اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-hameedafridi99@hotmail.com

Telephone:-  03462514083      

 

 

 
 
   
 

 

 
 
 
   
 

 

 

تاریخ اشاعت21-10-2010

شہر کراچی میں لاقانونیت کا راج

کالم۔۔۔ عبدالحمیدآفریدی


کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی و تجارتی شہر ہونے کے ساتھ تعلیمی ،مواصلاتی واقتصادی مرکز بھی ہے اس شہر کا شمار دنیا کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے ملک کی سب بڑی بند رگاہ اور ہو ائی اڈہ بھی اسی شہر میں قائم ہے 1947سے1960تک کراچی پاکستان کا دارلحکومت بھی رہا ہے انیسویں صدی میں اس شہر کی تعمیر وترقی کی بنیادیں ڈالیں گئی ۔1936میں جب سندھ کو صوبہ کی حیثیت دی گئی تو کراچی کو اسکا دارلخلافہ منتخب کیا گیا ۔1960کی دہائی تک اس شہر میں کافی ترقی ہو ئیں۔ جس سے شہر صنعتی زون کی حیثےت اختیار کرگیا۔معاشی حب ہو نے کے باعث ملک کے چھپے چھپے سے لوگ روزگار کی تلاش میں یہاں کا رخ کرتے ہیں کراچی کو منی پاکستان بھی کہاجاتا ہے ۔یہاں مختلف مذہبی ،نسلی اور لسانی گروہ آباد ہیں 80اور90کی دہا ئیوں میں یہ شہر لسانی فسادات اور دہشت گردی کا شکار رہا ہے لسانی فسادات کوختم کرنے کے لیے پاک فوج کوآپریشن کرنا پڑا۔گزشستہ 150سالوں میں کراچی کی آبادی اور دیگر اعداد وشمار میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی ہیں غیر سرکاری اور بین الاقوامی زرائع کے مطابق کراچی کی موجودہ آبادی 20سے25ملین ہے جو کہ 1947ءکے مطابق 37گنا زیادہ ہے آزادی کے وقت شہر کی آبادی صرف 4لاکھ تھی ۔جس طرح کراچی شہر پھیل رہا ہے اسی طرح اس کی آبادی 5فیصد سالانہ کے حساب بڑھ رہی ہے جس میں اہم ترین کردار گاﺅں اور دیہاتوںسے لو گوں کی زریعہ معاش کے لئے شہر کی طرف منتقلی ہے ۔ایک اندازے کے مطابق ہر ماہ 45ہزار افراد شہر قائد پہنچتے ہیں ۔اس شہر کو بین الاقوامی درجہ حاصل ہے یہاں کے باسیوں میں سندھی ،بلوچی ،پنجابی ،پٹھان،گجراتی ،کشمیری،سرائیکی اور 10لاکھ سے ذائد افغانی بھی شامل ہیں جو 1979ءمیں افغانستان پر سویت یونین کی جارحیت کے بعد ہجرت کرکے شہر قائد میں پہنچے تھے اور اب یہاں کے مستقل باسی بن چکے ہیں ان مہاجرین میں پختون،تاجک ،ہزارہ،ازبک اور ترکمان شامل تھے ان کے علاوہ بنگالی ،عرب ،ایرانی ،اراکائی کے مسلم مہاجرین اور افریقی مہاجرین بھی اس شہر میں قیام پذیز ہے اس کے علاوہ گوا سے تعلق رکھنے والے کیتھولک عیسائیوں کی بڑی تعداد اس شہر میںآباد ہیں جو برطانوی راج کے زمانے میں یہاں پہنچے تھے۔ان اعداد وشمارسے اس با ت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کراچی کے معاشی واقتصادی ترقی میں کسی ایک مخصوص قوم یا گروہ نے کردار ادا نہیں کیا بلکہ مختلف قوموںنے مل کر اس منی پاکستان کی ترقی میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ۔یہ شہر پاکستان کا تجارتی دارلخلافہ ہے جو جی ڈی پی کے بیشتر حصہ کا حامل ہے قومی محصولات کا 65فیصد اسی شہر سے حاصل ہوتا ہے ۔
