اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-hameedafridi99@hotmail.com

Telephone:-  03462514083      

 

 

 
 
   
 

 

 
 
 
   
 

 

 

تاریخ اشاعت13-08-2010

اے وطن ایک نظر کے گنہگارہیں

کالم۔۔۔ عبدالحمیدآفریدی

 

کراچی پاکستان کا ایک اہم صنعتی وتجارتی شہر ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی اہمیت وپہچان رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ حالیہ پر تشد د کارروائیوں کو عالمی زرائع ابلاغ نے خاص کوریج دی اور اس امر پر حیرت کا اظہار کیا کہ ایک بہت بڑے شہرکو شرپسندوں نے مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ گزشستہ دنوں کے ہنگاموں ،جلاﺅ گھیراﺅ اور قتل وغارت سے کراچی کے شہری گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ،کاروبار ذندگی پر سناٹا چھاگیا ۔
ایف ۔بی ۔آر کے مطابق کراچی میں حالیہ کشید گی کے باعث مجموعی طور پر محصولات میں یومیہ 4سے5ارب روپے کا نقصان ہورہاہے ۔سیلاب اور کراچی میں دہشت گردی سے قومی خزانے کو ایک ہفتے میں 35ارب کا نقصان ہوا ہے اس کے علاوہ غریب مزدو فاقہ کشی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں،ایک ہفتہ مسلسل کاروبار زندگی بند ہونے سے غریب عوام کے گھروں کے چولھے ٹھنڈے پڑگئے ۔
بیرون ملک گرین پاسپورٹ رکھنا پاکستانی ہو نے پر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو پہلے ہی ناکام ریاستوں کی فہرست میں شامل کیا جاچکا ہے ۔نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان کو پتھروں کے دور میں پہنچنانے کے قریب تھاکہ رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کردی۔خیبر پختونخواہ جو کہ دہشت گردی ،خودکش بم دھاکوں کے حوالے سے سرفہرست تھا ۔وہاں سیلاب نے اپنا کام کردیا۔گاﺅں کے گاﺅں اور شہر سیلابی ریلے کے نظر ہو گئے ۔متعد دبستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئی ۔سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد 40لاکھ ہے 1600سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہے۔وزیراعلی امیر حید ہوتی نے ایک بیان میں کہا کہ سیلاب سے خیبر پختونخواہ50سال پیچھے چلاگیا ہے ۔ملک کی مجموعی صورتحال پر ایک نظر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ وطن عزیز کے ایک گوشے میں بھی امن وآشتی نہیں ۔ساری قوم دکھ درد وپریشانی کے عالم میں ہے ۔خیبر پختو نخواہ اور پنجاب میں دہشت گردی کے بعد تاریخ کے بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے۔بلوچستان میں حالات ٹھیک نہیں دہشت گردی اور خودکش بم دھماکوں کےساتھ ٹارگٹ کلنگ جاری ہے ۔سندھ میں سیلاب کی آمد ہے اور کراچی و حیدرآباد میں حالات کشیدہ ہے ۔
پیر کے روز متحدہ قومی موومنٹ کے رکن اسمبلی رضا حیدر کے قتل کے بعد شہر میں ایک نہ تھمنے والاٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے جلاﺅ گھیراﺅ اور فائرنگ شروع کردی گئی ،شہری گھروںمیں محصور ہو کررہ گئے 7دنوں تک92 افراد کو قتل کردیا گیا ۔شرپسندوں نے ہوٹلوں ،دوکانوں اور گاڑیوں پر کیمیکل پھینک کر آگ لگادی۔پورا شہر شرپسندوں کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا ،حسب روایت قانون نافذ کرنے والے ادارے ،پولیس اور رینجرز خاموش تماشائی کا کردار اد ا کر تی رہی۔ رکن اسمبلی رضا حیدر کے قتل کو لسانی رنگ دینے کے لئے پختونوں کا قتل عام کرایا گیا املاک کو نذرآتش کیا گیا۔شہر قائد میں کر غزستان کی طرح نسلی ولسانی فسادات کرانے کی کوشش کی گئی ۔