|
 |
|
|
|
|
|
|
Telephone:- 1-514-970-3200 |
Email:-jawwab@gmail.com |
|
|
تاریخ اشاعت:۔07-09-2010
|
خوفناک عمارت
باب
اول |
تحریر۔۔۔-------------
ابن صفی |
سوٹ پہن چکنے
کے بعد عمران آئینے کے سامنے لچک لچک کر ٹائی باندھنے کی کوشش کر رہا
تھا۔ “اونہہ۔۔۔پھر وہی۔۔۔چھوٹی بڑی۔۔۔میں کہتا ہوں ٹائیاں ہی غلط آنے
لگی ہیں۔“ وہ بڑ بڑاتا رہا۔ “اور پھر ٹائی ۔۔۔لاحول ولاقوۃ۔۔۔۔نہیں
باندھتا!۔“
یہ کہہ کر اس نے جھٹکا جو مارا تو ریشمی ٹائی کی گرہ پھسلتی ہوئی نہ
صرف گردن سے جا لگی بلکہ اتنی تنگ ہو گئی کہ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا اور
آنکھیں ابل پڑیں۔
“بخ۔۔۔بخ۔۔۔خیں۔۔۔“اس کے حلق سے گھٹی گھٹی سی آوازیں نکلنے لگیں اور وہ
پھیپھڑوں کا پورا زور صرف کرکے چیخا۔“ ارے مرا۔۔۔بچاؤ! سلیمان“
ایک نوکر دوڑتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔۔۔پہلے تو وہ کچھ سمجھا ہی نہیں
کیونکہ عمران سیدھا کھڑا ہوا دونوں ہاتھوں سے اپنی رانیں پیٹ رہا تھا!
“کیا ہوا سرکار۔“ بھرائی ہوئی آواز میں بولا!
“سرکار کے بچے مر رہا ہوں۔“
“ارے۔۔۔لیکن۔۔۔مگر۔۔۔؟“
“لیکن۔۔۔مگر۔۔۔اگر۔۔۔“عمران دانت پیس کر ناچتا ہوا بولا۔“ ابے ڈھیلی کر۔“
“کیا ڈھیلی کروں؟“ نوکر نے متحیر آمیز لہجے میں کہا۔
“اپنے باوا کے کفن کی ڈوری۔۔۔جلدی کر۔۔۔ارے مرا۔“
“تو ٹھیک سے بتاتے کیوں نہیں؟“ نوکر بھی جھنجھلا گیا۔
“اچھا بے تو کیا غلط بتا رہا ہوں؟ میں یعنی عمران ایم ایس سی، پی۔ ایچ۔
ڈی کیا غلط بتا رہا ہوں، ابے کم بخت اسے اردو میں استعارہ اور انگریزی
میں میٹافر کہتے ہیں۔ اگر میں غلط کہ رہا ہوں تو باقاعدہ بحث کر مرنے
سے پہلے یہ ہی سہی۔“
نوکر نے غور سے دیکھا تو اس کی نظر ٹائی پر پڑی، جس کی گرہ گردن میں
بری طرح پھنسی ہوئی تھی اور رگیں ابھری ہوئی سی معلوم ہو رہی تھیں اور
یہ اس کے لئے کوئی نئی بات نہ تھی! دن میں کئی بار اسے اس قسم کی
حماقتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا!
