اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-azamazimazam@gmail.com

Telephone:- 03222777698            

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 
 
 
 
   
 

 

 
 
 
   
 

 

 
 
 
 
   
 

 

 
 
 
   
 

 

 

تاریخ اشاعت10-06-2010

خدارا! اَب کوئی مہمان میرے گھر نہ آئے

کالم۔۔۔ محمداعظم عظیم اعظم

 
ننگے بھوگے غریب پاکستانیوں کے لئے اِس بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں
ایک روز حضرت علی ؓ روپڑے ۔پوچھاگیا : کہ حضرت آپ کیوں رورہے ہیں ؟آپ نے فرمایا: کافی دنوں سے میرے ہاں کوئی مہمان نہیں آیا۔مجھے ڈر ہے کہ کہیں رب العزت مجھ سے ناراض نہ ہوگئے ہوں کہاجاتاہے کتنا بڑامرتب ہے کسی مہمان کا اور اللہ والے اپنے یہاں مہمان کی آمد کو اللہ کی راضا سے تعبیر کیاکرتے تھے اور جب مہمان کسی کے گھر کافی عرصہ سے نہیں آتا تو وہ یہ سمجھتے تھے کہ کہیں اللہ اِن سے ناراض تو نہیں ہوگیا اور اِسی طرح آج بھی ہمارے معاشرے میں یہ کہاوت بہت مشہور ہے کہ جس گھر میں مہمان نہ آتے ہوں وہ گھرانہ منحوس ہوتاہے مگر مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب سے میں نے آنکھ کھولی ہمیشہ میںنے اپنے گھر پر مہمانوں کا ڈیرا جمادیکھا روز کوئی نہ کوئی مہمان صبح سویرے اپنے پورے لاو µ لشکر میرا مطلب ہے اپنے اہلِ خانہ سمیت آدھمکتا اور کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ کئی ایک خاندان کئی کئی دن ،ہفتے اور مہینے تک ہمارے گھر پر مہمان بنے رہتے اور ہماری امّا جی اِن مہمانوں کی مہمان نوازی میں بھاگ بھاگ کر لگی رہتیںکہ کہیں مہمان کی خاطر تواضع میں کوئی کسر نہ رہ جائے اِن کے نزدیک اپنے میکے اور سُسرالی مہمانوں کی کوئی تمیز نہ تھی وہ سب کے لئے یکساں اپنی میزبانی کے فرائض محض اِس پر عمل پیرا رہتیںاور اپنی ذمہ داریاںاداکرتیں تھیں کہ ”مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں کوئی کسی کا نہیں کھاتاسب اپنے اپنے نصیب کا کھاتے ہیں “ اور ایسے ہی کچھ عرفہ و اعلی ٰ خیالات ہمارے ابّا سائیں کے بھی تھے وہ جب تک حیات تھے وہ بھی اپنے اِسی جذبے پر قائم و دائم رہے اور وہ گھر پر آئے ہوئے مہمانوںکے لئے اپنی استعداد سے کہیں زیادہ بڑھ کر کیاکرتے تھے۔
اِس طرح اِن کی مہمان نوازی نہ صرف قریبی رشتہ داروں تک مشہور تھی بلکہ ساری برادری میں ہماری امّاجی اور ابّاسائیں کی مہمان نواز ی کے چرچے ہونے لگے تھے بہت سے دور کے رشتے دار بھی اِیسے تھے جو محض اِن کی مہمان نوازی کی جانچ پڑتال کے بہانے کئی کئی دن اور ہفتے ہمارے یہاں مہمان بن کررہتے اور آخر کار جب اِنہیں یہ یقین ہوجاتاکہ میزبان کے ماتھے پر اِن کی موجودگی پر کوئی شکن تک نہیں آئی تو وہ جاتے ہوئے یہ جتاجاتے تھے کہ ہم تو محض اِس کھوج میںآپ کے یہاں مہمان بن کر آئے تھے کہ برادری میں آپ دونوں میں بیوی کی مہمان نوازی کے جو ڈنکے بچتے ہیں وہ صرف اپنے خونی اور قریبی رشتہ داروں کی مہمان نوازی تک محدود ہے یاجو بھی آپ کی دہلیز پر آجائے سب کے لئے آپ لوگ اپنے یہاںمہمانوازی اور میزبانی کرتے ہیں۔
