اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

 

Email:- 

Telephone:-         

 

 

 

تاریخ اشاعت02-01-2010

عراق و افغانستان کے بعد تیرا امریکی شکار

کالم:۔روف عامر پپا بریار

دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکی و اتحادی افواج نے نائن الیون کے بعدعراق و افغانستان پر قبضہ کرلیا تھا مگر سچ تو یہ ہے کہ بغداد و کابل میںمذاحمت کاروں نے ایمان و ایقان کی دولت سے جارح افواج کو تگنی کا ناچ نچوادیا۔اوبامہ نے عراق سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کے ٹائم ٹیبل کا اعلان کردیا ہے جو اعتراف شکست کا کھلا ثبوت ہے۔افغانستان میں تو ناٹو کے کمانڈر نے زہنی طور پر شکست تسلیم کرلی کیونکہ انہوں نے عالمی میڈیا کے سامنے اقرار کیا کہ افغانستان کی جنگ کسی صورت میں فتح سے ہمکنار نہیں ہوسکتی اور ملک کے نوے فیصد علاقے پر طالبان کا سکہ چل رہا ہے۔اوبامہ نے کابل سے ناٹو کی واپسی کا عندیہ بھی دیا ہے مگر امریکی صدر کے اعلان کی افادیت اس وقت ہی گہنا گئی جب تیس ہزار نئے فوجیوں کو کابل بھیجنے کا نادر فیصلہ کیا گیا۔کیا امریکی و اتحادی لشکر کابل چھوڑ دیں گے؟ قرائن سے تو ایسے اثار نظر نہیں اتے ۔ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ امریکہ نے وسطی ایشیائی ریاستوں کے تیل و گیس کے زخائر تک پہنچنے کے لئے افغانستان کے زمینی راستوں پر قبضہ کیا۔امریکہ افغانستان میں شیطان کی انت کی طرح دراز رہے گا اور اپنے فضائی اڈوں سے جنوبی ایشیا پر نظر رکھے گا۔امریکہ نے اسرائیل کی بقا اور مڈل ایسٹ میں انرجی کے بہتے سمندروں کو اپنی دسترس میں لینے کے لئے خلیج کی پہلی جنگ کا بہانہ بنا کر عرب خطے میں اپنے فوجی اڈے اور چھاونیاں بنالیں۔صدام کے خلاف جنگ ختم ہوچکی۔عراق میں لنگڑی لولی سیاسی حکومت کو مدت ہوئی کہ وہ انتخابی عمل سے گزر کر حاکمیت کا تاج پہن چکی ہے ۔امریکہ اپنی فوج کوخلیجی ریاستوںسے واپس بلانے سے کیوں ہچکچاتا ہے؟ کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکہ و اسرائیل ایران پر شب خون مارنے کے لئے ان عسکری اڈوں کو استعمال کریں گے؟ عراق و افغانستان کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے نام پر یمن میں تیسرا محاز کھول دیا ہے جو باعث تشویش بھی ہے اور امہ کے لئے خطرات کا سبب بھی۔نیویارک ٹائمزنے سی ائی اے کے توسط سے خبر دی ہے کہ سی ائی اے نے پچھلے سال دہشتگردی کے معاملات میں ماہر ترین تصور کئے جانیوالے اہلکاروں کو خفیہ طور پر یمن بجھوایا تھا۔اخبار کے مطابق امریکہ کی سپیشل فورسز کے کمانڈوز نے پس پردہ یمنی فوجیوں کو دہشت گردی سے نپٹنے کی خصوصی ٹریننگ دی۔پینٹاگون نے خبر دی ہے کہ اگلے بیس مہینوں میں یمنی افواج کی تربیت پر سات کروڑ ڈالر خرچ کئے جائیں گے۔سی ائی اے نے ہائی جیکنگ کی نیت سے ڈائٹرائٹ جانے والے نارتھ ویسٹ کمپنی کے جہاز کو کریش کرنے کی سازش میں ملوث نائیجرین باشندے کو گرفتار کرلیا ہے جس نے بتایا کہ اسے یمن میں موجود القاعدہ کے پیروکاروں نے جہاز تباہ کرنے کی تربیت دی۔اس واقعے کے بعد اوبامہ اور یمنی حکام کے درمیان پیچیدہ تعلقات عالمی توجہ کا مرکز بن گئے۔یمن ہمیشہ سے ہی جہادی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ عدن میں امریکی بحری جہاز کول کو اکتوبر2000 میں القاعدہ نے تباہ کیا تھا۔القاعدہ ممبران نے یمن میں اپنے ٹھکانوں کو مضبوط کرنے کی طرف توجہ دے رکھی ہے۔اوبامہ یمن کے صدر علی صالح عبداللہ کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرر ہا ہے تاکہ یمن کو قائل کیا جاسکے کہ وہ دہشتگردوں کے خلاف کاروائی کرے۔