اس نے عمران کے گلے سے ٹائی کھولی۔
“اگر میں غلط کہہ رہا تھا تو یہ بات تیری سمجھ میں کیسے آئی؟“ عمران
گرج کر بولا۔
“غلطی ہوئی صاحب!“
“پھر وہی کہتا ہے، کس سے غلطی ہوئی؟“
“مجھ سے!“
“ثابت کرو کہ تم سے غلطی ہوئی۔“ عمران ایک صوفے میں گر کر اسے گھورتا
ہوا بولا۔
نوکر سر کھجانے لگا۔
“جوئیں ہیں کیا تمہارے سر میں!“ عمران نے ڈپٹ کر پوچھا۔
“نہیں تو۔“
“تو پھر کیوں کھجا رہے تھے؟“
“یونہی۔“
“جاہل۔۔۔گنوار۔۔۔خوامخواہ بے تکی حرکتیں کرکے اپنی انرجی برباد کرتے ہو۔“
نوکر خاموش رہا۔“ یونگ کی سائکالوجی پڑھی ہے تم نے؟“ عمران نے پوچھا۔
نوکر نے نفی میں سر ہلا دیا۔
“یونگ کی ہجے جانتے ہو۔“
“نہیں صاحب۔“ نوکر اکتا کر بولا۔
“اچھا یاد کر لو۔۔۔جے-یو-این-جی۔۔۔یونگ! بہت سے جاہل اسے جنگ پڑھتے ہیں
اور کچھ جونگ۔۔۔! جنہیں قابلیت کا ہیضہ ہوجاتا ہے وہ ژونگ پڑھنے اور
لکھنے لگ جاتے ہیں۔۔۔فرانسیسی میں جے ژ کی آواز دیتا ہے مگر یونگ
فرانسیسی نہیں تھا۔“
“شام کو مرغ کھائیے گا۔۔۔۔یاتیتر۔“ نوکر نے پوچھا۔
“آدھا تیتر آدھا بٹیر۔“ عمران جھلا کر بولا۔“ ہاں تو میں ابھی کیا کہہ
رہا تھا۔۔۔۔“وہ خاموش ہو کر سوچنے لگا۔
“آپ کہہ رہے تھے کہ مسالہ اتنا بھونا جائے کہ سرخ ہو جائے۔“ نوکر نے
سنجیدگی سے کہا۔
“ہاں اور ہمیشہ نرم آنچ پر بھونو!“ عمران بولا۔“ کفگیر کو اس طرح دیگچی
میں نہ ہلاؤ کہ کھنک پیدا ہو اور پڑوسیوں کی رال ٹپک پڑے۔ ویسے کیا تم
مجھے بتا سکتے ہو کہ میں کہاں جانے کی تیاری کر رہا تھا۔“
“آپ!“ نوکر کچھ سوچتا ہوا بولا۔“ آپ میرے لیے ایک شلوار قمیض کا کپڑا
خریدنے جا رہے تھے! بیس ہزار کا لٹھا اور قمیض کے لیے بوسکی۔“
“گڈ۔! تم بہت قابل اور نمک حلال نوکر ہو! اگر تم مجھے یاد نہ دلاتے رہو
تو میں سب کچھ بھول جاؤں۔“
“میں ٹائی باندھ دوں سرکار!“ نوکر نے بڑے پیار سے کہا۔
“باندھ دو۔“
نوکر ٹائی باندھتے ہوئے بڑبڑاتا جا رہا تھا۔“ بیس ہزار کا لٹھا اور
قمیض کے لئے بوسکی۔ کہئے تو لکھ دوں!“
“بہت اچھا رہے گا۔“
ٹائی باندھ چکنے کے بعد نوکر نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر پنسل سے گھسیٹ کر
اس کی طرف بڑھا دیا۔
“یوں نہیں۔“ عمران اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے سنجیدگی سے بولا۔ “اسے
یہاں پن کر دو۔“ نوکر نے ایک پن کی مدد سے اس کے سینے پر لگا دیا۔
“اب یاد رہے گا۔“ عمران نے کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا!۔۔۔راہداری طے
کرکے وہ ڈرائنگ روم میں پہنچا۔۔۔یہاں تین لڑکیاں بیٹھی تھیں۔
“واہ عمران بھائی! ان میں سے ایک بولی۔ خوب انتظار کرایا! کپڑے پہننے
میں اتنی دیر لگاتے ہیں۔“
“اوہ تو کیا آپ لوگ میرا انتظار کر رہی تھیں؟“
“کیوں ؟ کیا آپ نے ایک گھنٹہ قبل پکچر چلنے کا وعدہ نہیں کیا تھا؟“
“پکچر چلنے کا؟ مجھے تو یاد نہیں۔۔۔میں تو سلیمان کے لیے۔۔۔“عمران اپنے
سینے کی طرف اشارہ کرکے بولا۔
“یہ کیا؟“ وہ لڑکی قریب آکر آگے کی طرف جھکتی ہوئی بولی۔“ بیس ہزار کا
لٹھا۔۔۔اور بوسکی! یہ کیا ہے۔۔۔اس کا مطلب؟“
پھر وہ بےتحاشہ ہنسنے لگی۔۔۔ عمران کی بہن ثریا نے بھی اٹھ کر دیکھا
لیکن تیسری بیٹھی رہی۔ وہ شاید ثریا کی کوئی نئی سہیلی تھی!
