اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-

Telephone:-        

 

 

 
 
 
   
 

 

 
 
 
   
 

 

 

تاریخ اشاعت14-06-2010

ہر طرف ہے شور محشر الامان کچھ کیجئے

کالم۔۔۔ عفاف اظہر

 

آج ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ تو ہم سب ہی دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں سانحوں پر سانحے ہو رہے ہیں قیامت پر قیامت گزر رہی ہے کہیں بھوک ہے تو کہیں خشک سالی کہیں بے سرو سامانی ہے تو کہیں جرائم کی فراوانی . اور اس پر بھی قیامت انسانی خوں کی اسقدر ارزانی ....مانا کہ آج ہمارے حکمران نہ اہل ہیں تو پولیس لاچار ، عدالتیں انصاف سے عاری ہیں تو قانون بیکار، ہماری اقلیتیں جینے کی حقدار ہیں نہ انسان ... ..مگر آج آئینہ ہمارے سامنے ہے کہ ہم خود بیحثیت قوم کیا ہیں ؟ آج ہمیں کیا ہو گیا ہے ؟ آج ہمارے دل پتھر کے کیوں ہو گئے ہیں ؟ مارکیٹس میں بازاروں میں دھماکے ہوے تو ہم خاموش رہے پولیس ٹریننگ اکیڈمی دھماکوں کی زد میں آیی تو چپ سادھے رہے ، سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا تو ہماری خاموشی کے قفل نہ ٹوٹے . سکولوں کی حفاظت کو خطرہ لا حق ہوا ہمارا مستقبل خطرات میں گھرا تو بھی چپ کی چادر اوڑھے رہے . اور آج یہ دھماکے مساجد کا رخ کر چکے ہیں اور تب بھی ہم خاموش تماشائی ہی ہیں . کیا آج بھی ہم اسی خیال میں ہیں کہ یہ آفات ہمارے گھروں سے زیادہ دور ہیں ؟ اس چیز کی کیا گارنٹی ہے کہ کل ان دھماکوں کا نشانہ ہم نہ ہوں گے ؟ یا پھر کل ہمارے بچے جس سکول میں جایں گے وہاں ایسا نہ ہو گا ؟ ہم جس بازار میں جایں گے وو بم پروف ہو گا ؟ یا پھر جس ہسپتال میں ہمارے عزیز و اقارب زیر علاج ہو گے وہاں بمباروں کا داخلہ ممنوعہ ہو گا ؟ کب تک ہم اپنی خیر منایں گے ؟
کیا یہ وہ ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جس کی خاطر کتنوں نے اپنے سینوں پر گولیاں کھایں یہ سوچ کر کہ ہماری جان جاتی ہے تو جائے مگر کل یہاں پر میری قوم آ کر سکون سے رہے گی ؟ مگر آج ہمارے پڑوس میں ڈاکہ پڑتا ہے عزتیں لٹتی ہیں جانیں جاتی ہیں تو ہم اپنے گھروں میں میوزیک کی آواز اونچی کر دیتے ہیں تاکہ چیخ و پکار ہمارا سکون حرام نہ کر سکے ...ہاں یہ ہی ہے وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کی آزادی کی جدوجہد میں ماؤں بہنوں نے عزت کی حفاظت جان دے کر کی تھی مگر آج یہاں پر بنت حوا دو وقت کی روٹی کے عوض ابن آدم کی ہوس کا نشانہ بن رہی ہے دختران قوم غیر انسانی رسموں کی بھینٹ چڑھائی جا رہی ہے مگر کسی کی غیرت پر نہیں گزرتی ....ہاں یہ ہی ہے وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کے حصول کی بنیاد دو قومی نظریہ کا مقصد ہی ہندوں اور مسلمانوں کو دو مختلف قومیں تھیں جن کا ملاپ نہ ممکن تھا مگر آج بھی یہاں ہندوانہ رسوم و رواج کو شان سے ادا کیا جاتاہے مگر کسی کی مسلمانیت نہیں تڑپتی ....ہاں یہ ہی ہے وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں انسانوں کی کوئی قیمت نہیں مگر عزت کی بولی سب سے اونچی لگتی ہے مگر کسی کی روح نہیں کانپتی ...ہاں یہ ہی تو ہے وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں قحط و رجال بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ، تہذیب و تمدن کے سبھی پیمانے ٹوٹ ٹوٹ کر وقت کی نا قادری کا گلہ کر رہے ہیں اور ہم معاشرتی طور پر زوال کی آخری حدوں کے بھی آخر پر پہنچ چکے ہیں . کہ اب
جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا دیکھ رہا ہے ---- تو سوچنے لگتی ہوں کہ کیا دیکھ رہا ہے ؟