واقعی آپ کی مہمان نوازی ہرخاص و عام کے لئے ایک جیسی ہے اور جاتے جاتے یہی لوگ امّاجی اور ابّاسائیں کو خوب ڈھیرساری دعائیں دے کرجاتے ....مگر جب ابّاسائیں اللہ کو پیارے ہوگئے تو آہستہ آہستہ ہمارے یہاں مہمانوں کی آمدمیں کمی آتی گئی اور ایک وقت توایسا بھی آیا کہ سوائے ہمارے ننھیالی اور ددھیالی رشتہ داروں کے دیگر نے ہمارے گھر آناجانا قدرے کم کردیا تھا۔
شائد اُنہیں یہ یقین ہوگیاتھاکہ اِن کی مہمان نوازی میں کمی آجائے گی مگرسب کچھ اُن کی سوچوں کے برعکس ہوا ہماری امّا جی نے اپنے غریب خانے پر آنے والے مہمانوں کی مہمان نو ازی میں ابّاسائیں کے انتقال کے بعد بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی یہ اُسی طرح سے گھر آئے ہوئے مہمانوں کی خاطر تواضع میں لگی رہتیں جیسے ابّاسائیں! کی موجودگی میں مصروف رہاکرتیں تھی ۔
مگرآج ابّاسائیں کے انتقال کے تیرہ سال بعد امّا جی کی مہمان نوازی میں واضح فرق نظر آیا جِسے نہ صرف ہم سب بہن بھائیوں نے ہی محسوس کیا بلکہ ہمارے بہت سے قریبی رشتہ داروں نے بھی ہم سے امّاجی میں یوں اچانک اِن کی روائتی مہمان نوازی سے متعلق پیداہونے والی تبدیلیوں اور اِن کے رویوں اور سوچوں کا بھی تذکرہ کیا کہ امّاجی ! جسیے اَب گھر آنے والے مہمانوں سے کچھ بیزار سی ہونے لگی ہیں اور اِن میں اَب میزبانی کے وہ تیور نہیں رہے جیسے پہلے کبھی ہواکرتے تھے مگر ہفتہ دس دن سے تو اِن میں کچھ عجیب و غریب قسم کی تبدیلی واقعی آگئی تھی یعنی آپ اِسے یوں سمجھ لیں کہ امّاجی نے جب سے 5جون 2010کو پیش ہونے والے وفاقی بجٹ 2010-2011کی بجٹ تقریر وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی سُنی اور اِس کے بعد سرکاری اور نجی ٹی وی چینلز سے اِس پر تبصرے سُنے اور اِس کے اگلے روز کے اخبارات پڑھے تو اِس کے بعد سے اَب تک امّاجی نے تو حد ہی کردی ہے اُنہوں نے تب سے (اِن سطور کے تحریر کرنے تک) ایک ہی ضد اور رٹ لگارکھی ہے اور وہ مجھ سے یہ کہتی رہتی ہیں کہ میںجلدازجلد اپنے کمپیوٹر سے ایک ایسا پرنٹ(نوٹس لکھ کر) نکالوں اور اِسے اپنے گھر کے مین گیٹ پر لگادوں کہ جس پر یہ تحریر ہو” اِس سے انکار نہیں کہ مہمان بے شک اللہ کی رحمت ہوتے ہیں مگراِس بجٹ 2010-2011 کے بعدجس میں غریب کے لئے آٹے ، گھی اور دالوں پر سے سبسڈی ختم کردی گئی ہے اور عوامی حکومت نے ایک فیصد مہنگائی کم کرنے کے بجائے اُلٹا1فیصد مہنگائی بڑھادی ہے اِس منظر اور پس منظر میں براہِ کرم!