اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
 

 

 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
تاریخ اشاعت:۔07-09-2010

خطرناک لاشیں

باب اول

تحریر۔۔۔------------- ابن صفی

محکمہ سراغ رسانی کے ڈائریکٹر جنرل رحمان صاحب نے مضطربانہ انداز میں سپرنٹنڈنٹ کیپٹن فیاض کے نمبر ڈائیل کئے اور پھر تھوڑی دیر بعد ماؤتھ پیس میں بولے رحمان اسپیکنگ! فوراً آؤ۔ میں آفس سے بول رہا ہوں۔

سلسلہ منطقع کرکے انہوں نے سامنے پھیلے ہوئے کاغذات سمیٹے اور میز پر رکھی ہوئی گھنٹی بجائی۔ ایک خوش پوش اور وجیہہ آدمی چق ہٹا کر اندر داخل ہوا۔

رحمان صاحب آنکھوں کی جنبش سے کاغذات کی طرف اشارہ کرکے پائپ میں تمباکو بھرنے لگے۔ ان کی آنکھوں میں گہرے تفکر کے آثار ہویدا تھے۔

آنے والے نے کاغذات اکھٹے کرکے چمڑے کے ایک تھیلے میں بند کئے اور دوسری میز پر جاکر تھیلے کو سیلیگ ویکس سے سیل کرنے لگا۔ کمرے کی فضا پر بوجھل سی خاموشی مسلط تھی اور بالکل ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے بیٹھنے والے کبھی بولتے ہی نہ ہوں۔

تھیلا سیل کرکے وہ آدمی اسے پھر رحمان صاحب کی میز پر لایا! رحمان صاحب نے اس پر لگی ہوئی سیلوں کا جائزہ لیا پھر ایک سیل سے منسلکہ کارڈ پر اپنے دستخط کرنے لگے!

اتنے میں چپڑاسی نے آکر ایک وزیٹنگ کارڈ پیش کیا۔ یہ کارڈ غالباً کیپٹن فیاض ہی کا تھا! رحمان صاحب نے سر ہلا کر آنے والے کے داخلے کی اجازت دی! چپڑاسی پھر سے باہر چلاگیا! کیپٹن فیاض کے اندر داخل ہوتے ہی وہ آدمی تھیلا لہرے باہر نکل گیا!

بیٹھ جاؤ! رحمان صاحب نے فیاض کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ وہ پائپ سلگارہے تھے! فیاض کا چہرہ اترا ہوا تھا! ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ یہاں محض ڈانٹ پھنکار سننے کے لئے آیا ہو!

ہاں کیا قصہ ہے؟

کیا عرض کروں جناب! یہ معاملہ ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آیا۔

میں صرف واقعہ معلوم کرنا چاہتا ہوں!

فیاض نے ایک طویل سانس لے کر ہونٹوں پر زبان پھیری اور پھر بولا! آج روشن آباد میں ایک لاش سڑک پر پائی گئی۔ روشن آباد پولیس اسٹیشن کا انچارج اس کی اطلاع ملتے ہی موقعہ واردات پر پہنچا لیکن لاش پر جھکا ہی تھا کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور پھر نہ وہاں لاش کا پتہ تھا اور نہ انچارج کا!

فیاض نے خاموش ہوکر پھر ایک طویل سانس لی اور تھوڑے توقف کے بعد بولا۔ لیکن تقریباً سوگز کے گھیرے میں لاتعداد گوشت کے تکڑے تکڑے بکھرے ہوئے نظر آرہے تھے!

بم! رحمان صاحب نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ہوئے پوچھا!

خدا بہتر جانتا ہے۔ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا! کیونکہ ابھی تک کوئی ایسی شہادت نہیں ملی جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ انچارج پر بم پھینکا گیا تھا! ایسے نشانات بھی نہیں ملے کہ بم کے متعلق سوچا جاسکے۔ ویسے دھماکہ تو دور دور تک سنا گیا تھا۔

پھر آخر اسے کیا کہو گے؟

کیا عرض کیا جائے جناب کچھ سمجھ میں نہیں آتا!

لاش کی شناخت ہوسکی تھی!

نہیں جناب اس کی تو نوبت ہی نہیں آنے پائی!

سنا ہے لاش بالکل برہنہ تھی!

جی ہاں! بالکل برہنہ!

زخم کے نشانات!

نہیں جناب! جن لوگوں نے لاش دیکھ کر تھانے میں اطلاع پہنچائی تھی ان کا بیان ہے کہ نہ تو انہوں نے لاش کے آس پاس کہیں خون کے دھبے دیکھے تھے اور نہ مرنے الے ہی کے جسم پر کہیں کوئی زخم تھا!

فیاض!

جناب والا!

کیا انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ لاش الٹ پلٹ کر دیکھی گئی تھی!

جی نہیں!

پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ لاش پر زخم نہیں تھے۔

میں عرض کیا نا کہ یہ ان لوگوں کا بیان ہے جس کی تصدیق نہیں ہوسکی تھی! انچارج کچھ بتانے کے لئے زندہ ہی نہیں بچا!

مرنے والا کوئی غیر ملکی تو نہیں تھا!

میری دانست میں تو وہ ایشیاء ہی کے کسی ملک سے تعلق رکھتا تھا ورنہ اس کے کپڑےکیوں اتار لیے جاتے!

میں نہیں سمجھا!

غالباً اس کی قومیت ہی چھپانے کے لئے اس کا لباس اتار لیا گیا تھا!

ہاں یہ چیز کسی حد تک ممکن ہے! رحمان صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا! لیکن کیا آس پاس کے کسی آدمی نے مرنے والے کو پہچانا نہیں تھا!

