہے کہ تم اسی شہید کی مدد طلب کرو جس کی قبر۔۔۔۔“
“پھر بہکنے لگے۔“ فیاض بولا۔
“اس عمارت کے مالک کون ہیں اور کیسے ہیں؟“ عمران نے پوچھا۔
“وہی میرے پڑوس والے جج صاحب۔“ فیاض بولا۔
“ہائے وہی جج صاحب!“ عمران اپنے سینے پر ہاتھ مار کر ہونٹ چاٹنے لگا۔
“ہاں وہی۔۔۔یار سنجیدگی سے۔۔۔خدا کے لیئے۔“
“تب میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔“ عمران مایوسانہ انداز میں سر ہلا کر بولا۔
“کیوں؟“
“تم نے میری مدد نیہں کی؟“
“میں نے۔“ فیاض نے حیرت سے کہا۔ “میں سمجھا نہیں۔“
“خود غرض ہونا۔ بھلا تم میرے کام کیوں آنے لگے۔“
“ارے تو بتاؤ نا۔ میں واقعی نہیں سمجھا۔“
“کب سے کہہ رہا ہوں کہ اپنے پڑوسی جج صاحب کی لڑکی سے میری شادی کرا دو۔“
“مت بکو۔۔۔ ہر وقت بے تکی باتیں۔“
“میں سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں۔“ عمران نے کہا۔
“اگر سنجیدگی سے کہہ رہے ہو تو شائد تم اندھے ہو۔“
“کیوں۔“
“اس لڑکی کی ایک آنکھ نہیں ہے“
“اس لئے تو میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ وہ مجھے اور میرے کتوں کا ایک نظر سے دیکھے گی۔“
“یار خدا کے لئے سنجیدہ ہو جاؤ۔“
“پہلے تم وعدہ کرو۔“ عمران بولا۔
“اچھا بابا میں ان سے کہوں گا۔“
“بہت بہت شکریہ! مجھے سچ مچ اس لڑکی سے کچھ ہو گیا ہے۔۔۔ کیا کہتے ہیں اسے۔۔۔اوہ۔۔۔بھول گیا۔۔۔حالانکہ کچھ دیر پہلے اسی کا تذکرہ تھا۔ “
“چلو چھوڑو کام کی باتیں کرو۔“
“نہیں اسے یاد ہی آجانے دو۔ ورنہ مجھ پر ہسٹیریا کا دورہ پڑ جائے گا۔“
“عشق۔“ فیاض منہ بنا کر بولا۔
“جیئو! شاباش! عمران نے اس کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا۔ خدا تمہاری مادہ کو سلامت رکھے۔ اچھا اب یہ بتاؤ کہ لاش کی شناخت ہو گئی یا نہیں۔“
“نہیں! نہ تو وہ اس علاقہ کا باشندہ ہے اور نہ جج صاحب کے خاندان کے والے اس سے واقف ہیں۔“
“یعنی کسی نے اسے پہچانا نہیں۔“
“نہیں۔“
“اس کے پاس کوئی ایسی چیز ملی یا نہیں جس سے اس کی شخصیت پر روشنی پڑ سکے۔“
“کوئی نہیں۔۔۔مگر ٹھہرو۔“ فیاض ایک میز کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔ “واپسی پر اس کے ہاتھوں میں چمڑے کا تھیلا تھا۔“
“یہ تھیلا ہمیں لاش کے قریب پڑا ملا تھا۔“ فیاض نے کہا۔
عمران تھیلا اس کے ہاتھ سے لے کر اندر کی چیزوں کا جائزہ لینے لگا۔
“کسی بڑھئی کے اوزار۔“ اس نےکہا۔ “اگر یہ مقتول ہی کے ہیں تو۔۔۔ویسے اس شخص کی ظاہر حالت اچھی نہیں۔۔۔لیکن پھر بھی بڑھئی نہیں معلوم ہوتا۔۔۔!“
