اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-azamazimazam@gmail.com

Telephone:- 03222777698            

 

 

 
 
 
   
 

 

 
 
 
   
 

 

 

تاریخ اشاعت19-05-2010

پارساوں کی گناہوں کی بند گٹھڑی این آراُو

کالم۔۔۔ محمداعظم عظیم اعظم

جمہوریت اور آئین سازشوں کے خلاف ہمارا ہتھیار ہیں....زرداری
چوری اور سینہ زوری ...کوئی وزیر محض الزامات کی بنیاد پر استعفیٰ نہیں دے گا؟
دعویٰ ،دعویٰ چوہدری شجاعت کا دعویٰ سیاست چھوڑ دوں گا ؟


اِن دنوں پاکستان کے علاوہ ساری دنیا میںیہ خبر خاصی اہمیت اختیار کرگئی ہے کہ این آر او کے خلاف آنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کے باعث ملک میں پیداہونے والی صورتِ حال کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کی مجلس عاملہ(سی ای سی) کے اہم اجلاس میںجو صدرمملکت آصف علی زرداری کی سربراہی میں منعقدہوا جس میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے علاوہ سینئر رہنما اعتزاز احسن بھی شریک ہوئے تھے اِس موقع پر اعتزاز احسن کے ماہرانہ مشوروں کی روشنی میں اِس اجلاس میںیہ طے پایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی عدالتوں میں مقدمات کا سامناکرے گی اور کوئی وزیر محض الزامات کی بنیاد پر استعفیٰ نہیں دے گامیرے خیال سے شائد اِسی موقع کے لئے کہاگیاہے کہ آدمی کے غلط رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے غلط عمل کا بھی کوئی نہ کوئی جواز تلاش کرلیتاہے اوراپنی غلطیوں کو بھی صحیح تصورکرتاہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ پی پی پی نے جب یہ تہیہ کرلیاہے کہ عدالتوں میں مقدمات کا سامناکریںگے تو یقینااِس نے اپنے اُن غلط اعمال جن کی بنیاد پر اِس پر مقدمات بنائے گئے تھے اِن سے بچاو کے لئے بھی کوئی نہ کوئی جوازاور کئی تدابیر بھی ضرور ڈھونڈ نکالی ہوں گئیں۔اور اپنی اِسی بات کو میںمزید آگے بڑھانے کے لئے عرض کروں کہ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین بشمول صدرمملکت آصف علی زرادی کوبھی یہ یقین ہوچلا ہے کہ جن پر این آر او کے تحت بند مقدمات کو سپریم کورٹ نے دوبارہ کھولنے کا حکم دیا ہے اُن کی نظر میںوہ بے قصور ہیںاور اِن کی حکومت کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیںاور اِن کی حکومت ہر حال میںجمہوریت اور آئین کا سہارالے کر اِن سازشوں کاڈٹ کر مقابلہ کرنے کوتیار ہے جو ملک میں سازشی عناصر نے اِن کی حکومت کے خلاف تیار کررکھی ہیں اورپاکستان پیپلز پارٹی جمہوریت اور آئین کو حکومت کے خلاف کی جانے والے سازشوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گی اِس صورت حال میںملک کی ساڑھے سترہ کروڑ عوام میں سے ہر فرد یہ سمجھتا ہے جس طرح درخت کو اپنے پھل بھاری نہیں لگتے اِسی طرح گناہ گاروں کو بھی اپنی برائیاںبے وزن معلوم ہوتیںہیںاِسی سوچ کی بناپر شائدصدر زرداری اور اِن کی پارٹی کے اراکین یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بے گناہ ہیںاور انہیں پھل دار درخت کے بے وزن احساس کی طرح اپنی برائیوں کا وزن بھی معلوم نہیں دے رہاہے۔پی پی پی اِس اقدام کے بعدکہ ہماراکوئی وزیر محض بے بنیاد الزامات کی وجہ سے استعفیٰ نہیں دے گا اور ہم مقدمات کا سامنہ کرنے کے لئے عدالتی کٹہروں میں بھی کھڑے ہونے کو تیار ہیںاِس سے یہ بات مبہم نہیں .....بلکہ جواَب واضح طور پر اِس کا اشارہ دے رہی ہے کہ حکومت اور اداروں کے درمیان یہ تناو ¾ کی کیفیت تصادم اور تباہ کاری کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
اورمیرے نزدیک جس طرح ملکی اور عالمی سطح پر یہ خیال کیاجارہاہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر من وعن عملدرآمد نہیں ہوگا جس کاایک اشارہ گزشتہ دنوںوزیر اعظم نے وزیر دفاع کو ائیر پورٹ پر روکے جانے کے واقعہ کے خلاف سیکرٹری داخلہ کی معطلی سے واضح طور پر دے دیاہے اوریہاں اِس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہناچاہتاہوں کہ اگر حکومت نے اَب بھی اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی ضد نہ چھوڑی اورہتھیار نہ ڈالے تو عین ممکن ہے کہ حکومت اور اداروں کے درمیان ایک ایساتصادم کا دروازہ کھل جائے جس کو بند کرناخودسیاستدانوں کے بھی بس میںنہ رہے۔اور پھر اِس تصادم کے دوازے کو بندکرنے کے لئے کوئی طاقتور آدھمکے اور سب اپنااپنا منہ تکتے رہ جائیں۔