اتنا بڑا شہر جس پر پورے ملکی معیشت کادارومدارہو،جس شہر میں معیشت کا پیا چلنے سے پوراملک چلتا ہوایسے شہر میں لاقانونیت کا راج ہوجائے توپھر اس ملک کاخداحافظ ہی ہے آئے دن ہڑتالیں ،جلاﺅگھیراﺅپرتشدواقعات ،دہشت گردی ،خودکش بم دھماکے ،لسانی فسادات ،مذہبی فرقہ واریت ،سیاسی قتل وغارت اور ٹارگٹ کلنگ ڈکیتی و رہزانی کی وارداتیں اس شہر کا ایک حصہ بن گئی ہے روشنیوں کے اس شہرمیں یہ حالات آنے کے بعد کی رونقیں مانند پڑگئی ۔ا س شہر کی سکیورٹی کے لئے یقینا قانون نافذ کرنے والے ادارے ،رینجرز،پولیس اور دیگر انٹیلی جنس ادارے موجود ہیں ۔مگرچند مٹی بھر شرپسند عناصرمنٹوں میں شہر کا امن وسکون تہاوبالا کردیتے ہیں شہر میں لاقانونیت کا راج ہوجاتا ہے لاشیں گرتی ہے زمین بے گناہوں کے خون سے تر ہوجاتی ہے سرراہ عام انسانوں پر ایسے گولیاں پرسائی جاتی ہے جیسے کوئی دشمن پر نہیں برستا۔شہر قائد میں ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت کبھی علماکرام کو شہید کیا جاتا ہے تا کہ مذہبی فرقہ واریت کو ہو ا دی جاسکیں ،کبھی سیاسی قتل وغارت کے زریعے شہرکاامن وسکون برباد کیا جاتا ہے کبھی خو کش بم دھماکوں کے زریعے کبھی عام افراد کی ٹارگٹ کلنگ کرکے تو کبھی ہڑتالیں جلاﺅگھیراﺅ اور پرتشدد واقعات کرکے ۔ یہ سب کارروائیاںایک عرصے سے وقفہ وقفہ سے جاری ہے جس میں اب تک ہزاروں بےگناہ افراد اپنی جانوںسے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں ۔شہر میں جنگل کا قانون ہے اگر کہاجائے کہ جنگل میں بھی ایک قانون ہوتا ہے تو بے جا نہ ہوگا مگر اس شہر میں لاقانونیت کا ایسا راج ہے کہ ایک اعلیٰ سیاسی شخصیت سے لیں کرعام فرد تک کسی کی جان محفوظ نہیں مگر حکومت اور شہر میں قانون نافذکرنے والے ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں ۔
1985سے شہر کراچی میں یہی کچھ ہورہاہے سیاسی مصلحت اور ذاتی مفادات کے خاطر حکمرانوں نے اس شہر کے امن وسکون کو بالائے طاق رکھاہے ۔موسم کی طرح شہر میں دہشت گردی کے واقعات میں بھی فرق پڑا ہے جیسے دوماہ ڈاکٹرز کونشانہ بنایا جائے گا ۔ایک ماہ علماءکرام کو شہید کیا جائے گا۔اس کے بعد سیاسی کارکنوں کولٹانے کاموسم شروع ہوگا،پھر بندوقوںپر کپڑا چڑھادیاجائےگا ۔اس کے بعد ہائی پروفائل شخصیت کا شکار ہوگا ۔پھر طبقاتی معیشت کو نشانہ بنانے کی سریز چلے گی ۔صرف دکانیں ،بسیںاور ویگنیں جلیں ۔کچھ علاقوں کی ناکہ بندی ہو گی ۔عام لوگوں کو سرراہ گولیوں سے بھون دیاجائے گا۔پریس کانفرسوں میں ایک دوسرے پر الزامات لگائے جائینگے ،کوئی قاتلوں کا نام نہیں لیں گا ۔نامعلوم مسلح افراد پرا لزام دھرا جائےگا ۔یہ سب بڑی ترتیب ،تہذیب اور ہم آہنگی کے ساتھ ہوگا ۔