“کیوں!“
“اس کے ہاتھ بڑے ملائم ہیں اور۔۔۔ہتھیلیوں میں کھردرا پن نہیں ہے۔ یہ ہاتھ تو کسی مصور یا رنگساز ہی کے ہو سکتے ہیں۔“ عمران بولا۔
“ابھی تک تم نے کوئی کام کی بات نہیں بتائی۔“ فیاض نے کہا۔
“ایک احمق آدمی سے اس سے زیادہ کی توقع رکھنا عقلمندی نہیں۔“ عمران ہنس کر بولا۔
“اس کے زخموں نے مجھے الجھن میں ڈال دیا ہے۔“ فیاض نے کہا۔
“اگر تم نے میرے زخموں پر مرہم رکھا۔۔۔تو میں ان زخموں کو بھی دیکھ لوں گا۔“
“کیا مطلب۔“
“جج صاحب کی لڑکی!“ عمران اس طرح بولا جیسے اسے کچھ یاد آگیا ہو! “اس مکان کی ایک کنجی جج صاحب کے پاس ضرور رہتی ہوگی۔“
“ہاں ایک ان کے پاس بھی ہے۔“
“ہے یا تھی۔“
“یہ تو میں نے نہیں پوچھا۔“
“خیر پھر پوچھ لینا۔ اب لاش اٹھواؤ۔۔۔پوسٹ مارٹم کے سلسلے میں زخموں کی گہرائیوں کا خاص خیال رکھا جائے۔“
“کیوں؟“
“اگر زخموں کی گہرائیاں بھی ایک دوسری کے برابر ہوئیں تو سمجھ لینا کہ یہ شہید مرد صاحب کی حرکت ہے۔ “
“کیوں فضول بکواس کررہے ہو۔“
“جو کہہ رہا ہوں۔۔۔اس پر عمل کرنے کا ارادہ ہو تو علی عمران ایم۔ ایس۔ سی، پی۔ ایچ۔ ڈی کی خدمات حاصل کرنا ہے۔ ورنہ کوئی۔۔۔کیا نہیں۔۔۔ذرا بتاؤ تو میں کون سا لفظ بھول رہا ہوں۔“
“ضرورت!“ فیاض برا سا منہ بنا کر بولا۔
“جیتے رہو۔۔۔ورنہ کوئی ضرورت نہیں۔“
“تمہاری ہدایت پر پورا عمل کیا جائے گا!۔۔۔ اور کچھ!“
“اور یہ کہ میں پوری عمارت دیکھنا چاہتا ہوں۔“ عمران نے کہا۔
پوری عمارت کا چکر لگالینے کے بعد وہ پھر اسی کمرے میں لوٹ آئے۔
“ہاں بھئی جج صاحب سے ذرا یہ پوچھ لینا کہ انہوں نے صرف اسی کمرے کی ہیئت بدلنے کی کوشش کیوں کر ڈالی جبکہ پوری عمارت اسی پرانے ڈھنگ پر رہنے دی گئی ہے۔۔۔ کہیں بھی دیوار پر پلاسٹر نہیں دکھائی دیا۔۔۔لیکن یہاں ہے۔۔۔“
“پوچھ لوں گا۔۔۔“
“اور کنجی کے متعلق بھی پوچھ لینا۔۔۔اور۔۔۔اگر وہ محبوبہ یک چشم مل جائے تو اس سے کہنا کہ تیر نیم کش کو کوئی میرے دل سے پوچھے۔۔۔شائد غالب کی محبوبہ بھی ایک آنکھ رکھتی تھی۔۔۔کیونکہ تیر نیم کش اکلوتی آنکھ کا بھی ہو سکتا ہے۔“
“تو اس وقت اور کچھ نہیں بتاؤ گے۔“ فیاض نے کہا۔
“یار بڑے احسان فروش ہو۔۔۔فروش۔۔۔شائد میں پھر بھول گیا کہ کون سا لفظ ہے۔ “
“فراموش!“
“جیئو۔ ہاں تو بڑے احسان فراموش ہو۔ اتنی دیر سے بکواس کر رہا ہوں اور تم کہتے ہو کچھ بتایا ہی نہیں۔“
 

جاری ہے

 
 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team