“یہ کیا ہے؟“ ثریا نے پوچھا۔
“سلیمان کے لیے شلوار قمیض کا کپڑا لینے جا رہا ہوں۔“
“لیکن ہم سے کیوں وعدہ کیا؟“ وہ بگڑ کر بولی۔
“بڑی مصیبت ہے!“ عمران گردن جھٹک کر بولا۔“ تمہیں سچا سمجھوں یا سلیمان
کو۔“
“اسی کمینے کو سچا سمجھئے! میں کون ہوتی ہوں۔“ ثریا نے کہا۔ پھر اپنی
سہیلیوں کی طرف مڑ کر بولی۔“ اکیلے ہی چلتے ہیں! آپ ساتھ گئے بھی تو
شرمندگی ہی ہوگی۔۔۔کر بیٹھیں گے کوئی حماقت!“
“ذرا دیکھئے آپ لوگ۔“ عمران رونی صورت بنا کر درد بھری آواز میں بولا۔“
یہ میری چھوٹی بہن ہے مجھے احمق سمجھتی ہے ثریا میں بہت جلد مر جاؤں گا!
کسی وقت! جب بھی ٹائی غلط بندھ گئی! اور بیچارے سلیمان کو کچھ نہ کہو۔
وہ میرا محسن ہے۔ اس نے ابھی ابھی میری جان بچائی ہے!“
“کیا ہوا تھا۔“ ثریا کی سہیلی جمیلہ نے گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
“ٹائی غلط بندھ گئی تھی!“ عمران سنجیدگی سے بولا۔
“جمیلہ ہنسنے لگی۔“ لیکن ثریا جلی کٹی بیٹھی رہی۔ اس کی نئی سہیلی
متحیرانہ انداز میں اس سنجیدہ احمق کو گھور رہی تھی۔
“تم کہتی ہو تو میں پکچر چلنے کو تیار ہوں۔“ عمران نے کہا۔ “لیکن واپسی
پر مجھے یاد دلانا کہ میرے سینے پر ایک کاغذ پن کیا ہوا ہے۔“
“تو کیا یہ اسی طرح لگا رہے گا؟“ جمیلہ نے کہا۔
“جیئو!“ عمران خوش ہو کر بولا۔“میرا دل چاہتا ہے کہ تمہیں ثریا سے بدل
لوں! کاش تم میری بہن ہوتیں۔ یہ نک چڑھی ثریا مجھے بالکل اچھی نہیں
لگتی۔“
“آپ خود نک چڑھے! آپ مجھے کب اچھے لگتے ہیں۔“ ثریا بگڑ کر بولی۔
“دیکھ رہی ہو، یہ میری چھوٹی بہن ہے!۔“
“میں بتاؤں!“ جمیلہ سنجیدگی سے بولی! “آپ یہ کاغذ نکال کر جیب میں رکھ
لیجئے میں یاد دلا دوں گی۔“
“اور اگر بھول گئیں تو۔۔۔ویسے تو کوئی راہ گیر ہی اسے دیکھ کر مجھے یاد
دلا دے گا۔“
“میں وعدہ کرتی ہوں!“
عمران نے کاغذ جیب سے نکال کر جیب میں رکھ لیا۔۔۔ثریا کچھ کھنچی کھنچی
سی نظر آنے لگی۔
وہ جیسے ہی باہر نکلے ایک موٹر سائیکل پورٹیکو میں آکر رکی جس پر ایک
باوقار اور بھاری بھرکم آدمی بیٹھا ہوا تھا۔
“ہیلو! سوپر فیاض۔“ عمران دونوں ہاتھ بڑھا کر چیخا۔
“ہیلو! عمران۔۔۔مائی لیڈ۔۔۔تم کہیں جا رہے ہو۔“ موٹر سائیکل سوار بولا۔
پھر لڑکیوں کی طرف دیکھ کر کہنے لگا۔“ اوہ معاف کیجئے گا۔۔۔لیکن یہ کام
ضروری ہے! عمران جلدی کرو۔“
عمران اچھل کر کیرئیر پر بیٹھ گیا اور موٹر سائیکل فراٹے بھرتی ہوئی