کارکن مرا تو دودن ہڑتال ہوگی ۔لیڈر مارا جائے تو ہفتہ بھر زندگی چھٹی کرےگی ۔املاک کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ چلا ہے تو پندرہ دن کاروبار ٹھپ رہے گا ۔جس طرح منظم انداز سے شہرمیں کارروائیاں ہورہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک دشمن عناصر بیرونی اشاروںپر چل رہے ہیں وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرناچاہتے ہے کراچی کے معیشت کو تباہ بربادکرناچاہتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے سے شروع ہونے والے ٹارگٹ کلنگ میں اب تک 80سے زائد ہلاکتیںہو ئی ہے جس میں سب سے بڑا سانحہ شیرشاہ ہے جس میں مسلح دہشت گردوں نے بیاوقت 10افراد کو دن دہاڑے موت کے گھاٹ اتاردیا ۔کراچی کے حالات اورواقعات پر عالمی میڈیا نے لکھا ہے کہ شہر میں 90کی دہائی کی یاد تازہ ہو گئی جب حالات دورست کرنے کے لئے فوج کو طلب کیاگیاتھا ۔
جو منظر ہم کراچی کا دیکھ رہے ہیں اور جو حالات اور واقعات رونما ہورہے ہیں حکومت صر ف زبانی بلندوبانگ دعوے کررہی ہے شہر میں قانون نافذکرنے والے ادارے ،رینجرز اور پولیس کے پاس اختیارت نہیں ہے۔بندوقیں ہونے کے باوجود وہ پتھروں اور ڈنڈوں سے بھاگ جاتے ہیںتو پھر اس شہر کا کیا ہوگا ۔پورے شہر میںلاقانونیت کا راج ہے انسان کی ذندگی نہایت سستی ہو گی ہے سیاسی دوکان چمکانے کے لئے پارٹیاں ایک دوسرے پرالزاما ت لگاتی ہے بے گناہوںکا قتل عام ہو تا ہے سوگ منایاجاتا ہے ملکی معیشت کوایک دن میں دوسے ڈھائی ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے غریب متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افرادکے گھروں کے چولھے ب ±ج جاتے ہیں ۔آخر ہم ایک لمحہ کو بھی یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ظلم آخر سے ہے بڑھتا ہے تومٹ جاتاہے نہ ظلم سہنے والے کو ہمیشہ اس دنیا میں رہنا ہے اور نہ ہی ظلم کرنے والے کو بالاآخر دونوں کوایک نہ ایک دن اس دنیا سے رخصت ہونا ہے اور دونوں کی منزلیں ایک ہی ہے ۔
حالات کو دورست کرنے کے لئے سیاسی قائدین کو آپس میں مل بیٹھ کر کوشش کرنی ہوگی کراچی ایک بین الاقوامی شہر ہے یہاں مختلف زبانیں بولنے والی قومیں آباد ہے اس شہر میں لو گ اپنی پیٹ کی آگ بوجھانے کے لیے محنت مزدوری کرتے ہیںیہ شہر ایک امیر کو بھی پال رہا ہے اور ایک غریب کو ۔ تمام قوموں کو مل کر شہر کے امن وسکون کے قیام میں اپنا کردار اداکرناچاہیے ۔موجودہ حالات اس امر کے متقاضی ہے کہ اگر حکومت کی سیاسی مصلحت سے اور سیاسی قائدین کے آپس میں بیٹھنے سے رینجرز اور پولیس کی کارروائیوں سے امن قائم نہیں ہوتاہے اس کے ایک ہی آپشن ہے وہ ہے کراچی کو فوج کے حوالے کردی جائے ۔شہر سے لاقانونیت کا راج ختم کرنا ازحد ضروری ہے ۔

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team