اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-hameedafridi99@hotmail.com

Telephone:-  03462514083      

 

 

 
 
   
 

 

 
 
 
   
 

 

 

تاریخ اشاعت20-08-2010

ایم اے کے امتحان کا ایک قصہ

کالم۔۔۔ عبدالحمیدآفریدی

جامعہ کراچی

انسان وقت اور حالات کے مطابق نت نئے تجربات حاصل کرتا ہے ایک ایسا ہی اساب شکن اور گھٹن تجربہ ہم نے ایم اے کے امتحان میں دیکھا اس سے پہلے جامعہ کراچی میں امتحانات دیئے مگر ایسا تلخ تجربہ امتحان دینا کا پہلی بار سامنے آیا ۔
صبح سویرے جامعہ کراچی کی سبز ہریالی اور کسی ڈپارٹمنٹ میں پنکھے کے نیچے بیٹھنے کا خواب و خیال دل ودماغ میں لئے روانہ ہوئے،ڈیڑھ گھنٹے کا طویل سفر طے کرنے کے بعد یونیورسٹی کے گیٹ سے اندر داخل ہوئے اور ایک نظر اپنی ڈیٹ شیٹ پر ڈالی جس پر تحریر تھا نیو ایگزامینشن کیملپس ہم سمجھے کہ واقعی کو ئی بڑی نئی تیا رشدہ عمارت ہو گی جہاں امتحان لیا جائے گا مگر جب منزل امتحان پہنچے تو ہو ش ٹکانے لگ گئے ۔کسی شادی بیاہ یا کسی جلسہ گاہ کی طرح ٹینٹ لگائے گئے تھے ،طالب علم اپنے اپنے سیٹوں کے لئے دھر دھر بھاگ رہے تھے ،ٹو ٹے پھوٹے ڈسک مٹی سے بھرے ہوئے شدید گرمی اور حبس سے مجھ سمیت تمام طالب علموں کا بہت بر ا حال تھا ۔میرا چہرہ گرمی سے ایسا جھلس رہا تھا کہ پاس ہی شاید کسی نے لکڑیاں اکٹھی کرکے آگ لگا رکھی ہو ،ماتھے اور ہاتھوں کے پسینے سے آنسر شیٹ بھیگی جارہی تھی بار بار رومال سے باتھوں اور ماتھے کے پسینے کو پونچھتے رہتے اور جوابات تحریر کیے جارہے تھے سخت گرمی اور حبس میں جہاں پنکھے کا نام ونشان تک نہیں تھا استاتذہ سمیت طالب علموں کا پیاس سے برا حال تھا امتحان گاہ کا منظر کسی کربلا سے کم نہ تھا جہاں سب کے سب پانی کے لئے ترس رہے تھے ۔
اس سخت ذہنی کو فت میں لکھتے لکھتے اس وقت ایک عجیب صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور دل ہی دل میں ہنسی بھی آئی جب امتحان گاہ میںٹریکٹر رنمودار ہواپہلے پہل تو ہم ذرا سے چونک گئے کہ آخر امتحان گاہ میں ٹریکٹر کیا کررہا ہے مگر جب نظر دوڑاھائی تو معلوم ہو ا کہ یہ ٹریکٹر ہم پیاسوں کے لئے پانی لیں کر آیا ہے۔وہ بھی دوپہر بارہ بجے
اس تمام صورتحال کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ مجھے گلہ و شکوہ ان پڑھے لکھے جاہل طالب علموں سے بھی ہے پڑھے لکھے جاہل اس وجہ سے کہوں گا کہ امتحان گاہ کے ماحول کو مکمل طور پر ڈسڑب کے ہوئیں تھے اداب واخلاق یا بہتر انداز گفتگو تو ایسے طالب علموں کو چھو کر بھی نہیں گزری ۔اگر تعلیم آپ کو استاتذہ سے مذاق کرناسیکھاتی ہے یا بد تمیزی سیکھاتی ہے تو پھر میرا مشورہ ہے کہ ایسے نوجوانوں کو تعلیم حاصل نہیں کرنی چاہیے ،تعلیم یافتہ نوجوان اور پھر ایم اے کے درجہ پر فائز طالب علموں سے کم ازکم یہ امید نہیں ہو نی چاہیے کہ وہ امتحان گاہ میں ہونٹگ کریں استاتذہ کا مذاق اڑائے ،ایسے قول وفعل سے امتحان گاہ اور اپنے ساتھ تمام ماحول کو ڈسٹرب کرتے ہیں ۔
پیپر کی بھر پور انداز سے تیاری تھی مگر اس عجیب و غریب امتحان گاہ کے ماحول میں وہ سب یاد کیا ہو ا سبق ذہن سے ایسا اڑاجیسے کہ دسمبر کی سر د شاموں میں درختوںسے مرجھائے ہوئے پتے اڑجاتے ہیں ۔
سخت گرمی اور حبس میں شامیانے لگا کرتین گھنٹے امتحان لینے کا تصورپاکستان کے علاوہ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں۔ہاں البتہ اگر آپ ٹیسٹ لیتے ہیں تو پھر ایک ادھ گھنٹہ کے لیے ایسے عارضی جگہ بنا کر ٹیسٹ لیا جاسکتا ہے مگر مسلسل تین گھنٹے اور پھر ہر پیپر کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب ذہنی اذیت سے کم نہیں ۔
یہ تمام صورتحال سرکاری تعلیمی نظام کی تھی اب میں ایک ایسے امتحان کی کار گزاری ضبط تحریر میں لانا چاہتا ہو جسے پڑھنے کے بعد آ پ خود بتائینگے کہ کونساامتحانی نظام بہتر ہے ۔