یہاںمجھے لاویل کا ایک قول یاد آرہاہے کہ ” میں یہ بات محسوس کرتاہوں کہ صرف حب الوطن ہونا ہی کافی نہیں ہمیں بُروں سے نفرت بھی کرنی چاہئے“اور یہاںمیں یہ سمجھتاہوں کہ اَب وقت آگیاہے کہ عوام حب الوطنی کا ثبوت دیں اور یہ ثابت کردیں کہ وہ اُن بروں سے بھی نفرت کرتے ہیں جنہوں نے اپنے منافقانہ قول اورگھناونے فعل سے ملک اور قوم کو نقصان پہنچایاہے۔
بہرکیف !اِس سے قطعاََ انکار نہیں کہ صدیوں کے بگڑے کب جلد سُدھرتے ہیںمگر یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ اِس وجہ سے انہیں سُدھارنے کی کوشش ہی نہ کی جائے اِس کے برعکس یہاں یہ امر انتہائی حوصلہ افزاضرور ہے کہ پاکستان کی باسٹھ سالہ تاریخ میں شائد پہلی بار ایسا ہواہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے صدیوں کے بگڑے ہووں کو جلد سُدھارنے کے لئے گزشتہ دنوں( اِسی ماہ رواں دسمبر کی سولہ تاریخ کو)ملکی تاریخ کا اہم ترین فیصلہ کرتے ہوئے نصف صدی سے قومی خزانے سے اربوں روپے لوٹنے والے 248بااثرپاکستانی پارساوں کی گناہوں کی گٹھڑی جوپانچ اکتوبر دوہزار سات سے این آر اُو کے غلیظ غلاف سے بندکردی گئی تھی اِس بدبودار خلاف میں چھپے اِن پارساوں کے گناہوں کو باہر نکالنے کے لئے اِسے ایک بار پھر کھولنے کا اپنا حکم نامہ صادر فرمادیاہے۔جبکہ اِدھر ہی ایک افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ حکومت نے بھی این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں کا دفاع کرنے کا ذہن بنالیا ہے اور یہ تہیہ کرلیاہے کہ پوری حکومتی مشنری کے ساتھ اِس کادفاع کیاجائے گا۔اور یہ بتادیاجائے گاکہ پی پی پی کی حکومت کے خلاف کچھ دوست نما دشمنوں نے اِس قسم کی سازش تیارکی ہے۔
جبکہ اِس حقیقت سے بھی کسی باشعور انسان کوانکار نہیں کرنا چاہئے کہ دنیامیں قدرت کے قوانین اٹل ہیںجہاں نیکی کا بدلہ نیکی اور برائی کا بدلہ برائی میں ملتاہے یہ جزا اور سزا اِسی دنیا میں ہی مل جاتی ہے اِس رو سے حکومت چاہئے جتنی بھی کروٹیں بدل ڈالے اگر اِس میں شامل افراد کسی برائی میں ملوث ہیں تو قانون قدرت اِس کی سزا انہیں اِسی عدالت سے اِسی دنیا میں ضرور دے گا۔
ہرمن ہیسے کاقول ہے کہ” اچھے تو بُروں کو بُراسمجھتے ہی ہیں۔ بُرے بھی بُروں کو بُرا سمجھتے ہیں،جیسے مغرور دوسرے مغرور سے نفرت کرتاہے، لالچی دوسرے لالچی سے نفرت کرتاہے، بدمعاش دوسرے بدمعاش سے نفرت کرتاہے ۔ہر بُری عادت والا دوسرے بُری عادت والے سے لازماََ نفرت کرتاہے“۔مگر اِن تمام باتوںکے بلکل برعکس ہمارے یہاں حکمران اپنے گناہوںکو چھپاکر نہ صرف خود اچھا اور پارسا کہلوانے میں لگے ہوئے ہیں بلکہ زبردستی خود کودوسروں سے بھی اپنی نیک نامی کا ڈنکا بجانے کی کوششوں میں متحرک ہیں۔
اُدھردوسری طرف چوہدری شجاعت حسین نے یہ دعویٰ کیاہے کہ اگریہ ثابت ہوجائے کہ ہم نے جائز یاناجائیز یاسیاسی دباو کے تحت کوئی قرض معاف کرایاہے تو میں سیاست چھوڑدوں گااور اِس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ این آر او سے فائد اٹھانے والے وزرا کو خود سوچنا چاہئے کہ انہیں کیا کرنا چاہئے تو میری اِن سے یہ عرض ہے کہ چوہدری جی!این آو او سے فائداٹھانے والے وزرا اور اِن کی پارٹی کے شریک چئیر مین اور ملک کے موجودہ صدر آصف علی زرداری این آر او کے خلاف سپریم کورٹ کے آنے والے فیصلے پرمقدمات کا سامناکرنے کے لئے اپنی اپنی لنگوٹ کس کر میدان میں گود پڑے ہیں آپ انہیں اَب کیامشورہ دے رہے ہیں؟ اور جہاں تک بات ہے آپ کے اِس دعویٰ کی کہ آپ نے کوئی قرض معاف نہیںکرایاہے تو یہ نہیں ہوسکتاکہ آپ ملک کے اتنے مایہ ناز سیاستدان ہیں اور مشرف کے ساتھی ہونے کے باوجود آپ نے کوئی قرض معاف نہیںکرایا ہو ۔ سوچیں سوچیں ذرااور سوچیں ..... اگرآپ نے خود معاف نہیں کرایاہوتو ممکن ہے کہ وہ قرض خود کسی نے معاف کردیاہو تواِس کے بارے میں آپ کیا کہیںگے....؟
اور اِس کے ساتھ ہی میں آج کا اپنا یہ کالم اِس ایک جملے پر ختم کروں گا کہ ایک استاد نے اپنے شاگردوں کو نصیحت کی کہ” اِن لوگوں کی طرح نہ ہوجاو جو بولتے تو سمندر کی طرح ہیں مگر اُن کی سوچ گندے جوہڑوں جیسی ہوتی ہے“۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team