آج جہاں ہم معاشری طور پر زوال کا شکار ہیں وہاں بیرونی سطح پر بھی دنیا کی نظر میں بھی ہم ایک دہشتگرد قوم ہیں . اس حقیقت کو ہم چاہے مانیں یا نہ مانیں مگر سچ تو یہ ہے کہ ہاں ہم ایک دہشتگرد قوم ہیں ....کیوں کہ دہشتگردی صرف بموں سے ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر دہشتگردی تو یہ ہے کہ آج میری سر زمین پاک پر ایک دن میں سینکڑوں نمازی بھوں دئے جاتے ہیں تو کسی کی ایمانی غیرت نہیں جاگتی ، میرے بازاروں میں قیامت برپا ہو جاتی ہے مگر کسی کی انسانیت نہیں تڑپتی . میرے سکولوں میں معصوم بچوں کی حفاظت خطرے میں پر جاتی ہے مگر کسی کا ضمیر نہیں للکارتا . ..میری مساجد کا تقد س پامال کر کے ان کو لہو رنگ کر دیا جاتا ہے مگر کسی کو مسلمانیت نہیں جھنجوڑتی ....کہیں کوئی قیامت نہیں ٹوٹتی کہیں کوئی آواز بلند نہیں ہوتی کہیں کوئی احتجاج نہیں ہوتا کہیں کوئی ماتم نہیں کرتا ، کہیں کوئی سڑکوں پر نہیں آتا ، اور کوئی بھی با ضمیر چلا چلا کر ظالموں سے یہ نہیں پوچھتا کہ " آے میری سر زمین پاک کو لہو رنگ کرنے والو، آے میرے ہم وطنوں کے نہ حق خوں بہانے والو ، آے مرے مستقل کے معماروں کے قاتلو ، آے میرے دھرتی کے دشموں آخر تمہیں یہ حق کس نے دیا ہے؟ ...صرف اسلئے کہ ہمیں اس وحشت میں جینے کی عادت سی ہو گی ہے ، ہمارے دل پتھر ہو چکے ہیں ، احساس مردہ ہو چکے ہیں ، ضمیر مر چکے ہیں ...ہم روز ان قیا متوں کو گزرتے دیکھتے ہیں اور تاویلیں بنانے لگتے ہیں فوجی اکیڈمی میں دھماکہ ہوا تو وہ تو فوجی تھے نہ ، پولیس پر حملہ ہوا وہ قصوروار تھے ، مساجد پر قتل عام ہوئی تو وہ احمدی جو تھے ...مگر ہم خود کیا ہیں یہ کبھی نہ سوچا ، یہ کوئی فلمی سین نہیں جو پسند نہ آیا تو ٹی وی بند کر دیا ...یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس نے ہمیں بے ضمیر بنا ڈالا ہے .
.فیس بک پر پابندی لگانے کے لئے ایمانی غیرت جوش میں آ کر احتجاج کروا سکتی ہی تو مساجد کی پامالی اور نمازیوں کے تحفظ کے لئے کیوں نہیں ؟ جب توہین رسالت کے متوالے سلمان رشدی کے سر کی قیمت مقرر کر سکتے ہیں تو رسول الله کی تعلیمات سے انحراف کرتے ان غیر انسانی افعال کرنے والوں کے لیے کیوں نہیں ؟ کارٹون تنازعہ محبان رسوک کو پر تشدد احتجاج پر مجبور کر سکتا ہے مگر اپنی ہی دھرتی پر اپنی آنکھوں نے سامنے اپنے ہی ہم وطنوں کا قتل عام کیوں نہیں ؟؟
کیا رسول الله کی تعلیم سے انحراف توھین رسالت یا گشتاخی رسول نہیں ؟ ؟
فقط بیان بازی اور کھوکھلے نعروں سے ہم خود کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں مگر دنیا کو نہیں ...دنیا جان چکی ہے کہ ہم ایک نا کارہ قوم ہیں . اگر یہی سانحہ امریکا و یورپ میں ہوا ہوتا توان قوموں کو سڑکوں پر ماتم کرتے دیکھ کر ظالموں کے ہاتھ بھی کانپ اٹھتے ..ان قوموں میں انسانیت کی قدر دیکھ کر حیوانوں کے دل بھی پسیج جاتے ...خدا را ....اس سے پہلے کہ اس قوم کو یہ بے حسی کھا جائے اس سے پہلے کہ اس قوم کو یہ بے ضمیری نگل جائے اس سے سے پہلے کہ مظلوموں کی آہیں عرش ہلا دیں اور یہ آواز بھی رائیگاں چلی جائے اس سچ سے نظر ملآیے کہ کسی بھی ملک کی سب سے بڑی طاقت وہاں کی عوام ہوتی ہے جو اگر زندہ ہو تو بدترین حکمرانوں کو بھی راہ راست پر لا سکتی ہے اور اگر مردہ ہو جائے تو پھر ایسے سانحات اس قوم کا مقدر بن جاتے ہیں .

اپنی آنکھوں سے اتاریں بے حسی کی عینکیں ---ہے بموں کا ہر طرف پھیلا دھواں کچھ کیجیے
خون کی ہولی یہاں کا کھیل قومی بن گیی --- چار جانب ہیں دھماکے گولیاں کچھ کیجیے
زندگی کا نرخ مٹی سے بھی کمتر ہو گیا ... موت نے ہر چوک میں کھولی دوکان کچھ کیجئے
لفظ پاکستان دہشت کی علامت بن گیا ....آپ لیکن چین سے ہیں مہربان کچھ کیجئے
عفاف اظہر

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team