یوں ہم دیکھتے ہیںکہ پورے ملک کے عوام غم سے نڈھا ل ہے اس صورتحال میں حکمران ہنگامی بنیادوں پر اپنی قوم کی خبرگیری کرتے ہیں اور انھیں ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔مگر صد افسوس کے اس ملک کے حکمران کشمیر اورافغانستان جیسے کٹھ پتلی حکومتوں کی طرح ہیںجو برائے نام صد ریا وزیراعظم ہے ۔اگر صدرآصف علی زرداری کو وطن عزیز کا زرا بھی دکھ دورد ہو تا تو وہ دورہ بر طانیہ منسوخ کرلیتے مگرانہیں وطن سے زیادہ ذاتی مفادات عزیز ہے ۔برطانیہ ،دوبئی اور سوئیزلینڈ یہ تو پاکستا نی حکمرانوں کے حقیقی گھر ہے پاکستا ن سے توصرف مطلب پورا کرتے ہیں ۔
حضرت عمر فاروقؓنے فرمایاکہ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرجائے تو عمرؓ اس کا زمہ دار ہو گا ۔آخر وہ کیا وجہ تھی کہ عمرؓ اپنی مجلس مشاورت پر بھروسہ نہیں کرتے تھے بلکہ اس مقصد کے لئے مدینے کی گلیوں میں رات گئے گھوم کر لوگوں کے حالات معلوم کرتے تھے آپ ؓ خو دخبر گیری رکھتے تھے ۔آج ہمارے ہاں بھی ایک اسلامی حکومت ہے اور یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھاجس کانام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا۔مگر آج کے حالات دیکھ کر افسو س ہوتا ہے کہ اے وطن عزیز تجھ کو کیا ہو چلا ہے ۔
گزشستہ دنوں میرے موبائل پر ایک ایس ایم ایس موصول ہو اجس میں تحریر تھا © ©”1947 میں رمضان اگست کے مہینے میں آیا تھا اس وقت ہمیں ایک ملک کی ضرورت تھی اور اس سال رمضان اگست کے مہینے میں آرہا ہے ۔مگر افسوس کہ ہمیں آج ایک قوم کی ضرورت ہے “۔
واقعی آج ہمیں ایک قوم کی ضرورت ہے ہم بٹ چکے ہیں ہمیں لسانی تعصبات میں تقسیم کرنے کی کوشش مزموم کو شش کی جارہی ہے ،پنجابی ،سندھی ،بلوچی ،پٹھان اور مہاجر کانام دیں کر ہمیں تفرقات اور نفرتوں کے بھینٹ چڑیا جارہاہے وطن عزیزمیں کئی نئے صوبے کے نام پر، کئی حقوق کی عدم دستیابی پر ،کئی فرقہ واریات کے نام پر تو کئی زبان ونسل کی بنیاد پر قتل وغارت کا بازار گرم کرلیا گیا ہے گوکہ ہم سب اندھے ،بہرے اور گونگے ہوگئے ہیں ہماری دلوں پر مہریں لگادئی گئی ہے مارواورمرو پر عمل پیرا ہے ۔
ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے لیکن گزشستہ ایک ہفتے سے شہر میں بدترین دہشت گردی اورپرتشد د کارروائیاں کی گئی ۔وزیر داخلا رحمان ملک نے کشیدہ صورت حال کے دوسرے دن ایک انٹرویوں میںکہا کہ کراچی میں جو کچھ ہو ا اس کا ردعمل تھا رحمان ملک صاحب یہ بتائے کہ اگر اس دہشت گردی میںان کا کوئی بھائی عزیز جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا تو پھر آپ کیا کرتے یا کیا کہتے ۔شہر قائد میں پختونوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ۔پختونو ں کے ٹرانسپورٹ ،دوکانوں ،ہوٹلوں اور یہاںتک گھروں کو بھی ندزآتش کیا گیا۔اس کا ذمہ دار کون ہے؟ایک بے گناہ انسان کے قتل سے کئی خاندان تباہ ہوگئے بچے یتم ہوگئے ان مرنے والوں کے گھر جاکردیکھا جائے کہ وہاں کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔
رکن ا سمبلی رضا حیدر کے قتل میں کیا یہ پختون مزدور طبقہ ملو ث ہے کہ جن کا کسی سیاسی ومذہبی پارٹی سے دو رکا بھی واسطہ نہیں ۔ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والے اکثریت پختونوں کا اے این پی سے کو ئی تعلق نہیںتھا ۔
