اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين
 

Email:-  mmanwaar@yahoo.com

Telephone:-         

 

 

تاریخ اشاعت14-02-2010

مذاکرات یا وقت گذاری

کالم:۔ محمد مبشر انوار



ترقی کی بنیاد ہمیشہ امن وامان کی صورتحال سے مشروط ہوتی ہے اور وہ قومیں جہاں امن و امان کی صورتحال خوشگوار ہو ہمہ وقت ترقی کی منزلوں کو عبور کرتی رہتی ہیں مگر بد قسمتی سے بر صغیر دنیا میں ایک ایسا خطہ ہے جہاں کے عوام کی اکثریت امن وامان کے ساتھ زندگی گذارنے کے ساتھ ساتھ ترقی کرنے کی خواہش رکھنے کے باوجود اس پر قادر نہیں اور ہر گذرتے دن کے ساتھ یہاں امن وامان کی حالت دگر گوں ہوتی چلی جا رہی ہے۔برصغیر کی دو اہم ترین اور ایٹمی طاقت سے مزین ریاستوں کے درمیان ہمیشہ سے تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور ایک فریق ہر صورت اکھنڈ بھارت کی غیر منطقی بنیاد پر خطے کو بد امنی کی جانب دھکیلنے پر مصر ہے۔ ایک طرف عالمی انتہا پسندی ہے تو دوسری طرف ہندوستان کی داخلی انتہا پسندی ہے ،جس میں اس کی انتہا پسندسیاسی جماعتیں شامل ہیں جو اقلیتوں کو کسی بھی صورت چین نہیں لینے دے رہی،نہ صرف ملک کے اندر بلکہ اپنے پڑوسی ممالک کے داخلی معاملات میں براہ راست اور بالواسطہ طور پر بھی شر انگیزی میں ملوث ہیں۔امن وامان یا دہشت گردی کے کسی بھی واقع کو بنیاد بنا کر ہندوستان خطے میں امن سے متعلقہ معاملات و مذاکرات کو سرد خانے میں ڈال کر اقوام عالم کے سامنے پاکستان کے خلاف صف آراءہو جاتا ہے اور جب مذاکرات کی اشد ضرورت ہوتی ہے یا جب مذاکرات کا کوئی منطقی نتیجہ سامنے آنے لگتا ہے، مذاکرات کو تعطل کا شکار کر دیتا ہے ۔ اس تعطل کے دوران پاکستان نہ صرف ہندوستان کے ناز نخرے اٹھاتا ہے بلکہ اقوام عالم میں خود کو ذمہ دار ریاست ثابت کرنے کے جتن بھی کرتا ہے اور عالمی برادری سے اپیل پر اپیل کرتا نظر آتا ہے کہ کسی طرح ہندوستان مذاکرات کی میز پر آئے تا کہ خطے کے افق پر منڈلانے والے تاریک بادلوں کو دور کیا جا سکے مگر ہندوستان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
گذشتہ تقریباً سولہ ماہ سے ساری دنیا یہ صورتحال دیکھ رہی تھی اور پاکستان مذاکرات کے لئے مسلسل درخواستیں کر رہا تھا مگر کسی کو بھی اس کا احساس نہیں ہو رہا تھا کہ اس خطے میں اگر امن قائم نہ ہوا تو اس کے نتائج کیا ہو ں گے تا وقتیکہ پاکستان نے سفارتی سطح پر سخت مو ¿قف اختیار کیا اور ہندوستان کے غلط مو ¿قف کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں کامیاب رہا لیکن اس ساری مشق کے دوران پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ چکا تھا، اس کا اندازہ اقوام عالم کو بھی ہے مگر ان کی حمایت ہمیشہ زور آور ہندوستان کے پلڑے میں رہی ہے سو اب بھی وہی صورتحال ہے کہ ہندوستان مقبوضہ کشمیر اور وہاں پر بننے والے آبی ذخائر میں کافی پیش رفت کر چکا ہے اور پاکستان کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا نے کے بعد اب مذاکرات کی میز پر اس صورت بیٹھنے کو تیار ہوا ہے کہ سر فہرست مسئلہ دہشت گردی اور پاکستان کی جانب سے در اندازی ہو گا۔ جبکہ 2008میں ہونے والے ممبئی دھماکوں کے مبینہ ملزم اجمل قصاب کے حوالے سے ہندوستانی تفتیش کے بعد وزیر داخلہ چدمبرم اس خدشے کا اظہار بھی برملا کر چکے ہیں کہ ہندوستانیوں کے اس حملے میں ملوث ہونے کے امکانات کو بھی یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا یعنی پچھلے تقریباً ڈیڑھ سال سے غیر ریاستی عناصر کی دہشت گردی بھی پاکستان کے سر منڈھ کر اپنے تئیں انتہائی ذمہ دار اور پرامن ہونے کے دعوے اب خاک میں ملتے نظر آ رہے ہیں مگر اس دوران پاکستان کو مسلسل دیوار سے لگاتے ہوئے اپنے عالمی سطح پر جھوٹا پراپیگنڈہ کرکے اپنے مقاصد کے حصول کو ممکن بنایا گیا۔