جی نہیں! ابھی تک ایسی کوئی اطلاع نہیں مل سکی!

پھر اب تم کیا کرو گے!

جب تک معاملات کی نوعیت سمجھنے نہ آئے!

معاملات کی نوعیت سمجھنے کیلئے تم اسی نالائق کے پاس دوڑو گے! غالباً اشارہ عمران کی طرف تھا۔ ضروری نہیں جناب! پھر اگر دوڑنا ہی پڑا تو ظاہر ہے کام نکلنے سے مطلب!

بکواس ہے! اسی طرح سارے کیس سیکرٹ سروس والوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں! اگر یہی حال رہا تو پھر اپنے محکمے کا وجود ہی عضو معطل ہوکر رہ جائے گا! میں نہیں سمجھ سکتا کہ محکمہ خارجہ نے داخلی امور میں کیوں دخل اندازی شروع کردی ہے!

میں نہیں سمجھا!

کچھ نہیں! رحمان صاحب ٹال گئے! وہ اس نئے محکمے کے متعلق تفصیل میں نہیں جانا چاہتے تھے جس کا چیف آفیسر ایکسٹو تھا!

فیاض صرف اتنا ہی جانتا تھا کہ محکمہ خارجہ کی سیکرٹ سروس کے کچھ ممبر دارالحکومت میں بھی رہتے ہیں! اسے نہ تو ان کے اختیارات کا علم تھا اور نہ ہی معلوم تھا کہ ان کا طریق کار کیا ہے! اور یہ بات بھی پہلی بار اس کے علم میں آئی تھی کہ عمران کو درمیان میں لانے سے کیس سیکرٹ سروس والوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں! اسے اس اطلاع پر حیرت ہوئی تھی۔ لیکن جب اس نے محسوس کیا کہ رحمان صاحب اس مسئلے پر وضاحت کے ساتھ گفتگو کرنے پر تیار نہیں تو وہ بھی خاموش ہوگیا۔ ہوسکتا ہے کہ مقتول روشن آباد کا باشندہ ہو اگر کوشش کی جائے تو معلوم ہوسکتا ہے!

جی ہاں، میں کوشش کررہا ہوں! لیکن ابھی تک کوئی امید افزا صورت نہیں نظر آتی!

اس واقعہ کے کس پہلو پر تم زیادہ زور دے رہے ہو!

دھماکے پر جناب! یہ ایک غیر معمولی چیز تھی! ایسے واقعات تو کبھی افواہاً بھی سننے میں نہیں آئے! پھر اس دھماکے کا مقصد اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا تھا کہ لاش کی شناخت نہ ہوسکے!

لیکن وہ دھماکہ پہلے بھی تو ہوسکتا تھا! رحمان صاحب نے کہا!

کیا یہ ضروری تھا کہ لاش اسی وقت ناقابلِ شناخت بنائی جاتی جب پولیس وہاں پہنچ جاتی!

اس سے پہلے ایسا کیوں نہ ہوا! اگر مقصد یہ تھا کہ اس طرح پولیس کو دھشت زدہ کیا جائے تو پھر اس کا مقصد بھی تلاش کرنا پڑے گا!

دھماکے کے متعلق دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ وہ لاش کے پھٹنے ہی کی پناہ پر ہوا تھا!

قریب وجوار سے اگر بم پھینکا گیا ہوتا تو کچھ اور لوگوں کا بھی زخمی ہونا ضروری تھا! کیونکہ لاش کے گرد کافی بھیڑ تھی! مگر صرف انچارج ہی کے چیتھڑے اڑگئے جو لاش پر جھکا ہوا تھا، بقیہ لوگوں کے جسموں سے گوشت کے لوتھڑے ہی ٹکرائے تھے!

پہلی بات تو یہ کہ لاش برہنہ تھی! رحمان صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا!

تمہارا کیا خیال ہے کہ مرنے والے کی قومیت اور وطنیت چھپنانے کے لئے اسے برہنہ کردیا گیا تھا! پھر تمہاری دانست میں وہ دھماکہ اس لئے تھا کہ لاش ہی قابل شناخت نہ رہ جائے! یہ دونوں نظریات یک جا نہیں ہوسکتے ان میں سے ایک کو لامحالہ رد کرنا پڑے گا!

لاش بھی اسی وقت ناقابلِ شناخت بنائی جاسکتی تھی جب مرنے والے کی قومیت چھپانے کے لئے اسے برہنہ کیا گیا تھا! یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کہ کچھ دیر لاش کی نمائش کرنے کے بعد اسے ناقابلِ شناخت کیوں بناگیا!

جی ہاں یہ ایک بہت الجھاؤ ہے! حقیقت یہ ہے جناب کہ ابھی میں کوئی نظریہ قائم ہی نہیں کرسکا ہوں! فون کی گھنٹی بجی رحمان صاحب نے ریسیور اٹھالیا! پھر فیاض سے بولے تمہاری کال ہے!

فیاض نے ریسیور ان سے لیا چند لحمے دوسری طرف سے بولنے والے کی طرف کان لگائے رہا پھر ریسیور رکھتا ہوا بولا۔ ایک آدمی میرے آفس میں لایا گیا ہے جس نے مقتول کو پھچلی شام دیکھا تھا!

رحمان صاحب سر کو خفیف سی جنبش دے کر بولے! مجھے حالات سے باخبر رکھنا!

بہت بہتر جناب!

جاسکتے ہو! رحمان صاحب نے کہا اور پائپ دانتوں میں دبائے کاغذات کی طرف متوجہ ہوگئے۔ فیاض اٹھ گیا۔
 

جاری ہے

 
 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team