یمن کے صدر کو باور کرایا جارہا ہے کہ صومالیہ اور افریقہ میں جوں جوں القاعدہ مظبوط ہوگی تو اسکے اثرات یمن پر مرتب ہونگے ۔یمن القاعدہ کا مضبوط گڑھ بن جائے گا جس کا رقبہ پاکستانی قبائل کے حجم جتنا ہوگا۔امریکی سینیٹر جوزف لائبرمین نے اگست2009 میں یمن کا دورہ کیا تھا۔لائبرمین نے واپسی پر بتایا یمن لڑائی و دہشت گرد کا مرکز بن چکا ہے۔امریکہ و یمن کے درمیان دہشت گردی کے خلاف اشتراکی تعاون کی بنیاد اس وقت رکھی گئی تھی جب امریکی کمانڈر جنرل ڈیڈ پیٹرسیس نے اوبامہ کے مشیر جان اوبرینین کے ہمراہ عدن کا دورہ کیا تھا۔واشنگٹن میں یمنی امور کے ماہر کرسٹوفر بوئیک کا کہنا ہے کہ یمن کی سیکیورٹی کے اثرات پورے خطے پر ہونگے۔القاعدہ کو یمن میں اس وقت کافی تشہیر ملی جب گوانتاناموبے سے رہائی پانے والے سعد علی الصحری سعودیہ سے بھاگ کر یمن پہنچ گیا۔یمن میں ہمیشہ لاقانونیت کا دور دورہ رہا ہے۔اجکل حکومت کو شمال مغرب میں مسلح بغاوت کا سامنا ہے۔یمن کے مشرق میں علحیدگی پسندوں نے اودھم مچا رکھا ہے۔یمن کے قدرتی وسائل ختم ہونے کو ہیں۔یوں یمنی حکومت کے پاس اتنی دولت و اسلحہ نہیں ہے کہ القاعدہ کا مکو ٹھپ سکے۔ امریکی فوج کے میجر ندال نے کچھ عرصہ پہلے تیرہ ہم وطن امریکیوں کو ہلاک کیا تھا۔امریکی ایجنسیوں نے میجر ندال کا تعلق یمن میں رہنے والے دہشتگردوں سے جوڑ دیا۔تیرہ دسمبر کو یمنی فوجوں نے انتہاپسندوں کے خلاف کاروائی کی جس میں ساٹھ شدت پسند مارے گئے۔وائٹ ہاوس نے یمن کو داد دی اور تسلیم کیا کہ یمنی افواج کو امریکہ نے پیسہ و اسلحہ مہیا کیا۔یمن کے وزیرخارجہ ابو بکر القربی نے اعتراف کیا کہ القاعدہ یمن میں تیزی سے اپنی جڑیں پیوست کرتی جارہی ہے۔ابوبکر نے ساٹھ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی روداد سناتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے گولہ بارود و اسلحہ مہیا کیا مگر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے یمنی ایرفورس نے خودکئے۔گلف ریسرچ سنٹر کے انچارج مصطفی العینی نے کہا کہ امریکہ اور سعودی عرب یمن کے ساتھ خفیہ اطلاعات کا نتائج افزا تبادلہ کررہے ہیں۔متحدہ عرب امارات کویت اور سارے پڑوسی ملک یمن کو مالی وسائل فراہم کررہے ہیں کیونکہ انہیں ہر وقت یہ دھڑکہ لگا رہتا ہے کہ کہیں القاعدہ یمن سے ہمسائیہ ملکوں میں شفٹ نہ ہوجائے۔دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز اپریشن کرنا چاہیے کیونکہ جہادیوں نے ہی امت مسلمہ پر دہشت گردی کے چھاپے لگوائے مگر یمن کو القاعدہ کے خلاف خود اپریشن کرنا چاہیے۔امریکہ ایسے دروغ گو و جنگ باز ملک کو اپنے داخلی معاملات سے دور رکھنا ہی بہتر ہے ۔یمن و خطے کے تمام ممالک کو دوراندیشی سے فیصلے کرنے ہونگے۔مسلمان امریکہ سے سخت نفرت کرتے ہیں۔امریکی مفادات کی رکھوالی کرنے والی حکومتوں کو عوامی قہر و غضب کا شکار بننا پڑتا ہے۔یمن کے پالیسی میکرز اور عسکری افلاطونوں کو غور و فکر کرنا چاہیے کہ اگر وہ شدت پسندوں کے خلاف اپریشن کریں گے تو رد عمل میں یمن بھ کوبھی پاکستان کی طرح خود کش حملوں سیاسی انتشار بم دھماکوں اور دہشتگردی کے سانحات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یمن کے ملوکیت پسند بادشاہوں اور سیکیورٹی فورسز کو امریکی حلیف بننے سے قبل پاکستان اور امریکہ کی پارٹنرشپ پر غور خوض کرلینا چاہیے۔سچ تو یہ ہے کہ دہشت گردی میں امریکی حلیف ہونے کی پاداش میں پاکستان کو لاتعداد مسائل و مصائب کا سامنا ہے۔

 

 
 
Email:-jawwab@gmail.com
Advertise Guest book Privacy Policy Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team