اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت08-08-2010

راہداری

کالم۔۔۔   محمد مبشر انوار


محمد مبشر انوار:۔
پاکستان جہاں اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے ساو ¿تھ ایشیا کے اہم ترین مقام پر واقع ہے وہیں یہ ریاست اپنے قیام کے دن سے ہی مختلف اور متنوع قسم کے بحرانوںسے دوچار ہے۔ ان بحرانوں میں سر فہرست تو نظام مملکت کا اختیار رہا ہے ،جمہوری طور طریقوں سے معرض وجود میں آنے والی اس ریاست میں آج تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ اس کا نظام حکومت کیسا ہو گا۔ مارشل لاو ¿ں کے وقفوں کے دوران یہاں لولی لنگڑی جمہوریت بھی چلتی رہی ہے بلکہ زیادہ مناسب ہو گا اگر یہ کہیں کہ اس جمہوریت کی لگامیں بھی کہیں اور تھی اور وہ جمہوری ادوار کنٹرولڈ جمہوریت کے زمرے میں آتے ہیں۔ جمہوریت کے علاوہ جو بحران اس مملکت کو درپیش رہے،ان میں ابتداءہی میں وسائل کی کمی کے ساتھ ساتھ ایک مستقل دشمن ریاست بھی تھی جو پہلے دن سے ہی اکھنڈ بھارت کے خواب میں ہے اور ہر صورت پاکستان کو کمزور کرنے کے درپے ہے ۔سونے پہ سہاگہ بہ حیثیت قوم ہم نے بالعموم ذاتی مفادات کو مقدم رکھا،جس کو جہاں موقع ملا اس نے ملکی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کو اپنا فرض منصبی جانا۔ ارباب اختیار کے اللے تللوں نے ملکی معیشت کی حالت کو مزید دگرگوں کر دیا اور ملکی مینو فیکچرنگ کی صلاحیت دن بدن مختلف مسائل کا شکار ہو تی گئی۔اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ملکی مینوفیکچرر کساد بازاری کا شکار ہو چکا ہے کہ اس کی پیداورای لاگت سے بھی کم قیمت پر جنس بازار میں میسر ہے۔ایسا بھی نہیں کہ ملک کے اندر با صلاحیت ہنرمندوں کی کمی ہے یا قحط الرجال ہے مگر مشکل یہ ہے کہ وہ اپنی جیب سے پیسہ لگا کر خسارے کی سرمایہ کاری کیوں کریں؟ جبکہ حکومتی عہدیدار ،،غیر ملکی برآمدات او رقرضے معاف کرانے والے بڑے بڑے صنعتکار وں کی موجودگی میں وہ کیسے اور کیونکر پنب سکتے ہیں۔ نچلے درجے کے ملکی سرمایہ کارخواہش کے باوجود مینوفیکچرنگ میں یہ داو ¿ نہیں کھیل سکتے اور جو ٹرینڈ سیٹ ہو رہا ہے اسی کے مطابق کاروبار کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ بھی اشیاءباہر سے منگوا کر اپنے کاروبار کر رہے ہیں کہ اسی میں عافیت اور رزق پوشیدہ ہے۔
یہ امر کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ ملکی ترقی کی بنیاد صنعتی ترقی سے مشروط ہے جبکہ پاکستان کی صنعت اور اس کے ہنرمندوں کو بیکار کرنے کے منصوبے پر عمل بہت عرصہ پہلے ہی شروع ہو چکا ہے اور اس مقصد کی خاطر درآمدی وزراءخزانہ پاکستانی کابینہ میں شامل رہے ہیں ،خواہ حکومت مارشل لائی ہو یا جمہوری چند ایک مستثنیات کو چھوڑ کر۔ ان وزرائے خزانہ کی تقرری کی بنیاد غیر ملکی قرضوں کی اقساط کو یقینی بنانا تھا اور اس مقصد کے حصول کے لئے ان ٹیکنو کریٹس کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ حکومتوں کو ان کے اخراجات میں توازن یا کمی میں مجبور کر سکتے ان کے لئے فقط ایک ہی راستہ بچتا تھا کہ وہ عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار جاری رکھیں سو یہی طریقہ کار اختیار کیا گیا جس کے بعد آج نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے۔