خدارا اَب کوئی مہمان کسی (میزبان )کے گھر چند گھنٹے یا ایک دو روز سے زیادہ ٹھیر کر خود کو زحمت نہ بنائیں کیونکہ میزبان بھی اِسی معاشرے کا حصہ ہے اور وہ بھی اِسی منہ توڑاورسینہ زور مہنگائی کا ڈساہوا ہے لہذا وہ )مہمان )کسی کے گھر جاکررحمت کے بجائے زحمت بننے سے اجتناب برتے اور اگر پھر بھی کوئی کسی کے گھر یا ہمارے یہاں اِس نوٹس کو پڑھ کر بھی آنا ہی چاہتاہے تو بےشک! وہ آئے....اور ضرور آئے ...مگر اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیا ضرور ساتھ لائے(ورنہ !ناں آئے) اور وہ حضرات بھی یہ بات اچھی طرح سے نوٹ کرلیں کہ جو صرف چند گھنٹوں کے لئے ہمارے مہمان بنناچاہتے ہوں تو براہِ کرم !وہ بھی اپنے ساتھ دودھ ، پتی، چینی اور دیگر لوازمات ساتھ لائیں ہم اُن کے لئے اپنے گھر سے چائے بناکر صرف سروس پیش کرسکتے ہیں اِس کے علاوہ ہم اِس مہنگائی کے دور میں اپنی طرف سے چائے تو کیا.....؟ بسکٹ تک پیش کرنا گوارہ نہیں کریں گے اَب ....آگے ہمارے گھر آنے والے مہمان کی اپنی مرضی ہے کہ وہ ہمارے گیٹ پر لگے اِس نوٹس کو پڑھ کر ناراض ہو یا خوش اِس مہنگائی کے دور میں اِس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں کہ کوئی ہمارے اِس نوٹس کو پڑھ کر ہمارے متعلق کیاسمجھے گا ....؟اور کیا نہیں....
جی ہاں !قارئین حضرات یہ حقیقت ہے کہ اِس حکومت میں مہنگائی کے بعد ہم جیسے بہت سے غریبوں نے شائد ایساہی کچھ کرنے کا پروگرام بنالیاہومگر ہمیں فخرہے کہ ہماری امّاجی نے ملک کے کروڑوں غریبوں کی نمائندگی اپنے اِس نوٹس سے کردی ہے کہ وہ لوگ جو کبھی اپنے گھر مہمانوں کی آمد کو اللہ کی رحمت جانتے ہوئے باعثِ مسرت سمجھتے تھے اور اِن کی خاطر تواضع میں بچھ بچھ جاتے تھے اَب آج یہی میزبان اِس بجٹ 2010-2011کی آمد کے بعدمجبورہیں کہ اپنے گھروں پر یہ عبارت تحریر کررہے ہیں کہ”خدارا ِس بجٹ کے بعد جس میں آٹے ، گھی او ر دالوں پر سبسڈی ختم کردی اور ایک فیصد مہنگائی بڑھادی ہے اَب کوئی مہمان ہمارے گھر نہ آئے“....
اِس کے ساتھ ہی مجھے آج یہ کہنے دیجئے ! کہ اِس حکومت نے 5جون کواپنے تئین آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے کہنے پر ملک میں مہنگائی کا طوفان برپاکرنے والا بجٹ 2010-2011 بڑی شان وشوکت سے کیا پیش کیا....؟گویا کہ اِس نے اپنے اِس عوام دشمن بجٹ سے ملک کے کروڑوںگھروں کے چولہے ٹھنڈے کردیئے ہیں اور اِسی طرح کروڑوں گھرانوں سے اِن کی برسوں سے جاری مہمان نوازی کی روایات بھی ختم کرنے کا سامان کردیاہے اورشائد آنے والے دنوں میں ملک سے مہمان نوازی کا کلچر بالکل ختم ہوجائے اور دساری مہمان نوازی صرف ایوانِ صدر تک محدود ہوکررہ جائے کیونکہ اِس بجٹ میں ایوانِ صدر کا بجٹ مہمان نوازی کے لئے بڑھادیاگیاہے آج یہی وجہ ہے کہ ننگے بھوکے پاکستانیوں کے لئے اِس بجٹ2010-2011 میںکوئی ریلیف نہیں ہے یوں ملک میں اِس حکومت کا گراف جوکبھی تیزی سے کسی حد تک بڑھ رہاتھااَب اُس سے بھی کہیں زیادہ تیزی سے نیچے کی جانب گررہاہے۔

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team