اے این پی اور متحدہ قومی موومنٹ اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کےلئے شہر کے حالات بگاڑتی ہے اور پھر اس میںان بے گناہ مہاجروںاور پختونوں کا قتل ہوتا ہے جن کا سیاست سے کو ئی تعلق نہیں ہوتا وہ تو بس اپنی پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے شہر قائد میں محنت مزدوری کرتے ہیں ٹارگٹ کلنگ کے بھینٹ چڑجاتے ہیں املاک کو نذرآتش کردیا جاتا ہے ۔عجیب فتنہ وفساد برپا ہوگیا ہے ایک شہر ایک ملک ایک قوم اور ایک مذہب سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ہرفرد دوسرے کو شک کی نگاہ سے یکھنے لگا ہے ڈر وخوف دلوں میں بیٹھادیاگیا ہے ۔پینٹ شرٹ پہنو تو پٹھان نہیں چھوڑینگے ،شلوار قمیض پہنوتومہاجر نہیں چھوڑینگے ،چھڈی پہنوتو طالبا ن نہیں چھوڑینگے اور ننگے گھوموں توعوام نہیں چھوڑیں گی۔یہ حقیقت ہے ایسا ہورہا ہے مگر امن کاطلب گار انسان کہاں جائے اپنا بسیرا اور آشیانہ کہاں تلاش کریں ۔
مجھے سوال حکومت سے وفاقی اداروں سے،قانون نافذکرنے والے اداروں سے،رینجرزسے اور پولیس سے ہیں کہ جب پورا شہر جلتا ہے قتل وغارت کابازار گرم ہوتا ہے املاک کو نذرآتش کیا جارہا ہوتا ہے اس وقت نہ جانے یہ سب کہاںغائب ہوجاتے ہوں جب شرپسند عناصر اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر یہ سب برساتی مینڈکوں کی طرح باہر آجاتے ہوں اور پھر فوٹو سیشن کے لئے اجلاسیں ہوتی بیانات جاری ہوتے ہیںرینجرز اور پولیس کا سڑکوں پر گشت شروع ہوجاتا ہے اس کے کچھ عرصہ بعد کہانی پرانی قصہ ختم ۔
گزشستہ سانحات واقعات کے مطالعہ سے یہ بات عیاںہو تی ہے کہ شہر قائد باردو،کیمیکل اور اسلحہ کے ڈیر پر بیٹھا ہے 12مئی کا سانحہ، 27 دسمبر 2007کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے شہادت کے بعد ،عاشورہ میں خودکش بم دھماکہ کے بعد، اور اب متحدہ کے رکن اسمبلی رضا حید ر کے قتل کے بعدشہر قائد کو ملیا میٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔اب اگر چہ حالات زندگی معمول پر آرہی ہیں مگر مستقبل میں ایسے حالات دوبارہ پیدا نہ ہونے کی گارنٹی حکومت کے پاس نہیں ۔ کسی بھی اہم سیاسی رکن کے قتل یاکوئی بڑا سانحہ رونما ہونے سے کراچی کے حالات سیکنڈوں منٹوں میں شرپسندوں کے کنٹرول میںہوتے ہیں وہ جو چاہے کر گزرتے ہیں حکومت کو چاہیے کہ وہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے منصوبہ بندی کریںکراچی کے شہریوں کی جان ومال کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔مگر افسوس کہ اس شہرمیںاپنے ساتھ محافظ رکھنے والا متحدہ قومی موومنٹ کے رکن اسمبلی رضاحیدر کی جان محفوظ نہ ہوسکی تو پھر عام شہریوں کی جان کیسے محفوظ ہوسکتی ہے ۔
سیلاب خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں تباہی مچانے کے بعد سندھ میں تباہی کررہا ہے بند ٹوٹنے سے لاکھوں افرادپھنس گئے ہیں ہنگامی اقدامات کے لئے فوج کے اضافی دستے طلب کئے جارہے ہیں پورا ملک تاریخ کے بدترین سیلاب کا شکار ہے ایک طر ف سیلابی ریلے سے اموات ہورہی ہے لاکھوںلوگ بے گھرہورہے ہیں مصیبت کی ہرگھڑی میں کراچی کے عوام نے قدرتی آفات بچنے کے لئے ملک کے عوام کی دل کھول کر مد د کی ہے شہر کے سیاسی ومذہبی پارٹیوں نے بھی متاثرین کی ہر بار امداد فراہم کی ہے مگر صد افسوس کے آج ہم خود ست گربیان ہے ہنگاموںکی وجہ سے شہری سیلاب سے متاثرہ افراد کو بھول چکے ہیں انھیں اپنے غم نے نڈھال کررکھا ہے صدر آصف علی ذرداری برطانیہ کے مزہ لوٹ رہے ہیں ارکین پارلیمنٹ جعلی ڈگریوں کے حوالے پریشان ہیں ۔میانوالی کے سیلاب زدہ علا قوں میں وزیراعظم کو جعلی میڈیکل کیمپ کا دورہ کرایا گیا ۔اس وقت پوار ملک تاریخ نازک موڑ سے گزر ہاہے رعایاکا کوئی پرسان حال نہیں ۔اے وطن عزیز تجھ کو کیا ہو چلا ہے بس ہم ایک نظر کے گنہگار ہیں۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team