سابق صدر مشرف کو بھی شائد یہ ہی باور کرایا گیا تھا کہ اب پاکستان کے لئے ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ اپنے جغرافیائی محل وقوع کو استعمال کرتے ہوئے وسطی ایشیاءاور جنوبی ایشیاءکے درمیان ایک راہداری کے طور پر استعمال ہو اور اس راستے کے عوض اپنی معیشت کو سنبھالا دے۔حکومت پاکستان نے حال ہی میں ایسے ہی ایک معاہدے پر دستخط بھی کر دئیے ہیں جس کے مطابق افغانستان کی اشیاءکو بھارت تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ اس کو نکتہ آغاز سمجھنا چاہئے اور یہ توقع رکھنی چاہئے کہ آنے والے وقتوں میں پاکستان تجارتی راستے کے ذریعے کچھ رقم حاصل کرتا رہے گا۔ میری ذاتی رائے میں یہ تجارتی معاہدہ تقریباً تین یا چار سال کی تاخیر سے ہوا ہے کیونکہ مشرف دور کے آخری دنوں میں اس کی بازگشت بڑے زوروں پر تھی اور میثاق جمہوریت کے ضامنوں نے شائد اس کی یقین دہانی بھی لے رکھی تھی مگر بد قسمتی سے پاکستان کے سیاسی حالات جس تیزی سے بدلتے ہیں اس کی روشنی میں یہ معاہدہ فوری طور پر ممکن نہ تھا سو اس تاخیر کو جانے کیسے برداشت کیا گیا۔
اس معاہدے کے حوالے سے ایک حقیقت بہت واضح ہے کہ اس کا براہ راست فائدہ افغانستان اور بھارت کو ہی ہو گا اور بالواسطہ طور پر اس کا نقصان پاکستان کی سالمیت کو بھی ہو سکتا ہے ۔ وزیر اطلاعات کا یہ کہنا کہ بھارتی ٹرانسپورٹ کو پاکستان سے گذرنے کی اجازت نہیں ،پاکستان کو درپیش خطرات کے لئے کافی نہیں کیونکہ اگر بھارتی رویے کو بغور دیکھا جائے تو اصولاً اسے افغانستان سے متصل پاکستان کی سرحد پر اپنے قونصل خانے بھی نہیں کھولنے چاہئیں ،کجا افغانستان کے ساتھ تجارت کے لئے پاکستان کو بطور راہداری کے استعمال کیا جائے۔لیکن مجبوری یہ ہے کہ پاکستان اس وقت جس معاشی صورتحال سے گذر رہا ہے اس میں پاکستان کو فی الوقت ذرائع آمدن درکار ہیں کیونکہ ہماری حکومتیں اپنے اللوں تللوں سے گریز کرتی نظر نہیں آتی،عوام بالعموم اور خواص بالخصوص ٹیکس ایمانداری سے ادا کرنے کے لئے تیار نہیں اور ہمارے آقاو ¿ں کو یہ منظور نہیں کہ ہم کسی بھی طرح اپنے قدموں پر کھڑے ہو سکیں۔ ان کے مفادات کی تکمیل فقط اسی میں ہے کہ پاکستان جس قدر بھی غیر مستحکم ہو سکے ،اس کو کیا جائے اور ان کو مواقع ہم خود فراہم کرتے چلے آئے ہیں اور اب تو خیر ہماری معاشی حالت ایسی ہو چکی ہے کہ ہمیں آقاو ¿ں کے حکم سے سرتابی کی مجال ہی نہیں۔ ان حالات کے پس منظر میں حکومت کو ایک نیا ذریعہ آمدن مبارک ہو اور قوم کو بھی کہ وہ نہ تو اپنے حکمرانوں کو سدھار سکتے ہیں اور نہ ہی ٹیکس چوری سے۔لیکن یہ حقیقت ،حقیقت ہی رہے گی کہ معاشی ترقی کبھی راہداری سے نہیں ملا کرتی،ہاں کچھ اور(خاکم بدہن)

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team