اصولاً ہونا تو یہ چاہئے کہ گذشتہ مذاکرات میں معاملات جہاں تک طے پا چکے ہوں ان کا سلسلہ وہیں سے شروع ہونا چاہئے تا کہ نہ صرف مذاکرات بامعنی ہوں بلکہ جلد از جلد نتیجہ خیز بھی ثابت ہوں تا کہ خطے میں امن قائم ہو سکے مگر افسوس کہ جن مقاصد کا ذکر میں کر ہا ہوں ان میں سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جب بھی مذاکرات کی میز پر بیٹھا جائے معاملات کو نئے سرے سے شروع کر یں تا کہ دنیا کے سامنے مذاکرات کا ڈھونڈرا بھی پیٹا جائے اور اپنے مو ¿قف سے پیچھے نہ ہٹتے ہوئے اپنے مقاصد کو حاصل بھی کیا جائے۔ مذاکرات کی موجودہ دعوت میں بھی وقت سے پہلے ہی یہ حقائق آشکار ہیں کہ ہندوستان کی جانب سے کمپوزٹ مذاکرات کی بجائے فقط دہشت گردی (جو ہندوستان کے اندر ہو رہی ہے یا ہوگی )کو ایجنڈے پر سر فہرست رکھا گیا ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ آبی دہشت گردی کو ایجنڈے میں سر فہرست رکھا گیا ہے۔اب ان معاملات میں خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات شروع ہوں گے اور کون جانے کہ ان کا دورانیہ کتنی دیر تک قائم رہتا ہے کہ عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جیسے ہی پاکستان میں کوئی بھی نئی حکومت آتی ہے،ہندوستان جائزے کے بہانے مذاکرات کو تعطل کا شکار کر دیتا ہے اور اس کا یہ ”جائزہ“حکومت کے خاتمے سے تقریباً ایک سال قبل تک چلتا ہے اور پھر ہندوستان احسان عظیم کرتے ہوئے نئے ایجنڈے اور نئے مقاصد لے کر پاکستان کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کا ڈول ڈال دیتا ہے۔ اس طرح ابتدائی کچھ عرصہ ایجنڈے کو ”مشترکہ“ بنانے پر صرف ہو جاتا ہے اور تب تک پاکستان میں حکومت کے تبدیل ہونے کا وقت آ پہنچتا ہے جو عمومی طور پر غیر آئینی ہوتا ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان ایک بار پھر مذاکرات کو ”جائزے “ کی آڑ میں تعطل کا شکار کر دیتا ہے۔ پاکستان کے اندر صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو یہ حقیقت پھر واضح نظر آتی ہے کہ اس وقت بھی پاکستان میں حکومت مخالف جذبات عروج پر ہیں اور چند عناصرموجودہ حکومت کو گرانے کے در پے ہیں گو کہ فی الوقت یہ عناصر آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے حکومت کو باہر نکالنے کے خواہشمند ہیں مگر کون جانے کب یہ جذبات غیرآئینی رخ اختیار کر جائیں؟ایسی صورتحال میں ہندوستان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش میری نظر میں وقت گذاری کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو گی اور اگر پاکستان ،ہندوستان سے مشترکہ ایجنڈا قبول کروانے میں کامیاب ہو گیا تو کیا وہ عناصر جو حکومت مخالفت میں ”حد سے گذر“ رہے ہیں،اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی حب الوطنی کا ثبوت دینے کے لئے تیار ہو ں گے کہ موجودہ جکومت کو ہندوستان کے ساتھ جامع مذاکرات میں کامیاب ہونے دیں؟
 

مینارہ نور مزاح آپ کے خطوط انٹرویو ساءنس  رپورٹس

تصاویر

اردو ادب

 
Email:-jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team