گزشستہ سال IELTSکا ٹیسٹ برٹیش کونسل سے دیا ۔نظام ٹیسٹ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ ٹیسٹ یا امتحان جو لیا جارہاہے یہ پاکستان کے اندر ہے لیکن یہ نظام پاکستان کے تعلیمی اداروں سے کئی گنا بہتر تھا ۔رائٹنگ اور لسننگ ٹیسٹ کے لئے جب ہم امتحان گاہ پہنچے تو نہایت ادب واخلاق سے طالب علم قطاروں میںلگ کراپنے دستاویزات ٹیچروں کو دیکھا رہے تھے کوئی ہو ٹنگ کوئی شورشرابہ نہیں تھا شناخت کرنے کے بعد جب ہم امتحان ہال میں گئے تو حیران رہ گئے کہ ہر ڈسک پر پہلے سے امیدوار کی تصویر یعنی مکمل ایڈمٹ کارڑ کی کاپی منسلک تھی کسی قسم کی کوئی چیٹنگ نہ ممکن تھی اور نہ سرکاری نظام امتحان کی طرح کو ئی اصل امیدوار کی جگہ تصویر بدل کر امتحان دینا ممکن تھا پرسکون ماحول آرام دہ ڈسک مقصد کہنا کہ یہ ہے کہ ایک ایسا ماحول تھا جہاں آپ کو اگر کچھ یاد نہ ہو تو وہ بھی ذہن میں آجاتا اور آپ نہایت عمدہ طریقے سے جوابات لکھتے ۔اور پھر رزلٹ کا جتنے دن میں کہا گیا تھا اس سے نہ ایک دن آگے اور نہ ایک دن پیچھے بلکہ وعدے کے مطابق اسی دن رزلٹ گھرپہنچا ۔اسے کہتے ہے نظام تعلیم یا پھر نظام امتحان ۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں کیا صورتحال ہے یہ میں اور آپ بلکہ ہم سب باخوبی جانتے ہیں نقل سے لیں کر جعلی ڈگریاں کیسے بنتی ہے ۔
اوپر بیان کی ہو ئی صورتحال پہلے پیپر کی ہے بعد میں پنکھے لگائے گئے مگر پچاس ساٹھ طالب علموں کے لئے ایک سٹینڈ فین لگا یاگیا جس کی ہو ا صرف ایک یا دو افراد تک محددو تھی اسی طرح جو پانی کا انتظام کیا گیا وہ بھی گرم تھا۔
جامعہ کراچی میں امتحان ہوتے رہتے ہیں لیکن شامیانے لگا کر امتحان لینے کا جو نظام ہے یہ سمجھ سے بالا تر ہے امتحان کے دوران جامعہ کراچی کے ریگولر کلاسیس آف تھی زیادہ تر ڈپارٹمنٹ خالی تھے ان ڈپارٹمنٹ میں امتحان لیے جاسکتے تھے ۔مگر ہزاروں روپے فیس دینے کے باوجود امیدوار شدید گرمی ،تپتی دھوب اور بدترین حبس کے ماحول میں پرچے دینے پر مجبور تھے اور مون سون کے پیش نظر امتحانی مراکز شعبہ جات میں قائم کیے جاسکتے تھے مگر اس طرف توجہ نہیں دی گئی بلکہ لاکھوں روپے خرچ کرکے شامیانے ،قناتیں اور کرسیاں کرائے پر منگوا کر امتحانی مراکز قائم کئے گئے جبکہ جامعہ کراچی اس رقم سے اسی زمین پرسمینٹ اورلوہے کے پائپوں کی مدد سے مضبوط شیلٹر لگاسکتی تھی ۔جہاں طالبہ دھوپ اور بارش دونوں سے محفوظ رہتے ۔اسی طرح جامعہ کراچی خود کرسیاں خرید کر ہمیشہ کے لئے کرائے کی کرسیوں سے جان چھڑاسکتی تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس جدید سائنس وٹیکنالوجی کے دور میں جہاں دیگرممالک کے سرکاری جامعات میں طالبہ اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں وہاں کا تعلیمی نظام اورامتحانی نظام نہ صرف بہت بہتر ہے بلکہ وہاں طالبہ کے لئے نہایت بہتر ماحول میسر ہو تا ہے جہاں طالبہ ذوق تعلیم کو پورا کرتے ہیں ۔ہمارے ہاںحکومت بلند وبانگ دعوے اعلانات کرتی ہے تعلیم کے لئے گرانٹ کی منظوری ہوتی ہے مگر اس کے باوجود سرکاری اسکولوں اور کالجوں کا جو حال ہے ان کا منظر ہم سب کے سامنے ہے ہم گلہ یا شکوہ کس سے کریں ان لوگوں سے جن کی خود کی ڈگریاں جعلی ہے یا ان لوگوں سے جو یہ کہنے پر شرم محسوس نہیں کرتے کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے چاہے جعلی ہو یا اصلی ۔ہم سوال کس سے کریں فریاد کس سے کریں یا پھر یہ سب کچھ بس ایک ا للہ پر چھوڑ دیں۔کیونکہ قیامت کی نشانیوںمیں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ قیامت قریب میںتم لوگوں پر نااہل حکمران ملسط کردیئے جاینگے اورآج یہ نشانی پوری ہو تی دیکھائی دیں رہی ہیں۔

عبدالحمیدآفریدی
hameedafridi99@hotmail.com
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team