پھاٹک سے گذر گئی۔
“دیکھا تم نے۔“ ثریا اپنا نچلا ہونٹ چبا کر بولی۔
“یہ کون تھا۔۔۔!“ جمیلہ نے پوچھا۔
“محکمہ سراغرسانی کا سپرنٹنڈنٹ فیاض۔۔۔مگر ایک بات میری سمجھ میں نہیں
آسکی کہ اسے بھائی جان جیسے خبطی آدمی سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ یہ
اکثر انہیں اپنے ساتھ لے جایا کرتا ہے۔“
“عمران بھائی دلچسپ آدمی ہیں!“ جمیلہ نے کہا۔“ بھئی کم از کم مجھے تو
ان کی موجودگی میں بڑا لطف آتا ہے۔“
“ایک پاگل دوسرے پاگل کو عقل مند ہی سمجھتا ہے۔“ ثریا منہ بگاڑ کر بولی۔
“مگر مجھے تو پاگل نہیں معلوم ہوتے۔“ ثریا کی نئی سہیلی نے کہا۔
اور اس نے قریب قریب ٹھیک ہی بات کہی تھی۔ عمران شکل صورت سے خبطی نہیں
معلوم ہوتا تھا۔ خاصا خوشرو اور دلکش نوجوان تھا عمر ستائیس کے لگ بھگ
رہی ہوگی! خوش سلیقہ اور صفائی پسند تھا۔ تندرستی اچھی اور جسم ورزشی
تھا۔ مقامی یونیورسٹی سے ایم ایس سی کی ڈگری لے کر انگلینڈ چلا گیا تھا
اور وہاں سے سائنس میں ڈاکٹریٹ لے کر واپس آیا تھا اس کا باپ رحمان
محکمہ سراغرسانی میں ڈائریکٹر جنرل تھا۔ انگلینڈ سے واپسی پر اس کے باپ
نے کوشش کی تھی کہ اسے کوئی اچھا سا عہدہ دلا دے لیکن عمران نے پرواہ
نہ کی۔ کبھی وہ کہتا کہ میں سائنسی آلات کی تجارت کروں گا! کبھی کہتا
کہ اپنا ذاتی انسٹی ٹیوٹ قائم کرکے سائنس کی خدمت کروں گا۔۔۔بہرحال
کبھی کچھ اور کبھی کچھ! گھر بھر اس سے نالاں تھا اور انگلینڈ سے واپسی
کے بعد تو وہ اچھا خاصا احمق ہو گیا تھا۔ اتنا احمق کہ گھر کے نوکر تک
اسے الو بنایا کرتے تھے۔ اسے اچھی طرح لوٹتے اس کی جیب سے دس دس روپے
کے نوٹ غائب کردیتے اور اسے پتہ تک نہ چلتا۔
باپ تو اس کی صورت دیکھنے کا بھی روادار نہ تھا صرف ماں ایسی تھی جس کی
بدولت وہ اس کوٹھی میں مقیم تھا۔ ورنہ کبھی کا نکال دیا گیا ہوتا۔
اکلوتا لڑکا ہونے کے باوجود بھی رحمٰن صاحب اس سے عاجز آگئے تھے!
“پاگل وہ اسی وقت نہیں معلوم ہوتے جب خاموش ہوں۔“ ثریا بولی۔“ دو چار
گھنٹے بھی اگر ان حضرت کے ساتھ رہنا پڑے تو پتہ چلے۔“
“کیا کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔“ جمیلہ نے مسکرا کر کہا۔
“اگر ان میں اسی طرح دلچسپی لیتی رہیں تو کسی دن معلوم ہو جائے گا۔“
ثریا منہ سکوڑ کر بولی۔
|
جاری
ہے |
   |
 |
 |
 |
 |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
 |
E-mail:
Jawwab@gmail.com |
|
|
|